اگرقربانی کے بجائے غریب کی مدد کردی جائے تو اس میں کیا برائی ہے؟ کیا قربانی معاشی نقصان کا ذریعہ ہے ؟ فلسفہ قربانی از مفتی محمد تقی عثمانی
ترتیب وتدوین: مفتی عمر انور بدخشانی
قربانی کے خلاف پروپیگنڈہ
جس مقصد کے تحت اللہ تعالیٰ نے یہ قربانی واجب فرمائی تھی، آج اسی کے بالکل برخلاف کہنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ صاحب! قربانی کیا ہے؟ یہ قربانی (معاذ اللہ) خواہ مخواہ رکھ دی گئی ہے، لاکھوں روپیہ خون کی شکل میں نالیوں میں بہہ جاتا ہے اور معاشی اعتبار سے نقصان دہ ہے، کتنے جانور کم ہوجاتے ہیں، اور فلاں فلاں معاشی نقصان ہوتے ہیں وغیرہ، لہٰذا قربانی کرنے کی بجائے یہ کرنا چاہئے کہ وہ لوگ جو غریب ہیں جو بھوک سے بلبلا رہے ہیں تو قربانی کرکے گوشت تقسیم کرنے کے بجائے اگر وہ روپیہ اس غریب کو دے دیا جائے تو اس کی ضرورت پوری ہوجائے، یہ پروپیگنڈہ اتنی کثرت سے کیا جارہا ہے کہ پہلے زمانے میں تو صرف ایک مخصوص حلقہ تھا جو یہ باتیں کہتا تھا،لیکن اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ شاید ہی کوئی دن خالی جاتا ہو جس میں کم از کم دو چار افراد یہ بات نہ پوچھ لیتے ہوں کہ ہمارے عزیزوں میں بہت سے لوگ غریب ہیں، لہذااگر ہم لوگ قربانی نہ کریں اور وہ رقم ان کو دے دیں تو اس میں کیا حرج ہے؟
واجب عبادتوں کا متبادل نہیں ہوتا
بات دراصل یہ ہے کہ ہر عبادت کا ایک موقع اور ایک محل ہوتاہے، مثلاً کوئی شخص یہ سوچے کہ میں نماز نہ پڑھوں اور اس کے بجائے غریب کی مدد کردوں تو اس سے نامز کا فریضہ ادا نہیں ہوسکتا، غریب کی مدد کرنے کا اجرو ثواب اپنی جگہ ہے، لیکن جو دوسرے فرائض ہیں وہ اپنی جگہ فرض وواجب ہیں ،اور قربانی کے خلاف یہ جو پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ وہ عقل کے خلاف ہے اور یہ معاشی بد حالی کا سبب ہے اور معاشی اعتبارسے اس کا کوئی جواز نہیں ہے، یہ درحقیقت قربانی کے سارے فلسفے اور اس کی روح کی نفی ہے، ارے بھائی! قربانی تو مشروع ہی اس لئے کی گئی ہے کہ یہ کام تمہاری عقل اور سمجھ میں آرہا ہو یا نہآرہا ہو، پھر بھی یہ کام کرو اس لئے کہ ہم نے اس کے کرنے کا حکم دیا ہے، ہم جو کہیں اس پر عمل کر کے دکھاؤ، یہ قربانی کی اصل روح ہے، یاد رکھو! جب تک انسان کے اندر اتباع پیدا نہیں ہوجاتی اس وقت تک انسان انسان نہیں بن سکتا، جتنی بد عنوانیاں، جتنے مظالم، جتنی تباہ کاریاں آج انسانوں کے اندر پھیلی ہوئی ہیں وہ درحقیقت اس بنیاد کو فراموش کرنے کی وجہ سے ہے کہ انسان اپنی عقل کے پیچھے چلتا ہے اللہ کے حکم کی اتباع کی طرف نہیں جاتا۔
اور عبادت کے اندریہ ہے کہ وہ نفلی طورپر جس وقت چاہیں اد اکریں ،لیکن قربانی کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ سکھادیا کہ گلے پر چھری پھیرنا یہ صرف تین تک عبادت ہے اور تین دن کے بعد اگر قربانی کرو گے تو کوئی عبادت نہیں، کیوں؟ یہ بتانے کے لیے کہ اس عمل میں کچھ نہیں رکھا، بلکہ جب ہم نے کہہ دیا کہ قربانی کرو اس وقت عبادت ہے اور اس کے علاوہ عبادت نہیں ہے، کاش! یہ نکتہ ہماری سمجھ میں آجائے تو سارے دین کی فہم حاصل ہوجائے، دین کا سارا نکتہ اور محوریہ ہے کہ دین اتباع کا نام ہے، جس چیز میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم آگیا وہ مانو اور اس پر عمل کرو،اور جہاں حکم نہیں آیا اس میں کچھ نہیں ہے۔(اصلاحی خطبات، ج۲، ص ۱۳۶)۔
قربانی کیا سبق دیتی ہے ؟
قربانی کی عبادت کا سارا فلسفہ یہی ہے، اس لئے کہ قربانی کے معنی ہیں ’’اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی چیز‘‘ اور یہ لفظ قربانی ’’قربان‘‘ سے نکلا ہے اور لفظ قربان’’قرب‘‘ سے نکلا ہے، تو قربانی کے معنی یہ ہیں کہ وہ چیز جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے اور اس قربانی کے سارے عمل میں یہ سکھایا گیا ہے کہ ہمارے حکم کی اتباع کا نام دین ہے، جب ہمارا حکم آجائے تو اس کے بعد عقلی گھوڑے دوڑانے کا موقع ہے نہ اس میں حکمتیں اور مصلحتیں تلاش کرنے کا موقع باقی رہتا ہے اور نہ اس میں چوں وچرا کرنے کا موقع ہے، ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے حکم آجائے تو اپنا سرجھکادے اور اس حکم کی اتباع کرے۔
حضرت ابراہیم نے عقلی حکمت تلاش نہیں کی
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس حکم آگیا کہ بیٹے کو ذبح کردو،اور وہ حکم بھی خواب کے ذریعہ سے آیا، اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تووحی کے ذریعہ حکم نازل فرما دیتے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرو،لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا، بلکہ خواب میں آپ کو یہ دکھایا گیا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کررہے ہیں،اگر ہمارے جیسا تاویل کرنے والا کوئی شخص ہوتا تو یہ کہہ دیتا کہ یہ تو خواب کی بات ہے، اس پر عمل کرنے کیا ضرورت ہے؟ مگر یہ بھی حقیقت میں ایک امتحان تھا کہ چونکہ جب انبیاء علیہم السلام کا خواب وحی ہوتا ہے تو کیا وہ اس وحی پر عمل کرتے یا نہیں؟اس لئے آپ کو یہ عمل خواب میں دکھایا گیا، اور جب آپ کو یہ معلوم ہوگیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک حکم ہے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کردو تو باپ نے پلٹ کر اللہ تعالیٰ سے یہ نہیں پوچھا کہ یا اللہ! یہ حکم آخر کیوں دیا جارہا ہے؟ اس میں کیا حکمت اور کیا مصلحت ہے؟ دنیا کا کوئی قانون اور کوئی نظام زندگی اس بات کو اچھا نہیں سمجھتا کہ باپ اپنے بیٹے کو ذبح کرے، عقل کی کسی میزان پر اس حکم کواتار کر دیکھیں تو کسی میزان پر یہ پورا اترتا نظر نہیں آتا۔(اصلاحی خطبات، ج۲، ص ۱۳۲)۔
آج ہمار ےمعاشرے میں جو گمراہی پھیلی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے ہر حکم میں حکمت تلاش کرو کہ اس کی حکمت اور مصلحت کیا ہے ؟اور اس کا عقلی فائدہ کیا ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عقلی فائدہ نظر آئے گا تو کریں گے اور اگر فائدہ نظر نہیں آئے گا تو نہیں کریں گے ،یہ کوئی دین ہے ؟کیا اس کا نام اتباع ہے ؟اتباع تو وہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کرکے دکھاہے اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کرکے دکھایا ،اور اللہ تعالی کو ان کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ قیامت تک کے لیے اس کو جاری کردیا(اصلاحی خطبات ، ج۲،ص۱۳۵)۔
زندگی اتباع کا نمونہ ہونی چاہیے
یہ ہے سارے دین کا خلاصہ کہ اپنی تجویز(رائے ) کو دخل نہ ہو ، جو کوئی عمل ہو ، وہ اللہ اوراللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو ، اگر یہ بات ذہن نشین ہوجائے تو ساری بدعتوں کی جڑ کٹ جائے اور اسی حقیقت کو سکھانے کے لیے قربانی مشروع کی گئی ہے ، بات در اصل یہ ہے کہ ہمارے یہاں ہر چیز ایک غفلت اور بے توجہی کے عالم میں گزرجاتی ہے ، قربانی کرتے وقت ذرا سا اس حقیقت کو تازہ کیا جائے کہ یہ در قربانی درحقیقت یہ سبق سکھا رہی ہے کہ ہماری پوری زندگی اللہ جل جلالہ کے حکم کے تابع ہونی چاہیے اور پوری زندگی اتباع کا نمونہ ہونی چاہیے ، چاہے ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے ،ہماری عقل میں آئے یا نہ آئے ،ہرحالت میں اللہ تعالی کے حکم کے آگے سرجھکانا چاہیے ،بس اس قربانی کا سارا فلسفہ یہ ہے ، اللہ تعالی اپنی رحمت سے اس فلسفے کو سمجھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے ،اوراس کی برکات عطافرمائے ، آمین۔(اصلاحی خطبات ، ج۲، ص ۱۴۱)۔
یہ پورا واقعہ جو درحقیقت قربانی کے عمل کی بنیاد ہے، روز اول سے یہ بتارہا ہے کہ قربانی اس لئے مشروع کی گئی ہے تاکہ انسانوں کے دل میں یہ احساس، یہ علم اور معرفت پیدا ہو کہ اللہ تعالیٰ کاحکم ہر چیزپر فوقیت رکھتا ہے اور دین درحقیقت اتباع کا نام ہے اور جب حکم آجائے تو پر عقلی گھوڑے دوڑانے کا موقع نہیں، حکمتیں اور مصلحتیں تلاش کرنے کا موقع نہیں(اصلاحی خطبات، ج۲، ص۱۳۵)۔
قربانی کا مقصد:دلوں کا تقوی
مسلمان اللہ تعالیٰ کے حضور جو قربانی پیش کرتے ہیں یہ ایک ایسا نذرانہ ہے کہ ادھر اس نے اللہ کے لئے قربانی اور نذرانہ پیش کرتے ہوئے جانور کے گلے پر چھری پھیری، ادھر قربانی کی عبادت ادا ہوگئی، اور اللہ تعالیٰ نے وہ نذرانہ قبول کر لیا،گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، اور اب وہ جانور بھی پورا کا پورا تمہارا ہے، اور فرمادیا کہ یہ جانور لے جا کر کھاؤ، اس کاگوشت تمہارا ہے، اس کی کھال تمہاری ہے، اس جانور کی ہر چیز تمہاری ہے، امت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کا اکرام دیکھیے کہ نذرانہ مانگا جارہا ہے لیکن جب بندہ نے خون بہادیا اور نذرانہ پیش کر دیا او رہمارے حکم کی تعمیل کر لی تو بس کافی ہے، ہمیں اتنا ہی چاہئے تھا، چنانچہ فرمایا کہ :
لن ینال اللہ لحو مھا ولا دمائھا ولکن ینالہ التقوی منکم
ہمیں تو اس کا گوشت نہیں چاہئے، ہمیں اس کا خون نہیں چاہئے، ہمیں تو تمہارے دل کا تقویٰ چاہئے، جب تم نے اپنے دل کے تقویٰ سے یہ قربانی پیش کر دی وہ ہمارے یہاں قبول ہوگئی، اب اس کو تم ہی کھاؤ، چنانچہ اگر کوئی شخص قربانی کا سارا گوشت خود کھالے اس پر کوئی گناہ نہیں، البتہ مستحب یہ ہے کہ تین حصے کرے، ایک حصہ خود کھائے، ایک حصہ عزیزوں میں تقسیم کرے اور ایک حصہ قرباء میںخیرات کرے، لیکن اگر ایک بوٹی بھی خیرات نہ کرے تب بھی قربانی کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آتی، اس لئے کہ قربانی تو اس وقت مکمل ہوگئی جس وقت جانور کے گلے پر چھری پھیردی، جب میرے بندے نے میرے حکم پر عمل کرلیا تو بس! قربانی کی فضیلت اس کو حاصل ہوگئی۔(اصلاحی خطبات،ج۲، ص ۱۴۵)۔
ماخوذ از: اسلام اور دور حاضر کے شبہات ومغالطے ، از مولانا مفتی محمد تقی عثمانی ، جمع وترتیب ، عمر انور بدخشانی
یہی مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے: