تصوف کے نام پر شبہات اور مغالطے ، مولانا اشرف علی تھانوی
نیک اعمال کی کیا ضرورت ؟ کیونکہ ’’اللہ ہماری عبادت سے بے نیاز ہے ،ہمارے نیک کام گناہوں کا کفارہ ہیں اورہماری ذات ذرہ بے نشان ہے‘‘
شبہ:اللہ کو ہمارے نیک اعمال کی کیا ضرورت؟
بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالی کو ہماری طاعت واعمال کی پرواہ ہی کیا ہے ؟!
صاحبو! یہ سچ ہے کہ اللہ تعالی کو کسی کے عمل کی پرواہ نہیں ہے ، نہ ان کا کوئی فائدہ، مگر کیا آپ کو بھی ان فوائد اورمنافع کی پرواہ نہیں جو اعمال صالحہ پر مرتب ہوتے ہیں ؟اورکیا نیک عمل میں آپ کا بھی فائدہ نہیں ؟
خلاصہ یہ کہ عمل تو آپ کے لیے مقرر ہوا ہے ، نہ کہ اللہ تعالی کے فائدہ اورنفع کے لیے ،سو اللہ تعالی اگرچہ مستغنی اور بے نیاز ہیں ، مگر آپ تو مستغنی اور بے نیاز نہیں ، اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی مہربان ڈاکٹر یا طبیب کسی مریض پر رحم کرکے کوئی دوا بتائے ،اور وہ مریض اپنی جان کا دشمن یہ کہہ کر ٹال دے کہ صاحب ! دوا پینے سے حکیم صاحب کا کیا فائدہ ہوگا ؟! بھلے مانس! حکیم صاحب کا کیا فائدہ ہوتا !! تیرا فائدہ ہے کہ تمہیں مرض سے صحت ہوگی ۔
شبہ :’’ہمیں دوسروں کو وعظ ونصیحت کرنے کا ثواب تومل جاتا ہے ‘‘۔
شبہ:’’ہمارے نیک اعمال سے برسوں کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں‘‘۔
ایک شبہ بعض خشک علماء کو یہ ہوجاتا ہے کہ ہم دوسروں کو وعظ ونصیحت کرتے ہیں ، ان کے اعمال کا ثواب بھی ہم کو ملتا ہے ، اور ان کے اعمال وثواب اس کثرت سے ہیں کہ ہمارے تمام گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا، یا یہ کہ ہم کو ایسے اعمال معلوم ہیں کہ جن کے کرنے سے سینکڑوں برس کے گناہ معاف ہوسکتے ہیں ، مثلا:’’سبحان اللہ وبحمدہ‘‘ سو(۱۰۰) مرتبہ روزانہ کہہ لینا ، یا عرفہ یا عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھ لینا ، یا مکہ والوں کے لیے ایک طواف کرلینا ۔
صاحبو! موٹی بات ہے کہ اگر یہ اعمال کافی ہوں تو تمام اومر ونواہی (احکامات ) کا لغو وبے کار ہونا لازم آتا ہے ، ادھر احادیث میں صاف صاف قید مذکور ہے :
إذا اجتنب الکبائر
یعنی یہ نیک اعمال اس وقت گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں جب کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے ۔
رہا یہ کہ ہم لوگوں کو وعظ ونصیحت کرتے ہیں تو صاحبو! ایسے شخص پر توزیادہ وبال آنے والا ہے ، چنانچہ حدیث میں بدعمل واعظ کے بارے میں جو حدیثیں آئیں ہیں وہ مشہور ومعروف ہیں ۔
شبہ :’’ ہماری ذات ذرہ بے نشان ہے ،جوکچھ کرتاہے وہی کرتا ہے‘‘!!
بعض جاہل صوفی فقیروں کا شبہ
ایک شبہ بعض جاہل فقیروں کو یہ ہوجاتا ہے کہ ہم ریاضت ،مشقت اور مجاہدہ کی وجہ سے فنا کے مقام (ذرہ بے نشان)تک پہنچ گئے ہیں ، اب ہم کچھ رہے ہی نہیں،جو کچھ کرتا ہے وہی کرتا ہے ،اورایسی واہی تباہی باتیں کرتے ہیں کہ اچھا خاصا کفر والحاد ہوجاتا ہے ،کبھی کہتے ہیں کہ دریا میں قطرہ مل گیا ، کبھی کہتے ہیں کہ سمندر کو پیشاب کا قطرہ ناپاک نہیں کرسکتا ، کہتے ہیں ہم تو خود خدا ہیں ، عبادت کس کی اور معصیت کس کی ؟ کبھی کہتے ہیں اصل مقصود تو ’’یاد ‘‘ ہے ، ظاہری نماز ،روزہ نرا ڈھکوسلہ اورفریب ہے ، جو انتظامی مصلحت کی وجہ سے مقرر ہوا ہے ، ان خرافات اور بے ہودہ باتوں کا تمام تر سبب جہالت ہے ۔
ان لوگوں کو حقائق مقامات کا علم تک نہیں ، اورسلوک ووصول تو کیا خاک میسر ہوا ہوگا ، یہ ثمرہ ہے توحید میں غلو کا ، ان شاء اللہ تعالی کسی رسالہ میں اس کی مفصل تحقیق لکھی جائے گی ، اس مقام پر اتنی موٹی سی بات سمجھ لینا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر نہ کوئی واصل ہوا ، نہ موحد ،اور نہ صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے بڑھ کر کسی نے آج تک تعلیم پائی ، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ رضی اللہ عنہم کے خوف وخشیت ، توبہ واستغفار ، اعمال صالحہ میں کوشش اور محنت ، اورخواہش نفس کی مخالفت کا اہتمام اور برے اعمال کی سزا ؤں کو دیکھ لینا ان شبہات کے دور ہوجانے کے لیے کافی ووافی ہے ۔
ماخوذ از: جزاء الاعمال ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں: