ہزار سال پہلے مولانا سید مناظر احسن گیلانی

ہزار سال پہلے
Read Online
Download

ہزار سال پہلے

مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ

مع ضمیمہ: دار العلوم دیوبند کی یادیں اور مولانا گیلانی کی علمی خدمات

از: مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی

ترتیب وتدوین: مفتی عمر انور بدخشانی

عرض مرتب

مولانا سید مناظر احسن گیلانی صاحب رحمہ اللہ کا نام سب سے پہلے اس وقت سنا جب کہ میں درس نظامی کے تیسرے درجے میں تھا ، اور اس تعارف کا سبب آپ کی وہ کتاب(’’احاطۂ دارالعلوم دیوبند میں بیتے ہوئے دن‘‘) بنی جو کہ آپ کے زمانہ طالب علمی کی یاد داشتوں کا مجموعہ ہے ، زمانہ طالب علمی کی یادیں دل ودماغ میں ہمیشہ ایک خوشگوار احساس بن کرابھرتی ہیں جنہیں بسا اوقات بلااختیار قلم بند کرلینے کو جی چاہتا ہے، آپ کی یہ کتاب بھی کچھ ایسی ہی ہے، پھر وہ کتاب ایک بار نہیں کئی بار پڑھی، کچھ ہی عرصے کے بعد آپ کی ایک اور کتاب’’برصغیر میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا،یہ کتاب مشرق کے نظام تعلیم وتربیت میں سند کا درجہ رکھتی ہے ،اوراس میں برصغیر کے تعلیمی نظام کی تاریخ کا مکمل خاکہ پیش کیا گیا ہے ، اس کے بعدسے تو آپ کے انداز تحریراور منفرد اسلوب کا ایسا چسکا لگا کہ یکے بعد دیگرے آپ کی تمام کتابوں کا مطالعہ کیا۔

آپ نے تقریبا تمام اہم موضوعات پر خامہ فرسائی کی ، حدیث اور حجیت حدیث کے موضوع پرایک مبسوط کتاب ’’تدوین حدیث‘‘تحریر فرمائی،اس کی اہمیت اور مقبولیت دیکھتے ہوئے استاد محترم ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب مد ظلہم (مہتمم جامعہ بنوری ٹاؤن)نے عربی ترجمہ کیا ، اور حال ہی میں یہ ترجمہ عالم اسلام کے مشہور محقق ڈاکٹر بشار عواد معروف بغدادی کے مقدمہ اور توجہ سے بغداد سے شائع ہوچکا ہے ، تصوف واحسان کے موضوع پر آپ کے مختلف مضامین ’’مقالات احسانی‘‘ کے نام سے شائع ہوئے جو کہ اب نایاب ہے ، آخری بار یہ کتاب مجلس علمی کراچی کے اہتمام سے شائع ہوئی تھی ،آپ نے سورۂ کہف کی تفسیر بھی تحریر فرمائی تھی جو کہ’’ دجالی فتنوں کے نمایاں خدوخال‘‘ کے نام سے اب شائع ہوچکی ہے، مذکورہ تینوں کتابیں جیسا کہ ما قبل میں ذکر ہوا سلسلہ وار مضامین تھے جو اس دور کے مجلات میں شائع ہوتے رہے ، ان تینوںکتابوں کو آپ کے شاگرد مولانا غلام محمد صاحب (بی-اے ، عثمانیہ) نے ترتیب وتبویب وعنوان بندی کا اہتمام کرکے شائع کروایا تھا ،فقہ کے موضوع پر آپ نے ’’تدوین فقہ ‘‘ کے نام سے کتاب تحریر فرمائی ،جو کہ تا حال غیر مطبوع ہے ، البتہ اس کا مقدمہ ڈاکٹر عبد الرشید جالندھری صاحب کی محنت سے چھپ کر شائع ہوا تھا، یہ مقدمہ بھی اب نایاب ہے ،تدوین فقہ اور حدیث کے علاوہ آپ نے ’’تدوین قرآن ‘‘ کے نام سے بھی مضامین لکھے تھے ،معیشت کے عنوان سے آپ نے ’’اسلامی معاشیات‘‘ سپرد قلم فرمائی ، سیرت کے موضوع پر ’’النبی الخاتم ‘‘ جیسی شہرۂ آفاق کتاب لکھی ، تذکرہ وسوانح کے موضوع پر آپ نے ’’امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی‘‘ ، ’’شاہ ولی اللہ ‘‘،’’سوانح قاسمی‘‘،’’مولانا حکیم سیدبرکات احمد ٹونکی ‘‘اور’’حضرت ابوذر غفاری‘‘تحریر فرمائی ، آخر الذکر کتاب مولانا گیلانی کی پہلی تصنیف ہے جو کہ زمانہ طالب علمی کی یادگار ہے،اس کتاب کو پڑھ کر حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے یہ پیشین گوئی فرمائی تھی :
’’مقالہ نگار سے میں ذاتی طور پر واقف نہیں ہو ں لیکن اس مضمون کو دیکھ کر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر وہ محقق نہیں ہوچکے ہیں تو محققیت متوقعہ کی دلیل ان کا یہ مضمون ضرور ہے ‘‘ [ملاحظہ ہو ’’مقالہ اطلاقی تصوف‘‘]

غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مولانا گیلانی رحمہ اللہ کی اکثروبیشتر تصانیف ایسی ہیںجو مستقل کتاب کا موضوع اور نام سامنے رکھ کر نہیں لکھی گئیں ، بلکہ آپ نے مختلف جرائد ورسائل میں جو مضامین لکھے تھے ، انہی سلسلہ وار مضامین نے بعد میں کتابی صورت اختیار کر لی،آپ ایک منفرد اسلوب تحریر کے مالک تھے، تحریر کے اس انداز کے آپ ہی موجد تھے اور آپ ہی خاتم، آپ کی تصانیف اور مضامین کے بارے میں اہل علم کے ہاں یہ تأثرپایا جاتا ہے کہ وہ ربط اور ترتیب سے خالی ہیں، اس وجہ سے وہ جدید طرز تصنیف کے معیار حسن کو نہیں پہنچتیں ہیں ،اس ضمن میں آپ کے شاگرد خاص مولانا غلام محمد صاحب ؒ (بی- اے ،عثمانیہ ) ’’مقالات احسانی ‘‘کے مقدمہ میں رقمطراز ہیں :
’’ان سارے کمالات کے ساتھ طبیعت پر جذب کا اثر کچھ اس درجہ غالب تھا کہ مولانا کی کوئی تحریر کامل طور پر مرتب ومربوط نہیں ملتی ، علوم کا ورود اس قدر زیادہ ہوتا تھاکہ متعلق وغیر متعلق کا انتخاب ان کے محال ہوجاتا تھا، وہ تیزی سے قلمرانی فرماتے ، فقروں کی تقسیم اور عنوانات کا قیام کا ان کو مطلق شعور نہ رہتا تھا ، اور قلم روکنے سے پہلے ان کو خود اندازہ نہ ہوتا تھا کہ جو کچھ لکھا جارہا ہے وہ مضمون ہوجائے گا یا کتاب بن جائے گی ، اور اس سب کے باوجود اپنے مسودات پر دوبارہ نظرکرنے کی زحمت بھی گوارا نہ فرماتے تھے ، ان کے مسودوں کی ترتیب وتدوین ان کے معتمد علیہ شاگردوں اور عقیدت مندوں کے سپرد ہوتی تھی یا ناشروں کے رحم وکرم پر منحصر رہتی ‘‘۔

آگے چل کر مزید تحریر فرماتے ہیں :
’’مولانا [گیلانی] خود فرماتے تھے کہ ان کی کوئی تصنیف بھی باضابطہ تصنیفی پروگرام کے ما تحت انجام نہیں پائی ، یہی ہوتارہا کہ کسی نے کسی مضمون کی فرمائش کی ،مولانا لکھنے بیٹھ گئے ، جب لکھ چکے تو وہ مضمون ،مضمون نہ رہا بلکہ کتاب تیار ہوگئی، چنانچہ ’’[برصغیر میں مسلمانوں کا]نظام تعلیم وتربیت ‘‘ اور خود ’’النبی الخاتم ‘‘ وغیرہ اسی قبیل کی تصنیفات ہیں ۔
اس قسم کی کتابوں کے علاوہ دوسری صورت یہ ہوتی رہی کہ کالج کے لیکچرز کی تیاری یا ایم -اے اور پی ایچ -ڈی کے طلبہ کے مقالات کی رہبری کے سلسلہ میں مختلف موضوعات پر جو معلومات فراہم کرنا پڑیں ، وہ اتنی زیادہ اور قیمتی تھیں کہ ہر موضوع کی ایک مستقل کتاب خود بخود تیار ہوگئی ، الدین القیم ، اسلامی معاشیات، تدوین حدیث اور تدوین قرآن وغیرہ سب اسی نوعیت کی تالیفات ہیں ‘‘۔

عالم اسلام کے مشہور محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب رحمہ اللہ کی رائے اس بارے میں نقل کرتے ہوئے آپ کے یہی شاگرد لکھتے ہیں :
’’مذکورہ صورت حال کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مولانا کی تصنیفات جدید طرز تصنیف کے معیار حسن کو نہیں پہنچتیں مگر بقول عہد حاضر کے مشہور محقق محترم ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے ان تصانیف کو اسلوب نگارش اور ربط تحریرکے لحاظ سے نہیں بلکہ اس نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہیے کہ ان میں علوم وحقائق اور استنباط واستخراج مسائل کا کس قدر گراں بہا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے ‘‘۔

اب زیر نظر کتاب کی طرف آئیے !مادر علمی جامعۃ العلوم الاسلامیہ(بنوری ٹاؤن) کے کتب خانے میں راقم سطور چند کتابوں کو تلاش کررہا تھا اسی دوران ایک پرانی اور بوسیدہ سی ہندوستان کی مطبوعہ کتاب ہاتھ لگی، کتاب اپنے نام اور موضوع کے اعتبارسے اگرچہ میرے لیے بالکل انوکھی تھی لیکن مصنف کا نام ہر گز نیا نہ تھا ، اور پھر مضمون اتنا دلچسپ کہ تقریبا ایک یادو نشست میں ہی پوری کتاب کا مطالعہ کرڈالا،دوران مطالعہ اس امر کا شدت سے احساس ہوا کہ اگر اس کتاب کو از سر نو جدید ترتیب کے ساتھ طبع کیا جائے تو تاریخ کا ذوق رکھنے والے حضرات کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہوگی۔

یہ مضامین مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ نے مسلمان جغرافیہ وتاریخ نویس مؤلفین کی کتب کے مطالعے کے دوران موضوع کی مناسبت سے اپنے پاس قلم بند کر لیے تھے، پھر دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا قاری محمدطیب صاحب رحمہ اللہ کے کہنے پر آپ نے یہ مضامین مجلہ ’’دارالعلوم ‘‘میں چھپنے کے لیے دیدیئے ، بعد میں وہ رسالہ بند ہوگیا اور پھر دارالعلوم دیوبند کے طلباء کی کوششوں اور مولانا سید ازہر شاہ قیصر کی سفارش سے مختلف منتشر مضامین چھپ کر پہلی بار سامنے آئے ۔

مقام حیرت ہے کہ مولانا گیلانی ؒپر جتنی بھی کتابیں لکھی گئیں ہیں ان میں آپ کی تصانیف کے تذکرے میں کہیں پر بھی ’’ہزار سال پہلے ‘‘ کا تذکرہ نہیں ملتا ،حتی کہ آپ کے انتہائی قریبی شاگردوں نے بھی اس کے ذکر سے احتراز فرمایا ہے،ہر ممکن کوشش کی گئی کہ کہیں سے بھی اس کا تذکرہ مل جائے لیکن تاحال کامیابی نہیںہو سکی، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ کتاب ہندوستان میں صرف ایک ہی بار۱۹۵۱ء میں چھپی تھی اور وہ بھی محدود تعداد میں، اور دوسری بنیادی وجہ راقم سطور کی کوتاہی۔

دوران تالیف آپ نے جگہ جگہ ان مؤرخین کے حوالے دیے ہیں جن کی کتب سے آپ نے یہ شذرات واقتباسات اکٹھے کیے تھے ،ان پر ایک اجمالی نگاہ ڈالنے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپ نے یہ مضامین لکھنے میں کتنی کتب سامنے رکھیں اور کس قدر محنت فرمائی ،چنانچہ جن مؤرخین کی کتابوں سے آپ نے زیادہ تر استفادہ فرمایا ہے ان کی فہرست درج ذیل ہے :

۱-ابن خُر ْ داذ بہ ، عبد اللہ بن احمد بن خُر ْ داذ بہ(۲۰۵ھ-۲۸۰ھ)۔
۲-ابن اثیر ، علی بن محمد بن عبد الکریم (۵۵۵ھ-۶۳۰ھ)۔
۳-ابن بطوطہ ، محمد بن عبد اللہ بن محمد (۷۰۳ھ-۷۷۹ھ)۔
۴-ابن الفقیہ الہمذانی،احمد بن محمد بن اسحاق (متوفی۳۴۰ھ)۔
۵-ابن القفطی ، علی بن یوسف بن ابراہیم (۵۶۸ھ-۶۴۶ھ)۔
۶-ابن کثیر ، اسمعیل بن عمر بن کثیر (۷۰۱ھ-۷۷۴ھ)۔
۷-ابن عساکر ، علی بن الحسن بن ہبۃ اللہ (۴۹۹ھ-۵۷۱ھ)۔
۸-ابن ابی اصیبعہ ،احمد بن القاسم بن خلیفہ (۵۹۶ھ-۶۶۸ھ)۔
۹-ابن حوقل ، محمد بن حوقل البغدادی (متوفی۳۶۷ھ)۔
۱۰-ابن قدامہ مقدسی ، سلیمان بن حمزہ بن احمد بن عمر(۶۲۸ھ-۷۱۵ھ)۔
۱۱-ابن سعد ، محمد بن سعد بن منیع الزہری (۱۶۸ھ-۲۳۰ھ)۔
۱۲-قلقشندی، احمد بن علی بن احمد (۷۶۵ھ-۸۲۱ھ)۔
۱۳-مسعودی ، علی بن الحسین بن علی (متوفی۳۴۶ھ)۔
۱۴-ابو شامہ ، عبد الرحمن بن اسمعیل بن ابراہیم (۵۹۹ھ-۶۶۵ھ)۔
۱۵-مقریزی ، احمد بن علی بن عبد القادر (۷۶۶ھ-۸۴۵ھ)۔
۱۶-جاحظ ، عمرو بن بحر بن محبوب (۱۶۳ھ-۲۵۵ھ)۔
۱۷-علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی(۱۲۷۳ھ-۱۳۴۲ھ)۔
۱۸-کمال الدین دمیری، محمد بن موسی بن علی (۷۸۷ھ-۸۲۳ھ)۔
۱۹-امیر شکیب ارسلان، شکیب بن محمود بن حسن (۱۲۸۶ھ-۱۳۶۶ھ)۔
۲۰-جرجی زیدان ، جرجی بن حبیب زیدان (۱۲۷۸ھ-۱۳۳۲ھ)
۲۱-سید محبوب رضوی (متوفی۱۹۷۹ء)
۲۲-بزرگ بن شہریار۔

کتاب کی اس نئی طباعت میں عنوانات کا جا بجا اضافہ کر دیا گیاہے ،نیز سابقہ طباعت میں حاشیے بہت طویل تھے اورمستقل تاریخی مضامین پر مشتمل تھے چنانچہ انہیں اصل کتاب میں اس طریقے سے ملادیا گیا ہے کہ کہیں پر بھی حاشیہ ہونے کا گمان نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے کوئی فنی سقم پیش آیا ،ہوسکتا ہے کہ اہل تحقیق حضرات اس سے اختلاف کریں اور تحقیق کا تقاضا بھی یہی ہے لیکن جیسا کہ ما قبل میں مولانا گیلانی کی تصنیف میں عادت کا ذکر ہوا اس کے پیش نظر یہ ضروری تھا، بعض جگہ عربی اور فارسی عبارات کے تراجم نہیں تھے قارئین کی سہولت کے لیے ان کا ترجمہ بھی کر دیا گیا ہے ،ہندوستان کے نسخہ میں عربی اقتباسات میں بیحد غلطیاں تھیں جنہیں اصل کی طرف مراجعت کرکے درست کرلیاگیاہے جس کے لیے میں ڈاکٹر سیدرضوان علی ندوی صاحب کا شکرگزار ہوں،دیوبند اور اکابر دیوبند کے حوالے سے استاد محترم ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی صاحب نے اپنی مصروفیات اور مشاغل کے باوجود تفصیلی مقدمہ تحریر فرمایایہ ان کی شفقت ہے ، اللہ سے دعاہے کہ اس کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔

عمر انور بدخشانی
فاضل ومتخصص فی الفقہ الاسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن

مولانا مناظر احسن گیلانی کی علمی خدمات

مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی

میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے کتب خانہ میں ایک کتاب دیکھنے پہنچا ، اتفاقا ہمارے یہاں کے استاد حدیث محترم مولانا محمد انور بدخشانی کے فرزند مولوی محمد عمر انور سلمہ اللہ تعالی آئے اور فرمانے لگے مولانا مناظر احسن گیلانی(۱۸۹۲ء-۱۹۶۷ء) کی کتاب ’’ہزار سال پہلے‘‘ زیور طبع سے آراستہ کرنی ہے، میرے منہ سے بیساختہ نکل گیا کہ مولانا گیلانیؒ نے اپنے منصب کا کام نہیں کیا ،ایسے کام اور اہل علم کرتے ، پھر کیا تھا چہرے کا رنگ بدل گیا ، میں طلبہ اور اہل علم سے اس قسم کی بات کرجاتاہوں اور خود بلامیں گرفتار ہوتا ہوں ، یہی یہاں ہوا، میں نے عرض کیا انہیں مولانا محمد قاسم نانوتوی (۱۲۴۸ھ-۱۲۹۷ھ)کی کتابوں پر لکھنا تھا ، یہ کام یہی کرسکتے تھے جو افسوس ہے کہ نہ ہوسکا، بس حکم دیا کہ اس پر آپ کچھ لکھیں ، میں نے عرض کیا یہی باتیں لکھوں گا ، وہ اس پر راضی ہوگئے ، مجھ پر کام کا بوجھ رہتا ہے ’’ضغث علی ابالہ ‘‘ بوجھ پر اور بوجھ سہی ، قہر درویش بر جان درویش ، چار پانچ دن کا وعدہ کیا لیکن میرے بیٹے ڈاکٹر حافظ محمد ثانی سلمہ کی شادی کا زمانہ تھا وعدہ پورا نہ کر سکا ، ارادہ تھا صفحے دو صفحے لکھ کر جان چھوٹ جائے گی ، لیکن میرے لیے قضا وقدر کے فیصلے کچھ اور ہوتے ہیں ۔

مولانا گیلانی کی علمی تحقیقی ، تصنیفی اور تبلیغی مخلصانہ خدمات نے انہیں عوام وخواص کے ہر طبقہ میں ہر دلعزیز بنا دیا تھا ، اردو میں انہوں نے خود بھی اپنے متعلق بہت کچھ لکھا ، ’’مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں ‘‘ ، ’’احاطۂ دارالعلوم دیوبند میں بیتے ہوئے دن ‘‘ اور ’’مکاتیب گیلانی‘‘ میں ان کی زندگی کے بہت سے پہلو اجاگر ہوتے ہیں ، ان کے ہم عصروں ادیبوں میں مولانا عبد الماجد دریا آبادی (۱۸۹۱ء -۱۹۷۷ء) ، مولانا علی میاں ؒ (۱۹۱۴ء-۱۹۹۹ء) ، سید صباح الدین عبد الرحمن مدیر ’’معارف‘‘ (متوفی ۱۹۸۷ء)، سید محمد ازہر شاہ قیصر ؒ ، مولانا عبد الباری ندویؒ نے اور ان کے شاگردوں میں مولانا غلام محمد نے بہت کچھ لکھا ہے ، اور مفتی دارالعلوم دیوبند مولانا ظہیر الدین مفتاحی نے ’’حیات مولانا گیلانی ‘‘ لکھی ۔

مولانا گیلانی کی مطالعہ میں عادت شریفہ یہ تھی کہ وہ جب کسی کتاب کا مطالعہ کرتے قلم اور رجسٹر ساتھ رکھتے تھے ، جہاں کوئی کام کی بات نظر آتی فورا اسے لکھتے ،پھرآگے مطالعہ کرتے تھے، بعد میں گونا گوںمعلومات کو عنوان اور موضوع کی مناسبت سے علیحدہ کر کے رکھتے ،اور جب مواد اتنا ہوجاتا کہ کتاب یا مقالہ اور مضمون لکھ سکیں انہیں معلومات کو یک جا کرکے مضمون یا مقالہ تیار کرتے تھے ، چنانچہ بلا تکلف کہہ جاتے ہیں کہ یہ کتاب میں نے اتنے دن میں اور وہ کتاب اتنی مدت میں لکھی ہے ، کتاب ناشر چھاپتا اور کماتا تھا خود کبھی کسی سے اس کا کوئی معاوضہ نہیں لیا۔

مولانا گیلانی کے ترجمہ اسفار اربعہ پر کسی نے روشنی نہیں ڈالی ، یہاں اس کا ذکر کیا جاتا ہے ، علامہ صدر الدین شیرازی ؒ (۱۰۵۹ھ-۱۶۴۹ھ) کی ’’الاسفار الاربعـۃ فـی الحـکمۃ ‘‘ جلد وجلد ثانی جو متوسط تقطیع کے ۱۷۵۷ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے ، اس کے سرورق پر صدر شعبہ دینیات جامعہ عثمانیہ سرکار عالی لکھا ہوا ہے ، اس کا ایک نسخہ میرے ذاتی کتب خانے میں موجود ہے ، یہ ترجمہ دارالعلوم جامعہ عثمانیہ سرکار والی حیدرآباد دکن سے ۱۹۴۱ء میں شائع کیا گیا تھا ، اس کا حصہ اول جلد دوم کا ترجمہ جو ۶۸۷ سے ۱۷۵۷ صفحات پر پھیلا ہوا ہے ۱۳۵۹ھ میں ختم ہوا تھا اور ۱۹۴۲ء میں شائع کیا گیا تھا ، مذکورہ بالا عبارت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مولانا گیلانی نے یہ ترجمہ اس زمانہ میں کیا جب وہ صدر شعبہ تھے ، مولانا نے ابتداء میں آغاز ترجمہ کی تاریخ نہیں لکھی ، اس لیے ترجمہ کتنے عرصہ میں کیا گیا اس کا پتہ نہیں لگتا ، موصوف کے سوانح نگاروں نے بھی اس سے اعتناء نہیں کیا ، موضوع کے متعلق صدر شیرازی ؒ کے دیباچہ کے ترجمہ کو کافی سمجھا گیا ، ترجمہ کی نسبت بھی کچھ نہیں کہا گیا ، بظاہر وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس کا تعلق علوم اوائل منطق وفلسفہ سے ہے ، اب کسے دلچسپی ہے ، یہ صحابہ وتابعین کے علوم میں داخل نہیں ، مولانا گیلانی نے بھی اس سے تعرض نہیں کیا ۔

۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۱ء تک میں بھی دفتر معجم المصنفین (دارالشفاء اور عثمان شاہی حیدر آباد دکن) میں اپنے والد منشی عبد الرحیم خاطر کے ساتھ رہا ہوں ، یہاں کے دو سالہ قیام نے مجھے علم کا جویا بنایا ،معجم المصنفین کے دفتر میں حیدر آباد دکن کے پروفیسر ، علماء ، فضلاء، شاعر اور ادیب سب کی آمد ورفت رہتی تھی ، یہاں مولانا گیلانی آتے اور چلے جاتے ، پھر ان کا ذکر رہتا تھا ، یہاں ان کی زیارت یا د نہیں ، لیکن مجلس شوری دارالعلوم سے نکلتے ہوئے مولانا گیلانی کی بارہا زیارت ہوئی ہے ، مولانا گیلانی نے جب ’’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت ‘‘ لکھی تو آٹھویں صدی ہجری کے علماء صوفیہ اور دانشمندوں اور دانشوروں کے حالات کی جستجو ہوئی اور نزہۃ الخواطر مخطوطہ منگا کر دیکھا تو مصنف کی محنت وکاوش اور کتاب کی اہمیت وافادیت نے انہیں اپنا گرویدہ بنایا ، مولانا گیلانی نے مولانا شیروانی سے کہہ کر اس کو دائرۃ المعارف العثمانیہ سے شائع کرنے کی کوشش کی ، چنانچہ سب سے پہلے یہی حصہ شائع ہوا اور یہ نسخہ میرے کتب خانے میں موجود ہے ، اس کی اشاعت کی بدولت عالم اسلامی ہندوستان کے نامور ارباب علم و اہل کمال سے واقف ہوسکا ، یہ کارنامہ بھی مولانا گیلانی کے حسنات میں سے ہے ، شیخ الہند کے ایک جملے نے کہ آپ ’’القاسم ‘‘ میں لکھا کریں انہیں لکھنے کا ایسا گرویدہ بنایا کہ وہ اردو زبان میں نت نئے موضوعات مفید معلومات کا ایسا قیمتی علمی سرمایہ چھوڑگئے ہیں جو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ، اور اس باب میں ان کی وسعت معلومات دقت نظر نے ان کی منفردانہ شان کو ہمیشہ قائم رکھا ، علمی ادبی اور دینی حلقے آئندہ بھی ان کی یاد کو زندہ رکھے گی ، مولانا مجمع البحرین تھے ، وہ خانوادہ خیر آبادی اور دیوبندی دونوں کے جامع تھے ، وہ خانقاہی سلسلے میں قادریہ اور سہروردیہ دونوں میں مجاز تھے ، دیوبندی رہ کر ’’معارف ‘‘ جیسے علمی رسالے میں لکھتے تھے ، حالانکہ ان کا انداز نگارش دارالمصنفین کے ارباب قلم سے یکسر مختلف تھا ، اس لحاظ سے وہ ہر میدان میں اپنی شناخت جداگانہ رکھتے تھے ، اور دونوں پر تنقید کرنے میں چوکتے نہ تھے ،مولانا گیلانی کا رواں دواں قلم حدود وموضوع کی قید سے آزاد ہو کر اور بھی بحثیں کرگذرتا ہے ، وہ موضوع سے سر مو انحراف کا قائل نہیں ہے ، اس باب میں وہ امام ابن تیمیہ (۶۶۱ھ- ۷۲۸ھ) کا قلم ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی کتاب سینکڑوں صفحات گھیر لیتی ہے ، خوبی یہ ہے کہ لکھنے اور بات کہنے کا ڈھنگ ایسا ہی نرالا اور دلچسپ ہے کہ کتاب چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا ۔

مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ مولانا گیلانی ؒ کی دقت نظر ، نکتہ رسی اور ان کی تصنیفات کے متعلق ’’میری علمی اور مطالعاتی زندگی ‘‘ میں رقمطراز ہیں :
’’مولانا سید مناظر احسن گیلانی کی کتابوں میں بڑی معلومات اور مواد ہے ، بہت سے لوگوں کا ان کے مخصوص طرز تحریر ، اور بات سے بات نکالنے کی وجہ سے جی نہیں لگتا ، لیکن میرا ہمیشہ ان کی کتابوں میں جی لگا ، اور اپنے علم میں اضافہ ہوا ، خاص طور پر ان کی کتاب ’’النبی الخاتم ‘‘ سیرت پر بڑی البیلی کتاب ہے ، اس طرح ان کی دوسری کتاب’’ [ہندوستان میں مسلمانوں کا] نظام تعلیم وتربیت ‘‘ بڑی پر از معلومات اور موثر کتاب ہے ، تیسری کتاب ’’تدوین حدیث ‘‘ بڑی مبصرانہ اور نکتہ ورانہ تصنیف ہے ، ان کا مضمون ’’ مجدد الف ثانی کا تجدیدی کارنامہ ‘‘ بھی بڑی بصیرت و معلومات کا ذریعہ بنا ، اور اس سے ان کے دوسرے مقالے جو ’’الفرقان ‘‘ شاہ ولی اللہ نمبر میں شائع ہوئے تھے تاریخ ہند کے نئے نئے گوشے سامنے آئے ۔

محمد عبدالحلیم چشتی

تاثرات: مولانا سید سلیمان یوسف بنوری زید مجدہ

ازہر الہند دارالعلوم دیوبند کے عالم اسلام پر بے پایاں احسانات ہیں دارالعلوم دیوبند نے عالم اسلام کو کیا دیا ؟اگر کوئی مشاہدہ کرنا چاہے تو دنیا کے کسی بھی کونے میں چلا جائے وہاں کی دینی خدمات کا جائزہ لے تو بالواسطہ یا بلا واسطہ اسے دارالعلوم دیوبند کا فیض ضرور نظرآئے گا۔ دارالعلوم دیوبند نے امت مسلمہ کو ہر شعبہ میں ایسے رجال کار عطا جنہوں نے اپنے فن اور شعبہ میں اپنی خداداد صلاحیتوں کو اس انداز سے نکھارا کہ وہ عالم اسلام کی بے مثال شخصیات میں شمار ہوئے اور ان کے کارناموں کو جودت وندرت کے تمغوں کے علاوہ لازوال کوشش کی سند بھی عطا ہوئی ۔

دارالعلوم دیوبند کے فرزندوں میں سے ایک عظیم فرزند حضرت علامہ مولانا سید مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ ہیں جن کی شخصیت پر مجھ جیسے ادنی طالب علم کا کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ، کیونکہ شاید ہی کوئی ایسا علمی وادبی حلقہ ہو جس میں آپ کی تدریسی مہارت کی شہرت اور تحریری ذوق وکمال کا چرچا نہ پہنچا ہو ، بلا مبالغہ آپ کی معلومات ومشاہدات کے علمی احاطہ کا اندازہ بھی کارے دارد ! آپ ایک کثیر المطالعہ شخصیت تھے، آپ نے مطالعاتی اسفار اور سیاحت کے دوران مختلف تاریخی کتب سے جو عجائب وغرائب اور اس قدیم زمانے کی تہذیب ، تمدن اور ثقافت کو سبق آموز محسوس فرمایا انہیں اپنے پاس قلم بند کر لیا ،اور پھر یہ سلسلہ دارالعلوم دیوبند کے مجلے میں طویل عرصے تک چھپتا رہا،یہ ایک نہایت مفید ،تاریخی اور معلوماتی سلسلہ تھا جس کوقارئین میں خوب پذیرائی حاصل ہوئی ، یہاں تک کہ دارالعلوم دیوبند کے تشنگان علوم نبوت کے بے حد اصرار پر مختلف شماروں میں بکھرے ہوئے تاریخی شذرات کو کتابی شکل دی گئی ، اس طرح قدیم تہذیبی جھلکیوں کا حسین گلدستہ منظر عام پر آگیا۔

لیکن یہ آج سے پچپن برس قبل کی بات ہے ، عرصہ سے یہ قیمتی تاریخی سرمایہ قدیم کتب خانوں کے گوشوں میں دب کر رہ گیا تھااسے جدید طباعت کے علاوہ ترتیب ، تہذیب اور عناوین کی کچھ ضرورت بھی تھی جسے ہمارے استاد زادے عزیز القدر برادرم مولوی محمد عمر انور بن مولانا محمد انور بدخشانی صاحب مد ظلہ نے محسوس فرما کراپنے والد کے علمی جانشین ہونے کا ثبوت دیا ، چنانچہ یہ قیمتی خزینہ جدید اسلوب اور عصری تقاضوں کی رعایت کے ساتھ ہمارے ہاتھوں میں ہے ،دعا ہے کہ اللہ تعالی موصوف کی اس کوشش کو قبول فرمائے ،اور انہیں علمی ذوق کی مزید فراوانی نصیب فرمائے ،اور انہیں علم وعمل کا جامع بنائے ، آمین۔

سلیمان یوسف بنوری

تاثرات: ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب

دارالعلوم دیوبند کے نمایاں ترین فرزندوں کی مختصر سے مختصر فہرست میں بھی مولانا سید مناظر احسن گیلانی کا نام فراموش نہیں کیا جاسکتا ، مولانا کا علم وفضل اور صلاح وتقوی کسی تعارف کا محتاج نہیں ، تقریر وتحریر دونوں میں کمال حاصل تھا ، آپ کے قلم سے نکلنے والے مقالات وکتب کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کے متنوع موضوعات طبیعت کی گونا گونی کا پتا دیتے ہیں ۔

زیر نظر کتاب ’’ہزار سال پہلے ‘‘عالمی تہذیب وتمدن کے دلچسپ اور انوکھے پہلوؤں پر مولانا کے رشحات قلم سے عبارت ہے ، کتاب کی اشاعت کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے مگر اس کے مندرجات کی دل نشینی ہنوز برقرار ہے ، تاہم اب ایک مدت سے اس کی کمیابی نایابی کی حدود کو چھو رہی تھی ، ایسے میں اس کی اشاعت تازہ ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں جس پر مرتب کتاب محمد عمر انور صاحب ہمارے شکریے کے مستحق ہیں ۔

اصل کتاب کا طرز نگارش اپنے زمانے کا تھا جس میں جدید ذوق کے مطابق ترتیب ، تنسیق اور عنوان بندی کا اہتمام نہ تھا ، طویل حواشی کا پھیلاؤ بھی کتاب کی خوانائی (Readability) میں حائل تھا ، عربی فارسی کا مذاق چونکہ اس زمانے میں عام تھا اس لیے ان زبانوں کے اقتباسات کا ترجمہ ضروری نہیں سمجھا گیا تھا ، محمد عمر انور صاحب نے بڑی محنت سے حواشی کو متن ہی میں مناسب مقام پر اس خوش اسلوبی سے سمودیا ہے کہ پیوند کا احساس نہیں ہوتا ، عربی فارسی عبارتوں کا ترجمہ شامل کردیا ہے ، اور مختلف عنوان قائم کرکے کتاب کی تبویب و ترتیب نو کردی ہے ، اس طرح ایک یاد گار کتاب نہ صرف زندہ بلکہ پہلے سے بڑھ کر مؤثر بھی ہو گئی ہے ۔

5,098 Views
error: Content is protected !!