اللہ تعالی کی ذات، صفات اور استوا علی العرش میں بحث کرنا ، مولانا اشرف علی تھانویؒ
جاننا چاہیے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات بے چون و بے چگون ہے، اسی طرح ان کی صفات بھی بے چون و بے چگون ہیں(اللہ تعالی کی ذات وصفات کیسے کیونکر یعنی بحث وتکرار سےبلند وبالاہے )۔
سو اللہ تعالیٰ کی صفات میں رائے و قیاس سے کلام کرنا اور ان کی کیفیات و توجیہات معین کرنا نہایت خطرے کا محل ہے۔
اس بات میں اکثر عوام کا عقیدہ بہت سلامتی پر ہے کہ مجملاً صفاتِ الٰہی کا اعتقاد رکھتے ہیں، اس کی تکلیف و تفتیش کی طرف اِلتفات بھی نہیں کرتے، اور سلفِ صالحین صحابہ و تابعین ؓ کا اعتقاد بھی اسی طور پر تھا۔
پچھلے زمانے میں جب مبتدعین کی کثرت ہوئی اور علمِ کلام کا شیوع ہوا(علم کلام پھیلا) اس وقت صفات [باری تعالی]میں کلام زیادہ ہوگیا اور اکثر دعووں میں بے احتیاطی کی نوبت آگئی، مثلاً قرآنِ مجید میں ہے:
اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی
ترجمہ:وہ بڑی رحمت والا عرش پر قائم ہے۔
اب اس میں یہ تفتیش کرنا کہ ’’استواء‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اور اس کی کیا تاویل ہے؟ بے شک نہایت جرأت کی بات ہے،[ہمیں] اپنی صفات کے حقائق تو پورے طور پرمعلوم نہیں، تابخالق چہ رسد۔
بس سیدھی بات یہی ہے کہ مجملا اعتقاد رکھے کہ جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، حق ہے۔ جیسی اس کی ذات ہے ویسا ہی استوا ہوگا، زیادہ تفتیش کی ضرورت ہی کیا ہے؟ نہ ہم اس کے مکلف ہیں، نہ ہم سے اس کا سوال ہوگا۔
البتہ یہ یقینی طور پر اعتقاد رکھے کہ یہ استوا ہمارے استوا کے مثل نہیں ہے، بقولہ تعالیٰ:
لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ
ترجمہ:کوئی چیز اس کی مثل نہیں ۔
رہا یہ کہ پھر کیسا ہے؟ اس سے بحث نہ کرے، اللہ تعالیٰ کے حوالہ کردے۔
یا حدیث شریف میں آیا ہے:
یَنْزِلُ رَبَّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ إِلَی السَّمَاء الدُّنْیَـا
ترجمہ:نزول فرماتا ہے ہمارا رب ہر شب آسمانِ دنیا کی طرف۔
اب اس فکر میں پڑے کہ نزول سے کیا مراد ہے؟ اور یہ کس طرح ہے؟ رسول اللہﷺ کا اس نزول کے خبر دینے سے جو مقصود ہے کہ لوگ ذوق و شوق و حضورِ قلب سے اس وقت ذکر و عبادت میں مشغول ہوں، اس کام میں لگنا چاہیے، ان فضول تحقیقات میں پڑ کر حقیقت کا پتا قیامت تک بھی لگنے کی اُمید نہیں، خواہ مخواہ اپنا وقتِ عزیز ضایع کرنا ہے:
نیست کس را از حقیقت آگہی
جملہ میرند با دستِ تہی
قال اللّٰہ تعالٰی:
فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَـآئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَـآئَ تَاْوِیْـلِہٖ
رہے وہ لوگ جن کے دِلوں میں کجی ہے سو وہ پیچھے پڑتے ہیں اس مضمون کے جس کا مطلب پوشیدہ ہے اس قرآن میں سے فتنہ تلاش کرنے کو اور اس کی تاویل ڈھونڈنے کو۔
ماخوذ از: فروع الایمان ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں: