اللہ کے ساتھ حسن ظن ؟ کیا پیر اور شیخ کی نسبت بچالے گی ؟ از مولانا اشرف علی تھانوی

تسہیل وترتیب: مفتی عمر انور بدخشانی

اب عوام کے بعض شبہات کا جواب دیا جاتا ہے جن سے وہ دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں ،اور دوسروں کو بھی دھوکہ میں ڈالتے ہیں ، جب کبھی ان سے نیک اعمال کے التزام اور گناہوں سے بچنے کے لیے کہا جاتا ہے تو ان شبہات کو پیش کرتے ہیں ، یہ شبہات دو قسم کے ہیں :

۱-ایک قسم وہ شبہات ہیں جن سے ’’صریح کفر‘‘ لازم آتا ہے ، مثلا یہ شبہ کہ دنیا نقد ہے اورآخرت اُدھار، اور نقد بہتر ہوتا ہے اُدھار سے ، یا یہ شبہ کہ دنیا کی لذت یقینی ہے اور آخرت کی لذت مشکوک، تو یقینی کومشکوک کی امید میں کس طرح چھوڑ دیں ؟ جیسے کسی نے کہا ہے :

اب تو آرام سے گزرتی ہے
عاقبت کی خبر خدا جانے

چونکہ ہمارا روئے سخن (خطاب) اس وقت اہل ایمان کی طرف ہے ،اس لیے ان شبہات کو صرف نظر کرتے ہیں:

۲- دوسری قسم وہ شبہات ہیں جن کا باعث (سبب) جہالت اور غفلت ہے ، اس مقام پر ان کا جواب دینا مقصود ہے ۔

اللہ تعالی کے ساتھ حسن ظن کا دھوکہ

ایک دھوکہ یہ ہوجاتا ہے کہ حدیث میں ہے :

انا عند ظن عبدی بی

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔

سو ہمیں اپنے رب کے ساتھ اچھا گمان ہے ، ضرور ہمارے ساتھ اچھا معاملہ ہوگا ، سو خوب یاد رکھنا چاہیے کہ امید اور حسن ظن کے معنی یہ ہیں کہ اسباب کو اختیار کرکے مسبب کے مرتب ہونے کا اللہ تعالی کے فضل سے منتظر رہے ، اپنی تدبیر پر اعتمادو وثوق نہ کر بیٹھے ، اور جو اسباب ہی کو اڑادیا (ختم کردیا) تو حسن ظن نہیں ہے ، بلکہ غرور اور دھوکہ ہے ، اس کی موٹی مثال یہ ہے کہ بیج بوکر انتظار ہو کہ خدا کے فضل سے غلہ پیدا ہوگا ، یہ تو امید ہے ، اگر بیج ہی نہ بوئے اوراس ہوس پر بیٹھارہے کہ اب غلہ پیدا ہوگا تو یہ سراسر جنون اوردھوکہ ہے ، جس کا انجام افسوس وحسرت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔

بزرگوں کی نسبت کا دھوکہ

ایک دھوکہ یہ ہوجاتا ہے کہ فلاں بزرگ کی اولاد یا فلاں بزرگ کے مرید ہیں ، یا فلاں بزرگ زندہ یا مردہ سے محبت رکھتے ہیں ، پس خواہ ہم کچھ ہی کریں ، اللہ تعالی کے نزدیک مقبول ومغفور ہیں ۔

صاحبو! اگر یہ نسبتیں کافی ہوتیں تو ضرور سرور عالم ﷺ اپنی صاحبزادی کو ہرگز نہ فرماتے :

یا فاطمۃ ! أنقذی نفسک من النار ، فإنی لا أغنی عنک من اللہ شیئا۔

یعنی اے فاطمہ ! اپنی جان کو جہنم سے بچاؤ ، کیونکہ میں اللہ تعالی کے ہاں کچھ کفایت نہیں کرسکتا ، یعنی جبکہ اپنے پاس ایمان واعمال صالحہ کا سرمایہ نہ ہو صرف نسبت کافی نہیں ہے ، اور ایمان وتقوی کے ساتھ اگر نسبت شریفہ بھی ہو ، سبحان اللہ ! نور علی نور اورقیامت کے دن فائدہ بخش بھی ہوگی ۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ

ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کا ساتھ دیا (یعنی اولاد بھی مؤمن تھی مگر اعمال میں وہ اپنےمؤمن آباء واجداد کے رتبہ ومقام تک نہیں پہنچے،پس اگرچہ اولاد کے اعمال کم ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ ان کا درجہ بھی کم ہوتا ،لیکن ان کے مسلمان آباء واجداد کے اکرام اور ان کو خوش کرنے کے لیے ) ہم ان کی اولاد کو بھی (درجہ میں) ان کے ساتھ شامل کردیں گے، اور (اس شامل کرنے کے لئے) ہم ان (اہل جنت باپ دادوں) کے عمل میں سے کوئی چیز کم نہیں کریں گے ( اورباپ دادا، اور ان کی اولاد وذریت میں ایمان کی شرط اس لئے ہے کہ اگر وہ ذریت مومن نہیں تو مؤمن باپ داداکے ساتھ الحاق نہیں ہوسکتا، کیونکہ کافروں میں سے )ہر شخص اپنے اعمال (کفریہ) میں محبوس (یعنی دوزخ میں قید اور ماخوذ) رہے گا ( یعنی کفر سےنجات کی کوئی صورت نہیں،چنانچہ کافر اولاد اپنے مسلمان باپ دادوں کے ساتھ نہیں رہ سکتی ،اس لیے اولاد کو باپ دادوں سے ملانے کے لیے ایمان شرط ہے ) ۔

یعنی آباء واجداد کی مقبولیت کی برکت سے اولاد کو بھی اسی درجہ میں پہنچادیں گے ،اور آباء واجداد کے عمل میں کمی نہ ہوگی ۔

ماخوذ از : جزاء الاعمال ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://islaminsight.org/2020/06/23/delusional-presumption-of-allahs-mercy-continue-committing-sins-on-behalf-of-shykhs-association-clarifying-a-misconceptions-in-sufism-by-maulana-ashraf-ali-thanvi/
2,747 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!