تکفیر اور حق تکفیر: کلمہ گو اور اہل قبلہ کی اصطلاح کا مطلب، فرقہ بندیوں اور فتووں کا پروپیگنڈہ اور ان کا جواب، از مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

کلمہ گو کا صحیح مطلب

مغربی افکار کے تسلط سے جو نظریاتی غلط فہمیاں مسلمانوں میں پھیلی ہیں ان میں سے ایک بڑی دور اثر غلط فہمی یہ ہے کہ جو شخص ایک مرتبہ کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول پڑھ لے اور اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرلے وہ ہمیشہ کے لیے مسلمان ہوجاتا ہے ، اور پھر دنیا کا کوئی بدتر سے بد تر عقیدہ بھی اسے کافر نہیں بناسکتا۔

بظاہر یہ نظریہ ایک معصوم اور بے ضرر قاعدہ معلوم ہوتا ہے ، لیکن اس کی حقیقت پر غور کیا جائے تو یہ اتنا خطرناک اور سنگین اصول ہے جسے تسلیم کرنے کے بعد اسلام کے بنیادی عقائد کی حفاظت ناممکن ہوجاتی ہے ، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد نبوت کا جھوٹا دعوی کرے ، قرآن کریم کو اللہ کی کتاب ماننے سے انکار کردے ، اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ سے بھی افضل بتائے ، عقیدہ آخرت کو افسانہ قرار دے ، نماز ، روزے ،حج اور زکوۃ جیسے ارکان اسلام سے انکار کرے ، سود، شراب ، زنا اور قمار کو جائز سمجھے ، اور توحید ورسالت کے سوا اسلام کی ہر تعلیم کو جھٹلائے تب بھی وہ مسلمان ہی رہے گا اور کوئی شخص اسے کافر قرار نہیں دے سکتا۔

اس نظریہ کے سنگین نتائج واثرات

غور فرمایے کہ اگر ہر ’’کلمہ گو‘‘ کو مسلمان قرار دینے کا اصول تسلیم کرلیا جائے تو اس کی زد کہاں کہاں پڑتی ہے ، اور اس کے ذریعہ کس طرح اسلام کا نام لے کر اسلام کی ایک ایک تعلیم کا مذاق اڑایا جاسکتا ہے ؟ درحقیقت یہ اصول دشمنان اسلام نے گھڑا ہی اس لیے تھا کہ اس کی آڑ لے کر اسلام کو موم کی ناک بنادیا جائے ، ہر برے سے برے نظریہ کے لیے اس کے دروازے چوپٹ کھول دیے جائیں ،اور اسے رفتہ رفتہ ایسا مذہب بنادیا جائے جو ہمیشہ کے لیے غیروں کا دریوزہ گر بن سکتا ہو اور جس میں دشمنان اسلام کی خواہشات کے مطابق ہر باطل سے باطل عقیدے کو پھلنے پھولنے کے مواقع میسر ہوں ۔

سوال یہ ہے کہ کیا کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (معاذ اللہ) کوئی منتر ہے جسے پڑھنے کے بعد انسان ہر عقیدے اورعمل کے لیے آزاد ہے اوراس کا کوئی نظریہ اسے اسلام سے خار ج نہیں کرسکتا؟ کیا کوئی بھی شخص جسے اسلام کے مستحکم اور بااصول دین ہونے کا دعوی ہو اسلام کے بارے میں اس بے سروپا بات کو تسلیم کرسکتا ہے ؟حقیقت یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کوئی جادو یا طلسم نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک عہد نامہ ہے جو انسان اپنے پروردگار سے کرتا ہے ، جب کوئی شخص اللہ تعالی کو معبود واحد ماننے کا اقرار کرتا ہے تو وہ یہ معاہدہ کرتا ہے کہ میں اللہ تعالی کے تمام احکام کو بہ دل وجان تسلیم کروں گا ،اوراس کے سوا کسی اور کو واجب الاطاعت نہیں سمجھوں گا، اسی طرح جب وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اللہ کا پیغمبر ماننے کا اعلان کرتا ہے تو وہ یہ عہد کرتا ہے کہ میں آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی تمام تعلیمات پر ایمان رکھوں گا ، لہذا آپ ﷺ کی جو تعلیمات ہم تک تواتر اور قطعیت کے ساتھ پہنچی ہیں ان پر ایمان رکھنا کلمہ طیبہ پر ایمان کا لازمی تقاضا ہے ، اور اگر کوئی شخص زبان سے کلمہ پڑھنے کے بعد اسلام کی قطعی اور متواتر تعلیمات میں سے کسی ایک کا انکار بھی کردے تو در حقیقت وہ کلمہ طیبہ پر ایمان نہیں رکھتا ، اسی حقیقت کی طرف سرکاردو عالم ﷺ نے اپنے ایک ارشاد میں اشارہ فرمایا ہے :

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن رسول اللہ ﷺ قال :أمرت أن أقاتل الناس حتی یشہدوا أن لا إلہ إلا اللہ ویؤمنوا بی وبما جئت بہ (صحیح مسلم)۔

ترجمہ :حضرت بوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں ،اور مجھ پر اورجو کچھ میں لے کر آیا ہوں اس سب پر ایمان لائیں ۔

لہذا مسلمان ہونے کے لیے صرف کلمہ طیبہ پڑھ لینا کافی نہیں ، بلکہ آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی ان تمام باتوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے جو ہم تک تواتر اور قطعیت کے ساتھ پہنچی ہیں ۔

حدیث میں اہل قبلہ سے کیا مراد ہے ؟

یہی وجہ ہے کہ جب مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی تو خود آنحضرت ﷺ نے اس کے اور اس کے متبعین کے ساتھ کافروں کا سامعاملہ کیا ،اور آپ ﷺ کے بعد تمام صحابہ کرام نے اسے متفقہ طور پر کافر قرار دے کر اس کے ساتھ باقاعدہ جہاد کیا ، حالانکہ وہ بھی ظاہری اعتبار سے ’’کلمہ گو‘‘ تھا ، اس کے یہاں باقاعدہ اذان اور نماز ہوتی تھی ، اور اذان میں ’’اشہد ان لا الہ الا اللہ‘‘ اور ’’اشہد ان محمدا رسول اللہ‘‘ کے کلمات بار بار دہرائے جاتے تھے ، یہیں سے اس حدیث کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ :

من صلی صلواتنا واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذلک المسلم الذی لہ ذمۃ اللہ ورسولہ ، فلا تخفروا اللہ فی ذمتہ

ترجمہ: جو شخص ہماری جیسی نماز پڑھے ،اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے جس کا تحفظ اللہ اور اس کے رسول کی ذمہ داری ہے ، پس تم اللہ کی اس ذمہ داری کی بے حرمتی نہ کرو(صحیح بخاری)۔

جس شخص کو بھی بات سمجھنے کا سلیقہ ہو وہ اس حدیث کے اسلوب وانداز سے سمجھ سکتا ہے کہ یہاں مسلمان کی کوئی قانونی تعریف بیان نہیں کی جارہی ،بلکہ مسلمان کی ظاہری علامتیں بیان کی جارہی ہیں ،اورمطلب یہ ہے کہ جو شخص ان ظاہری علامتوں کے لحاظ سے مسلمان معلوم ہوتا ہو اس پر خواہ مخواہ بدگمانی کرکے اس کے ساتھ کافروں کا سا برتاؤ کرنا درست نہیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو شخص کھلم کھلا اپنی کفریات کا اعلان کرتا پھرے اسے بھی محض اس لیے کافر نہیں کہا جائے گا کہ وہ مسلمانوں کا ذبیحہ کھاتا ہے ۔

’’ہمیشہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے‘‘، پروپیگنڈے کی حقیقت

جب کسی منحرف فرقے پر کفر کا فتوی لگایا جاتا ہے تو ایک اور شدید مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،اوروہی مغالطہ آج بھی پیدا کیا جارہا ہے ، کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے علماء ہمیشہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے دیتے آئے ہیں ، لہذا اب ان کے فتووں کا کوئی اعتبار نہیں رہا ۔

ہم اس افسوس ناک حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ واقعتا بعض مسلمانوں کی طرف سے اس معاملہ میں شدید بے احتیاطیاں ہوئی ہیں ،اور انہوں نے دوسرے فرقوں کی تردید کے جوش میں ان اصولوں کو مد نظر نہیں رکھا جو فروعی اختلافات کو اپنی حدود میں رکھنے کے لیے ضروری ہیں ، چنانچہ بعض حلقوں کی طرف سے کفر کے فتووں کا نہایت غلط استعمال ہوا ہے ، لیکن یہ بات عقل وخرد کی آخر کون سی منطق کی رو سے درست ہوسکتی ہے کہ چند غلط فتووں کی وجہ سے یہ اعلان کردیا جائے کہ اب دنیا میں کسی شخص کو بھی ’’کافر ‘‘نہیں کہا جاسکتا ،اور جس شخص کو پوری امت مسلمہ مل کر کافر قراردے وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف اسلامی مکاتب فکر میں ایک تشدد پسند عنصر نے کفر کے فتووں کو انتہائی بے احتیاطی کے ساتھ استعمال کیا ہے ، لیکن یہ بھی اپنی جگہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس تشدد پسند عنصر کو کبھی اس معاملہ میں اپنے پورے مکتب فکر کی نمائندگی کا مقام حاصل نہیں ہوسکا، اس کے بجائے ہر مسلمان مکتب فکر کے محقق اور اعتدال پسند علماء ہمیشہ تکفیر کی اس روش کی سختی کے ساتھ تردید کرتے رہے ہیں ، انہوں نے اختلافات کی شدید گرم بازاری کے دوران بھی ایمان وکفر کی حدود کو ہر قیمت پر محفوظ رکھا ہے ،اور کفرکے فتووں کو غصہ نکالنے کا ذریعہ نہیں بننے دیا ، اوراگر عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہی اعتدال پسند عنصر ہر مکتب فکر میں غالب حیثیت کا حامل رہاہے ، یہی وجہ ہے کہ جب بھی کبھی پوری امت کا کوئی اجتماعی مسئلہ سامنے آیا ہے یہ تمام مکاتب فکر ہمیشہ سر جوڑ کر بیٹھے اور چندلوگوں کے انفرادی فتوے ان کے بحیثیت مسلمان جمع ہونے میں رکاوٹ نہیں بن سکے ۔

کونسے فرقے کا اسلام ؟ ’’مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کا شور‘‘

مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کا شورتو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ صبح وشام مچتا ہی رہتا ہے ، لیکن کسی خدا کے بندے نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اگر یہ مکاتب فکر واقعۃ ایک دوسرے کو کافر وملحد سمجھتے ہیں تو پھر وقتا فوقتا امت کے اجتماعی مقاصد کے لیے بحیثیت مسلمان کیوں جمع ہوتے رہتے ہیں؟کیا ان ہی مسلمان فرقوں نے جن کے اختلاف ونزاع کے پروپیگنڈے نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے ۱۹۵۱ء میں پاکستان کی دستوری بنیادیں متفقہ طور پر نہیں کیں جبکہ چاروں طرف سے یہ غُل مچا ہوا تھا کہ ایسا اتفاق ایک امر محال ہے ؟ کیا یہی’’ گردن زدنی‘‘ فرقے ۱۹۵۳ء میں اکٹھے ہوکر مفصل دستوری سفارشات مرتب کرکے نہیں اٹھے جبکہ یہ کام پہلے سے زیادہ دشوار سمجھا جارہا تھا ؟ کیا ان ہی فرقوں نے ۱۹۵۳ء میں مرزائیت کے کھلے کفر کے خلاف ایک مشترکہ موقف اختیار نہیں کیا؟کیا ان ہی فرقوں نے ۱۹۶۲ء کے دستور پر ایک ساتھ بیٹھ کر ترمیمات مرتب نہیں کیں ؟کیا انہوںنے عائلی قوانین کی غیر اسلامی دفعات کو تبدیل کرانے کے لیے یکجا ہوکر اپنا متفقہ تبصرہ پیش نہیں کیا ؟کیا انہوں نے ۷۲ء کی دستور سازی کے دوران شیر وشکر رہ کر اس میں اسلامی دفعات کو مؤثر بنانے کی کوششیں نہیں کیں ؟ سالہا سال سے یہ بے سروپا پروپیگنڈہ جاری تھا کہ یہ لوگ مسلمان کی متفقہ تعریف بھی نہیں کرسکتے ،لیکن کیا ۱۹۷۲ء کے دستور میں انہوں نے متفقہ تعریف پیش کرکے اس پروپیگنڈے کی قلعی نہیں کھولی ۔

جو شخص بھی ان حقائق پر انصاف ودیانت کے ساتھ غور کرے گا وہ اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بعض حلقوں کی طرف سے مسلمان مکاتب فکر کے خلاف کفر کے جو فتوے جاری کیے گئے ہیں وہ کسی بھی مکتب فکر کی نمائندہ حیثیت نہیں رکھتے ، بلکہ ان کی حیثیت محض انفرادی ہے ، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ اپنے فروعی اختلافات کے باوجود یہ تمام مکاتب فکر اسلام کی بنیادوں میں متفق اور ایک زبان ہیں ، لہذا چند غلو آمیز فتوووں کی وجہ سے پوری امت مسلمہ کے فیصلہ کو ناقابل اعتبار ٹھہرانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ بعض ڈاکٹروں کے غلط علاج کی بنا پر اب کسی ڈاکٹر کا اعتبار نہیں رہا ، اور وہ طبی مسائل میں بھی قابل اعتماد نہیں رہے جن پرتمام دنیا کے اطباء متفق ہیں ۔

جو لوگ بعض افراد کے تشدد آمیز فتووں کو بنیاد بناکر امت مسلمہ کے ہر اجتماعی فتوے کو ناقابل اعتبار قرار دینا چاہتے ہیں وہ براہ کرم یہ بتائیں کہ دنیا کا کونسا طبقہ ایسا ہے جس کے افراد سے کبھی کوئی غلطی نہیں ہوئی ؟ کیا عدالتی فیصلوں میں جج صاحبان سے کبھی غلطیاں نہیں ہوتیں ؟ اگر ہوتی ہیں اور سینکڑوں ہوتی ہیں تو کیا کوئی ذی ہوش انسان یہ تجویز پیش کرسکتا ہے کہ اب عدالتوں پر قفل چڑھادینے چاہئیں اور اب عدالت کا کوئی فیصلہ قابل تسلیم نہیں رہا ؟ کیا ماہر سے ماہر انجینئر مکان کی تعمیر میں غلطی نہیں کرتے ، لیکن کیا اس غلطی کی بنا پر یہ تجویز معقول ہوسکتی ہے کہ اب تعمیر کا ٹھیکہ انجینئروں کے بجائے گورکنوں کو دے دینا چاہیے ؟ کیا قابل سے قابل فوجی افسروں سے دفاعی فیصلوں میں غلطی نہیں ہوجاتی ؟ لیکن اس کی بنا پر یہ بات کون کہہ سکتا ہے کہ اب کسی فوجی افسر کو کوئی مشن نہیں سونپا جاسکتا، پھر اگر کچھ افراد نے کسی وقت کفر کے غلط فتوے جاری کردیے ہیں تو وہ کونسی معقول وجہ ہے جس کی بنیاد پر یہ کہہ دیا جائے کہ جس گروہ کو پوری امت مسلمہ مل کر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے رہی ہے اس کے بارے میں بھی کفر کے فتوے ناقابل اعتبار ہیں۔

شاعر مشرق مصور پاکستان علامہ اقبال کی رائے

شاعر مشرق مصور پاکستان علامہ اقبال مرحوم نے بالکل صحیح بات کہی تھی کہ:
’’ اس مقام پر یہ دہرانے کی غالبا ضرورت نہیں کہ مسلمانوں کے بے شمار فرقوں کے مذہبی تنازعوں کا ان بنیادی مسائل پر کچھ اثر نہیں پڑتا جن مسائل پر سب فرقے متفق ہیں ، اگرچہ وہ ایک دوسرے پر الحاد کے فتوے ہی دیتے ہوں ‘‘ (حرف اقبال ، مرتب:لطیف احمد شیروانی ایم اے ،ص ۱۹-۱۱۳)۔

ماخوذ از: عصر حاضر میں اسلام کیسے نافذ ہو ، از مفتی محمد تقی عثمانی، ص۶۶۵ تا ۶۷۲۔

3,632 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!