حسین بن منصور حلاج کے انا الحق کہنے کی وجہ ، از مولانا اشرف علی تھانویؒ
انتخاب وترتیب: مفتی عمر انور بدخشانی
منصور حلاج ؒ کے ’’انا الحق‘‘کہنے کا راز
منصور حلاج ’’انا الحق‘‘ خود نہ کہہ رہے تھے ، بلکہ اس وقت ان کی وہ حالت تھی جیسے موسی علیہ السلام کے واقعہ میں درخت سے آواز آئی تھی :
انی انا اللہ رب العالمین
ترجمہ: بے شک میں اللہ سارے جہانوں کا پروردگار ہوں ۔
اگرچہ یہ آواز درخت ہی سے نکل رہی تھی ، چنانچہ خود آیت میں صراحت ہے :
نودی من شاطئ الواد الایمن فی البقعۃ المبارکۃ من الشجرۃ ان یموسی
ترجمہ: وادی ایمن میں بقعہ مبارکہ اور درخت سے آواز دی ، اے موسی !۔
تو کیا درخت خود کہہ رہا تھا : انی انا اللہ
ہر گز نہیں ! ورنہ تودرخت کا رب ہونا لازم آئے گا ، اوریہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ آواز درخت میں سے نہیں نکلی تھی ، بعینہ حق تعالی کی آواز تھی ، کیونکہ حق تعالی آواز سے پاک ہیں ، اور یقینا حضرت موسی علیہ السلام کو آواز ہی سنائی دی تھی جو خاص سمت اور خاص مکان کے ساتھ مقید تھی ، تو اسے حق تعالی نے ’’وادی ایمن‘‘ اور ’’بقعہ مبارک‘‘ اور ’’من الشجرۃ ‘‘ کے ساتھ مقید کیا ہے ، ورنہ حق تعالی کا کلام بعینہ ہوتا تو ان قیود (خاص سمت اور مکان) سے مقید نہ ہوتا ، پس ماننا پڑے گا کہ وہ آواز تو درخت ہی کی تھی اوراسی میں سے نکلی تھی ، مگر وہ درخت حق تعالی کی طرف سے متکلم تھا ، خود متکلم نہ تھا ، جیسے قرآن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہے :
فإذا قرأناہ فاتبع قرآنہ
کہ جب ہم قرآن پڑھا کریں تو آپ قراءت کا اتباع (پیروی) کیجیے ،یقینا حضور ﷺ کسی آواز کو سنتے تھے ، اور خدا تعالی آوازہ سے منزہ ہیں ، پھر اس ’’قرأناہ‘‘ کا کیا مطلب ہے ؟
یہی کہا جاتا ہے کہ یہاں جبرائیل علیہ السلام کی قراءت کو حق تعالی کی قراءت کہا گیا ہے ، وہ حق تعالی کے حکم سے قراءت کرتے تھے ، ایسے ہی یہاں بھی درخت کے کلام کوحق تعالی کا کلام کہا جاتا ہے ، کیونکہ درخت نے جو کچھ کہا تھا حق تعالی کے حکم سے کہاتھا ، پس یونہی منصور حلاج کے ’’انا الحق‘‘ کو خدا تعالی کا قول کہنا چاہیے ، کیونکہ غلبہ حال میں کلام حق ان کی زبان سے نکلا تھا ، وہ بھی حق تعالی کے حکم سے متکلم تھے ، خود متکلم نہ تھے ۔
چنانچہ ایک بزرگ کے واقعہ سے اس کی تائید ہوتی ہے ،وہ یہ کہ ایک بزرگ نے حق تعالی سے سوال کیا کہ منصور نے بھی اپنے آپ کو خدا کہا تھا اور فرعون نے بھی ، منصور تو مقبول ہوگئے ،اور فرعون مردود ہوگیا ، اس کی کیا وجہ ہے ؟
جواب ارشاد ہوا کہ منصور حلاج نے اپنے کو مٹاکر ’’انا الحق‘‘ کہا تھا ،اور فرعون نے ہمیں مٹاکر ’’انا ربکم الاعلی ‘‘ کہا تھا ، اس کا یہی مطلب ہے کہ منصور نے جو کچھ کہا تھا خود نہ کہا تھا ، کیونکہ وہ خود ہی کو مٹاچکے تھے ، اسی کو مولانا رومؒ فرماتے ہیں :
گفت فرعونی انا الحق گشت پست
گفت منصوری انا الحق گشت مست
لعنت اللہ آں انا را در فقا
رحمت اللہ ایں انا را در وفا
ترجمہ: فرعون نے ’’انا الحق‘‘ کہا توذلیل ورُسوا ہوا ، حضرت منصورحلاج نے ’’ انا الحق‘‘ کہا مقبول ہوگئے ، راہ جفا میں ’’انا‘‘ کہنا اللہ کی لعنت کا سبب ہے ، اور راہ وفا میں ’’انا ‘‘ کہنا اللہ کی رحمت کا سبب ہے ۔
ماخوذ از: خطبات حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ ، جلد ۱۴، صفحہ ۳۸۲
حسین بن منصور حلاج سے متعلق مزید پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔