حنفی اور وہابی (غیر مقلد – اہل حدیث) اختلاف کیا ہے؟ تقلید کیوں ضروری ہے؟ کیا تقلید بدعت ہے؟ از مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ

تمہید:نظریاتی اور اجتہادی اختلاف اورچند اصولی نکات

دوسرا اِختلاف جس کے بارے میں آپ نے دریافت فرمایا ہے ، وہ ’’حنفی وہابی اختلاف‘‘ ہے ،اور آپ یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ان میں سے حق پر کون ہے ؟اس اختلاف کی نوعیت سمجھنے کے لیے چند امور کا سمجھ لینا ضروری ہے :

۱-میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ امت میں ’’نظریاتی اختلاف‘‘ تو بلاشبہ ایک فتنہ ہے ، مگرفروعی مسائل میں ’’اجتہادی اختلاف‘‘ نہ صرف ایک ناگزیر اور فطری چیز ہے ، بلکہ بارشاد نبوی ،یہ امت کے لیے ایک رحمت ہے ، بشرطیکہ اس میں شدت کا نقطہ لگاکر اسے ’’زحمت‘‘ میں تبدیل نہ کرلیا جائے ۔

۲-آپ یہ بھی معلوم کرچکے ہیں کہ جن اکابر امت کو ائمہ اجتہاد تسلیم کیا گیا ہے ، وہ نہ صرف قرآن وسنت کے ماہر تھے ،بلکہ بعد کی پوری امت سے بڑھ کر شریعت کے نکتہ شناس تھے، علم وفضل ، دیانت وامانت، فہم وبصیرت ، زہد وتقوی اورخدا شناسی میں ان سے بڑھ کر کوئی شخص اس امت میں پیدا نہیں ہوا، یہی وجہ ہے کہ جن بزرگوں کوعلم کے بڑے بڑے پہاڑ اور کشف والہام کے بڑے بڑے دریا کہاجاتا ہے وہ سب ان ائمہ اجتہاد کے پیروکار تھے ، ایسے باکمال بزرگوں کا ان کی پیروی کرنا ان کے بلندی مرتبہ کی دلیل ہے ۔

۳-ائمہ اجتہاد بہت سے اکابر ہوئے ہیں ،مگر اللہ تعالی کی حکمت بالغہ نے امت کے سواد اعظم کو چار بزرگوں کے اجتہاد پر جمع کردیا ہے ، یعنی امام ابوحنیفہ، امام شافعی ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالی ،چوتھی صدی کے بعد جتنے اکابر علماء ومشائخ ہوئے ہیں وہ سب انہی چار میں سے کسی ایک کے پیروتھے ، گویا پوری امت کے ارباب علم وفضل اور ارباب قلوب ومکاشفہ ان اکابر کی قیادت وسیادت پر متفق ہیں ،اور کوئی قابل ذکر عالم اور بزرگ ایسا نہیں ملے گا جو ان میں سے کسی ایک کا متبع نہ ہو۔

۴-ان بزرگوں میں بہت سے فروعی مسائل میں اختلاف بھی ہے ، مگر اپنی اپنی جگہ سب حق پر ہیں ، اس لیے شریعت مطہرہ پر عمل کرنے کے لیے ان میں سے جس کے اجتہاد کی بھی پیروی کی جائے صحیح ہے ، مگر ان میں سے کسی کی بے ادبی وگستاخی جائز نہیں ، کیونکہ کسی عالم کی گستاخی دراصل علم کی توہین ہے اور علم شریعت کی بے حرمتی بارگاہ خداوندی ناقابل معافی ہے۔

۵-شریعت مطہرہ کا بیشتر حصہ وہ ہے جس پر یہ چاروں امام متفق ہیں ، اوربقول شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نوراللہ مرقدہ ان چاروں بزرگوں کا کسی مسئلے پر اتفاق کرنا ’’اجماع امت‘‘ کی علامت ہے ، یعنی جس مسئلے پر ائمہ اربعہ متفق ہوں ، سمجھ لینا چاہیے کہ صحابہ کرام ؓ سے لے کر آج تک کی پوری امت اس پر متفق چلی آئی ہے ، اس لیے ائمہ اربعہ کے اتفاقی مسئلے سے باہر نکلنا جائز نہیں، میں اس کی مثال یہ دیا کرتا ہوں کہ پاکستان کے چاروں ہائی کورٹ قانون کی جس تشریح پر متفق ہوجائیں وہی قانون کی صحیح اور مسلمہ تعبیر ہوگی ، اور کسی ایسے شخص کو جو قانون پاکستان کا وفادار ہو ،اس متفقہ تشریح کے خلاف قانون کی تشریح کرنے کا حق نہیں ہوگا،اوراگر کوئی شخص ایسی حماقت کرے گاتواس کی تشریح پاکستان کے کسی شہری کے لیے لائق تسلیم نہیں ہوگی، ٹھیک اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ ائمہ اربعہ ، امت اسلامیہ کے چار ہائی کورٹ ہیں ، ان کی حیثیت واضع قانون کی نہیں، بلکہ قانون کے شارح کی ہے ، اوران کی متفقہ تشریح سے انحراف کا کسی کوحق نہیںہے۔

۱-حنفی اورغیر مقلد(وہابی):فروعی مسائل میں اختلاف

اس تمہید کے بعد گزارش ہے کہ ’’حنفی وہابی اختلاف‘‘ دو قسم کا ہے:

ایک تو چند فروعی مسائل کا اختلاف ہے ، مثلا نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟ دونوں قدموں کے درمیان فاصلہ کتنا ہونا چاہیے؟ رفع یدین کیا جائے یا نہیں؟ آمین اونچی کہی جائے یا آہستہ ؟ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھی جائے یا نہیں ؟وغیرہ ،ان مسائل کی تعداد خواہ کتنی زیادہ ہو ، میں ان کو فروعی اختلاف سمجھتا ہوں ،اور دونوں فریقوں میں سے جس کی جو تحقیق ہو اس کے لیے اسی پر عمل کرنا ضروری سمجھتا ہوں ، اگر اہل حدیث حضرات ہمارے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تحقیق پر مطمئن نہیں تو انہیں اس پر کیوں مجبور کیا جائے ؟اسی طرح اگر ہمارے نزدیک اہل حدیث حضرات کی تحقیق لائق اطمینان نہیں تو کوئی ضروری نہیں کہ ہم ان کی تحقیق پر ہی عمل کریں ، جیسا کہ میں پہلے بتاچکا ہوں کہ یہ فروعی اختلاف حضرات صحابہ کرام ، سلف صالحین اور ائمہ ہدی کے درمیان بھی رہے ہیں ، اوریہ اختلاف اگر اپنی حد کے اندر رہے تو سراپا رحمت ہے کہ امت کے کسی نہ کسی فرد کے ذریعہ اللہ تعالی نے اپنے نبی پاک ﷺ کی ہرسنت کو ، کسی نہ کسی شکل میں محفوظ کردیا ہے ، لیکن میں ان مسائل میں تشدد کو روا نہیں سمجھتا، جس کے ذریعے ایک فریق دوسرے فریق کے خلاف زبان طعن دراز کرے ، اوران فروعی مسائل کی بنا پر ایک دوسرے کو گمراہ بتایا جائے ، اس تشدد کے بعد یہ اختلاف رحمت نہیں رہے گا،بلکہ زحمت بن جائےگا، اورامت کی عملی قوتیں ان فروعی مسائل میں خرچ ہوکر ختم ہوجائیں گی ، ہر ایک چیز اپنی حد کے اندر رہے تو اچھی لگتی ہے ، اورجب اپنی حد سے نکل جائے تو وہ مذموم بن جاتی ہے ، یہی حال ان فروعیات کا ہے ۔

۲-حنفی اور غیر مقلد(وہابی):نظریاتی اختلاف

۲-حنفی وہابی اختلاف کی دوسری قسم وہ ہے جس کو میں’’نظریاتی اختلاف‘‘ سمجھتا ہوں اوراس میں میری رائے ’’اہل حدیث ‘‘حضرات (جن کو آپ نے ’’وہابی‘‘ لکھا ہے ،اورعام پر انہیں  ’’غیر مقلد‘‘ کہا جاتا ہے ) کے ساتھ متفق نہیں ، بلکہ میں ان کے موقف کو غلط سمجھتا ہوں ، اصولی طور پر یہ اختلاف دو نکتوں میں ہے :

تقلید اور اس کا مطلب

۱-اول یہ کہ اہل حدیث حضرات کے نزدیک کسی معین امام کی اقتدا نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ ہر شخص کو قرآن وحدیث سے جو بات سمجھ آئے اس پر عمل کرنا چاہیے ، یہ مسئلہ ’’تقلید اور ترک تقلید‘‘ کے عنوان سے مشہور ہے جو ایک بہت ہی معرکۃ الآراء مسئلہ ہے ، اورجس پر دونوں طرف سے بہت سی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں ، مگر میں اس سلسلے میں چند معروضات پیش کردینا کافی سمجھتا ہوں ۔

۲-تقلید کے معنی ہیں:’’کسی لائق اعتماد آدمی کی بات کو بغیر مطالبہ دلیل تسلیم کرلینا‘‘، جس آدمی کی بات مانی جارہی ہے اگروہ سرے سے لائق اعتماد نہیں تو ظاہر ہے کہ اس کی بات ماننا ہی غلط ہوگا،اوراگر وہ اپنے فن کا ماہر ہے تو ایک عام آدمی کا اس سے دلیل کا مطالبہ کرنا غلط ہوگا،اس کی مثال ایسی سمجھ لیجیے کہ آپ کسی طبیب یا ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں،اور وہ آپ کے لیے کوئی نسخہ تجویز کرتا ہے ،اگروہ طبیب اپنے فن کا ماہر ہی نہیں ، بلکہ محض عطائی ہے توآپ کا اس کے پاس تشریف لے جانا ہی غلط ہوگا،اوراگروہ اپنے فن کا مستند وماہر ہے تو اس کے تجویز کردہ نسخے کی ایک ایک چیز کے اجزاء کے بارے میں آپ کا بحث کرنا اور ایک ایک بات کے لیے دلیل کا مطالبہ کرنا قطعا نادرست اور ناروا ہوگا۔

وجہ یہ کہ ایک عام آدمی کسی ماہر کے پاس جاتا ہی اس وقت ہے جب وہ مسئلہ اس کی عقل وفہم کی سطح سے اونچا ہو، ٹھیک اسی طرح دین وشریعت کا معاملہ سمجھنا چاہیے، پس دین کے وہ مسائل جو آنحضرت ﷺ سے متواترچلے آرہے ہیں اورجن کو ہر شخص جانتا ہے کہ دین کا مسئلہ یہ ہے ، اس کے بارے میں کسی مسلمان کو نہ کسی عالم کے پاس جانے کی ضرورت پیش آتی ہے ،اورنہ کوئی جاتا ہے ، دینی مسائل میں اہل علم کی طرف رجوع کی ضرورت اسی وقت لاحق ہوتی ہے جبکہ ہم ایسے عامی لوگوں کی ذہنی سطح سے وہ مسئلہ اونچا ہو ، ایسی حالت میں دو صورتیں ممکن ہیں :

۱-ایک تو یہ کہ ہم خود قرآن وحدیث کھول کر بیٹھ جائیں اورہماری عقل وفہم میں جو بات آئے اسے ’’دین‘‘ سمجھ کر اس پر عمل کرنے لگیں ۔
۲-دوسری صورت یہ ہے کہ جو حضرات قرآن وسنت کے ماہر ہیں ، ان سے رجوع کریں ، اورانہوں نے اپنی مہارت، طویل تجربہ اورخداداد بصیرت سے قرآن وحدیث میں غور کرنے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس پر اعتماد کریں۔

پہلی صورت ’’خود رائی ‘‘کی ہے ،اوردوسری صورت کو ’’تقلید‘‘کہا جاتا ہے جو عین تقاضائے عقل وفطرت کے مطابق ہے ۔

تقلید بہترین رہنمائی اورحل کے لیے فطری اور منطقی ضرورت ہے

ماہرین شریعت کی تحقیقات سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک ایک مسئلے کے لیے قرآن وحدیث میں غور کرنے والے عامی شخص کی مثال ایسی ہوگی کہ کوئی شخص بہت سی پیچیدہ بیماریوں میں مبتلاہوجائے اورماہرین فن سے رجوع کرنے کو بھی اپنی کسر شان سمجھے،اوراس مشکل کا حل وہ یہ تلاش کرے کہ طب کی مستند اور اچھی اچھی کتابیں منگواکر ان کا مطالعہ شروع کردے ، اورپھر اپنے حاصل مطالعہ کا تجربہ خود اپنی ذات پر کرنے لگے،مجھےتوقع ہے کہ اول تو کوئی عقل مند ایسی حرکت کرے گا نہیں اور اگر کوئی شخص اس خوش فہمی میں مبتلا ہو کہ وہ ماہرین فن سے رجوع کیے بغیر اپنے پیچیدہ امراض کا علاج اپنے مطالعے کے زور سے کرسکتا ہے تو اسے صحت کی دولت تو نصیب نہیں ہوگی، البتہ اسے اپنے کفن دفن کا انتظا م پہلے سے کر رکھنا چاہیے! پس جس طرح طب میں خودرائی آدمی کو قبر میں پہنچا کر چھوڑتی ہے، اسی طرح دین میں خودرائی آدمی کو گمراہی اور زندقے کے غار میں پہنچا کر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سامنے جتنے گمراہ اور ملحد فرقے ہوئے، ان سب نے اپنی مشق کا آغاز اسی خودرائی اور ترک تقلید سے کیا۔ مشہور اہل حدیث عالم مولانامحمد حسین بٹالوی مرحوم اس خودرائی اور ترکِ تقلید کا ماتم کرتے ہوئے بالکل صحیح لکھتے ہیں:

’’پچیس برس کے تجرے سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہدِ مطلق (ہونے کا دعویٰ) کرتے ہیںاور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں، وہ آخر اسلام کو سلام کر بیٹھتے ہیں۔ کفر و ارتداد کے اسباب اور بھی بکثرت موجود ہیں، مگر دین داروںکے بے دین ہوجانے کے لیے بے علمی کے ساتھ ترک تقلید بڑا بھاری سبب ہے۔ گروہ اہل حدیث مین جو بے علم یا کم علم ہوکر ترک مطلق تقلید کے مدعی ہیں، وہ ان نتائج سے ڈریں۔ اس گروہ کے عوام آزاد اور خودمختار ہوتے جاتے ہیں۔‘‘(اشاعۃ السنۃ نمبر ۴ جلد نمبر ۱ مطبوعہ ۱۸۸۸ء)۔

ہمارے پاس پسنداورناپسند کا معیار کیا ہوگا؟

۲۔ یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی ہوگی کہ عامی آدمی کو ایک ’’معین امام‘‘ کی تقلید ہی کیوں ضروری ہے؟جو شخص قرآن و حدیث کا اس قدر ماہر ہوکہ وہ خود مرتبہ اجتہاد کو پہنچ گیا ہو، وہ عامی نہیں بلکہ خود مجتہد ہے۔ اس کو کسی دوسرے ماہر فن کی تقلید نہ صرف یہ کہ ضروری نہیںبلکہ جائز بھی نہیں (مگر آج کل کے ہم جیسے طالب علموں کے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اردو تراجم کی مدد سے مرتبہ اجتہاد کو پہنچ گئے ہیں)۔

اور جو شخص خود درجہ اجتہاد پر فائز نہ ہو، اس نے خواہ کتنی کتابیں پڑھ رکھی ہوں، وہ عامی ہے، اور اس کو بہرحال کسی مجتہد کے قول کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ اب اگر وہ ایک ’’معین امام‘‘ پر اعتماد کرکے اس کے مسائل پر عمل کرے گا تو شرعاً اس پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اس نے اسے پورا کردیا، لیکن اگر وہ کسی ایک امام کے بجائے جس امام کی جو بات پسند آئے اسے قبول کرے گا، تو سوال یہ ہے کہ اس کے پاس پسند و ناپسند کا معیار کیا ہوگا؟ اگر کہا جائے کہ قرآن و حدیث اس کا معیار ہے، اور یہ شخص جس امام کے قول کو قرآن و حدیث کے مطابق پاتا ہے، اسی کو اختیار کرتا ہے تو اس نے درحقیقت اپنے فہم کو معیار بنایا ہے۔ اس لیے ہم کہیں گے کہ اگر وہ واقعی قرآن و حدیث کا ماہر ہے اور اس کا فہم قرآن و حدیث حجت ہے تو اس کو کسی امام کی تقلید کی ضرورت ہی نہیں، یہ خود مجتہد مطلق ہے اور اگر وہ قرآن و حدیث کا ماہر نہ ہونے کے باوجود اپنی عقل و فہم کو معیار بناتا ہے تو پھر اس خودرائی کا شکار ہے جو اس کے دین کے لیے مہلک ہوسکتی ہے۔

قرآن وحدیث کی اتباع یا خواہشات نفس کی پیروی؟

۳۔ بہت سے اکابر اولیاء اللہ کا معمول تھا کہ ائمہ کے اقوال کو جمع کرتے تھے اور ہر مسئلے میں ایسے قول کو اختیار کرتے تھے جس میں زیادہ سے زیادہ احتیاط نظرآئے۔ مثلاً ایک امام کے نزدیک ایک چیز ضروری اور دوسرے کے نزدیک ضروری نہیں تو وہ حضرات ضروری والے قول پر عمل پیراہوتے تھے۔ اسی طرح مثلاً ایک امام کے نزدیک ایک چیز مکروہ ہے اور دوسرے کے نزدیک مکروہ نہیں، تو وہ حضرات کراہت کے قول پر عمل کرتے ہوئے اس سے پرہیز کرتے تھے۔ یہ تو خداترس بندوںکی شان تھی، مگراب ترکِ تقلید کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس امام کا جو مسئلہ خواہش نفس کے مطابق نظرآئے، اس پر عمل کرو، یہ دراصل قرآن و حدیث کی پیروی نہیں، بلکہ خواہش نفس کی پیروی ہے! گو شیطان نے اسے قرآن و حدیث کی پیروی کا رنگ دے دیا ہے۔

خود رائی:ہلاکت اور نقصان

۴۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: چوتھی صدی سے پہلے کسی ’’معین امام‘‘ کی تقلید کا رواج نہیں تھا، بلکہ ہوتا یہ تھا کہ جس شخص کو مسئلہ دریافت کرنے کی ضرورت ہوتی، وہ کسی بھی عالم سے مسئلہ پوچھ لیتااور اس پر عمل کرتا، لیکن چوتھی صدی کے بعد حق تعالیٰ شانہ نے امت کو ائمہ اربعہ ؒ کی اقتدا پر جمع کردیا اور ایک معین امام کی تقلید کو لازم سمجھا جانے لگا۔ اس زمانے میں یہی خیر کی بات تھی، اس لیے کہ اب لوگوںمیں دیانت و تقویٰ کی کمی آگئی تھی۔ اگرایک معین امام کی تقلید کی پابندی نہ ہوتی تو ہر شخص اپنی پسند کے مسائل چن چن کر ان پر عمل کرتا اور دین ایک کھلونا بن کر رہ جاتا ہے۔ پس اس خودرائی کا ایک ہی علاج تھا کہ نفس کو کسی ایک ماہر شریعت کے فتویٰ پر عمل کرنے کا پابند کیاجائے اور اس کا نام ’’تقلید شخصی‘‘ ہے۔

کیا تقلید دین میں بدعت ہے ؟

۵۔ اہل حدیث حضرات کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ چونکہ تقلید کا رواج کئی صدیوں بعد ہوا ہے،اس لیے وہ ’’بدعت‘‘ ہے، مگر تقلید کو بدعت کہنا ان کی غلطی ہے، اس لیے کہ اول تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ ان اہل حدیث حضرات کے سوا، جن کا وجود تیرہویں صدی میں بھی ہیں تھا،باقی پوری امت محمدیہ گمراہ ہوگئی۔۔۔ نعوذ باللہ۔۔۔ اور یہ ٹھیک وہی نظریہ ہے جو شیعہ مذہب حضرات صحابہ کرام ؓ کے بارے میں پیش کرتا ہے، اور چونکہ اسلام قیامت تک کے لیے آیا ہے، اس لیے پوری امت کا ایک لمحے کے لیے بھی گمراہی پر متفق ہونا باطل ہے۔

دوسرے آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے زمانے میں بھی یہ دستور تھا کہ ناواقف اور عامی لوگ اہل علم سے مسائل پوچھتے اور ان کے فتویٰ پر بغیر طلب دلیل عمل کرتے تھے اور اسی کو تقلید کہا جاتا ہے، گویا ’’تقلید‘‘ کا لفظ اس وقت اگرچہ استعمال نہیں ہوتا مگر تقلید کے معنی پر لوگ اس وقت بھی عمل کرتے تھے۔ سو آپ اس کا نام اب بھی تقلید نہ رکھیے، ’’اقتدا و اتباع‘‘ رکھ لیجیے۔

تیسرے، فرض کرو اس وقت تقلید کا رواج نہیں تھا، تب بھی اس کو بدعت نہیں کہا جاسکتا ہے، اس لیے کہ دین و شریعت پر چلنا تو فرض ہے اور میں اوپر بتا چکا ہوں کہ آج جو شخص ’’تقلید‘‘ کے بغیر شریعت پر چلنے کی کوشش کرے گا، وہ کبھی نفس و شیطان کے مکر سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس لیے بغیر خطرات کے دین پر چلنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے کسی ایک ماہر شریعت امام کی پیروی۔ معروضی طور پر دیکھا جائے تو اہل حدیث حضرات بھی، معدودے چند مسائل کے سوا، اہل محدثین کی ہی پیروی کرتے ہیں، اس لیے گو انہیں ’’تقلید‘‘ کے لفظ سے انکار ہے، مگر غیر شعوری طور پر ان کو بھی ان سے چارہ نہیں۔ اس لیے کہ دین کوئی عقلی ایجاد نہیں، بلکہ منقولات کا نام ہے اور منقولات میں ہر بعد میں آنے والے طبقے کو اپنے سے پہلے طبقے کے نقش قدم پر چلنالازم ہے۔ یہ فطری چیز ہے، جس کے بغیر شریعت پر عمل ممکن نہیں۔

۶۔ اہل حدیث حضرات کا مولد و منشا غیر منقسم ہندوستان ہے، چونکہ یہاں پہلے سے حنفی مذہب رائج تھا، اس لیے ان کے اعتراضات کا اول و آخر نشانہ حنفی مذہب بنا، اسی پر بس نہیں بلکہ انہوں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کسرِشان میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔اگرچہ اہل حدیث کا بہت سا سنجیدہ طبقہ، خصوصاً ان کے اکابر و بزرگ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بے ادبی کو روا نہیں سمجھتے، مگر ان کا نوعمر، خام علم اورخام فہم طبقہ ’’عمل بالحدیث‘‘ کے معنی ہی حضرت امامؒ کی بے ادبی و گستاخی کرنے کو سمجھتا ہے،میں ان حضرات کے اس طرزِ عمل کو خود ان کے حق میں نہایت خطرناک سمجھتا ہوں، کیونکہ حضرت امام ؒ کی بلندیٔ شان کے لیے یہی کافی ہے کہ مجدد الف ثانی اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہما اللہ جیسے اکابر ان کے مقلد ہوئے ہیں، اس لیے چند خوش فہم لوگوں کی تنقید سے حضرت امام ؒ کی بلندیٔ مرتبت میں تو کوئی فرق نہیں آئے گا،البتہ سلف صالحین اور خاصانِ خدا کی اہانت کرنے پر خدا تعالیٰ کا جو وبال نازل ہوا کرتا ہے، وہ ان حضرات کے لیے خطرے کی چیز ضرور ہے۔

غیر مقلد (وہابی-اہل حدیث)اوراجماع امت سے انحراف

اہل حدیث حضرات کے نظریاتی اختلاف کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ حضرات بعض اوقات شوق اجتہاد میں ’’اجماع امت‘‘ سے بھی بے نیازہوجاتے ہیں۔ یہاں ان کی دومثالیں عرض کرتا ہوں۔

بیس رکعت تراویح پر اجماع امت

اول:۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ بیس رکعت تراویح کا دستور مسلمانوںمیںحضرت عمر ؓ کے زمانے سے آج تک چلا آرہا ہے، اور چاروں ائمہ دین بھی اس پر متفق ہیں، لیکن اہل حدیث حضرات اس کو بلاتکلف ’’بدعت‘‘ کہہ دیتے ہیں اور اس مسئلے میں، میں نے بعض حضرات کو اپنے کانوںسے حضرت عمر ؓ کے بارے میں ناروا الفاظ کہتے سنا ہے۔

تین طلاق پر اجماع امت

دوم:۔ دوسرا مسئلہ تین طلاق بلفظ واحد کا ہے، یعنی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا ایک لفظ یا ایک مجلس میں تین طلاقیں دے ڈالے تو تین ہی شمار ہوں گی۔ یہ فتویٰ حضرت عمر ؓ نے دیا تھا اور تمام صحابہؓ و تابعینؒ نے اس فتوے کو قبول کیا۔ مجھے کسی صحابی و تابعی کا علم نہیں جس نے اس فتوے سے اختلاف کیا ہو۔ یہی مذہب ائمہ اربعہ کا ہے (جن کے اتفاق کو میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے حوالے سے اجماع امت کی علامت بتا چکا ہوں) لیکن اہل حدیث حضرات بڑی جرأت سے ایسی تین طلاقوں کے ایک ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ مجھے یہاں ان دنوں مسائل میں ان کے شبہات سے بحث نہیں بلکہ صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ حضرات ان دونوں مسائل میں اجماع امت سے ہٹ کر شیعوں کے نقش قدم پر ہیں اور حضرات خلفائے راشدین ؓ کی پیروی کا جو حکم رسول اللہ ﷺ نے امت کو دیا تھا، اس کا رشتہ ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ہے۔

میں اس تصور کو ساری گمراہیوںکی جڑ سمجھتا ہوں کہ صحابہ کرامؓ، تابعین عظامؒ، ائمہ ہدیٰؒ اور اکابر امت نے فلاں مسئلہ صحیح نہیں سمجھا اور آج کے کچھ زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کی رائے ان اکابر کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہے۔نعوذ باللہ!

4,029 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!