زمین ساکن ہے یا متحرک؟ قرآن کیا کہتا ہے؟ از مفتی محمد تقی عثمانی

یہاں بعض ان غیر مسلموں کا اعتراض بھی دور ہوجاتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مغربی ممالک نے جن علوم وفنون کے ذریعے مادی ترقی کی ہے ان کے بارے میں قرآن نے کچھ کیوں نہیں بتایا؟اور ان لوگوں کی غلط فہمی بھی دور ہوجاتی ہے، جو ان اعتراضات سے متاثر ہو کر اس فکر میں رہتے ہیں کہ قرآن کریم سے سائنس وغیرہ کا کوئی نہ کوئی مسئلہ کسی نہ کسی طرح ثابت کیا جائے، کیونکہ اس کوشش کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص قانون کی کسی کتاب پر یہ اعتراض کرنے لگے کہ اس میں ایٹم بم بنانے کا طریقہ کیوں مذکور نہیں؟ تو اس کے جواب میں کوئی دوسرا شخص قانونی الفاظ کو توڑ موڑ کر اس سے ایٹم کی تھیوری نکالنے کی کوشش کرنے لگے، ظاہر ہے کہ یہ اس اعتراض کا جواب نہیں، بلکہ ایک مذاق ہوا، اسی طرح جو شخص قرآن کریم میں سائنس اور انجینئرنگ کے مسائل نہ ہونے پر معترض ہو، ا س کا صحیح جواب یہ نہیں ہے کہ قرآنی الفاظ کو توڑ موڑ کر اس سے سائنس کے مسائل زبردستی نکالے جائیں، بلکہ اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نہ سائنس یا انجینئرنگ کی کتاب ہے اور نہ مادی ترقی حاصل کرنے کے طریقے اس کا موضوع ہیں، چونکہ یہ ساری باتیں انسان اپنی عقل وفکر اور تجربات ومشاہدات کے ذریعے معلوم کرسکتا تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو انسان کی اپنی محنت اور کاوش اور تحقیق وجستجو پر چھوڑ دیا، اور ان باتوں کو قرآن کریم کا موضوع بنایا جو محض انسانی عقل سے معلوم نہیں ہوسکتیں، بلکہ ا س کے ادراک کے لئے وحی الٰہی کی رہنمائی ناگزیر ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں عقل وفکر اور تجربات ومشاہدات کے ذریعہ موجود ہ مقام تک پہنچ گیا، لیکن ایمان ویقین کی دولت، قلب وروح کی پاکیزگی، اعمال واخلاق کی تطہیر، اللہ کے ساتھ بندگی کا تعلق اور اخروی زندگی سنوار نے کا جذبہ جو وحی الہی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتاتھا،اور جسے قران کریم نے اپنا موضوع بنایا ہے وہ عقل وفکر کی اس حیرت انگیزتگ وتاز کے بعد بھی انسان کونہ حاصل ہوسکا ہے، اور نہ اس وقت تک حاصل ہوسکتا ہے جب تک اس معاملے میں سچے دل سے قرآن کی رہنمائی حاصل نہ کی جائے۔

 چند غلطیوں سے پرہیز!

ہماری اس گزارش کا منشا یہ ہرگز نہیں ہے کہ قرآن کریم سےسائنس کا کوئی مسئلہ اخذ کرنا علی الا طلاق جرم ہے ،ہمیں یہ تسلیم ہے کہ قران کریم میں ضمنی طور سے سائنس کے بہت سے حقائق کا بیان آیا ہے، چنانچہ جہاں اس کی کسی آیت سے کوئی واضح سائنٹفک بات معلوم ہورہی ہو اسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس معاملے میں مندرجہ ذیل غلطیوں سے پرہیز لازمی ہے:

(۱)سائنس کی جو بات قرآن کریم میں مذکور ہے وہ ضمناً مذکور ہے، اس کا اصل مقصد ان حقائق کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ کا ستحضار اور اس کے ذریعے ایمان میں پختگی پیدا کرنا ہے، لہٰذا اس بنیاد پر قرآن کریم کو سائنس کی کتاب سمجھنا یا بار آور کرنا بالکل غلط ہے۔

(۲) جہاں سائنس کے کسی مسئلہ کی مکمل وضاحت موجود نہ ہو، وہاں خواہ مخواہ الفاظ اور سیاق وسباق کو توڑ موڑ کر سائنس کی کسی دریافت پر چسپاں کرنے کی کوشش کسی طرح درست نہیں، یہ بات ایک مثال سے واضح ہوگی:

زمین ساکن ہے یا متحرک؟ قرآن کی روشنی میں

جس وقت سائنس کی دنیا میں یہ نظریہ مشہور ہوا کہ زمین اپنی جگہ ساکن ہے اور دوسرے سیارے اس کے گرد حرکت کرتے ہیں تو بعض لوگوں نے اس نظریہ کو قرآن کریم سے ثابت کرنے کی کوشش کی اور قرآن کریم کی اس آیت سے استدلال کیا گیا:

امن جعل الا رض قراراً

ترجمہ:یا وہ ذات لائق عبادت ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا۔

ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ’’جائے قرار‘‘ کا لفظ یہ بتا رہا ہے کہ زمین اپنی جگہ ساکن ہے ،حالانکہ قرآن کریم کا مقصد تو یہ بیان کرنا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑاا نعام ہے کہ تم زمین پر ڈانو ڈول رہنے کے بجائے اطمینان کے ساتھ رہتے ہو اور اس میں لیٹنے، بیٹھنے اور قرار حاصل کرنے کے لئے تمہیں کوئی تکلیف برداشت کرنی نہیں پڑتی، اب ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا زمین کی حرکت وسکون سے کوئی تعلق نہیں ،بلکہ زمین متحرک ہو یا ساکن ،یہ نعمت ہر صورت میں انسان کو حاصل ہے، اس لئے اس آیت سے زمین کو ساکن ثابت کرنا ایک خواہ مخواہ کی زبردستی ہے۔

پھر جب سائنس نے زمین کے ساکن ہونے کے بجائے متحرک ہونے کا نظریہ پیش کیا تو بعض حضرات کو یہ نظریہ بھی قرآن سے ثابت کرنے کی فکر لائق ہوئی،اور مندجہ ذیل آیت کو حرکت زمین کی تائید میں پیش کر دیا :

وتری الجبال تحسبھا جامدۃ وھی تمر مرالحساب

ترجمہ:اور تم پہاڑوں کو دیکھ کر یہ گمان کرتے ہو کہ یہ جامد ہیں، اور ی بادل کی طرح چل رہ ے ہوں گے۔

ان حضرات نے یہاں ’’تمر‘‘ کا ترجمہ ’’چل رہے ہوں گے‘‘ کے بجائے ’’چل رہی ہیں‘‘ کرکے یہ دعویٰ کیا کہ اس آیت میں زمین کی حرکت کا بیان ہے، کیونکہ پہاڑوں کے چلنے کا مطلب یہ ہے کہ زمین چل رہی ہے ،حالانکہ آیت کا سیاق وسباق (Context) صاف بتارہا ہے کہ یہ قیامت کے حالات کا بیان ہے، اور آیت کا مقصد یہ ہے کہ قیامت کے دن یہ سارے پہاڑ جنہیں تم اپنی جگہ اٹل سمجھتے ہو فضا میں بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے، لیکن قرآن کریم سے سائنس کے مسائل مستنبط کرنے کے شوق نے سیاق وسباق پر غو ر کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔

واقعہ یہ ہے کہ زمین کی حرکت اور سکون کے بارے میں قرآن کریم خاموش ہے اور پورے قرآن میں کہیں اس مسئلہ کا بیان نہیں ہے، اس لئے کہ یہ بات اس کے موضوع سے خارج ہے، نہ قران سے زمین کی حرکت ثابت ہوتی ہے نہ سکون، لہٰذا سائنس کے دلائل کے لحاظ سے اس میں سے جو نظریہ بھی اختیار کیا جائے قرآن اس میں مزاحم نہیں ہوتا، او رنہ اس سے دین وایمان کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

یہاں یہ واضح کردینا مناسب ہوگا کہ قران سے سائنٹفک مسائل مستنبط کرنے کی کوششیں بسا اوقات بڑے خلوص کے ساتھ کی جاتی ہیں، اور اس کا منشا غیر مسلموں کو یہ بتانا ہوتاہے کہ دیکھو! جو بات تم نے صدیوں کی محنت کے بعد معلوم کی ہے، وہ ہمارے قرآن میں پہلے موجود ہے، لیکن درحقیقت اگر یہ استنباط اصول تفسیر کو توڑ کر کیا گیا ہے تو یہ قران کے ساتھ نادان دوستی کے سوا کچھ نہیں، جس وقت لوگ قرآن سے زمین کا ساکن ہونا ثابت کرنا چاہ رہے تھے و، وہ بزعم خود اسے قران کی خدمت تصور کرتے تھے، لیکن اگر ان کی یہ کوشش کامیاب ہوجاتی اور عالم گیر طور پر یہ مان لیا جاتا کہ قرآن زمین کے ساکن ہونے کاقائل ہے تو آج جب کہ زمین کو ساکن سمجھنا سائنس کےنقطہ نظر سے کلمہ کفر کے مرادف ہوگیا ہے ، قرآن کے ساتھ یہ نادان دوستی کیا نتائج پیدا کرتی ہے ؟لہذا سائنس کے بارے میں جو باتیں قطعی طور سے قرآن کریم میں موجود ہیں، انہیں تو قرآن کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے،لیکن جن باتوں کی قطعی وضاحت قرآن نے نہیں کی، ان کو خواہ مخواہ اس کی طرف منسوب کرنا کل بھی غلط تھا آج بھی غلط ہے۔

ماخوذ از: علوم القرآن ، از مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:

7,397 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!