معلمہ ساجدہ عابد فاروقیؒ! ایک گمنام اور خاموش مجاہدہ

تحریر : عمر انور بدخشانی

بعض تعلق ایسے ہوتے ہیں جن سے ہمارا بظاہرکوئی رشتہ تونہیں ہوتا ،لیکن نسبت ، احترام اور شفقت کی وجہ سے ان سے جو تعلق بن جاتا ہے وہ بہت گہرا بلکہ انمٹ ہوتا ہے ، ظاہری اعتبار سے دیکھا جائے توساجدہ باجی سے راقم کے تعلق کی کوئی وجہ نہیں بنتی ، لیکن اللہ تعالی نے دو ایسے بنیادی سبب عطا فرمادیئے جن کی بدولت ناکارہ کوایک عظیم معلمہ اور شفیق خاتون کی کچھ خدمت کی توفیق عطا ہوئی ، پہلا سبب والد صاحب بنے ، غالبا یہ 1987ء کی بات ہے ،ساجدہ باجی کے ماموں معروف دینی شخصیت ڈاکٹر امجد علی صاحب زید مجدہم (بانی مدرسہ عائشہ صدیقہ ،روضہ عائشہ ومدرسہ ابن عباس)والد صاحب کے پاس قدیم روایتی طرز کے مطابق انفرادی طور پر درس نظامی کی کتب پڑھنے آیا کرتے تھے ،ان دنوں والد صاحب سبحانی مسجد پٹیل پاڑہ میں امام تھے ،پڑھائی کا وقت مغرب کے بعد کا طے تھا ، سبحانی مسجد کے صحن میں بائیں طرف برآمدہ میں مؤذن صاحب کا حجرہ تھا ، وہاں بیٹھ کر یہ دونوں حضرات درس وتدریس میں مشغول ہوجاتے ، بڑے بھائی (مفتی انس انو ر)اور راقم اس وقت حفظ کررہے تھے ، ہم وہیں ایک طرف کو بیٹھ کر اپنا سبق یاد کرتے رہتے ، لوڈ شیڈنگ کے سبب جب کبھی پٹیل پاڑہ کی لائٹ چلی جاتی تو ڈاکٹر امجد صاحب اپنی گاڑی میں ابو کو لے کر لسبیلہ چوک پر واقع جامع مسجد نعمان چلے جاتے ، وہاں لائٹ ہوا کرتی تھی ، سو وہاں ان دونوں حضرات کے درس وتدریس کا اور ہمارے سبق یاد کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ،دیکھا جائے کہ بجلی نہیں تھی تویہ اس دن چھٹی بھی کرسکتے تھے،یادیگر علمی باتوں میں بھی وقت گزار سکتے تھے ،لیکن جب حصول علم کی طلب اور جستجو ہو توکوئی چیز بھی آڑے نہیں آتی ،ڈاکٹر امجد صاحب اس زمانہ میں دن میں طبابت کے فرائض انجام دیتے تھے اور مغرب کے بعد سے لےکر عشا کے بعد تک اس طرح دینی تعلیم حاصل کرتے تھے ،مجھے یاد ہے کہ جب ہم بہن بھائیوں میں کبھی کوئی بیمار ہوجاتا تو ڈاکٹر صاحب ہمیں یہیں مسجد میں دیکھا کرتے اور دوا تجویز کردیتے ، ڈاکٹر صاحب کی طبابت اور ابو کی تدریس کے سائے تلے ہم اپنا سبق یاد کرتے رہتے ، چونکہ ساجدہ باجی ڈاکٹر امجد صاحب کی بھانجی تھیں توماموں کی وجہ سے ان کا بھی والد صاحب سے تعلق ہوگیا اور انہوں نے بھی گھر آکروالد صاحب سے پڑھنا شروع کردیا ،اصول فقہ کی دیگر کتب کے ساتھ ساتھ توضیح تلویح بھی مکمل والد صاحب سے اسی زمانے میں پڑھی، سوڈاکٹرامجد علی صاحب اور ان کی بھانجی سے تعلق کے پہلے سبب کا پس منظریہ تھا۔

تعلق کا دوسرا سبب توآگے آئے گا، یہاں ان دونوں شخصیات کا کچھ تعارف قارئین کے علم میں لاناضروری ہے ،ڈاکٹر امجد علی صاحب پاکستان کےچوتھے وزیر اعظم چوہدری محمد علی کے صاحبزادے اور ساجدہ باجی ان کی نواسی ہیں،وزیر اعظم پاکستان کے ایک بیٹے خالد انور ہیں،جو ملک کے ممتاز وکیل اور قانون دان ہیں ،دوسرے بیٹے ڈاکٹر امجد علی صاحب ہیں جن کی ابتدائی یا بنیادی تعلیم تو ڈاکٹری کی تھی ، تاہم اللہ تعالی نے انہیں توفیق دی اور پھر انہوں نے اپنی بقیہ پوری زندگی دعوت وتبلیغ اور علوم قرآن وسنت کے لیے وقف کردی ، اورشاید انہیں سے متاثر ہوکر ساجدہ باجی نے بھی اسی طرف رخ کیا ،ان دونوں کی زندگی میں اللہ تعالی نے یہ انقلاب لکھا تھا،جو آگے جاکر کئی گھراورخاندانوں میں انقلاب اور تبدیلی کا باعث بنا،استاذ محترم حضرت مولانا عطاء الرحمن شہید ؒکے بقول حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ(مفتی اعظم پاکستان) فرماتے تھے کہ جو بچہ مکتب جاکر صرف نورانی قاعدہ بھی پڑھ لے تو ان شاء اللہ وہ کبھی بے دین نہیں ہوگا،سو اس خوشگوارتبدیلی اور انقلاب کی بنیادشاید وزیراعظم پاکستان چوہدری محمد علیؒ نے رکھ دی تھی ،انہوں نے تقسیم سے قبل درس نظامی کی کچھ کتابیں بھی پڑھی تھیں ،پھربعد میں پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، برطانوی حکومت کے دوران میں ان کا شمار اعلیٰ مسلمان سول سرونٹس میں ہوتا تھا، پاکستان کے قیام کے بعد آپ کو نئی مملکت کا جنرل سیکریٹری بنایا گیا اور بعد میں وزیر خزانہ، اور پھر وزیر دفاع ،اور1955ء میں وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے، آپ کی سب سے بڑی کامیابی پاکستان کے لیے پہلا آئین بنانا تھے جو 1956ء میں نافذ ہوا،انہوں نے تحریک پاکستان کے موضوع پر Emergence of Pakistan کے نام سے ایک کتاب بھی تحریر کی تھی جس کا ترجمہ ’’ظہور پاکستان‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکا ہے، چوہدری محمد علی ؒکا محدث العصر حضرت بنوری رحمہ اللہ سے بھی کافی تعلق تھا ، غرض ماموں اور بھانجی دونوں ضابطہ کی عصری تعلیم مکمل کرنے کے بعد قرآن وسنت کے علوم کی طرف راغب ہوئے ،اورپھراسی کی اشاعت کو انہوں نے اپنامقصد زندگی بنالیا ۔

اللہ تعالی نے ساجدہ باجی سے آگے چل کرخواتین کی دینی تعلیم وتربیت کا بہت بڑاکام لینا تھاسو اس کی تیاری کے لیے بندوبست بھی فرمادیا، ساجدہ باجی نے پاکستان کے نامی گرامی اساتذ ہ وعلماء سے مختلف علوم کی کتابیں پڑھیں اوراستفادہ کیا ،جن میں حضرت مولانا عبد الرشید نعمانی رحمہ اللہ ، استاذ محترم حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب زید مجدہم ، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم اور والد محترم حضرت مولانا محمد انور بدخشانی زید مجدہم سے راقم واقف ہے ،شادی اور بچوں کے بعد گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ تعلیم کا حصول انتہائی مشکل ترین کام ہے ، لیکن ساجدہ باجی چونکہ اس کا عزم کرچکی تھیں اس لیے نہ صرف انہوں نے اکابر علماء سے ان کے گھر جاکربھرپور استفادہ کیا ، بلکہ مؤخر الذکر تین حضرات سے اپنی زندگی کے آخر تک مستقل رابطہ میں بھی رہیں ،علوم قرآن وسنت کی آبیاری میں ساجدہ باجی اپنی استطاعت اور کوشش کے ساتھ گویا امہات المؤمنین کی سنت پر عمل پیرا تھیں،انہوں نے حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب زیدمجدہم سے پابندی کے ساتھ ان کے گھر جاکر تخصص فی الفقہ والافتاء کا نصاب بھی پڑھا ، لیکن اس بات کا کبھی چرچا یا تذکرہ نہیں کیا ،خود کہا کرتی تھیں کہ یہ کوشش مفتی بننے کے لیے نہیں ، بلکہ خواتین کو بہت سے مسائل کی رہنمائی کرنی ہوتی ہے اس سلسلہ میں میرے لیے مفید اور معاون ہوگا، دوسری طرف ڈاکٹر امجد صاحب نے درس نظامی کی کتب انفرادی طور پر پڑھیں اور پھر موقوف علیہ اور دورہ حدیث جامعہ بنوری ٹاؤن سے بطور سامع شریک رہ کر مکمل کیا، خیردینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی زمانے میں ڈاکٹر امجد علی صاحب نے مختلف علماء کرام کے مشورے سے کراچی میں خواتین کی دینی تعلیم کے لیے مدرسہ عائشہ صدیقہ کی بنیاد رکھی توان کی بھانجی یعنی ساجدہ باجی اس مدرسہ کی معلمہ بھی تھی اورمنتظمہ بھی ،کراچی شہر میں خواتین کے لیے مستند اور معیاری دینی تعلیمی اداروں میں یہ اولین مراکز میں سے تھا ، مدرسہ عائشہ صدیقہ کے ابتدائی زمانہ میں ڈاکٹر صاحب اور ساجدہ باجی کی خواہش اور اصرار پر والد صاحب بھی کچھ سال وہاں تدریس فرماتے رہے ۔

ساجدہ باجی سے راقم کے تعلق کا دوسرا سبب یہاں سے شروع ہوتا ہے ، مدرسہ عائشہ صدیقہ کے ابتدائی زمانہ میں ہی والد صاحب نےباجی یعنی بڑی بہن (اہلیہ مفتی یحییٰ عاصم)کو دینی تعلیم کے لیے وہاں داخل کرادیا ،ہم اس وقت بہت چھوٹے تھے ، بڑی بہن مدرسہ عائشہ اورساجدہ باجی کا گھر میں اکثرتذکرہ رہتی تھیں،اور بہت عقیدت اور ذوق وشوق سے کرتی تھیں ، صرف بڑی بہن ہی نہیں ساجدہ باجی کی جتنی بھی شاگردات ہوتی تھیں ان کے لیے ساجدہ باجی کی شخصیت ہی آئیڈیل شخصیت تھی ،اور شاید ساجدہ باجی کا تعلق ہر ایک کے ساتھ ایسی نوعیت اور انداز کا ہوتا تھا جس سے ہر ایک کو یہی محسوس ہوتا تھا کہ باجی کا زیادہ تعلق مجھ سے ہے ،غرض پہلے والد صاحب ،پھر بڑی بہن کی تعلیم ان دونوں وجہ سے ساجدہ باجی کا والدہ مرحومہ سے بھی کافی تعلق ہوگیا تھا ، بڑی بہن کی تعلیم کے دوران کی بات ہے ، امی نے محسوس کیا کہ بچیوں کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ امور خانہ داری کی سمجھ بوجھ بھی انتہائی ضروری ہے ، چنانچہ امی نے ساجدہ باجی سے کہاکہ آپ بچیوں کی دینی تعلیم کے حوالے سے توبہترین خدمات انجام دے رہی ہیں تاہم ان بچیوں کو گھریلو امور سے واقفیت اور دل چسپی بھی ضروری ہے ،تاکہ شادی کے بعد انہیں کوئی مشکل اوربوجھ نہ ہو،سو اس حوالہ سے بھی آپ کو بہت زیادہ نہ سہی تھوڑے بہت ضروری اقدامات توکرنے چاہیے ، ساجدہ باجی کو امی کا مشورہ بہت پسند آیا اورانہوں نے اس کے فورا بعد سے ہی مدرسہ اور درس گاہوں کی صفائی اوراس جیسے دیگر امور کے لیےطالبات کی باری مقرر کردی ،ساجدہ باجی اس کے علاوہ دیگر امور میں بھی والدہ صاحبہ سے وقتا فوقتا مشورے کرتی رہتی تھیں ۔

وہ اگرچہ بڑی بہن کی معلمہ تھیں ، لیکن ان کا تذکرہ اتنی عقیدت سے ہوتا تھا کہ ہم بھی انہیں گویا اپنامعلمہ سمجھنے لگے تھے ،بڑی بہن کا اپنے زمانہ طالب علمی میں ساجدہ باجی سے جوعقیدت ومحبت کا تعلق قائم ہوا وہ آخری وقت تک مستقل پروان چڑھتا رہا ، اورانہوں نے معلمہ اورباجی کی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ،تفصیل کا یہاں موقع نہیں ، تاہم ایک فرمانبردار شاگردہ کو اپنی معلمہ کی خدمت کاحتی المقدور جس طرح حق ادا کرنا چاہیے بڑی بہن ہمیشہ وہ انجام دینے کی کوشش کرتی رہیں ، ہسپتال جانے سے قبل گھر میں آخری رات بڑی بہن کواپنی معلمہ اور استانی کے لیے پرہیزی کھانا بنا کر لے جانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ، چیک اپ کے لیے گھر پر ڈاکٹر کا بھی بندوبست کرنا تھا،سوڈاکٹر قمر الدین خالد صاحب کو بھی ساجدہ باجی کےگھر بلوالیا،ڈاکٹر خالد صاحب نے فوری ہسپتال ایڈمٹ ہونے کا مشورہ دیا، ساجدہ باجی کی طبیعت کافی ناساز تھی ، بڑی بہن نے اپنی نگرانی میں انہیں کھانا کھلایا اورباجی کو ہسپتال جانے کے لیے رضامند کیا، ساجدہ باجی علاج میں سنت سے ثابت شدہ علاج اور ذرائع کو ترجیح دیا کرتی تھیں ،اس کے بعد طب یونانی کی دوائیں یاآسان مفید گھریلو ٹوٹکے استعمال کیا کرتی تھیں ، ہسپتال یا ایلوپیتھک دواؤں سے اجتناب کرتی تھیں ، اورپوچھنے والوں کو بھی اسی نوعیت کے مشورے دیا کرتی تھیں،بڑی بہن نے ساجدہ باجی کو ہسپتال جانے کے لیے بڑی مشکل سے رضامند کیا اوراس کے لیے متعلقہ اقدامات بھی سر انجام دیے ،وفات کے بعد بڑی بہن اور دیگر شاگردات کو معلمہ صاحبہ کے تجہیز وتکفین کی سعادت حاصل ہوئی، کچھ سال قبل بڑی بہن کا آپریشن تجویز ہوا، ساجدہ باجی اپنی شاگردہ کے ساتھ خود ہسپتال تشریف لے گئیں، اورماں ہونے کا حق ادا کیا،غرض بڑی بہن اور ساجدہ باجی دونوں کا ایک دوسرے سے بہت گہرا تعلق تھا، بہرحال ! یہ دو بنیادی سبب تھے جن کی وجہ اس ناکارہ کوساجدہ باجی کی شفقتیں نصیب ہوئیں ، ان سے رشتہ اور احترام کا تعلق بالکل معلمہ اوراستانیوں جیسا ہی تھا،اور وہ بھی راقم کے ساتھ بیٹوں جیسا معاملہ فرماتی تھیں ۔

ساجدہ باجی علم وعمل کا پیکر تھیں ، تدریس و تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے معمولات کی بہت زیادہ پابند،اور اپنے وقت کوتول کر استعمال کرنے والی تھیں،وقت کا ضیاع ان کے ہاں نہیں تھا ، دن میں مدرسہ عائشہ یا روضہ عائشہ کی نگرانی ، اس کے علاوہ اوقات میں گھریلوذمہ داریاں ، اپنے معمولات کا اہتمام اور پھر مختلف کتب مطالعہ ، اس دوران وہ کتنے لوگوں کے فون پر مسائل حل کرتیں، سوالات کا جوابات دیتیں ،شرعی مسائل کے جواب اور فتوی چاہیے ہوتا تو اس ناکارہ کو پیغام مل جاتا کہ فلاں مسئلہ کے متعلق بنوری ٹاؤن اور دار العلوم کا کیا فتوی ہے ، مجھے بھیج دیں ، کسی کی پریشانی یا ضرورت سنتی تو اس کی حتی الامکان مدد کی کوشش کرتی ، بہت سے گھروں کی وہ کفالت انجام دے رہی تھیں،ہر ایک کی ضرورت اور پریشانی کو ایسے سنتی اور اس کے لیے فکر مند ہوجاتیں جیسے ان کی اپنی ہو ،نفع رسانی ان کا خاص شیوہ تھا، اورحدیث مبارک :خیر الناس من ینفع الناس (بہترین انسان وہ ہے جس کا وجود دوسرں کےلیے نافع اورفائدہ مند ہو) کا مصداق تھیں ، ایک مرتبہ ان کے موبائل میں کچھ خرابی ہوگئی ، بندہ کو بلایا اور فون بھجوادیا تاکہ وہ مسئلہ حل کردیا جائے ، اس تھوڑی دیر کے دوران پتہ نہیں اَن گنت بار مختلف نمبروں سے انہیں کالز آتی رہیں ، میں حیران تھا کہ ساجدہ باجی اپنی ذمہ داریوں اور مصروفیات کے ساتھ ساتھ یہ تمام فون کالز بھی سنتی ہیں اورپھر ان کے متعلق اقدامات بھی کرتی ہیں،موبائل فون کے استعمال کے لیےان کا خاص وقت مقرر تھا ، اس کے بعد پھر وہ اپنا موبائل بند کردیا کرتی تھیں ، ان کی شاگردات ملک کے طول وعرض میں تو پھیلی ہوئی ہیں ، اس کے علاوہ بہت سی شاگردات وہ بھی ہیں جو بیرون ملک رخصت ہوگئیں ، تقریبا اکثر ساجدہ باجی سے مشورہ میں رہتیں ، جو جہاں جس نوعیت میں بھی دینی خدمت انجام دے رہی ہوتی وہ اپنے تمام معاملات کے متعلق ساجدہ سے مکمل مشورہ میں رہتیں اور باجی سب کوبحسن وخوبی نہ صرف جواب دیتی بلکہ اپنی ذات سے جس حد تک بھی ان سے بن پڑتا اس سے دریغ نہ فرماتیں، اپنے متعلقین اور پوچھنے والوں کو ڈاکٹر یا حکیم کی رہنمائی کرنا اوراس سلسلہ میں جو بھی کارروائی کرنی ہو باجی اس کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھ کر پوری کرتی تھیں ، جامعہ بنوری ٹاؤن کے قریب ایک ماہر حکیم صاحب ہوتے ہیں ،باجی علاج کے لیے مختلف لوگوں کو ان کے پاس بھیجا کرتی تھیں ، اس سلسلہ میں وہاں نمبر لینا ہو ، یا مریض کوجلدی دکھوانا ہو تو اس کے لیے وہ مجھ سے رابطہ کرتیں اورحکم دیتیں کہ فلاں صاحب وہاں مطب میں بیٹھے ہوئے ہیں ، ان کانمبر جلد آجائے اس سلسلہ میں کوشش کریں ، پھر صرف ظاہری علاج اور اسباب ہی نہیں ، بلکہ مریضوں اور پریشان حالوں کے لیے مستقل دعائیں اورختم خواجگان وغیرہ کرانے کا بھی اہتمام کراتیں،باجی اس قسم کی معاونت صرف اپنے رشتہ دار یا متعلقین ہی نہیں بلکہ جو لوگ دور کے ہوتے یا کسی واسطہ سے ہوتے ان کے ساتھ بھی بالکل اسی طرح مدد اور تعاون کررہی ہوتیں جیسے ان کے اپنے ہی گھر کا کوئی فرد ہو،اپنے ذاتی کاموں میں تو وہ تاخیر دیرسویر برداشت کرلیا کرتی تھیں ، لیکن دوسروں کے کاموں میں انہیں اس طرح جلدی ہوتی تھی جیسے گویا یہ ان کا ذاتی کام ہو ۔   

مسنون روزوں کا بہت زیادہ اہتمام کرتی تھیں ،شایداسی وجہ سے انہوں نے راقم کی یہ ذمہ داری لگارکھی تھی کہ چاند کے مہینہ کی ۲۹ کو انہیں اطلاع بھیج دیاکروں کہ چاند نظر آگیا ہے یا نہیں ؟ سو ہر ماہ کی ۲۹ تاریخ کو بندہ اس کا اہتمام کرتا تھا ، جیسے ہی چاند سے متعلق کوئی مستندخبر ملتی باجی کو بھیج دیتا ، جہاں مجھے تاخیر ہوجاتی یا بھول جاتا تو باجی کا پیغام موصول ہوجاتا کہ آپ نے ابھی تک چاند کا نہیں بتایا، جس حد تک راقم نے جانا اور سمجھا ان کے شوق کا واحدمحور کتابوں کا مطالعہ تھا ،ان کی دل چسپی کے موضوعات تفسیر قرآن،حدیث، فقہ اور تزکیہ وتصوف تھے ،قرآن وسنت سےانتہائی شغف تھا،جس کے نتیجہ میں فقہ ظاہر اورفقہ باطن دونوں کی اہمیت سے واقفیت کے ساتھ ساتھ ان پر عمل پیرا بھی تھیں ،سب سے پہلے وہ اپنے استاذ محقق عصر حضرت مولانا عبد الرشید نعمانی رحمہ اللہ سے بیعت ہوئیں ، ان کے انتقال کے بعد حضرت سید نفیس الحسینی رحمہ اللہ سے اصلاحی تعلق قائم کیا ، ان کی وفات کے بعد شام سے تعلق رکھنے والے شاذلی سلسلہ کے ایک بزرگ عالم شیخ عبد الرحمن الشاغوری کے خلیفہ شیخ نوح حامیم کیلر (shaikh nuh ha mim keller)سےبیعت ہوگئیں ،اپنے ہر شیخ سے انتہائی عقیدت رکھتی تھیں ،غالبادویاتین سال قبل شیخ نوح جب کافی طویل عرصہ بعد پاکستان آئے تو ساجدہ باجی کی بہت زیادہ خواہش اور اصرار تھا کہ یہ ناکارہ بھی شیخ نوح کی مجالس میں شریک ہواوراستفادہ کرے،باجی کی خواہش کا احترام غالب آیا اوراپنےایک استاذ محترم سے مشورے کے بعد شیخ نوح کی مجالس میں شرکت کا موقع ملا ،شیخ نوح کا اپنے حلقہ ارادت سے وابستہ افراد کے لیےاسلام آباد میں یہ دو دن کا اجتماع تھا اور بہت زیادہ منظم انداز میں تھا ، پردے کا مکمل انتظام تھا ، موبائل فون ،تصاویر اور ویڈیوز پر سختی کے ساتھ مکمل پابندی دیکھ کر خوش گوار حیرت کا احساس ہوا ،تمام شرکاء کے لیے سنت لباس میں حاضری ضروری تھی ، ساجدہ باجی کی برکت سے شاذلی سلسلہ کے دو مشہور وظیفے’’دلائل الخیرات ‘‘اور ’’حزب البحر ‘‘کی اجازت بھی شیخ نوح سے حاصل ہوگئی، اس کے بعد باجی نے مجھے شیخ کی بعض انگریزی کتابیں بھی بھجوائیں کہ بندہ ان کومطالعہ میں رکھے، حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی اصطلاح ’’محقق ‘‘ (جامع شریعت وطریقت)کا وہ صحیح مصداق تھیں ، یعنی ایک طرف ان کی دل چسپی کا موضوع فقہ اسلامی تھا ، اور مولانا عبد الرشید نعمانی رحمہ اللہ کی صحبت سے فقہ حنفی پر مکمل یکسوئی اورانشراح کے ساتھ کاربند تھیں ، دوسری طرف فقہ باطن یعنی تزکیہ وسلوک کی راہ پر بھی عمل پیرا تھیں ، انہوں نے ان دونوں حوالوں سے کبھی بھی انفرادیت یاخود رائی کو اختیار نہیں کیا،چاہے ذاتی انفرادی معاملات ہوں یا مدرسہ کے اجتماعی امور ، وہ ہمیشہ اپنے اساتذہ اور شیوخ سے پوچھ کر قدم اٹھاتیں اوراسی وجہ سے ان کے عمل میں اللہ تعالی نے بہت برکت عطا فرمائی۔

انہیں قرآن کریم سے صحیح معنوں میں عشق تھا ،اس کی تلاوت کا بہت اہتمام کرتی تھیں ،اوراچھے قاری کا قرآن کریم بھی ذوق شوق سے سنا کرتی تھی ، ساجدہ باجی نے قرآن کریم بہت بعد میں جاکر حفظ کیا ،ان کا یہ عمل دل چسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی ، قاری محمد علی مدنی ؒ کا شمارہمارے ملک کے ممتازقاریوں میں ہوتا ہے ،ایک طویل عرصہ تک وہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے دورہ حدیث میں دس روزہ تراویح پڑھاتے رہے ، قرآن کی برکت اورجامعہ کی نسبت کی وجہ سے اللہ تعالی نے انہیں قبولیت عطا فرمائی، کافی عرصہ قبل باجی کا یہ معمول تھا کہ وہ مدرسہ آنے جانے کے دوران اکثر وبیشتر ان کی تلاوت سنتی رہتی ، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے اس طرح سن سن کر قرآن کریم مکمل حفظ بھی کرلیا ،انسان کا عزم ارادہ پختہ ہواورمحنت کرے تواللہ تعالی کی طرف سے مدد بھی ہوتی ہے ،بڑی عمر میں اتنی ہمہ جہت مصروفیات کے ساتھ قرآن کریم حفظ کرلینایہ قرآن ہی کا معجزہ ہےاوران کی استقامت کی برکت ہے،تلاوت کے ساتھ ساتھ تعلیم قرآن پر بھی ان کی مکمل توجہ تھی ، انہوں نے تفسیر کا کچھ منتخب حصہ والد صاحب سے بھی پڑھا تھا، پھر خود تفسیر کا درس بھی بہت ذوق وشوق سے دیا کرتی تھیں ، قرآن کے نام سے جوجدید فتنے پھیل رہے تھے باجی کی ان پر مکمل نگاہ تھی اور اس حوالہ سے وہ سنی سنائی بات آگے بڑھانے کے بجائے پوری تحقیق سے پڑھ کر یا خود سن کر اس گمراہی کے متعلق خواتین کی اصلاح فرماتی،باجی کی تاکید تھی کہ اس حوالہ سےجو بھی مستند کتاب یا مضمون ہوں ان تک پہنچاؤں ،دینی ودنیاوی ہر طرح کے معاملات میں وہ آزادی اورخود رائی سے سخت متنفر تھیں ،قرآن کے ساتھ ان کا عشق تھا جس کی وجہ سے سننے والی خواتین پر ان کی بات کا بہت اثر ہوتاتھا،اللہ تعالی نے انہیں تفسیر قرآن پڑھانے کا خاص ملکہ اوراسلوب عطا فرمایا تھا، اپنی شاگردات کو بھی تفسیر قرآن پڑھانے کی تربیت دیا کرتی تھیں، انہیں عربی ،اُردو ، اورانگریزی تینوں زبانوں پر تحریر وتقریر دونوں اعتبار سے بھرپور قدرت حاصل تھی، مختلف احوال کے اعتبار سے تینوں زبانوں میں تدریس بھی فرماتیں رہیں۔

علمی، تحقیقی کتابوں کے مطالعہ کا انہیں بہت شوق تھا ، اپنی تمام گھریلو ، تدریسی و انتظامی مصروفیات کے باوجود انہیں کسی بھی مفید کتاب کا پتہ لگتا تو اسے فوری منگواکر جب تک اس کا مکمل مطالعہ نہ کرلیتیں انہیں آرام نہ ملتا ،ان کی دل چسپی کے موضوع پر کسی بھی کتاب کا انہیں علم ہوتا تو بندہ کو کہہ دیتی کہ فلاں کتاب مجھے پہنچادیجیے ، مجھے یاد ہے،ابھی چند ماہ قبل کی بات ہے ، راقم نے انہیں مطلع کیا کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی مشہور کتاب ’’حقیقۃ الطریقۃ من السنۃ الانیقۃ‘‘ شیخ یوسف طلال علی صاحب کے انگریزی ترجمہ (A sufi study of hadith)کے ساتھ شائع ہوگئی ہے ، یہ کتاب ان لوگوں کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتی ہےجو تزکیہ و تصوف کو قرآن وسنت کے خلاف یا متوازی سمجھتے ہیں، حضرت تھانویؒ نے اس کتاب میں تقریبا سواتین سو احادیث سے تصوف وتزکیہ کے مختلف مسائل اور جزئیات کو ثابت کیا ہے، تزکیہ و تصوف کے موضوع سے باجی کو خاص شغف تھا ، اور مذکورہ کتاب کا انگریزی ترجمہ انگلینڈ سے شائع ہوا تھا ، باجی نے کسی ذریعہ سے وہ کتاب فورامنگوائی جو کچھ ہی دنوں میں پہنچ گئی،غالبا ایک ہفتہ میں ہی انہوں نے اس ضخیم کتاب کا مطالعہ مکمل کرلیا ، اوربہت خوشی کا اظہارکیا ، چونکہ بعض ایسے عناصر ہیں جو تزکیہ واخلاق کی اسلامی تعلیمات کے منکر ہیں ،ساجدہ باجی کو بھی ایسی گمراہ فکر رکھنے والی خواتین سے واسطہ پڑ جاتا تھا ،اور یہ کتاب ان لوگوں کے لیے بہترین تھی جو تزکیہ وسلوک پر معترض یا انکاری ہیں ،کسی بھی مفید کتاب کا علم ہونے کے بعد باجی اسے اپنے قریبی حلقہ احباب میں اسے تقسیم بھی کرتی تھیں ، سو اس کا مطالعہ کرکے راقم سے کہا کہ مجھے اب اس کی اصل اردو کتاب بھی درکار ہے مجھے وہ بھی پہنچادیجیے ،اس ناکارہ کو اللہ تعالی نے بیان القرآن اور تفسیر عثمانی کی بدولت کچھ خدمت قرآن کی توفیق عطا فرمائی ،اور’’آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی‘‘ شائع ہوئی تو ساجدہ باجی بہت زیادہ خوش ہوئیں ، راقم کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی فرمائی، کہنے لگیں کہ بیان القرآن جیسی علمی تفسیر کو آسان کرکے پیش کرنے کی بہت زیادہ ضرورت تھی ،آپ نے ظاہری اور باطنی دونوں اعتبار سے اچھی کوشش کی ،آسان بیان القرآن کے بیسیوں نسخے باجی نے اپنے متعلقین اور حلقہ احباب میں تقسیم کرنے کے لیے منگوائے ،کتابوں سے شغف اورشوق کا یہ عالم تھا کہ نادر ونایاب کتابوں کے حصول کے لیےساجدہ باجی نے عرب ممالک کے سفر بھی کیے ، غرض کتابوں سے متعلق اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔

کتابوں کے مطالعہ میں وہ کتابوں کے نفیس اوراچھے نسخہ کا بھی خاص ذوق رکھتی تھیں ، کتنی بار مختلف کتابیں مجھ سے منگوائیں ،صرف اس وجہ سے کہ اب فلاں کتاب کا زیادہ اچھا یا نیا ایڈیشن آگیا ہے تو مجھے وہ پہنچادیجیے ، پرانا نسخہ میں نے مدرسہ کی لائبریری میں جمع کرادیا ہے ،کتاب اورنسخہ کی نفاست کےحوالے سے باجی کے ماموں ڈاکٹر امجد علی صاحب بھی یہی ذوق رکھتے ہیں ، اورشاید انہی دونوں کے اس عمدہ ذوق کی بدولت ہی مکتبہ ’’البشری ‘‘ کی بنیاد پڑی ، آج مکتبہ البشری کی عمدہ اور معیاری کتابیں نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا میں مقبول ہیں ، اس کے پیچھے یقینا ان دونوں کی سوچ فکر کارفرما ہے ،البشری کے بالکل ابتدائی زمانہ میں ڈاکٹر امجد علی صاحب ہی اس کے نگران تھے ، انہی کی کوشش اور کاوش سے اس کا آغاز ہوا تھا ، اوراس ابتدائی زمانہ میں ڈاکٹر امجد علی صاحب اور ساجدہ باجی کی خواہش پر والد صاحب ہفتہ میں کچھ مخصوص دن وہاں پابندی سے تشریف لے جاتے تھے اور تصنیف وتالیف کے امور میں ہدایات وسرپرستی انجام دیا کرتے تھے ،البشری کی اشاعتی خدمات یقینا ان حضرات کے لیے بھی صدقہ جاریہ ہے ،تمام تر تعلیمی ، تبلیغی ،تدریسی اورتالیفی مصروفیات کے باوجود وہ عالم اسلام اور پاکستان کے حوالہ سے بھی باخبر رہتی تھی اور فکر مند بھی ، کوئی بھی خبر انہیں پتہ چلتی تو مجھے بھیج کر اس کے متعلق تصدیق طلب کرتیں اوراس حوالہ سے اپنےخدشات اور رائے کا بھی اظہار فرماتیں ، امت مسلمہ کے حوالہ سے جوبھی پریشان کن خبر ان کے علم میں آتیں توخاص ایسے موقع پر ان کی’’ فاروقی ‘‘نسبت کے اثرات ان کے لہجے اور گفتگو میں نمایاں طور پرظاہر ہوجاتے،پاکستان اور بلکہ دیگر ممالک میں موجود امت مسلمہ کی مالی امداد اور تعاون میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں ۔

ساجدہ باجی کے مزاج اورزندگی میں انتہائی سادگی تھی ، شہرت پسندی ، نام ونمود سے کوسوں دور رہتی تھیں ، کتنے ہی بڑے بڑے کام اور دینی خدمات انہوں نے انتہائی گمنامی کے ساتھ سرانجام دیں ،مدرسہ عائشہ ہو یا روضہ عائشہ ، لیکن کہیں پر بھی اپنا نام رسمی یا ضابطہ کے طورپر بھی ظاہر نہ کیانہ ہونے دیا،کتنی کتابیں ان کی زیر نگرانی شائع ہوئیں ، یا وہ ان کتابوں کی بنیادی وجہ اورسبب تھیں ، لیکن اپنا نام وہ اخفا میں رکھتیں ، لسان القرآن ومفتاح(عربی -انگریزی )، یا تفسیر عثمانی انگریزی اوراسی طرح دیگر کئی کتب جن میں باجی نے بہت محنت کی ، ان کا کافی وقت صرف ہوا ،ان پرانہوں نے اپنا نام نہ لکھا،لسان القرآن پہلے مدرسہ عائشہ سے ہی شائع ہوتی تھی ، ساجدہ باجی کو ہمیشہ اس کی بھی فکر رہتی کہ یہ اعلی اور معیاری چھپی ،اسی طرح تفسیر عثمانی انگریزی کی اشاعت ،طباعت اور ترجمہ میں باجی نے بنیادی کردار ادا کیا، بلکہ تفسیر عثمانی انگریزی کی خدمت میں ساجدہ باجی نے راقم کو بھی شامل کیا ، اس عظیم کام میں ان کے مدرسہ کے بھی کئی افراد شامل تھے ،کچھ کام بندہ کے ذمہ بھی تھے ،اس سلسلہ میں بھی ساجدہ باجی سے مستقل رابطہ رہتا اور وہ بندہ کی سستی اور کوتاہی برداشت کرتی رہیں، عربی زبان میں معاملات جیسے دقیق مسائل پر بیوع العینۃ والآجال ساجدہ باجی کی فقہی علمی ذوق کا اعلی شاہ کار ہے ۔

باجی کی خواہش اور دعا تھی کہ ان کا بلاوا شب جمعہ میں آئے ،سو اللہ نے ان کی یہ خواہش اور دعا بھی ایسی قبول فرمائی کہ عمر نبوی یعنی 63 سال کی عمر میں شب جمعہ میں اللہ تعالی نے انہیں اپنے پاس بلالیا، شہادت کادرجہ اور شب جمعہ کی فضیلت انہیں حاصل ہوگئی ، ایک ہمہ جہت،بھرپور اور مصروف زندگی کی تھکن کے بعد اللہ تعالی نے انہیں اس پرفتن وآزمائش دنیا سے اپنے پاس بلاکر سکون راحت عطافرمادی ، جو چلا گیا وہ فتنوں سے راحت پاگیا ، اور جو ہیں ان کا امتحان جاری ہے ،ان کی زندگی بامقصد تھی ، جو بیج مدرسہ عائشہ کی صورت میں انہوں نے بویا تھا وہ اب روضہ عائشہ ، مدرسہ ابن عباس اورالبشری کی صورت تناور درخت بن چکا ہے ،ان کی شاگردات نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی اپنی اپنی حیثیت میں رہتے ہوئے دین کی خدمات انجام دے رہی ہیں ، ساجدہ باجی کی زندگی آخری پینتیس سال اسی جدوجہد میں گزرے ، اور انہوں نے امت کو ایسی مائیں تیار کرکے دیں جن کافیض نسلوں جاری رہے گا،وہ اپنے متعلقین کے لیے بالکل ماں کا درجہ رکھتی تھیں ،اوراسی طرح پیش بھی آتی تھیں، نجانے اپنے بعد کتنے لوگوں کو یتیم چھوڑ گئیں ،جامعہ دارالعلوم کراچی میں جمعہ کے اجتماع میں ان کے استاذ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ، پی ای سی ایچ ایس قبرستان میں انہیں اپنے نانا کے مرقد کے قریب دفن کیا جارہا ہے ، تمام حاضرین کی آنکھیں اشکبار ہیں ، ایسے میں ساجدہ باجی کی شاگردہ یعنی بڑی بہن کے بیٹے عبدالرحمن ، یمان ،صفوان اور راقم کے بیٹے ہشام اور یوسف ساجدہ باجی کی قبر پر مٹی ڈال رہے ہیں ،میرے دل دماغ میں گزشتہ پینتیس سالوں کی باتیں ،یادیں اور واقعات گردش کرنے لگے، میں شاید یوسف جتنا ہی تھا جب ساجدہ باجی پہلی بار ہمارے گھر تشریف لائیں تھیں ،اپنے بھانجوں اور بچوں کوان کی مرقدپر مٹی ڈالتا دیکھ کر دل ہی دل میں سوچ رہا ہوں کہ یہ وہ ایمانی نسبت اور تعلق کا بیج ہےجو ساجدہ باجی لگاکر ہم سے رخصت ہوگئیں۔

یادیں اور باتیں بے شمار ہیں ،اسی پر اکتفا کرتاہوں ، ان کی یادوں ،باتوں اوراحسانات کا قرض ہے ، جسے اتارنا شاید ناممکن ہے ،اللہ تعالی ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور ہمیں ان کی طرح بامقصدزندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین ۔

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

12,621 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!