صحیح بخاری پر عدم اعتماد کی گمراہ کن تحریک ، جواب از مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ
سوال
محترمی ومکرمی جناب مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب مسئلہ یہ ہے کہ صحیح بخاری کی روایات واسناد پر عدم اعتما دکی تحریک چل رہی ہے اس تحریک کے پس پردہ جو لوگ ہیں اس کی تفصیل وفہرست خاصی طویل ہے بہرحال نمونے کے طور پر صرف ایک مثا ل پیش کرتا ہوں ۔ادارہ فکر اسلامی کے جنرل سیکریٹری جناب طاہر المکی صاحب ،جناب عمر احمد عثمانی صاحب کی کتاب ’’رجم اصل حد ہے یا تعزیر‘‘کے تعارف میں لکھتے ہیں :
’’اہل حدیث حضرات کے علاوہ دوسرے اسلامی مکاتب فکر خصوصا احناف کا امام بخاری کی تحقیقات کے متعلق جو نقطہ نظر رہا ہے وہ مولانا عبدالرشید نعمانی مدرس جامعہ بنوری ٹائون ،علامہ زاہد الکوثری مصری اور انورشاہ کشمیری کی کتابوں سے ظاہر ہے ۔مولاناعبدالرشید نعمانی کی تحقیقات سے صرف ایک اقتباس ملاحظہ ہو:’’کیا دوتہائی بخاری غلط ہے ‘‘؟علامہ مقبلی اپنی کتاب ’’الارواح النوافخ ‘‘میں لکھتے ہیں: ایک نہایت دیندار اور باصلاحیت شخص نے مجھ سے عراقی کی’’ الفیہ‘‘(جواصول حدیث میںہے) پڑھی اور ہمارے درمیان صحیحین کے مقام ومرتبہ خصوصا بخاری کی روایات کے متعلق بھی گفتگو ہوئی… تو ان صاحب نے نبی اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کوخوا ب میں دیکھا اور آپ صلی اﷲعلیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اس کتاب یعنی خصوصا بخاری کی کتاب کے متعلق حقیقت امر کیا ہے ؟آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا:’’دوتہائی غلط ہے‘‘خواب دیکھنے والے کا گمان غالب ہے کہ یہ ارشاد نبوی صلی اﷲعلیہ وسلم بخاری کے راویوں کے متعلق ہے یعنی ان میں دو تہائی راوی غیر عادل ہیں کیونکہ بیداری میں ہمارا موضوع بحث بخاری کے راوی ہی تھے ‘‘۔واللہ اعلم(۱)۔
اس اچھوتی اور نادر روزگار دلیل پر طاہر مکی لکھتے ہیں :
’’یہ ہے بخاری کے فنی طور پر سب سے زیادہ صحیح ہونے کی حقیقت،اس کو ایڈٹ کرنے میں مولانا عبدالرشید نعمانی کے ساتھ جامعہ بنوری ٹائون کے مفتی ولی حسن بھی شریک رہے ہیں جیسا کہ اپنے حواشی کے آخر میں نعمانی صاحب نے ان کا شکریہ اداکرتے ہوئے بتایا ہے عبد الرشید صاحب فرماتے ہیں:جب بخاری کے دوتہائی غیر عادل ہیںتو ان کی روایات کی کیا حیثیت جو یقینا بخاری کی دوتہائی روایات سے زیادہ بنتی ہیں کیونکہ بہت سے راوی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کئی کئی روایتیں بیان کرتے ہیں ‘‘(۲)۔
محترمی اب آپ مجھے بتائیں کہ کیا مذکورہ حوالے سے جو کچھ بیان کیاگیا ہے آیا وہ صحیح ہے یا غلط ؟اگر آپ کے نزدیک صحیح ہے تو کیا میں صحیح بخاری کے نسخے ضائع کردوں ؟اور کیا مدارس کی انتظامیہ کو بذریعہ اخبار ترغیب دوں کہ وہ اپنے مدارس کے نصاب سے صحیح بخاری کو خارج کردیں ۔ مجھے امید ہے کہ میری اس الجھن کو دور فرماکر عنداﷲماجور ہوں گے ۔
محمد یوسف معرفت شاہ سائیکل ورکس کراچی
جواب
درج بالا خط ملنے پر اس ناکارہ نے حضرت نعمانی مدظلہ العالی کی خدمت میں عریضہ لکھا،جو درج ذیل ہے۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
حضرت مخدوم ومعظم! مدت فیوضہم وبرکاتہم، السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
ایک صاحب نے طاہر المکی کے حوالے سے آنجناب کی ایک عبارت نقل کر کے تیز وتند سوال کیا ہے یہ اس شخص کا چوتھا خط ہے میں نے مناسب سمجھا کہ توجیہ القول بما لایرضی بہ قائلہ کے بجائے آنجناب ہی سے اس سلسلہ میں مشورہ کرلیاجائے، مختصر سا اشارہ فرمادیا جائے کہ طاہرالمکی کی نقل کہاں تک صحیح ہے اور ان صاحب کے اخذ کردہ نتیجہ سے کہاں تک اتفاق کیا جاسکتا ہے چونکہ مجھے ہفتہ کے دن سفر پر جانا ہے اس لئے میں اس خط کا جواب کل ہی نمٹاکر جانا چاہتاہوں دعوات صالحہ کی التجاہے ۔
خویدکم :محمد یوسف عفا ﷲ عنہ
۲۴؍۲؍۱۴۱۵ھ
حضرت موصوف (مولانا عبد الرشید نعمانیؒ) مدظلہ العالی نے درج ذیل جواب تحریر فرمایا :
محترمی !وفقنی اﷲ وایاکم لمایحب ویرضی! وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
اس وقت درسگا ہ میں ’’الارواح النوفخ‘‘موجود نہیں ۔
’’دراسات اللیب ‘‘معین سندھی ؒ کی تعلیقات میں عرصہ ہواجب تلقی صحیحین کی بحث میں آپس کے اختلاف میں لکھا تھا کہ تلقی کامسئلہ اختلافی ہے ،اختلافی احادیث میں اجماع کا دعوی صحیح نہیں ،اس پر بحث کرتے ہوئے کہیں اس خواب کابھی ذکر آگیا تھا،’’الارواح‘‘ کے مصنف علامہ مقبلی پہلے زیدی تھے ،پھر مطالعہ کرکے سنی ہوگئے تھے اور عام یمنیوں کی طرح جیسے امیر یمانی وزیر یمانی ،قاضی شوکانی وغیرہ ہیں غیر مقلد ہوگئے تھے ،انہوں نے تلقی رواۃکے سلسلے میں اس خواب کا ذکر کیا تھا ،خواب کی جوحیثیت ہے ظاہر ہے ۔
رواۃ کی تعدیل وتجریح میں اختلاف شروع سے چلا آتا ہے جیسے مذاہب اربعہ میں اختلاف ہے اس سے نہ کسی چیز کابطلان لازم آتا ہے نہ کسی مختلف چیز پر اجماع یہ ہے اصل حقیقت تلقی امت کی بحث کی کہ نہ متون کی ساری امت کو تلقی ہے نہ رواۃ پر جیسے تمام اختلافی مسائل کا حال ہے ۔قرآن کریم کا ثبوت قطعی ہے لیکن اس کی تعبیر وتفسیر میں اختلاف ہے پھر کیا اس اختلاف کی بناء پرقرآن کریم کو ترک کردیا جائے گا؟ یہی حال متون صحیحین ورواۃ صحیحین کا ہے کہ نہ ان کا متن امت کے لئے واجب العمل ہے اور نہ ہر راوی بالاجماع قابل قبول ہے۔ اب منکر حدیث اس سلسلہ میں جو چاہیں روش اختیار کریں۔قرآن کریم کی تعبیر و تفسیرمیں اختلاف تھا، ہے اور رہے گا ، روایات کے قبول وعدم قبول میں مجتہدین کا اختلاف تھا، ہے اور رہے گا ، فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر۔
محمد عبد الرشید نعمانی
۲۵؍۲؍۱۴۱۵ھ
مکرم ومحترم! (محمد یوسف) زید لطفہ، السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
آپ کے گرامی نامہ کے جواب پر چند امور مختصراً لکھتا ہوں۔ فرصت نہیں، ورنہ اس پر پورا مقالہ لکھتا :
۱-آپ کی اس تحریک کی بنیاد طاہر المکی صاحب کی اس تحریر پر ہے جس کاحوالہ آپ نے خط میں نقل کیا ہے اور آپ نے اس تحریر پر اس قدر اعتماد کیا کہ اس کی بنیاد پر مجھ سے دریافت فرماتے ہیں کہ :’’مذکورہ حوالے سے جو کچھ بیان کیاگیا ہے وہ صحیح ہے یاغلط ؟اگر آپ کے (یعنی راقم الحروف کے) نزدیک بھی صحیح ہے توکیا میں صحیح بخاری کے نسخے ضائع کردوں ؟اور کیا مدارس کی انتظامیہ کو بذریعہ اخبار ترغیب دوں کہ وہ اپنے مدارس کے نصاب سے صحیح بخاری کو خارج کردیں؟‘‘
طاہر المکی صاحب کی تحریرپر اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے آپ کو یہ سوچنا چاہئے تھا کہ ان صاحب کاتعلق کہیں منکرین حدیث کے طائفہ سے تو نہیں ؟اور یہ کہ کیا یہ صاحب اس نتیجہ کے اخذ کرنے میں تلبیس وتدلیس سے توکام نہیں لے رہے ؟
طاہرالمکی کاتعلق… جس طبقہ سے ہے، تلبیس وتدلیس اس طبقہ کا شعار ہے اور سناگیا ہے کہ طاہر المکی کے نام میں بھی تلبیس ہے ،اس کے والد میانجی عبد الرحیم مرحوم’’ مکی مسجد‘‘ میں مکتب کے بچوں کو پڑھاتے تھے وہیں ان کی رہائش گاہ تھی اسی دوران یہ صاحب پیدا ہوئے اورمکی مسجدکی طرف نسبت سے علامہ طاہر المکی بن گئے ،سننے والے سمجھتے ہونگے کہ حضرت مکہ سے تشریف لائے ہیں ۔
۲-مولانا عبد الرشید نعمانی مد ظلہ العالی کے حوالے سے اس نے قطعاًغلط اور گمراہ کن نتیجہ اخذ کیا ہے ۔جیسا کہ مولا نا مدظلہ العالی کے خط سے ظاہر ہے اول تو مقبلی زیدی شیعہ اور پھر غیر مقلد تھا، پھر اس کا حوالہ خواب کا ہے ،اور سب جانتے ہیں کہ خواب دینی مسا ئل میں حجت نہیں ۔ پھر مولا نا نے یہ حوالہ یہ ظاہر کر نے کے لئے نقل کیا ہے کہ رواۃ بخاری کے با رے میں بعض لو گو ں کی یہ رائے ہے ۔مولانا عبدالرشید نعما نی مد ظلہ العا لی ایک دینی مدرسہ کے شیخ الحد یث ہیں ۔اگر ان کی وہ رائے ہو تی جو آپ نے طاہر المکی کی تلبیسانہ عبارت سے سمجھی ہے تو وہ آپ کی تحر یک ’’عدم اعتماد‘‘ کے علم بر دار ہو تے ، نہ کہ صحیح بخاری پڑھانے والے شیخ الحدیث ۔
۳-طا ہر المکی نے اما م العصر حضرت مو لا نا انور شاہ کشمیری ؒکو بلا وجہ گھسیٹا ہے۔حضرت ؒ نے بیس برس سے زیادہ صحیح بخاری کا درس دیا ،اور تدریس بخاری شروع کر نے سے پہلے ۱۳ مرتبہ صحیح بخاری کا بغور وتدبر مطالعہ فر ما یا اور اس کی تما م شرو ح کا بغور وتدبر مطا لعہ فر مایا ،صحیح بخاری کی دو بڑی شرحیں فتح البا ری اور عمدۃ القاری تو حضرت کو ایسے حفظ تھیں گویا سامنے کھلی رکھی ہوں ( ۳)۔
حضرت شاہ صاحب ؒ نہ صرف یہ کہ صحیح بخاری کو ’’اصح الکتب بعد کتا ب اﷲ‘‘سمجھتے ہیں بلکہ صحیحین کی احادیث کی قطعیت کے قائل ہیں ۔ چنا نچہ فیض البا ری میں فر ما تے ہیں:
’’صحیحین کی احادیث قطعیت کا فا ئدہ دیتی ہیں یا نہیں ؟اس میں اختلا ف ہے ۔جمہو ر کا قول ہے قطعیت کا فائد ہ نہیں دیتیں لیکن حافظ رضی اللہ عنہ کا مذہب ہے کہ قطعیت کا فائدہ دیتی ہیں ۔شمس الا ئمہ سر خسی حنفیہ میں سے ،حنا بلہ میں سے حا فظ ابن تیمیہ ؒ اور شوافع میں سے شیخ ابن صلاح ؒ اسی طرف مائل ہیں ۔ان حضرات کی تعداداگر چہ کم ہے مگر ان کی را ئے ہی صحیح رائے ہے ۔شا عر کا یہ قول ضر ب المثل ہے:میری بیو ی مجھے عا ر دلا تی ہے کہ ہما ری تعداد کم ہے ۔میں نے اس سے کہا کہ کریم لوگ کم ہی ہو اکر تے ہیں‘‘ (۴)۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دھلوی حجۃ اللہ البا لغہ میں لکھتے ہیں :
’’محدثین کااتفا ق ہے کہ صحیحین میں جتنی حدثیں متصل مرفو ع ہیں، صحیح ہیں اور یہ دو نو ں اپنے مصنّفین تک متواتر ہیں۔ اور جو شخص ان دو نوں کی تو ہین کر تا ہے وہ مبتد ع ہے اور مسلما نوں کے راستہ سے منحرف ہے‘‘(۵)۔
۴-کسی حدیث کاصحیح ہونا اور چیزہے اور اس کا واجب العمل ہو نا دوسری چیز ہے اس لئے کسی حدیث کے صحیح ہو نے سے یہ لا زم نہیں آتا کہ وہ واجب العمل بھی ہو ،کیو نکہ ہو سکتا ہے منسوخ ہو ، یا مقید ہو ،یا مؤول ہو ۔اس کے لئے ایک عا می کا علم کا فی نہیں ،بلکہ اس کے لئے ہم آئمہ مجتہدین رحمہم اللہ کی اتباع کے محتا ج ہیں ۔قرآن کریم کا قطعی ہو نا تو ہر شک وشبہ سے با لا تر ہے ،لیکن قرآن کریم کی بعض آیات بھی منسوخ یامؤول یا مقید باشرائط ہیں، صرف انہی اجمالی اشارات پر اکتفا کر تا ہوں ،تفصیل وتشریح کی گنجائش نہیں ۔واللہ اعلم
کتبہ : محمد یوسف لدھیانوی
بینات -رجب ۱۴۱۵ھ
حواشی:
(۱) الأرواح النوافح للمقبلی -۶۸۹،۶۹۰-لم نطلع علی طبع جدید۔
(۲) رجم اصل حد ہے یا تعزیر -ص ۳۹۔
(۳) مقدمۃ فیض الباری -تبصرہ وذکری بکتاب فیض الباری علی صحیح البخاری -ص۱؍۳۱- ط:المجلس العلمی بداھبیل سورت الھند ۔
(۴) مقدمۃ فیض الباری- بحث القول الفصل ان حدیث الصحیحین یفید القطعیۃ -ص ۱؍۴۵۔
(۵)حجۃ اﷲ البالغۃ لشاہ ولی اﷲ الدھلوی -باب طبقات کتب الحدیث من کتب الطبقۃ الأولی الصحیحان-۱؍۳۰۶-ط:قدیمی کتب خانہ کراچی
ماشاءاللہ ۔