ماڈرن اسلام: منصبِ نبوت اور سنت کی حیثیت سے متعلق چند گمراہانہ افکار ، از مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ
تعارف: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے استاذ حدیث حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ (مدیر ماہنامہ بینات) نے یہ مضمون اب سے کوئی ۵۴ برس قبل تحریر فرمایا تھا ، اس وقت ادارہ تحقیقات اسلامیہ کے ڈاکٹر فضل الرحمن و ہم نوا شریعت اسلامیہ کی تشریح وتعبیر میں تجدد پسندی کے دروازے کھولنے کے لیے کوشاں تھے ، عصر حاضر کی اردو دنیا میں ادارہ المورد کے جاوید احمد غامدی صاحب ہوں یا ہندوستان کے جناب وحید الدین خان اورراشد شازصاحب، یا اسلامی تجدد پسندی کے حوالہ سے عالمی زبانوں میں کوئی بھی فکر اور شخصیت ، ماڈرن اسلام کے لیے سب کا طرز واسلوب ، اور تعبیر ایک جیسی نوعیت ہی کی ہے ، مولانا لدھیانوی شہیدؒ کا یہ مضمون ایسی تمام گمراہانہ فکر کا احاطہ کرتا ہے ، اس مضمون سے صرف ادارہ اور شخصیت کا نام بدل دیا جائے تو یہ مضمون اوراس کے مندرجات مجموعی طور پر آج بھی تازہ ہیں ،۵۴ سال قبل لکھے گئے اس مضمون سے یہ نتیجہ واضح پر معلوم ہوتا ہے کہ شریعت اسلامیہ پر حملہ کرنے والوں کا طریقہ واردات ہمیشہ سے ایک جیسا ہی چلا آرہا ہے ۔
نبوت کا مقام
اب ذرا اس طرف توجہ فرمایے کہ ادارہ تحقیقات اسلامی کے ’’ماڈرن اسلام‘‘ میں ذات رسالت مآب ﷺ کا کیا مرتبہ ہے ؟ سنت نبویہ کی کیا حیثیت ہے اوراحادیث مقدسہ کی کیا پوزیشن ہے ؟
۱-شارع کی حیثیت – قرون وسطی کی رنگ آمیزی
آنحضرت ﷺ کے بارے میں شارع ہونے کا تصور قرون وسطی کی رنگ آمیزی ہے:
’’اگر ہم آنحضرت ﷺ کی سیرت کو اس ’’رنگ آمیزی‘‘ سے الگ کرکے دیکھیں جو ’’عہد وسطی کے فقہاء‘‘ نے پیش کی ہے تو ہمیں یقینی طور سے ایسا کوئی رجحان نظر نہیں آتا کہ رسول اپنے وسیع ترین مفہوم میں صرف ایک قانون ساز تھے جو انسانی زندگی کے لیے جملہ دقیق تمام تفصیلات یعنی انتظامی معاملات سے لے کر خالص ’’مذہبی مراسم‘‘ تک مہیا کررہے تھے ‘‘(فکر ونظر، ج۱، ش۱، ص۱۶)۔
۲-نبی نہیں بلکہ اخلاقی مصلح
’’درحقیقت جو شہادت موجود ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضرت ’’اساسی طور‘‘ سے بنی نوع انسان کے ’’اخلاقی مصلح‘‘ تھے ‘‘(حوالہ بالہ)۔
یعنی آپ کی اساسی حیثیت نبی کی نہیں ، بلکہ اخلاقی مصلح کی تھی (ناقل)۔
۳-اصطلاحی قانون ساز نہ تھے
’’ابتدائی اسلامی روایات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ آج کل کی اصطلاح کے مطابق وسیع معنوں میں ایسے قانون ساز نہیں تھے کہ دین ودنیا کی ہر بات کے لیے آپ قانونی تفصیلات مرتب فرماتے ہوں ‘‘(ج۱، ش۱، ص۱۷)۔
اب ذرا غور فرمایے کہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہ دعوی کہ آپ ﷺ اساسی طور پر صرف ایک اخلاقی مصلح تھے اور یہ کہ آپ ﷺ وسیع معنوں میں شارع یا آج کی اصطلاح میں قانون ساز نہ تھے کتنا بڑا اور کتنا اہم دعوی ہے ، قرآنی اعلانات کے خلاف، تاریخ نبوت کے مناقض، منصب نبوت کی ضد، اجماع امت کے منافی، اوصاف نبوی کی نقیض، خالص افتراء ، عظیم بہتان سراپا طوفان، لیکن ڈاکٹر صاحب اس زہر تلخ کو ’’درحقیقت جو شہادت موجود ہے‘‘ کے کیپسول میں بند کرکے ملت اسلامیہ کے حلق سے نیچے اتار دینے کے درپے ہیں، ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ حقیقت ہے افسانہ؟ اور یہ شہادت کہاں موجود ہے ؟ جناب کی عدالت عالیہ میں یہ شہادت کس نے پیش کی ہے ؟ اور اس کا شاہد کون ہے ؟ صرف جناب کا وہم یا استاذ محترم کا ارشاد؟ آپ نے دیکھ لیا کہ دعوی ہے اس زمانہ میں شریعت و نبوت محمدیہ کی نفی کا اور دلیل ہے فرضی ’’حقیقت‘‘ اور خیالی ’’شہادت‘‘ !۔
۴-قومی ریاست – قیاس کہتا ہے کہ۔۔۔
اسی سلسلہ کی ایک اور مثال یہ ہے کہ جب آپ کو احساس ہوا کہ ’’درحقیقت جو شہادت موجود ہے‘‘ کی خالی فائرنگ سے تشریع نبوی علیہ الصلوۃ والسلام کا قصر محکم مسمار نہیں کیا جاسکتا تو موصوف نے اس کے لیے اپنے ترکش کا آخری تیر بھی استعمال کرڈالا یعنی:
’’قیاس یہ کہتاہے کہ آنحضرت ﷺ جو وقت وفات تک اہل مکہ ور عرب کی اخلاقی اصلاح کی شدید جدوجہد میں مصروف اور اپنی ’’قومی ریاست‘‘ کی تنظیم میں مشغول رہے ان کو اتنا وقت ہی کہاں مل سکتا تھا کہ وہ زندگی کی جزئیات کے لیے قوانین مرتب فرماتے ‘‘(فکر ونظر ، ج۱، ش۱، ص ۱۸)۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنی تحریر میں ’’نفاق‘‘ اور ’’الحاد‘‘ کا زہر اس قدر خفی اور معصومانہ انداز میں ملانے کے عادی ہیں کہ وہاں تک عام نظر کا پہنچنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے ، یہاں مصروفیات نبوی کے ذیل میں ’’اصلاح امت‘‘ اور ’’خلافت الہیہ کی تنفیذ‘‘ یا کوئی اور لفظ جو اسلامی ذوق کے مناسب ہوتا کی بجائے ’’عرب کی اخلاقی اصلاح‘‘ اور ’’اپنی قومی ریاست کی تنظیم‘‘ کے الفاظ خالص دجل ونفاق اور الحاد وزندقہ کی قطعی دلیل ہیں ، سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ، آنحضرت ﷺ کے بارے میں کوئی ایسا تصویر (یا عقیدہ) مشکل ہی سے برداشت کرسکتے ہیں جو ان کے مغربی آقاؤں کے لیے گرانی طبع اور ناگواری خاطر کا باعث ہوسکتا ہے ۔
ان کے اس ’’قیاس یہ کہتا ہے ‘‘ پر ہم پہلے کسی مقالہ میں کسی قدر بحث کرچکے ہیں ، یہاں صرف یہ واضح کرنا ہے کہ ایک طرف ان کے ’’سنگین ادعاء‘‘ کو رکھیے اور دوسری طرف ان کے استدلال اور ثبوت ملاحظہ فرمایے ، چاہتے ہیں کہ صرف ’’قیاس یہ کہتا ہے‘‘ کی ’’پھونکوں‘‘ سے نبوت محمدیہ کے آفتاب عالمتاب کی شمع فروزاں کو گل کردیں ، گویا خدا و رسول ، وحی ونبوت جیسے حقائق واقعیہ کو میک گل یونی ورسٹی کے ’’ڈاکٹر‘‘ کے دائرہ قیاس میں آنا چاہیے ، بدقسمتی سے اگر کچھ محکم حقائق ان کے ’’قیاس مقدس‘‘ کے دائرہ میں نہ آسکیں تو ان کا وجود نہ صرف مشکوک ہوجائے گا بلکہ ڈاکٹر صاحب بالقابہ اس کی قطعی ’’نفی‘‘ کا دعوی بھی کر ڈالیں گے ، پھر ان کے ’’قیاس یہ کہتا ہے ‘‘ کی گہرائی ،گیرائی اور وسعت کا اندازہ بھی کیجیے جب ذات رسالت مآب ﷺ کو بھی اس کی زد میں لایا جاسکتا ہے ، اور محض قیاس آرائی کے بل بوتے پر نفی تشریع کا طوفان برپا کیا جاسکتا ہے تو اسلام کے دوسرے مسائل قطعیہ اور اسلامی تاریخ کی دوسری بلند پایہ ’’شخصیات‘‘ کے بارے میں یہ ’’قیاسی منجنیق ‘‘ کیوں نصیب نہ کی جائے گی ، اندریں صورت اب تو اسلام کا ’’وجود‘‘ صرف ڈاکٹر کے ’’قیاس یہ کہتا ہے‘‘ کہ رحم وکرم پر ہے ، اسلام کے جس مسئلہ پر بھی ان کے قیاس کو طیش آجائے (خواہ اس کی حقانیت پر بیسیوں دلائل موجود ہوں) بس سمجھنا چاہیے کہ اب اس کی خیر نہیں ، چنانچہ شرح زکوۃ حرمت ربوا، حرمت شراب ، حدود اللہ وغیرہ ان کے اس قیاسی طیش کا نشانہ بن چکے ہیں ، آئندہ خدا ہی جانتا ہے کہ اور کون کون سے مسائل پر یہ مشق ستم جاری رکھی جائے گی۔
۵-وقتی فیصلے
’’وقتا فوقتا کچھ انفرادی فیصلوں کو چھوڑ کر جن کی حیثیت ’’محض ہنگامی واقعات‘‘ کی ہوتی تھی ، آپ نے اسلام کی ترقی کے لیے بہت کم ہی عام قانون سازی کی طرف توجہ فرمائی ہے ‘‘(فکر ونظر ، ج۱، ش،۱ ص ۱۶)۔
۶-زبردست شہادت
’’اس امر کی (کہ نبوی فیصلے قانون کا درجہ نہیں رکھتے ،بلکہ صرف ایک گونہ نظیرہیں جنہیں ہر طرح بدلا جاسکتا ہے ،ناقل) ایک زبردست شہادت یہ ہے کہ اوقات نماز اور ان کی جزئیات کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے امت کے لیے کوئی غیر لچکدار اور جامد انداز نہیں چھوڑا (اوقات نماز کو بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے ،ناقل)،(فکر ونظر ، ج۱، ش۱،ص۱۸)۔
۷-بڑی بڑی پالیسیاں
’’محض مذہب یا حکومت سے تعلق رکھنے والی بڑی بڑی پالیسیوں کو طے کرنے یا اہم اخلاقی اصولوں کے متعلق کوئی فیصلہ صادر کرنے ہی میں آنحضرت ﷺ نے کوئی اقدام فرمایا ہے ‘‘(بحوالہ بالا)۔
۸-وہ بھی صحابہ کے مشورے سے
’’لیکن اس کے لیے بھی آپ اکابر صحابہ سے مشورہ فرمالیا کرتے تھے ،یعنی ان کا مشورہ تنہائی میں یا پبلک میں حاصل کرلیا جاتا تھا‘‘(فکر ونظر، ج۱،ش۱، ص۱۸)۔
ان تمام فرضی مقدمات کا نتیجہ ظاہر ہے کہ اسلام میں خالص ’’وحی الہی‘‘ کے فیصلوں کا سرے سے وجود ہی نہیں ، کیونکہ اول تو آپ کو ’’قومی ریاست کی تنظیم‘‘ کے دھندوں سے (معاذ اللہ) فرصت ہی کہاں تھی کہ اسلام کی ترقی کے لیے آپ کچھ اصول وفروع کی تشریع فرماتے،اورپھر جو بڑی بری پالیسیاں یا اہم اخلاقی اصول آپ نے طے فرمائے بھی ، وہ بھی وحی الہی اور فراست نبوت سے نہیں ، بلکہ سب کے سب صحابہ کرام کے نجی یا پبلک مشورہ سے فرمائے ، مزید برآں یہ کہ وہ بھی محض وقتی اور ہنگامی تھے ، اس لیے بعد کی امت ان کی مکلف نہیں ، ہم آگے چل کر بتائیں کہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اسی عقیدہ کے بارے میں فرمایا:
لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین علی ھذہ العقیدۃ الباطلۃ
ترجمہ: اس عقیدہ باطلہ پر خدا کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت۔
سنت نبوی سے متعلق چند گمراہانہ نظریات
سنت نبوی (علی صاحبہا الف الف صلاۃ وسلام) کے بارے میں ادارہ تحقیقات اسلامی نے وقتا فوقتا جو فتاوی صادر فرمائے ان کا خلاصہ یہ ہے کہ :
الف : ’’سنت نبوی کوئی متعین چیز نہ تھی ، نہ اس نے انسانی زندگی کی کوئی تفصیلی رہنمائی کی ، جیسا کہ عہد وسطی کے اسلامی لٹریچر(حدیث وفقہ) سے سمجھ میں آتا ہے ‘‘(فکر ونظر،ج۱،ش۱،ص۱۶)۔
ب: ’’سنت صرف کسی خاص جہت کی طرف اشارہ کرتی ہے ، وہ منضبط قوانین کا کوئی سلسلہ پیش نہیں کرتی ‘‘(ج۱، ش۱، ص۱۹)۔
ج: ’’ پہلے سے فیصلے تیار کرلینے کا اصول رسول کی اجمالی تعلیمات کے خلاف ہے ‘‘(حوالہ بالا)۔
شاید رسول کی مخالفت ہی کے جذبہ سے ادارہ تحقیقات جامع کتاب مرتب کرنا چاہتا ہے ۔
د: ’’سنت ایک عمومی محیط تصور اور تعاملی اصطلاح ہے ‘‘(ج۱،ش۱، ص۱۸)۔
ہ: ’’سنت کے مشمولات کا بڑا حصہ ماقبل اسلام کے رسوم ورواج کے تسلسل پر مشتمل ہے جس میں عربوں کا بڑا حصہ ہے ‘‘(ج۱،ش۱،ص ۱۱)۔
و: ’’سنت کا ایک بڑا حصہ قدیم فقہائے اسلام کے ’’آزادنہ غور وفکر‘‘ کا نتیجہ ہے ‘‘(حوالہ بالا)۔
ز: ’’قدیم فقہاء نے نئے نئے بیرونی عناصر کو بھی سنت میں شامل کردیا جو یہودی روایات اور بازنطینی وایرانی معاملات سے ماخوذ تھے ‘‘(ج۱، ش۱،ص۱۲)۔
ح: ’’سنت کا اطلاق صدر اول میں سنت نبوی پر ہی ہوتا تھا ، تاہم مسلمانوں کا عمل سنت نبوی کے تصور سے الگ نہ تھا ، بلکہ اس میں داخل تھا ‘‘ (ج۱،ش۱،ص۳۵)۔
ط: ’’صدر اول کی سنت کا مجموعہ بڑی حد تک مسلمانوں کا پیدا کردہ تھا ‘‘(یعنی اسلام مخلوقِ مسلمانان ہے ، ناقل)۔
ی: ’’سنت کی تخلیق پیدائش کا ذریعہ شخصی اجتہاد تھا ‘‘(انا للہ وانا الیہ راجعون، ناقل)۔
(اگرچہ یہ مضمون ۵۴ برس قبل لکھا گیا ، لیکن نبوت کے منصب اور سنت کی حیثیت کے متعلق آج بھی حرف بحرف اسی قسم کے گمراہانہ افکار ونظریات کو فروغ دینے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے ، از مرتب)
ماخوذ از: دور حاضر کے تجدد پسندوں کے افکار ، از قلم مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ