نقوش رفتگاں : علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ ، از مفتی محمد تقی عثمانی

بقیۃ السّلف، استاذ العلماء، شیخ الحدیث حضرت علامہ سیّد محمد یوسف صاحب بنوری(رحمۃ اللہ علیہ) بھی راہیٔ آخرت ہوگئے، آج جبکہ اس موضوع پر قلم اٹھانا چاہتا ہوں تو یادوں کا ایک طویل سلسلہ قلب و ذہن میں اس طرح مجتمع ہے کہ ابتدا کرنے کے لیے سرا ہاتھ نہیں آتا۔ حضرت مولانا بنوریؒ کی شخصیت ایسی دلنواز، ایسی حیات افروز ، ایسی باغ و بہار اور ایسی بھاری بھر کم شخصیت تھی کہ اس کی خصوصیات کا ایک مختصر مضمون میں سمانا مشکل ہے، ان کی ذات اپنے شیخ حضرت علامہ سیّد انورشاہ کشمیری قدس سرہ کی مجسم یادگار تھی، علم حدیث تو خیر ان کا خاص موضوع تھا جس میں اس وقت ان کا ثانی ملنا مشکل تھا لیکن اپنے شیخ کی طرح وہ ہر علم و فن میں معلومات کا خزانہ تھے، ان کی قوتِ حافظہ، ان کی وسعتِ مطالعہ، ان کا ذوق کتب بینی، ان کی عربی تقریر و تحریر ان کا پاکیزہ شعری مذاق، اکابرو اسلاف کے تذکروں سے ان کا شغف علماء دیو بند کے ٹھیٹھ مسلک پر تصلب کے ساتھ ان کی وسعت نظر اور رواداری، دین کے لیے ان کا جذبہ اخلاص و للہیت ، اندازِ زندگی میں نفاست، سادگی اور بے تکلفی کا امتزاج، ان کا ذوق مہماں نوازی، ان کی باغ و بہار علمی مجلسیں، ان کے عالمانہ لطائف و ظرائف، ان میں سے کون سی ایسی چیز ہے جسے بھلایا جاسکتاہو؟

پیش مرد کاملے پامال شو!

دنیا کا تجربہ شاہد ہے کہ محض کتابیں پڑھ لینے سے کسی کو علم کے حقیقی ثمرات حاصل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لییـ’’پیش مردے کا ملے پامال شو‘‘ پر عمل کی ضرورت ہے، حضرت مولانا بنوری صاحبؒ کو بھی اللہ تعالیٰ نے جو مقام بلند نصیب فرمایا وہ ان کی ذہانت وذکاوت اور علمی استعداد سے زیادہ حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیریؒ کے فیض صحبت اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کے فیض نظر کا نتیجہ تھا انہوں نے تحصیل علم کے لیے کسی ایک مدرسے میں صرف کتابیں پڑھ لینے اور ضابطہ کی سند حاصل کرلینے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اپنے اساتذہ کی خدمت و صحبت سے استفادہ کو اپنا نصب العین بنایا، آپ ایک ایسے وقت دارالعلوم دیوبند پہنچے تھے جب وہاں امام العصر حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری ؒ کے علاوہ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمدصاحب عثمانیؒ، عارف باللہ حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحبؒ، حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحبؒ، حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ، حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمان صاحبؒ اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ جیسے آفتاب و ماہتاب مصروف تدریس تھے حضرت مولانا بنوریؒ اپنے تمام ہی اساتذہ کے منظور نظر ہیں لیکن امام العصر حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری ؒ سے آپ کو جو خصوصی تعلق رہا اس کی مثال شاید حضرت شاہ صاحب کے دوسرے تلامذہ میں نہ ملے، مولانا مرحوم نے حضرت شاہ صاحب کی خدمت و صحبت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا تھا، چنانچہ وہ ایک عرصہ تک سفرو حضر میں اپنے شیخ کی نہ صرف معیت سے مستفید ہوتے رہے، بلکہ ان کی خدمت اور ان سے علمی وروحانی استفادے کی خاطر مولاناؒ نے نہ جانے کتنی مادی اور دنیوی مفادات کی قربانی دی، اللہ تعالیٰ نے انہیں جن غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا، ان کے پیش نظر اگر وہ چاہتے تو تحصیلِ علم سے فراغت کے بعد نہایت خوشحال زندگی بسر کرسکتے تھے لیکن انہوں نے حضرت شاہ صاحبؒ کی صحبت اور علمی مذاق کی تسکین پر ہر دوسرے فائدے کو قربان کردیا۔ اور یہ بات خود انہوں نے احقر کو سنائی تھی کہ’’جب میرا نکاح ہوا تو بدن کے جوڑے کے سوامیری ملکیت میں کچھ نہ تھا۔‘‘

علم دین کے لیے مولانا کی یہ قربانیاں بالآخر رنگ لائیں، حضرت شاہ صاحبؒ کی نظر عنایت نے علمی رسوخ کے ساتھ ساتھ ان کی للہیت اور اخلاص عمل کے فضائل کی آبیاری کی، اور اس کا نتیجہ تھا کہ دین کے خداّم میں اللہ تعالیٰ نے انہیں مقبولیت، محبوبیت اور ہر دلعزیزی کا وہ مقام بخشا جو کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، ان کے اساتذہ، ان کے ہم عصر اور ان کے چھوٹے تقریباًسب ان کے علمی مقام اور ان کی للہیت کے معترف رہے، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ جیسے مردم شناس بزرگ کی خدمت میں مولانا ؒ کی حاضری تین چار مرتبہ سے زیادہ نہیں ہوئی لیکن انہی تین چار ملاقاتوں کے بعد حضرت تھانوی نے ان کو اپنا مجازِصحبت قرار دے دیا تھا۔

معارف السنن شرح جامع ترمذی

اللہ تعالیٰ نے حضرت بنوری ؒ کو اس دور میں علمی و دینی خدمات کے لیے نہ صرف چن لیا تھا، بلکہ ان کے کاموں میں غیر معمولی برکت عطا فرمائی تھی، ان کے علم و فضل کا سب سے بڑا شاہکار ان کی جامع ترمذیؒ کی شرح’’معارف السنن‘‘ ہے جو تقریباً تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے اور چھ جلدوں میں شائع ہوچکی ہے چونکہ پچھلے سات سال سے دارالعلوم کراچی میں جامع ترمذیؒ کا درس احقرکے سپرد ہے، اس لیے بفضلہ تعالیٰ مولاناؒ کی اس کتاب کے مطالعے کا خوب موقع ملا ہے، اور اگر میں یہ کہوں تو شاید مبالغہ نہ ہوگا کہ احقر کو اس کتاب کا ایک ایک صفحہ پڑھنے کا شرف حاصل ہے، لہذا اس میں بلاخوف تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیریؒ کے محدثانہ مذاق کی جھلک کسی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے تو وہ معارف السنن ہے، افسوس ہے کہ علم و فضل کا یہ خزانہ تشنہ تکمیل رہے گا اور کتاب الحج کے بعد ا س کی تصنیف آگے نہ بڑھ سکی، احقر کے والد ماجد حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب نے نہ جانے کتنی بارمولاناؒ سے اس کی تکمیل کی طرف توجہ دینے کی خواہش ظاہر فرمائی، لیکن مولاناؒ کی مصروفیات اس قدر بڑھ چکی تھیں کہ وہ اس خواہش کو پورا نہ فرماسکے، اب اول تو اس کی تکمیل کی ہمت کون کرے؟ اور اگر کوئی کرے بھی تو حضرت شاہ صاحب ؒ کا وہ فیضانِ علمی اور حضرت مولانا بنوریؒ کا وہ اسلوب بیان کہاں سے لائے؟

عربی تحریر وتقریر کا ملکہ

اللہ تعالیٰ نے مولانا کو عربی تقریر و تحریر کا جو ملکہ عطا فرمایا تھا وہ اہل عجم میں شاذو نادر ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے، خاص طور سے ان کی عربی تحریریں اتنی بے ساختہ، سلیس، رواں اور شگفتہ ہیں کہ ان کے فقرے فقرے پر ذوق سلیم کو حظ ملتا ہے، اور ان میں قدیم و جدید اسالیب اس طرح جمع ہو کر یک جان ہوگئے ہیں کہ پڑھنے والا جزالت اور سلاست دونوں کا لطف ساتھ ساتھ محسوس کرتا ہے، مولاناؒ کی تحریروں میں اہل زبان کے محاورات، ضرب الامثال اور استعارے ایسی بے تکلفی کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں کہ بہت سے عربوں کی تحریروں میں بھی یہ بات نہیں ملتی۔ ’’نفحۃ العنبر‘‘ تو ایک طرح سے خالص ادبی تصنیف ہے، لیکن ’’معارف السنن‘‘ اور ’’یتیمۃالبیان‘‘ جیسی ٹھوس علمی اورتحقیقی تصانیف میں بھی ادب کی چاشنی اس انداز سے رچی بسی ہوئی ہے کہ وہ نہایت دلچسپ اور شگفتہ کتابیں بن گئی ہیں۔

حق کے معاملہ میں غیرت وشدت

حضرت مولانا بنوریؒ کو اللہ تعالیٰ نے حق کے معاملے میں غیرت و شدت کا خاص وصف عطا فرمایا تھا، وہ اپنی انفرادی زندگی اور عام برتاؤ میں جتنے نرم خلیق اور شگفتہ تھے ، باطل نظریات کے بارے میں اتنے ہی شمشیر برہنہ تھے اور اس معاملہ میں نہ کسی مداہنت یا نرم گوشے کے روادار تھے ، اور نہ مصالح کو اہمیت دیتے تھے ،بعض اوقات ان کی تحریر یا تقریر کے بارے میں یہ شبہ گزرتا تھا کہ شاید یہ عام دینی مصالح کے خلاف ہو ،لیکن چونکہ ان کے اقدامات کا محرک للہیت اور اخلاص کے سوا کچھ نہ تھا، اس سے اللہ تعالیٰ ان کے اقدامات میں برکت عطافرماتے، ان کے بہترین نتائج ظاہر تھے، اور’’لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سر بکف‘‘ کا عملی مشاہدہ ہوتا ،چنانچہ باطل فرقوں اور نظریات کی تردید میں اللہ تعالیٰ نے مولانا سے بڑا کام لیا، انکا رحدیث کا فتنہ ہو یا تجدّد اور قادیانیت کا، مولانا ہمیشہ ان کے تعاقب میں پیش پیش رہے، اس کے علاوہ جس کسی نے بھی قرآن و سنت کی تشریح میں جمہور امت سے الگ کوئی راستہ اختیار کیا، مولاناؒ سے یہ برداشت نہ ہوسکا کہ اس کے نظریات پر سکوت اختیار کیا جائے، مولانا کو خاص طور سے اس بات کی بڑی فکر رہتی تھی کہ علماء دیو بند کا مسلک کسی غلط نظریے سے ملتبس نہ ہونے پائے اور سیاسی سطح پر کسی شخص کے ساتھ علمائے دیو بند کے اتحاد و تعاون سے یہ مطلب نہ لے لیا جائے کہ علمائے دیو بند اس شخص کے نظریات کے ہم نوا ہیں۔

حضرت بنوریؒ اور مولانا ابو الکلام آزادؒ

مثلاً مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم نے آزادی ہند کے لیے جو جدو جہد کی مقتدر علمائے دیوبند کی ایک جماعت نہ صرف اس کی مدّاح رہی بلکہ ان کے ساتھ اتحاد و تعاون بھی کیا، اور خود مولانا بنوری رحمۃ اللہ علیہ بھی اس جہت سے ان کی بعض خوبیوں کے معترف تھے لیکن اس سیاسی اشتراک کی بنا پر یہ خطرہ تھا کہ مولانا آزاد مرحوم نے جن مسائل میں جمہور سے الگ راستہ اختیار کیا ہے، انھیں علمائے دیوبند کی طرف منسوب نہ کیا جانے لگے، یا کم از کم علمائے دیو بند کی خاموشی کو ان نظریات کی تائید نہ سمجھ لیا جائے، اس لیے مولانا آزاد مرحوم کے ان نظریات کی علمی تردید کے لیے حضرت مولانا بنوری صاحب قدس سرہ، نے ایک مفصل مقالہ لکھا جس پر بعض لوگوں نے بُرا بھی منایا، لیکن مولاناؒ نے اس معاملہ میں کسی ’’لومۃ لائم‘‘ کی پرواہ نہیں کی، مولاناؒ کا یہ مقالہ’’ مشکلات القرآن‘‘ کے مقدمے میں شامل ہے، جواب ’’یتیمۃالبیان‘‘ کے نام سے الگ بھی شائع ہوچکا ہے۔

حضرت بنوریؒ اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ

اسی طرح مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم چونکہ حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک کے رکن رکین رہے ہیں، اور آزادیٔ ہند کے لیے انھوں نے بے مثال قربانیاں دی ہیں، اس لیے علمائے دیو بند نے اس جہت سے ہمیشہ انکی قدر دانی کی ہے، اور جہاں آزادیٔ ہند کے لیے علمائے دیو بند کی جدو جہد کا ذکر آتا ہے وہاں مجاہدین کی فہرست میں مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم کا نام بھی شامل ہوتا ہے، لیکن مولانا سندھی مرحوم دارالعلوم دیو بند کے تعلیم یافتہ نہ تھے، اور ان کے نظریات میں دینی اعتبار سے وہ تصلب نہ تھا جو علمائے دیو بند کا طرّہ امتیاز رہا ہے، اسی لیے وہ بعض عقائد و احکام میں وقتاً فوقتاً جادۂ اعتدال سے ہٹ جاتے تھے، احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے سُنا ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے کسی ایسے ہی نظریے کا اعلان کردیا تھا جو جمہور علمائے امت کے خلاف تھا تو حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو فہمائش کی، اور بات سمجھ میں آنے پر انھوں نے دارالعلوم دیو بند کی مسجد میں علی الاعلان اپنی غلطی کا اعتراف اور ندامت کا اظہار کیا، لیکن حضرت شیخ الہندؒ کی وفات کے بعد کوئی شخص ایسا نہ رہا جو نظریاتی طور پر ان کی رہنمائی کرسکے، اس کے علاوہ ان کے مزاج میں مسلسل مصائب جھیلنے سے تشدّد بھی پیدا ہوگیا، چنانچہ آخری دور میں انھوں نے پھر بعض ایسے نظریات کی تبلیغ شروع کردی جو جمہور علمایے امت کے خلاف، بلکہ نہایت خطرناک اور زائغانہ تھے، ادھر چونکہ علمائے دیو بند کی جدو جہدِ آزادی میں برابر مولانا سندھی مرحوم کا نام آتا تھا، اس لیے خطرہ تھا کہ ان کے نظریات علماء دیوبند کی طرف منسوب نہ ہوں اس لیے حضرت مولانا بنوری نے نہ صرف مولانا سندھی کے ان نظریات کی تردید کی، بلکہ شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اس طرف متوجہ کیا جو سیاسی جدو جہد میں مولانا سندھی مرحوم کے رفیق رہے تھے۔ چنانچہ حضرت مولانا مدنی قدس سرہ نے مولانا سندھی مرحوم کے ان نظریات کی تردید میں ایک مضمون لکھا جو اخبار مدینہ ’’بجنور‘‘ میں شائع ہوا، مولانا سندھی مرحوم کی تردید کے بارے میں تمام تفصیلات احقر نے خود حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ سے سنی ہیں۔ اور گذشتہ سال دوبارہ مولاناؒ نے احقر سے ان کی توثیق فرمائی۔

جماعت اسلامی کے حضرات سے اجتماعی معاملات میں مختلف مراحل میں مختلف علمائے دیو بند کا اشتراک عمل جاری رہا، بائیس دستوری نکات کی ترتیب اور تحریک ختم نبوت وغیرہ میں خود مولاناؒ نے ان کے ساتھ مل کر کام کیا، لیکن جہاں تک مولانا مودودی صاحب کے نظریات کا تعلق ہے، مولاناؒ نے ان پر مفصل تنقید فرمائی، اور حال ہی میں عربی زبان میں یکے بعد دیگرے تین کتابچے تحریر فرمائے، جن میں سے دو شائع ہوچکے ہیں، اور تیسرا زیرطبع ہے۔

حق گوئی کا فریضہ

غرض یہ مولانا کا خاص مزاج تھا کہ وہ جمہور علمائے سلف کے خلاف کسی نظرئے کو خاموشی سے برداشت نہ کرسکتے تھے، عام مجلسوں میں بھی ان کا یہی رنگ تھا کہ غلط بات پر بروقت تنقید کرکے حق گوئی کا فریضہ نقد ادا کردیتے تھے،۱۹۶۸ء میں جب ادارئہ تحقیقات اسلامی کی طرف سے ایک بین الاقوامی اسلامی کانفرنس منعقد ہوئی(جس کا اہتمام ادارئہ تحقیقات کے سابق ڈائریکٹرڈاکٹرفضل الرحمٰن صاحب نے کیا تھا) تو اس کے پہلے یہ اجلاس میں ایک مقرر نے حضرت عمرؓ کی اوّلیات کو غلط انداز میں پیش کرکے متجدّ دین کے آزاد اجتہاد کے لیے گنجائش پیدا کرنی چاہی اور اس کے لیے انداز بھی ایسااختیار کیا کہ جیسے قوت اجتہادیہ میں حضرت عمرؓ کے اور ہمارے درمیان کوئی خاص فرق نہیں، اس محفل میں عالم اسلام کے معروف اور جیّد علماء موجود تھے، لیکن اس موقع پر اس بھرے مجمع میں جن صاحب کی آواز سب سے پہلے گونجی، وہ حضرت مولانا بنوریؒ تھے، انہوں نے مقرر کی تقریر کے دوران ہی صدر محفل مفتی اعظم فلسطین مرحوم سے خطاب کرکے فرمایا:

’’سیدی الرئیس ! ارجو کم ان تلجموا ھذا الخطیب ارجوکم ان تلجموہ، ماذا یقول؟‘‘

’’جناب صدر! ان مقرر صاحب کو لگام دیجئے، براہ کرم ان کو لگام دیجئے، یہ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘،ان کے یہ بلیغ الفاظ آج بھی کانوں میں گونج رہے ہیں.

عالم عرب میں علماء دیوبند کا تعارف

مولانا کی رگ و پے میں اس بات کا یقین و اعتقاد پیوست تھا کہ اکابر علماء دیوبند اس دور میں’’ ماانا علیہ و اصحابی‘‘ کی عملی تفسیر تھے اور ان کا فہم دین اس دور میں خیر القرون کے مزاج و مذاق سے سب سے زیادہ قریب تھا، وہ چاہتے تھے کہ اکابر دیوبند کے اذکار اور ان کے علمی و دینی کارناموں کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے، چنانچہ جب مولاناؒ ایک طویل عرصے کے لیے پہلی بار حجاز اور مصر و شام کے سفر پر تشریف لے گئے تو وہاں قیام کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ علماء دیو بند کی خدمات اور ان کی علمی تحقیقات سے عالم عرب کو روشناس کرایا جائے، چنانچہ مولاناؒ نے علماء دیو بند اور ان کی علمی خدمات پر مفصل مضامین لکھے جو وہاں کے صفِ اول کے اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے، اور ان کے ذریعے مصر و شام کے چوٹی کے علماء مولانا بنوریؒ سے قریب آگئے، مولاناؒ نے انہیں مختلف صحبتوں میں اکابر دیوبند کے علوم سے متعارف کرایا اور کم از کم علماء کی حد تک مصر و شام میں علماء دیو بند کے کارنامے اجنبی نہیں رہے۔

حضرت بنوریؒ کی علامہ جوہرطنطاوی سے ملاقات

اسی دوران ایک مشہور عربی رسالے کے دفتر میں مولانا ؒ کی ملاقات علامہ جوہر طنطاوی مرحوم سے ہوگئی جنکی’’تفسیر الجواہر‘‘ اپنی نوعیت کی منفرد تفسیر ہے، بعض لوگوں نے تو امام رازیؒ کی تفسیر کبیر پر یہ فقرہ چست کیا ہے کہ’’ فیہ کل شیئٍ الا التفسیر‘‘(یعنی اس میں تفسیر کے سوا سب کچھ ہے) لیکن واقعہ یہ ہے کہ تفسیر کبیر کے بارے میں یہ جملہ بہت بڑا ظلم ہے، ہاں اگر موجودہ دور میں کسی کتاب پر یہ جملہ کسی درجے میں صادق آسکتا ہے تو وہ علامہ طنطاوی مرحوم کی تفسیر الجواہر ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ یہ کتاب تفسیر کی نہیں، بلکہ سائنس کی کتاب ہے اور سائنس کی باتوں کو قرآن کریم سے ثابت کرنے کے شوق میں علامہ طنطاوی مرحوم نے بعض جگہ آیاتِ قرآنی کی تفسیر میں ٹھوکریں بھی کھائی ہیں۔

علامہ طنطاوی مرحوم سے حضرت مولانا بنوریؒ کا تعارف ہوا تو انہوں نے مولانا سے پوچھا کہ کیا آپ نے میری تفسیر کا مطالعہ کیا ہے؟ مولاناؒ نے فرمایا کہ’’ہاں!اتنا مطالعہ کیا ہے کہ اس کی بنیاد پر کتاب کے بارے میں رائے قائم کرسکتا ہوں،‘‘ علامہ طنطاوی نے رائے پوچھی تو مولانا نے فرمایا، ’’آپ کی کتاب اس لحاظ سے تو علماء کے لیے احسان عظیم ہے کہ اس میں سائنس کی بے شمار معلومات عربی زبان میں جمع ہوگئی ہیں، سائنس کی کتابیں چونکہ عموماً انگریزی زبان میں ہوتی ہیں اس لیے عموماً علمائے دین ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے، آپ کی کتاب علماء دین کے لیے سائنسی معلومات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، لیکن جہاں تک تفسیر قرآن کا تعلق ہے، اس سلسلے میں آپ کے طرز فکر سے مجھے اختلاف ہے، آپ کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ عصرِ حاضر کے سائنس دانوں کے نظریات کو کسی نہ کسی طرح قرآن کریم سے ثابت کردیا جائے، اور اس غرض کے لیے آپ بسا اوقات تفسیر کے مسلّمہ اصولوں کی خلاف ورزی سے بھی دریغ نہیں کرتے، حالانکہ سوچنے کی بات ہے کہ سائنس کے نظریات آئے دن بدلتے رہتے ہیں، آج آپ جس نظریے کو قرآن سے ثابت کرنا چاہتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ کل وہ خود سائنس دانوں کے نزدیک غلط ثابت ہو جائے، کیا اس صورت میں آپ کی تفسیر پڑھنے والا شخص یہ نہ سمجھ بیٹھے گا کہ قرآن کریم کی بات(معاذ اللہ)غلط ہوگئی!

مولاناؒنے یہ بات ایسے مؤثر اور دلنشین انداز میں بیان فرمائی کہ علامہ طنطاوی مرحوم بڑے متاثر ہوئے اور فرمایا:

’’ایھا الشیخ ! لست عالماًھند یا وانما انت ملک انزلہ اللہ من السماء لا صلاحی‘‘

(مولانا!آپ کوئی ہندوستانی عالم نہیں ہیں، بلکہ آپ کوئی فرشتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے میری اصلاح کے لیے نازل کیا) یہ واقعہ میں نے مولاناؒ سے بارہا سنا، اور شاید’’بینات‘‘ کے کسی شمار میں بھی مولانا نے اسے نقل بھی کیا ہے۔

والد ماجد مفتی محمد شفیع صاحب ؒکی حضرت بنوریؒ سےمحبت اور دونوں کا باہمی تعلق

احقر کے والد ماجد حضرت مولانا مفتی شفیع صاحبؒ کو مولانا بنوریؒ سے بڑی محبت تھی، اور ان کے اخلاص و للہیت اور علمی و عملی صلاحیتوں کی بڑی قدر فرماتے تھے،اگرچہ دارالعلوم کے جلسوں میں کئی بار مولاناؒ نے تقریر کے دوران فرمایا کہ حضرت مفتی صاحبؒ میرے استاذ ہیں، اور میں نے مقامات حریری آپ ہی سے پڑھی ہے، لیکن حضرت والد صاحب ؒ مولاناؒ کے علمی و عملی کمالات کی بناء پر ان کا نہایت اکرام فرماتے تھے، چنانچہ یہ دونوں بزرگ علمی اور اجتماعی مسائل میں ایک دوسرے سے مشورے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے، ملاقاتیں اور مشورے تو پہلے بھی رہتے تھے، لیکن جب سے مولاناؒ کراچی میں قیام پذیر ہوئے، اس وقت سے تو دونوں بزرگوں کے درمیان آمدورفت بہت بڑھ گئی تھی اس وجہ سے ہم خدام کو گذشتہ بیس سال میں حضرت مولانا بنوریؒ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے اور جتنا جتناقرب بڑھتا گیا، اسی نسبت سے مولانا ؒ کی محبت و عظمت اور عقیدت میں اضافہ ہوتا چلاگیا ۔

مجلس تحقیق مسائل حاضرہ

حضرت والد صاحبؒ اور مولاناؒ نے جدیدفقہی مسائل کی تحقیق کے لیے مدرسہ عربیہ نیو ٹاؤن اور دارالعلوم کراچی کے علماء پر مشتمل ایک مجلس تحقیق مسائل حاضرہ قائم فرمائی تھی جس کا اجلاس ہر ماہ دارالعلوم کورنگی یا مدرسہ عربیہ نیو ٹاؤن میں منعقد ہوا کرتا تھا یہ مجلس عام طور سے صبح کو شروع ہوکر شام تک جاری رہتی، بیچ میں کھانے اور نماز کا وقفہ ہوتا، پیچیدہ فقہی مسائل زیر بحث آتے، کتابوں کا اجتماعی طور سے مطالعہ ہوتا، تمام شرکاء مجلس اپنا اپنا نقطہ نظر آزادی سے پیش کرتے، ہم جیسے فرو مایہ خدام بھی اپنے طالب علمانہ شبہات کھل کر پیش کرتے، اور یہ بزرگ کمال شفقت کے ساتھ انہیں سنتے اور جب تک تمام شرکاء مطمئن نہ ہوجاتے فیصلہ نہ ہوتا۔

حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا بنوریؒدونوں کی طبیعت ان مجلسوں میں کھل جاتی تھی اور ہم خدام دونوں کے علمی افادات سے نہال ہوجاتے، اور پھر یہ مجلسیں خشک علمی مسائل تک محدود نہ تھیں، بلکہ دونوں بزرگوں کی شگفتہ مزاجی اور علمی و ادبی مذاق نے ان مجلسوں کو ایسا باغ و بہار بنادیا تھا کہ مجلس کا دن آنے سے پہلے ہی بڑے اشتیاق کے ساتھ اس کا انتظار لگتا تھا، علمی تحقیقات کے علاوہ یہ مجلسیں نہ جانے کتنے لطائف و ظرائف اور دلچسپ و سبق آموز واقعات سے معمور ہوتی تھیں، حضرت والد صاحب ؒ کا ذہن اکابر علمائے دیو بند کے واقعات کا خزانہ تھا، اور کوئی بھی موضوع چھڑجائے حضرت والد صاحب ؒ دیو بند کے بزرگوں میں سے کبھی حضرت تھانویؒ کا کبھی حضرت میاں صاحب کا، کبھی حضرت شاہ صاحبؒ کا، کبھی حضرت مفتی عزیز الرحمٰن صاحبؒ کا، اور کبھی کسی اور بزرگ کا کوئی واقع سنادیتے اور مجلس کے لیے رہنمائی کا ایک نیا دروازہ کھل جاتا، حضرت مولانا بنوریؒ نے بارہا فرمایا کہ مجھے تو حضرت مفتی صاحبؒ سے ملاقات کا شوق اس لیے لگتا ہے کہ ان کے پاس پہنچ کر اپنے بزرگوں کے نئے نئے واقعات سننے کو مل جاتے ہیں، ادھر حضرت بنوریؒ کو حضرت شاہ صاحبؒ سے جو خصوصی صحبتیں رہیں، حضرت والد صاحب ؒ ان کے حالات بڑے ذوق و شوق سے باقاعدہ فرمائش کرکے سنا کرتے، اور سنانے والے حضرت والد صاحبؒ ہوں یا حضرت بنوریؒ ہم خدام کے لیے تو ہر حال میں چاندی ہی چاندی تھی، اللہ اکبر، یہ پرکیف نورانی مجلسیں کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے خواب و خیال ہو گئیں، حضرت والد صاحبؒ ان محفلوں میں اکثر اپنے اساتذہ کا ذکر فرما کر عجیب کیف کے عالم میں یہ مصرع پڑھا کرتے تھے کہ:

ایک محفل تھی فرشتوں کی جو برخاست ہوئی

کسے خبر تھی کہ چند ہی سالوں میں یہ محفلیں بھی برخاست ہونے والی ہیں!

غرض علمی اور اجتماعی مسائل میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کا اشتراک عمل ہم خدام کے لیے گو ناگوں فوائد کا دروازہ بن گیا، اکثر و بیشتر اجتماعی مسائل میں کوئی تحریر لکھی جاتی تو وہ حضرت والد صاحب اور حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے مشترکہ طور پر شائع ہوتی ، اور اس کا مسودہ تیار کرنے کا مرحلہ آتا تو ہم خدام میں سے کسی کو اس کے لیے مامور کیا جاتا اور بسا اوقات قرعہ فال احقر کے نام پڑتا، مسودے کو جب ان بزرگوں کے سامنے پیش کیا جاتا اور یہ حضرات اس کی عبارت میں کوئی اصلاح فرماتے تو اس سے نت نئے آداب و فوائد حاصل ہوتے تھے اور جب کسی تحریر پر ان حضرات کی طرف سے دعائیں ملتیں تو ایسا محسوس ہوتا کہ دنیا و ما فیہا کی تمام نعمتیں دامن میں جمع ہوگئی ہیں۔

کراچی :علمی اوردینی مرکز

حضرت والد صاحبؒ اور حضرت بنوریؒ کی وجہ سے کراچی کو پورے ملک میں علمی اور دینی اعتبار سے مرکزیت حاصل تھی، چنانچہ جب کوئی اجتماعی مسئلہ اٹھتا اطرافِ ملک سے اہل علم کراچی کا رخ کرتے تھے، اس طرح ان حضرات کے طفیل ملک بھر کے اہل علم و دین سے نیاز حاصل ہوتا رہتا تھا، پچھلے سال جب حضرت والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کا حادثہ پیش آیا تو اس مرکزیت کا ایک زبردست ستون گرگیا، حضرت بنوریؒ اس وقت سکھر میں تھے اور تقریباً سو ۱۰۰ میل کا سفر کرکے کراچی کے لیے طیارہ پکڑنا چاہا، لیکن سیٹ نہ مل سکی، اور نماز جنازہ اور تدفین میں شامل نہ ہو سکے۔ بعد میں جب تعزیت کے لیے تشریف لائے تو وہ بچوں کی طرح رو رہے تھے، اور زبان پر بار بار بے اختیار یہ جملہ تھا کہ’’ اب ہم مشورے کے لیے کہاں جائیں گے؟‘‘ کسے معلوم تھا کہ مولاناؒ کا یہ اضطراب صرف سال بھر کا ہے، اور آئندہ سال اسی مہینے میں کراچی کی دینی مرکزیت کا یہ دوسرا ستون بھی گر جائے گا، حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد حضرت بنوریؒ کی ذات ہم سب کے لیے ایک عظیم سہارا تھی آہ! کہ اب یہ سہارا بھی ٹوٹ گیا، اب ملک کے دوسرے حصوں کی طرح کراچی میں بھی سناٹا ہی سناٹا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

حضرت بنوریؒ کی وفات یوں تو پوری ملت کے لیے ایک عظیم سانحہ ہے، لیکن احقراور برادر محترم جناب مولانا محمد رفیع عثمانی مد ظلہم کے لیے یہ ایسا ہی ذاتی نقصان ہے جیسے مولاناؒ کے قریبی اعزّہ کے لیے، اس لیے کہ وہ ہم پر اس درجہ شفیق اور مہربان تھے کہ الفاظ کے ذریعے ان کا بیان ممکن نہیں یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے بیس سال تک حضرت مولاناؒ کی صحبتیں عطا فرمائیں، صرف علمی محفلوں ہی میں نہیں ، نجی مجلسوں اور سفرو حضر میں بھی مولاناؒ کی معیّت نصیب ہوئی، مولاناؒ کی شفقتوں کا عالم یہ تھا کہ وہ ہماری کمسنی کا لحاظ کرتے ہوئے خود بھی بچوں میں بچے بن جاتے تھے۔

والدماجدؒاورحضرت بنوریؒ کے ساتھ بنگلہ دیش کایادگار سفر

۱۹۶۵ء میں حضرت والد صاحب ؒ اور مولاناؒنے مشرقی پاکستان کا ایک ساتھ تبلیغی سفر کیا، یہ ناکارہ بھی ہمراہ تھا، سلہٹ میں ہمارا قیام مجد الدین صاحب مرحوم کے صاحبزادے محی السنۃ صاحب کے یہاں تھا، سلہٹ بڑا سر سبز و شاداب اور خوبصورت علاقہ ہے، لیکن یہاںپہنچنے کے بعد مسلسل علمی اور تبلیغی مجلسوں کا ایسا تانتا بندھا کہ جس کمرے میں آکر اُترے تھے، وہاں سے باہر نکلنے کا موقع ہی نہ ملا، یہاں تک کہ جب اگلے دن فجر کی نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اسی کمرے میں اپنے وظائف و اوراد کے معمولات میں مشغول ہوگئے، اور حضرت بنوریؒ نے بھی اپنے وظائف شروع کردیے، میں اس انتظار میں تھا کہ ذرا مہلت ملے تو حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت لے کر کہیں ہوا خوری کے لیے باہر چلاجاؤں، مولاناؒ نے میرا یہ ارادہ بھانپ لیا، اور خود ہی بلا کر پوچھا:’’کیا باہر جانا چاہتے ہو؟‘‘مجھے مولاناؒ نے بے تکلف بنایا ہوا تھا، میں نے عرض کیا:’’حضرت!ارادہ تو ہے، مگر آپ بھی تشریف لے چلیں تو بات بنے۔‘‘ بس یہ سننا تھا کہ مولاناؒ اپنے معمولات کو مختصر کرکے تیار ہوگئے، اور خود ہی حضرت والد صاحبؒ سے فرمایا:ذرا میں تقی میاں کو سیر کرالاؤں،‘‘ چنانچہ باہر نکلے اور تقریباً گھنٹہ بھر تک مولاناؒ اس ناکارہ کے ساتھ کبھی چائے کے باغات میں، کبھی شہر کے اونچے اونچے ٹیلوں پر گھومتے رہے، سلہٹ کے علاقے میں نباتات اس کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ ایک گز زمین بھی خشک تلاش کرنی مشکل ہے، مولاناؒ جب کوئی خاص پودا دیکھتے تو اس کے بارے میں معلومات کا ایک دریا بہنا شروع ہو جاتا، اس پودے کا اردو میں یہ نام ہے، عربی میں یہ نام ہے، فارسی اور پشتو میں فلاں نام ہے، اور اس کے یہ یہ خصائص ہیں غرض یہ تفریح بھی ایک دلچسپ درس میں تبدیل ہوگئی۔

مجھے بعد میں خیال بھی ہوا کہ مولاناؒ کے گھٹنوں میں تکلیف ہے، اور میں نے خوامخواہ مولاناؒ کو زحمت دی چنانچہ میں نے کئی بار اپنی جسارت پر معذرت کی، لیکن مولاناؒ ہر بار یہ فرماتے کہ مناظرِ قدرت اللہ کا بہت بڑا عطیہ ہیں اور انہیں دیکھ کر نشاط حاصل کرنے کا شوق انسان کا فطری تقاضا ہے، تمہاری وجہ سے میں بھی ان مناظر سے محظوظ ہوگیا، اور پھر جتنے دن سلہٹ میں رہے، روزانہ فجر کے بعد یہ معمول بن گیا، مولاناؒ کے زیر سایہ سلہٹ کی یہ سیر تفریح کی تفریح ہوتی، اور درس کا درس ہوتا، مولاناؒ کو معلوم تھا کہ احقر کو عربی ادب سے لگائو ہے، اس لیے مولاناؒ اس دوران عربی ادب کے لطائف و ظرائف بیان فرماتے، نادر اشعار سناتے، شعراء عرب کے درمیان محاکمہ فرماتے اور اس تفریح میں نظروں کے ساتھ قلب و روح بھی شاداب ہو کر لوٹتے تھے۔

اس طرح ایک مرتبہ برادر محترم جناب مولانا محمد رفیع عثمانی مدظلہم ڈھاکہ میں حضرت والد صاحبؒ کے ساتھ تھے ،مولانا بھی تشریف فرما تھے، مولاناؒنے خود بھائی صاحب سے فرمایا کہ’’چلو، تمہیں چاٹگام کی سیر کرالائوں‘‘ چنانچہ حضرت والد صاحب سے اجازت لے کر مولاناؒ اور بھائی صاحب ڈھاکہ سے چاٹگام روانہ ہوگئے، ریل میں جگہ تنگ تھی، اور ایک ہی آدمی کے لیٹنے کی گنجائش تھی، مولاناؒ نے بھائی صاحب کو لیٹنے کا حکم دیا، لیکن بھائی صاحب نہ مانے، تو انہیں زبر دستی لٹادیا، اور خود ان کی ٹانگوں کو اس زور سے پکڑ کر ان کے پاؤں کی طرف لیٹ گئے کہ وہ اٹھ نہ سکیں ،اپنے ایک شاگرد کے ساتھ یہ معاملہ وہی شخص کرسکتا ہے جسے اللہ نے حقیقی تواضع کے مقام بلند سے سرفراز کیا ہو۔

حضرت بنوریؒ کے ساتھ سفرحجاز وافریقہ کی یادیں

مولاناؒ کی شفقتوں کا کہاں تک شمار کیا جاسکتا ہے؟ بفضلہ تعالیٰ ان کے ساتھ بہت سے سفروں میں بھی رفاقت نصیب ہوئی اور ہر سفر مولاناؒ کی محبت و عظمت اور عقیدت میں کئی گنا اضافہ کرکے ختم ہوا، اپنے رفقأ کے ساتھ مولاناؒ کا طرزِ عمل حیرت انگیز حد تک مشفقانہ ہوتا تھا، اور اس ناچیز کے ساتھ تو مولاناؒ بالکل ایسا معاملہ فرماتے تھے اور احقرکا ایسی باریک بینی کے ساتھ خیال رکھتے تھے جیسے کوئی باپ اپنے کمسن بچے کا خیال رکھتا ہو رمضان ۱۳۹۵ھ میں جب مولاناؒ افریقہ کے سفر پر جانے لگے تو احقر کو بھی رفاقت کا شرف عطا فرمایا۔ہم پہلے حجاز گئے، اور اللہ تعالیٰ نے حجاز تک حضرت والد صاحب ؒ کی معیت بھی نصیب فرمادی، لیکن حضرت والد صاحبؒ اخیر رمضان میں واپس کراچی تشریف لے آئے، اور احقر حضرت بنوریؒ کے ساتھ حجاز میں ٹھہر گیا، ان دنوں حضرت والد صاحبؒ کی طبیعت ناساز تھی، اس لیے میں صبح و شام انتہائی فکر مند رہتا تھا کہ بھوک اڑ گئی تھی، مولانا ؒ کو احساس تھا کہ حضرت والد صاحبؒ سے جدائی احقر کے لیے انتہائی صبر آزما ہے، وہ خود فرماتے تھے کہ’’میں جانتا ہوں،تمہیں اپنے والد سے عشق ہے‘‘اس لیے مولاناؒ اپنی شگفتہ مزاجی سے میری فکر کو زائل کرنے کی کوشش فرماتے رہتے تھے۔

اس کے بعد ہم نیروبی پہنچے تو وہاں کی آب و ہوا قدرتی مناظر اور خنک موسم سے میری صحت پر اچھا اثر ہوا، ادھر حضرت والد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی صحت کی خبر بھی مل گئی تھی اس لیے میری طبیعت میں قدرے شگفتگی اور نشاط پیدا ہوگیا، اسی دوران ایک دوپہر کو ہم کھانے پر بیٹھے تھے، میرے اور مولاناؒ کے درمیان دو آدمی حائل تھے، کھانے کے بعد جب احقر مولاناؒ کے کمرے میں پہنچا تو فرمانے لگے، ’’آج مجھے بڑی خوشی ہو رہی ہے‘‘، میں نے عرض کیا، ’’کیوں؟‘‘ فرمایا ’’آج کے کھانے پر تم نے رغبت کے ساتھ دو سے زیادہ روٹیاں کھائی ہیں۔‘‘

مولانا کا یہ جواب سن کر میں دنگ رہ گیا اللہ اکبر ! مولانا اپنے ایک نا کارہ خادم کے بارے میں یہاں تک خیال رکھتے تھے کہ اس کی بھوک اور خوراک میں کیا کمی اور کیا اضافہ ہورہا ہے ؟ اور یہ تو ایک چھوٹا سا واقعہ ہے، اگر میں مولاناؒ کے ساتھ کیے ہوئے سفروں کے واقعات لکھنے شروع کروں تو ایک مفصل مقالہ صرف اس کے لیے چاہیے۔ احقر نے افریقہ سے واپسی پر حضرت والد صاحبؒ سے مولاناؒ کی اس قسم کی رعایتوں کا ذکر کیا تو حضرت والد صاحبؒ نے فرمایا: ’’یہ وصف صرف کتابیں پڑھنے سے انسان میں پیدا نہیں ہوتا، یہ جو ہر بزرگوں کی صحبت سے ملتا ہے‘‘۔

حضرت بنوریؒ سے باضابطہ تلمذ

یوں تو احقر مولاناؒ کا شاگرد ہی تھا، اور ہر ملاقات میں مولاناؒ سے کوئی نہ کوئی علمی فائدہ حاصل ہوجاتا تھا، لیکن ان سے باقاعدہ کوئی کتاب پڑھنے کا موقع نہیں ملا تھا، احقر نے کئی بار خواہش ظاہر کی تو مولاناؒ طرح دے گئے، افریقہ کے سفر میں احقر نے مدینہ طیبہ سے اصول حدیث پر حافظ ابن کثیرؒ کی ایک کتاب ’’الباعث الحثیث‘‘ خریدلی تھی، احقر نے عرض کیاکہ میں یہ کتاب آپ سے پڑھنا چاہتا ہوں، مولاناؒ شروع میں اپنی تو اضع کے سبب انکار فرماتے رہے، بالآخر احقر نے ایک روز فجر کے بعد مولاناؒ سے عرض کیا کہ ’’میں اس کتاب کی عبارت آپ کے سامنے پڑھنے پر اکتفا کروں گا، اس پر مولاناؒ راضی ہوگئے میں جانتا تھا کہ جب بات چھڑے گی تو مولاناؒ خاموش نہ رہ سکیں گے چنانچہ احقر نے عبارت پڑھنی شروع کی، بس پھر مولاناؒ کھل گئے، اور تقریباً کتاب کے ہر فقرے پر کچھ نہ کچھ نئے افادات بیان فرمائے، افسوس ہے کہ حضرت والد صاحبؒ کی علالت کی بنا پر مجھے افریقہ سے جلد واپس آنا پڑا، اور یہ کتاب مولاناؒ کے سامنے مکمل نہ ہو سکی، لیکن بحمد اللہ اس طرح ضابطے کا تلمذّ بھی مولاناؒ سے حاصل ہوگیا، مندرجہ ذیل باتیں جو مولاناؒ نے اس درس میں بیان فرمائی تھیں، اب تک یاد ہیں۔

(۱)حافظ ابن کثیرؒ اگرچہ مسلکاً شافعی ہیں، لیکن علامہ ابن تیمیہؒ کے شاگرد ہونے کی وجہ سے ان کے متعدد تفردات میں ان کے ہم نواہیں، مثلاً شدِّر حال کے مسئلے میں۔

(۲)علماء حدیث کا اس مسئلہ میں اختلاف رہا ہے کہ کون سی سندا صح الاسانید ہے، امام احمدؒ نے ’’زہری عن سالم عن ابیہ‘‘ کو اصبح الاسانید قرار دیا ہے۔ علی ابن المدینی نے ’’محمد بن سیرین عن عبیدۃ عن علیؓ ‘‘ کومانا ہے ،اور یحییٰ بن معینؒ نے ’’اعمش عن ابرہیم عن علقمہ عن ابن مسعودؒ‘‘ کو، لیکن در حقیقت ان میں سے کسی کو علی الاطلاق اصح الا سانید کہنا مشکل ہے، در حقیقت اقوال کا یہ اختلاف اپنے اپنے علاقوں کی وجہ سے ہے، امام احمدؒ کا قول اہل مدینہ کے لحاظ سے درست ہے، علی ابن المدنییؒ کا قول بصرہ کے لحاظ سے صحیح ہے، اور یحییٰ بن معینؒ کا قول اہل کوفہ کے لحاظ سے، اس کے علاوہ بھی اس درس کی بعض باتیں احقر کے پاس لکھی ہوئی محفوظ ہیں۔

احقر پر حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ تھا کہ جب سے البلاغ شائع ہونا شروع ہوا، وہ احقر کی تحریروں پر عام طور سے ایک سرسری نظر ضرور ڈال لیتے تھے، اور ملاقات کے وقت کوئی قابل اصلاح بات ہوتی تو اس پر تنبیہ بھی فرمادیتے، اور کوئی بات پسند آتی تو اس پر حوصلہ افزائی بھی فرماتے، اور یہ بات احقر کے لیے مایہ صدافتخار ہے کہ حضرت مولاناؒ نے البلاغ کی تحریروں پر اظہار پسندیدگی کرتے ہوئے اپنی تصنیف’’معارف السنّن‘‘ کا ایک سیٹ احقر کو بطور انعام عطا فرمایا جس کی پہلی جلد پر اپنے قلم سے یہ عبارت نہایت پاکیزہ خط میں تحریر فرمائی :

’’أقدّم ھذا الکتاب بأجزائہ الستۃ المطبوعۃ الی أخی فی اللہ الاستاذ الزکیّ والعالم الذکی الشاب التقی محمّد تقی إعجاباً بنبو غہ فی کتابات مجلّۃ الشھریۃ ’’البلاغ‘‘ خصوصاًفی ردّہٖ علی کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ ردّا بلیغاً ناجعا حفظہ اللہ ووفقّہ لا مثال امثالہٗ وھو الموفق‘‘
کتبہ محمد یو سف البنوری
۲۶/۳/۹۱ھ

جہاں تک کتابی علم کا تعلق ہے، دنیا میں اب بھی اس کی کمی نہیں، نہ جانے کتنے بڑے بڑے محققین آج بھی موجود ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اکا بر علمائے دیوبند کو جو خصوصیت عطا فرمائی تھی وہ یہی تھی کہ علم و فضل کا دریائے نا پیدا کنار ہونے کے باوجودان کی ادا سادگی اور تو اضع میں ڈوبی ہوئی تھی، حضرت مولانا بنوریؒ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے مشائخ کی اس میراث سے حصۂ وافر عطا فرمایا تھا، ان کے عظیم کاموں کا راز در حقیقت ان کے اخلاص، ان کی للہیت ان کی سادگی وبے تکلفی اوران کی تواضع میں تھا۔

حضرت بنوریؒ اورتحریک ختم نبوت کی قیادت

مولاناؒ کے عملی کارناموں میں سب سے نمایاں کارنامہ تحریک ختم نبوت کی کامیاب قیادت تھی، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ سالہا سال سے چلا آرہا تھا، اور ۱۹۵۳ء میں ہزا رہا مسلمانوں نے اس کے لیے عظیم قربانیاں دی تھیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مسئلے کو سرکاری اور قانونی سطح پر ۱۹۷۳ء کی جس تحریک کے ذریعے حل کرایا اس کے قائد مولانا بنوریؒ تھے، اس تحریک کے دوران احقر کو مولاناؒ کے ساتھ کئی سفروں میں ساتھ رہنے کا موقع ملا، اور احقر نے ان کے جس طرز عمل کا مشاہدہ کیا اس کے پیش نظر احقر کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ انشاء اللہ یہ تحریک ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔

کوئٹہ کے سفر میں احقر مولاناؒ کے ہمراہ تھا، جہاں مولانا کو کل چوبیس گھنٹہ ٹھہرنا تھا جس میں تین مجلسوں سے خطاب کرنا تھا، ایک پریس کانفرنس تھی، گورنر بلوچستان سے ملاقات تھی اور عشاء کے بعد جامع مسجد میں ایک عظیم الشان جلسہ عام تھا، سارے دن مولاناؒ کو ایک لمحہ بھی آرام نہ مل سکا اور رات کو جب ہم جلسئہ عام سے فارغ ہوکر آئے تو بارہ بج چکے تھے، خود میں تھکن سے نڈھال ہورہا تھا مولاناؒ تو یقینا مجھ سے زیادہ تھکے ہوئے ہوں گے، میں نے بارہا کوشش کی تھی کہ مولاناؒ کبھی جسمانی خدمت کا موقعہ دے دیں، لیکن وہ ہمیشہ سے انکار فرمادیتے تھے، اُس رات احقر نے کچھ ایسے ملتجیا نہ انداز میں مولاناؒ سے پائوں دبانے کی اجازت چاہی کہ مولاناؒ کو رحم آگیا، اور انہوں نے اجازت دے دی، لیکن یہ محض میری خاطر داری تھی، چنانچہ ہر تھوڑی دیر بعد وہ کچھ دعائیں دے کر پائوں سمیٹنے کی کوشش کرتے، بالآخر میں نے جب محسوس کیا کہ ان کو پائوں دبوانے کی راحت سے زیادہ طبیعت پر بار ہورہا ہے تو میں نے چھوڑ دیا، اس کے بعد میں سوگیا، رات کے آخری حصے میں آنکھ کھلی تو دیکھا کہ چار پائی خالی ہے اور وہ قریب بچھے ہوئے ایک مصلّے پر سجدے میں پڑے ہوئے سسکیاں لے رہے ہیں، اللہ اکبر! ایسے سفر، اتنے تکان اور اتنی مصروفیات میں بھی ان کا نالۂ نیم شبی جاری تھا، یہ دیکھ کر مجھے ایک تو ندامت ہوئی کہ مولاناؒ اپنے ضعف، علالت اور سفر کے باوجود بیدار ہیں اور ہم صحت اور نو عمری کے باوجود محوِ خواب! اور دوسری طرف یہ اطمینان بھی ہوا کہ جس تحریک کے قائد کا رشتہ ایسے ہنگامۂ دارو گیر میں بھی اپنے رب کے ساتھ اتنا مستحکم ہو ان شاء اللہ وہ نا کام نہیں ہوگی۔

نام ونمود کا فتنہ،دینی تحریکوں کی تباہی

اس زمانے میں ملک بھر میں مولاناؒ کا طوطی بول رہا تھا، اخبارات مولاناؒ کی سرگرمیوں سے خبروں سے بھرے ہوئے ہوتے تھے، اور ان کی تقریریں اور بیانات شہ سرخیوں سے شائع ہوتے تھے، چنانچہ جب صبح ہوئی تو میز بانوں نے اخبارات کا ایک پلندہ لاکر مولاناؒ کے سامنے رکھ دیا، یہ اخبارات مولاناؒ کے سفر کوئٹہ کی خبروں، بیانات، تقریروں اور تصویروں سے بھرے ہوئے تھے، مولاناؒ نے یہ اخبارات اٹھا کر ان پر ایک سرسری نظر ڈالی اور پھر فوراً ہی انہیں ایک طرف رکھ دیا، اس کے بعد جب کمرے میں کوئی نہ رہا تو احقر سے فرمایا: ’’آج کل جو تحریک دین کے لیے چلائی جائے اس میں سب سے بڑا فتنہ نام ونمود کا فتنہ ہے، یہ فتنہ دینی تحریکوں کو تباہ کر ڈالتا ہے، مجھے بار بار یہ ڈر لگتا ہے کہ میں اس فتنہ کا شکار نہ ہوجائوں، اور اس طرح یہ تحریک نہ ڈوب جائے، دعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس فتنے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے، ورنہ یہ ہمارے اعمال کو توبے وزن بناہی دے گا اس مقدس تحریک کو بھی لے کر بیٹھ جائے گا۔‘‘

یہ بات فرماتے ہوئے مولاناؒ کے چہرہ پر کسی تصنع یا تکلف کے آثارنہ تھے، بلکہ دل کی گہرائیوں میں پیدا ہونے والی تشویش نمایاں تھی! مولانا بنوریؒ کے علم و فضل اور دین کے لیے ان کی جدوجہد کے حالات تو ان شاء اللہ بہت لکھے جائیں گے، لیکن مولاناؒ بنوریؒ کے اصلی کمالات یہ تھے جو انہیں اپنے بزرگوں کی خدمت و صحبت سے حاصل ہوئے تھے ، خوف و خشیت، بیم ورجاء، اخبات و انابت اور اخلاص وللہیت کی یہ صفات تھیں جنہوں نے ان کو مقبولیت کے اس مقام بلند تک پہنچایا اور جنہوں نے ان کے کاموں میں برکت اور ان کی جدوجہد کو کامیابی عطا کی، رحم اللہ تعالی و طیب ثراہ وجعل الجنۃ مثواہ!

حضرت والد ماجدؒ کی وفات کے بعد خصوصی شفقت اور تعلق

والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ہم لوگوں کے لیے زندگی کا سب سے بڑا دھکاّ اور سب سے بڑا حادثہ تھا، اس حادثے پر جن بزرگوں نے سرپرستی فرماکر ہم لوگوں کی ڈھارس بندھائی ان میں ہمارے مرشد ومربی عارف باللہ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب عارفی (متّعنا اللہ بطول حیاتہ بالعا فیۃ)حال صدر دارالعلوم کراچی کے احسانات توبے حد وحساب ہیں ہی، اللہ تعالیٰ ان کے فیوض سے تادیر مستفید ہونے کی توفیق کامل مرحمت فرمائے آمین، لیکن مدارس کے ماحول میں حضرت بنوریؒ کی ذات ہمارے لیے بہت بڑا سہارا تھی۔

حضرت والد صاحبؒ کی وفات کے بعد برادر محترم جناب مولانا محمد رفیع صاحب عثمانی مد ظلہم العالی کو دارالعلوم کے اہتمام کی ذمہ داری قبول کرنے میں بڑا تردد تھا، اس موقع پر حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھائی صاحب کو بلا کر با صرار فرمایا کہ یہ فریضہ آپ ہی پر عائد ہوتا ہے، اور آپ ہی اسے بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں، اور ساتھ ہی ایک مہتمم مدرسہ پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں، ان کے بارے میں ایسے زریں رہنما اصول بھائی صاحب مد ظلہم کو بتلائے جو مولاناؒ کے تجربات کا نچوڑ تھے، اور اب تک بھائی صاحب کی رہنمائی کررہے ہیں۔

حضرت والد صاحبؒ سے مولاناؒ کو جو تعلق تھا، مولاناؒ نے آخر دم تک اس کا حق ادا کیا، وقتاً فوقتاً دارالعلوم تشریف لا کر رہنمائی فرماتے رہے ایک مرتبہ تو بغیر کسی سابقہ اطلاع کے تشریف لے آئے جس کی مسرت و حلاوت اب تک محسوس ہو رہی ہے، بلکہ یہ بھی ارادہ ظاہر فرمایا کہ میں مہینے میں کم از کم ایک دن دارالعلوم میں گزارنا چاہتا ہوں، گو ناگوں مصروفیات کے سبب پھر اس کا تو موقع نہ مل سکا لیکن ان کی توجہات اور عنایتیں مسلسل اہل دارالعلوم کو حاصل رہیں، حضرت والد صاحب ؒ کی وفات کے بعد بخاری شریف کا افتتاح بھی مولاناؒ نے کرایا۔

جامعہ دارالعلوم کراچی میں بخاری شریف کا افتتاح

اور ابھی وفات سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے جب دارالعلوم کا آغاز ہو رہا تھا تو برادر محترم جناب مولانا محمد رفیع صاحب عثمانی نے مولاناؒ سے فون پر عرض کیا کہ ’’حضرت! اب تو ہمیں آپ سے بخاری شریف کا افتتاح کرانے کی عادت ہوگئی ہے‘‘ جواب میں پہلے تو مزاحاً فرمایا کہ:’’لیکن التزام تو مستحبات کا بھی واجب الترک ہوجاتا ہے، اور آپ تو فقہاء ہیں‘‘ بھائی صاحب نے فرمایا’’حضرت یہ التزام نہیں، اعتیاد ہے‘‘ فرمانے لگے کہ ’’اگر آپ نہ کہتے تب بھی میری خواہش یہی ہوتی‘‘ بھائی صاحب نے عرض کیا کہ’’صبح نو بجے ان شاء اللہ گاڑی پہنچ جائے گی، لیکن ہمارے پاس سوزوکی ہے، اور اسے حضرتؒ کے پاس بھیجتے ہوئے ندامت ہوتی ہے کہ اس میں آپ کو (گھنٹوں کی تکلیف کی وجہ سے)زحمت ہوتی ہے‘‘ فرمانے لگے نہیں، نہیں!وہ تو بڑی آرام دہ گاڑی ہے، آپ اس کی بالکل فکر نہ کریں‘‘شام کو بھائی صاحب نے احقر سے فرمایا کہ مولاناؒ سے دوپہر کے کھانے کی بھی درخواست کردوں، چنانچہ احقر نے فون پر عرض کیا کہ’’اگر افتتاح بخاری کے ساتھ دوپہر کا کھانا بھی یہیں ہوجائے تو مزید کرم ہو‘‘ فرمایا:’’کچھ حرج نہیں، البتہ میرے ساتھ مدینہ طیبہ کے شیخ عبدالقادر بھی ہوں گے، ان کے لیے بغیر مرچ کا کھانا بنوالینا، اور مجھے چونکہ پرہیز ہے اس لیے تھوڑی سی یخنی بنوالینا مگر بس تھوڑی سی ہو’’ لقیمات یقمن صلبہ‘‘(چند چھوٹے سے نوالے لینے ہیں جو پشت سیدھی رکھ سکیں) مولانا ؒ نے یہ فرمائش کرکے مزید دل خوش کردیا۔

دو شنبہ ۲۵شوال ۱۳۹۷ھ کو مولاناؒ تشریف لائے طبیعت بحال نہ تھی، اور چلنا پھرنا تو عرصہ سے دوبھر تھا، لیکن نہایت شگفتگی کے ساتھ تشریف فرما ہوئے، اور فرمانے لگے کہ محض تحلۃً للقسم تھوڑا سا بیان کروں گا زیادہ کی ہمت نہیں، لیکن جب درس شروع ہوا تو طبیعت کھل گئی اور تقریباًایک گھنٹہ تدوینِ حدیث کے موضوع پر بڑی فاضلانہ تقریر فرمائی، جس کا خلاصہ اسی شمارے میں عزیزم مولوی شیخ رحیم الدین سلمہ، کے قلم سے الگ شائع ہورہا ہے، درس کے بعد دیر تک حاضرین کو اپنے علمی لطائف و ظرائف سے محظوظ فرماتے رہے، اسی دوران ہم نے چائے کے لیے درخواست کی تو فرمایا کہ’’خفیف قسم کی چائے بنوالو‘‘ لیکن پھر خود ہی فرمایا کہ’’خفیف ہونے کا فیصلہ کون کرے گا!لہذا چائے بنانے والے سے کہو کہ وہ پتیلی میں پانی جوش دے کر یہیں لے آئے، پتی میں خود ڈالوں گا‘‘ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور تمام چیزوں کی طرح چائے کے بارے میں بھی مولاناؒ کا ذوق بڑا نفیس تھا، فرمایا کرتے تھے کہ اچھی چائے کی تین خصوصیات ہیں، لب دوز ہو، لب سوز ہواور لبریز ہو۔

آخری سفر کی تمہید

چائے کے بعد حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر تشریف لے گئے، اور واپس آکردوپہر کا کھانا تناول فرمایا، برادر محترم جناب مولانا محمد رفیع عثمانی پاس بیٹھے تھے، وہ جس جس چیز کے تناول فرمانے کی درخواست کرتے، مولاناؒ لے لیتے، کسے معلوم تھا کہ دارالعلوم میں آخری بار مولاناؒ کی خاطر داری ہورہی ہے، اور ایک ہفتہ بعد ٹھیک اسی دن اور اسی وقت مولاناؒ ملائِ اعلیٰ کی مہمانی کے لیے تیار ہورہے ہوں گے!اسی روز مولاناؒ نے احقر سے پوچھا!’’اسلامی مشاورتی کونسل کا اجلاس جمعرات کو ہے،کب چلوگے؟‘‘احقر نے عرض کیا:’’جب آپ تشریف لے جائیں‘‘ فرمایا:’’میں نے جمعرات کو صبح آٹھ بجے کے طیارے سے سیٹ بُک کرالی ہے‘‘ میں نے عرض کیا:’’میں بھی اسی سے بکنگ کرا لیتا ہوں‘‘ اس طرح مولاناؒ کے آخری سفر میں بھی اللہ تعالیٰ نے احقر کو رفاقت کا شرف عطا فرمایا۔

جمعرات آئی، صبح کو میں ائیر پورٹ پہنچا تو مولاناؒ تشریف نہیں لائے تھے، میں دروازے پر انتظار کرتا رہا تھوڑی دیر بعد مولانا تشریف لائے، کچھ دنوں سے عام طور پر حضرت بنوریؒ کے ساتھ سفر میں مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق صاحب ہوا کرتے تھے، لیکن اس بار وہ صرف پہنچانے کے لیے آئے، اور ساتھ جانے کے لیے حضرت ؒ کے صاحبزادے مولانا محمد بنوری صاحب سلمہ تھے، طیارے میں ہم ساتھ چڑھے میں نے اور مولانا محمد صاحب نے مولاناکو اپنے کندھے کا سہارا کرنا چاہا، لیکن وہ جہاز کی سیڑھیوں کی دورویہ دیواروں سے سہارا لے کر چڑھتے رہے، کسے معلوم تھا کہ یہ مولاناؒ کا آخری سفر ہے، اور اسی لیے قدرت نے اس سفر میں خلاف معمول ان کے صاحبزادے کو ساتھ کردیا ہے بظاہر طیا رّہ راولپنڈی جارہا تھا اور مولاناؒ کو اسلام آباد جانا تھا، لیکن یہ کون جانے کہ مولاناؒ کی منزلِ مقصود اسلام آباد سے بہت آگے ہے، اور وہ اس سفر پر روانہ ہو رہے ہیں جہاں سے کوئی لوٹ کر دنیا میں نہیں آتا، ہمارے کان تو فضائی عملے کا صرف یہ اعلان سن رہے تھے کہ پچیس منٹ میں اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر پہنچے گا‘‘لیکن یہ کسی کو خبر نہ تھی کہ مولانا کے لیے یہ کہیں اور سے بُلاوا آیا ہے :

کس نہ دانست کہ منزل گِہ مقصود کجاست
ایں قدر ہست کہ بانگِ جرسے می آید

مولاناؒ کو سفر میں چونکہ معاون کی ضرورت ہوتی تھی، اس لیے وہ اسلامی کونسل کے اجلاس میں اپنے کسی رفیق کو اپنے خرچ پر ساتھ لے جاتے تھے، میں نے مولانا سے عرض کیا کہ’’حضرت آئندہ آپ کو اپنی خدمت کے لیے کسی کو ساتھ لانے کی ضرورت نہیں، میں ساتھ موجود ہوتا ہوں، اور مجھے علیٰحدہ کمرے میں قیام کی بھی ضرورت نہیں، میں آپ ہی کے کمرے میں آپ کے ساتھ ٹھہر جایا کروں گا، اور اس طرح مجھے بھی تحصیل سعادت کا موقع مل جائے گا‘‘ مولاناؒ اس پر مسرور تو ہوئے، لیکن فرمایا:’’آپ کو اس نیت کا ثواب مل گیا، نیۃ المرء خیرمن عملہ(انسان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے)میں ابھی اپنا کام خود کرلیتا ہوں، میں نے اس وقت زیادہ اصرار نہ کیا کہ آئندہ سفر کے موقع پر دیکھا جائے گا لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ قدرت یہ الہامی الفاظ زبان سے ادا کرارہی ہے، اور احقر کی اس نیت کو نیت ہی رہنا ہے، اس کے ملبوسِ عمل ہونے کی نوبت کبھی نہ آسکے گی۔

حضرت بنوریؒ کی آخری تقریر:تبلیغی مقاصد کے لیے ٹی وی اور فلم کا استعمال

طیارے میں مولاناؒ حسب معمول شگفتہ رہے، اور جمعرات کا دن بھی ہشاش بشاش رہ کر گزارا، اس روز کونسل کی دو نشستیں تھیں، مولانا نے دونوں میں بھر پور حصہ لیا، جمعہ کی صبح تیسری نشست تھی اس میں مولاناؒ نے کونسل میں ایک نہایت اصولی، مختصر، مگر جامع تقریر فرمائی جو مولاناؒ کی آخری تقریر تھی کونسل کی نشستوں میں ایجنڈے سے باہر کی باتیں بھی بعض اوقات چھڑ جاتی ہیں، اسی سلسلہ میں دراصل ہوا یہ تھا کہ بعض حضرات نے مولاناؒ سے فرمائش کی تھی کہ وہ ٹیلی ویژن پر خطاب فرمائیں، مولاناؒ نے ریڈیو پر خطاب کرنے کو تو قبول کرلیا تھا، لیکن ٹیلی ویژن پر خطاب کرنے سے معذرت فرمادی تھی کہ یہ میرے مزاج کے خلاف ہے، اسی دوران غیر رسمی طور پر یہ گفتگو بھی آئی تھی کہ فلموں کو مخرب اخلاق عناصر سے پاک کرکے تبلیغی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں مولانا ؒ نے جو کچھ ارشاد فرمایا اس کا خلاصہ یہ تھا:

’’اس سلسلہ میں میں ایک اصولی بات کہنا چاہتا ہوں، اور وہ یہ کہ ہم لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو، لوگوں کو پکا مسلمان بنا کر چھوڑیں، ہاں اس بات کے مکلف ضرور ہیں کہ تبلیغ دین کے لیے جتنے جائز ذرائع ’’وسائل ہمارے بس میں ہیں ان کو اختیار کرکے اپنی پوری کوشش صرف کردیں، اسلام نے ہمیں جہاں تبلیغ کا حکم دیا ہے وہاں تبلیغ کے باوقار طریقے اور آداب بھی بتائے ہیں، ہم ان طریقوں اور آداب کے دائرے میں رہ کر تبلیغ کے مکلف ہیں، اگر ان جائز ذرائع اور تبلیغ کے ان آداب کے ساتھ ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو عین مراد ہے، لیکن اگر بالفرض ان جائز ذرائع سے ہمیں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع اختیار کرکے لوگوں کو دین کی دعوت دیں، اور آداب تبلیغ کو پس پشت ڈال کر جس جائز و ناجائز طریقے سے ممکن ہو، لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں، اگر ہم جائز وسائل کے ذریعے اور آداب تبلیغ کے ساتھ ہم ایک شخص کو بھی دین کا پابند بنادیں گے تو ہماری تبلیغ کامیاب ہے، اور اگر ناجائز ذرائع اختیار کرکے ہم سو (۱۰۰) آدمیوں کو بھی اپنی ہم نوا بنالیں تو اس کامیابی کی اللہ کے یہاں کوئی قیمت نہیں کیونکہ دین کے احکام کو پامال کرکے جو تبلیغ کی جائے گی وہ دین کی نہیں کسی اور چیز کی تبلیغ ہوگی، فلم اپنے مزاج کے لحاظ سے بذاتِ خود اسلام کے حکام کے خلاف ہے، لہذا ہم اس کے ذریعے تبلیغ دین کے مکلف نہیں ہیں۔ اگر کوئی شخص جائز اور باوقار طریقوں سے ہماری دعوت کو قبول کرتا ہے تو ہمارے دیدہ دل اس کے لیے فرش راہ ہیں لیکن جو شخص فلم دیکھے بغیر دین کی بات سننے کے لیے تیار نہ ہو اسے فلم کے ذریعے دعوت دینے سے ہم معذور ہیں، اگر ہم یہ موقف اختیار نہ کریں تو آج ہم لوگوں کے مزاج کی رعایت سے فلم کو تبلیغ کے لیے استعمال کریں گے کل بے حجاب خواتین کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا، اور رقص و سرور کی محفلوں سے لوگوں کو دین کی طرف بلانے کی کوشش کی جائے گی، اس طرح ہم تبلیغ کے نام پر خود دین کے ایک ایک حکم کو پامال کرنے کے مرتکب ہوں گے۔‘‘

یہ کونسل میں مولاناؒ کی آخری تقریر تھی، اور غور سے دیکھا جائے تو یہ تمام دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کے لیے مولاناؒ کی آخری وصیت تھی جو لوحِ دل پر نقش کرنے کے لائق ہے،مولانا کی اس تقریر کے بعد وہ غیر رسمی گفتگو تو ختم ہوگئی، اور پھر ایجنڈے کے مطابق کارروائی ہوتی رہی جس میں مولاناؒ نے حصہ لیا۔

حق شناسی کی تعلیم

شام کو کونسل کی چوتھی نشست تھی، اور اس میں بھی مولاناؒ پورے نشاطِ طبع کے ساتھ تشریف لے گئے، جاتے ہوئے حضرت بنوریؒ کار کی اگلی نشست پر تشریف فرما تھے، اور احقر پچھلی نشست پر تھا احقر کو اجلاس میں ایک مسودہ پیش کرنا تھا، اس لیے راستے میں اس پرنظر ثانی کرنے لگا، عصر کے بعد کا وقت تھا، اور کارسبزہ و گل سے لدے ہوئے پہاڑ کے دامن میں بل کھاتی ہوئی سڑک پر جارہی تھی جس کے دونوں طرف سرسبز مناظر تھے، مولاناؒ نے پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھا تو میں قلم ہاتھ میں لیے مسودے کی نوک پلک ٹھیک کررہا تھا، مولاناؒ نے فرمایا،’’ایھا الشیّخ الشاب (نوجوان بڑے میاں) ذرا اس وقت تو یہ کام رہنے دو، باہر کی طرف دیکھو، کیسے حسین مناظر ہیں؟ ان قدرتی مناظر کا بھی کچھ حق ہے، اور یہ ان کا حق ادا کرنے کا وقت ہے‘‘ مجھے اپنی کوتاہی کا بھی احساس ہوا، اور مولانا کی عظمت کا بھی، کہ مذاق ہی مذاق میں حق شناسی کی کیسی تعلیم دے دی، اور مناظر قدرت سے لطف اندوز ہونے کو بھی عبادت بنادیا۔

سفر آخرت

کونسل میں مولاناؒ کی آخری تشریف آوری تھی، نماز مغرب انہوں نے ہی پڑھائی اور دیر تک دعائیں کراتے رہے، مغرب کے بعد بھی دیر تک اجلاس جاری رہا اور وہ اس میں پوری شگفتگی کے ساتھ شریک رہے، عشاء کے بعد ہم واپس گورنمنٹ ہاسٹل آگئے، مولاناؒ اپنے کمرے میں تشریف لے گئے اور میں اپنے کمرے میں آگیا، ہفتے کی صبح ناشتے کے بعد مجھے مولانا کے کمرے میں جانا تھا، برادر محترم مولانا سمیع الحق صاحب مدیر ماہنامہ’’ الحق‘‘، احقر کے بھتیجے مولوی محمود اشرف عثمانی سلمہ، اور عمہ زادہ جناب زاہد حسن انصاری صاحب بھی میرے پاس آئے ہوئے تھے، اور رات میرے ساتھ رہے تھے، ہم سب مولاناؒ کے کمرے میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مولانا کے گلے میں کوئی تکلیف ہوئی ہے اور مولوی محمد بنوری صاحب سلمہ، ان کو معائنہ کے لیے پولی کلینک لے گئے ہیں، تھوڑی دیر بعد مولانا تشریف لے آئے، اور ہمیں دیکھ کر سوال کے بغیر ہی فرمادیا کہ صبح میرے گلے میں کچھ عجیب سی تکلیف ہوئی، ڈاکٹر نے معائنہ کے بعد بتایا کہ یہ دل کی تکلیف نہیں ہے، لیکن آرام کی ضرورت ہے، مولوی محمد صاحب نے مجھ سے الگ بتایا کہ ڈاکٹر نے یہ بھی کہا ہے کہ دل پر معمولی دباؤ ہوا ہے، مولاناؒ کو چونکہ اس سے پہلے دل کی تکلیف ہوچکی تھی، اس لیے میرا ماتھا ٹھنکا، اور میں نے مولاناؒ سے درخواست کی کہ آج کے تمام پروگرام منسوخ کرکے مکمل آرام فرمائیں، ہم نے عرض کیا کہ ہم کمرے کا دروازہ بند کرکے باہر آدمی بیٹھادیتے ہیں تاکہ کوئی اندر نہ جائے، مولاناؒ نے فرمایا کہ کچھ زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ان شا اللہ تھوڑے سے آرام کے بعد طبیعت بحال ہوجائے گی تھوڑی دیر بعد مولانا لیٹ گئے، اور اندازہ ہوا کہ نیند آگئی ہے، چنانچہ ہم باہر چلے آئے۔

اس روز صبح کے وقت کونسل کا کوئی اجلاس نہ تھا، بلکہ ارکان کونسل کو ادارۂ تحقیقات اسلامی کا معائنہ کرنے کے لیے جانا تھا چنانچہ دس بجے میں وہاں چلاگیا، دو بجے کے قریب میں واپس آکر اپنے کمرے میں کھڑا ہی ہوا تھا کہ مولاناؒ کے صاحبزادے کو فون آیا کہ مولانا کی طبیعت زیادہ خراب ہے، فوراً پہنچئے، میں اسی حالت میں مولاناؒ کے کمرے کی طرف لپکا تو مولوی محمد صاحب سلمہ، کمرے سے باہر آبدیدہ کھڑے تھے، ان کی حالت دیکھ کر مجھے سخت تشویش ہوئی، قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ مولاناؒ کو شدید دورہ ہوا ہے اس وقت مولاناؒ نیم غنودگی کی حالت میں لیٹے تھے، اور وقفے وقفے سے کراہ رہے تھے۔

اتفاق سے اسلامی کونسل کے چیئر مین جناب جسٹس محمد افضل چیمہ صاحب بھی اس وقت مولاناؒ کی عیادت کے لیے پہنچ گئے تھے، میں اور وہ دونوں فوراً پولی کلینک پہنچے، ڈاکٹر صاحب وہاں موجود نہ تھے تو ان کے گھر جاکر ان سے ملاقات کی، جسٹس چیمہ صاحب نے ان سے مختصراً مولاناؒ کی کیفیت بیان کی، ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں نے مولاناؒ سے صبح بھی درخواست کی تھی کہ وہ تین روز کے لیے ہسپتال میں داخل ہوجائیں، مگر وہ نہ مانے اب ان کا ہسپتال میں داخل ہونا ضروری ہے، آپ انہیں پولی کلینک لے آئیں، چیمہ صاحب نے ان سے کہا کہ آپ ایمبولینس کا انتظام کردیں، انہوں نے اس کا وعدہ کیا، اور ہم ہوسٹل لوٹ آئے، یہاں احقر نے جسٹس چیمہ صاحب سے عرض کیا کہ جب ہسپتال میں داخل کرنا ہے تو پولی کلینک کے بجائے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں داخل کرنا زیادہ مناسب ہوگا، چنانچہ چیمہ صاحب نے مختلف جگہ فون کرکے وہاں داخلے کا انتظام کیا، اور وہاں سے بھی ایک ایمبولینس مولاناؒ کو لینے کے لیے روانہ ہوگئی۔

کافی دیر گزرگئی اور دونوں میں سے کوئی ایمبولینس بھی نہ پہنچی، بار بار فون کرنے کے بعد پولی کلینک کی ایمبولینس چار بجے کے قریب آئی، چونکہ سی ایم ایچ کی ایمبولینس بھی روانہ ہوچکی تھی اور وہ زیادہ آرام دہ ہوتی ہے، اس لیے چیمہ صاحب کی رائے تھی کہ چند منٹ اس کا انتظار کرلیا جائے لیکن مولاناؒ کی کیفیت دیکھ کر لمحہ بہ لمحہ میرا اضطراب بڑھ رہا تھا، میں نے عرض کیا کہ اب مزید انتظار کا تحمل معلوم نہیں ہوتا، اس لیے جو ایمبولینس موجود ہے اسی میں چلنا چاہیے، اس دوران برادر محترم مولانا قاری سعید الرحمان صاحب(مہتمم جامعہ اسلامیہ راولپنڈی) بھی پہنچ چکے تھے جو ہمیشہ راولپنڈی میں حضرت بنوریؒ کے خصوصی میزبان ہوا کرتے تھے، اور قاری رفیق صاحب بھی آگئے تھی، جو اسلام آباد میں مولانا کے قیام کے دوران ان کی خدمت کا شرف حاصل کرتے تھے، جب ہم اسٹریچر لے کر مولاناؒ کے قریب پہنچے تو مولاناؒ بیدار تھے، میں نے جسم کو ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ برف ہورہا تھا، اور کپڑے پسینے میں اس بری طرح شرابور تھے کہ انہیں بلا تکلف نچوڑا جاسکتا تھا، مولاناؒ نے میری طرف دیکھا تو ایک عجیب کیفیت کے ساتھ فرمایا:’’آج کی تکلیف بالکل نئی قسم کی تکلیف ہے، اس کوڈاکٹر نہیں سمجھ سکیں گے‘‘ اس سے قبل دورے کی شدت کے عالم میں اپنے صاحب زادے سے بھی مولاناؒ یہی بات فرما چکے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ’’اب میں جارہا ہوں‘‘۔

احقر نے عرض کیا:’’حضرت!اللہ تعالیٰ ان شا اللہ ہم پر فضل فرمائیں گے، ہم آپ کو کمبائنڈ ملٹری ہسپتال لے جانا چاہتے ہیں، ’’مولانا نے خود سپردگی کے عالم میں فرمایا’’جیسے آپ کی مرضی!‘‘جب مولانا محمد صاحب، قاری سعید الرحمٰن صاحب اور قاری رفیق صاحب مولاناؒ کی دائیں جانب سے انہیں اٹھانے کے لیے بڑھے تو فرمایا’’میں خود اٹھ جائوں گا‘‘ اور ساتھ ہی کچھ اٹھنے کی کوشش بھی کی لیکن نقاہت اتنی زیادہ تھی کہ اٹھا نہ گیا، ہم سب نے باصرار عرض کیا کہ’’آپ بالکل اٹھنے کی کوشش نہ کریں‘‘چنانچہ مولاناؒ کو اسٹریچر پراٹھا کر ایمبولینس میں سوار کردیا گیا، مولانامحمد صاحب، قاری سعید الرحمٰن صاحب اور قاری رفیق صاحب ایمبولینس میں مولاناؒ کے ساتھ بیٹھے اور مفتی سیاح الدین صاحب اور احقر چیمہ صاحب کے ساتھ ان کی کار میں ہسپتال روانہ ہوئے، راستہ بڑاطویل تھا عصر کے قریب ہم ہسپتال پہنچے، وہاں پہلے سے مولاناؒ کی تشریف آوری کی اطلاع ہوچکی تھی، اور انتہائی طبّی توجہ کے شعبے(intensive care unit)میں مولانا کو داخل کردیا گیا اس شعبے میں کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہ تھی، لیکن باہر مولاناؒ کے متعلقین کی بڑی تعداد جمع ہوگئی تھی۔ اللہ تعالیٰ برادر محترم مولانا قاری سعید الرحمٰن صاحب کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے مولانا کو راحت پہنچانے کے ممکنہ انتطامات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، اگرچہ حضرت سے ملنے کی اجازت کسی کو نہ تھی، مگر قاری رفیق صاحب، اور ان کے ایک ساتھی رات کو ہسپتال ہی کے لان میں رہے، رات کی مٹینگ کے بعد فون پر احقر نے خیریت معلوم کی تو پتہ چلا کہ بحمد اللہ طبیعت بہتر ہورہی ہے اور جسم میں گرمی بھی عود کر آئی ہے، اس خبر پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا، اتوار کی صبح سویرے بھی خیریت ہی کی اطلاع ملی، اور ساتھ ہی ڈاکٹروں کا یہ ارادہ بھی معلوم ہوا کہ وہ ان شااللہ ایک دو روز میں مولاناؒ کو آئی سی یو سے ہسپتال کے عام کمرے میں منتقل کردیں گے، اس سے مزید اطمینان ہوا، اتفاق سے اتوار کے روز کونسل کا اجلاس صبح ۹ بجے سے رات ساڑھے بارہ بجے تک جاری رہا، سہ پہر کے وقت جو وقفہ ہوا اس میں بھی ایک ذیلی کمیٹی کام کرتی رہی جس میں احقر بھی شامل تھا البتہ بیچ بیچ میں ہسپتال سے مولاناؒ کی خیریت معلوم ہوتی رہی، رات کے وقت قاری سعید الرحمن صاحب کو مولاناؒ سے ملاقات کا موقع مل گیا، اس وقت طبیعت کافی بشاش تھی مولانا نے قاری صاحب سے باتیں بھی کیں، اور افاقے کا حال بھی بتایا۔

دو شنبہ کی صبح ناشتہ کے بعد میں ہسپتال جانے کی تیاری کر ہی رہا تھا اور خیال یہ تھا کہ ان شا اللہ مولاناؒکو اچھی حالت میں دیکھوں گا، کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی یہ جسٹس چیمہ صاحب کا فون تھا، انہوں نے یہ دلخراش خبر سنائی کہ آج صبح مولاناؒ ہم سے رخصت ہوگئے، انّا للہ وانا الیہ راجعون۔

بیماری کے پہلے دن تشویش تو تھی، لیکن یہ بالکل اندازہ نہ تھا کہ مولاناؒ اتنی جلدی چلے جائیں گے ،اچانک یہ کرب انگیز خبر صاعقہ بن کر گری، ہوش و حواس قابو میں نہ رہے، افتاں خیزاں ہسپتال پہنچے تو مولاناؒ اس دارالمحن کی سرحد پار کر چکے تھے، کھلے ہوئے پر نور چہرے پر ایک عجیب طرح کا سکون طاری تھا جیسے ایک تھکا ہوا مسافر منزل پر پہنچ کر آسودہ ہوگیا ہو :

عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا

دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی کہ:

اللھم اکرم نزلہ ووسع مد خلہ و أبد لہ دارا خیر من دارہ و اھلا خیر امن اھلہٖ ونقہ من الخطایا کما ینقی الثوب الأبیض من الدنس وبلّغہ الدرجات العلٰی من الجنۃ آمین

ایک قرن کا خاتمہ

حضرت بنوریؒ کی وفات کے ساتھ ایک پوری قرن کا خاتمہ ہوگیا، یہ حادثہ صرف مولاناؒ کے اعزّہ کا نہیں پورے ملک کا پوری ملت کا، بلکہ پورے عالم اسلام کا حادثہ ہے اس حادثے سے دارالعلوم کراچی بھی اتنا ہی متاثر ہوا ہے جتنا مدرسہ عربیہ نیوٹاؤن، اور احقر کے لیے تو متعدد جہات سے یہ ایک عظیم ذاتی سانحہ ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کے بہت سے حضرات نے اس حادثہ پر جہاں مولاناؒ کے اعزّہ کے پاس تعزیتی خطوط روانہ کیے ہیں، وہاں احقر اور برادر محترم جناب مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب کو بھی تعزیت کے لیے خطوط لکھے ہیں، میں ان حضرات کا تہ دل سے شکر گذار ہوں کہ انہوں نے اس صدمہ جانکاہ کی نوعیت کو محسوس فرما کر اس مشکل وقت میں اظہار ہمدردی فرمایا۔

اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا ایک مسلمان کا شیوہ ہونا چاہیے، اس لیے اس عظیم صدمے کو باوجود جس کے بعد کمر ٹوٹی ہوئی معلوم ہوتی ہے، اس بات پر ایمان ہے کہ جو کچھ ہوا وہی اللہ تعالیٰ کی حکمت کا مقتضاء تھا، اب تو یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا بنوری قدس سرہ کو اعلیٰ علییّن میں جگہ عطا فرمائے ان کے متعلقین کو صبرِ جمیل کی توفیق بخشے اور ان کے نسبی و روحانی وارثوں اور بطور خاص برادر عزیز مولانا محمد بنوری صاحب کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس صدمے پر صبرِ جمیل کے ساتھ مولاناؒ کے نقش قدم پر چل کر اس مشن کو آگے بڑھائیں جس کا پرچم سر بلند رکھنے کے لیے مولاناؒ نے آخر وقت تک جدوجہد جاری رکھی، اور جس کی خاطر انہوں نے غریب الوطنی میں جان دی۔

اللّٰھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنّا بعدہ، انّ فیک عزاء من کلّ مصیبۃ وخلفا من کلّ ھالک، ولا حول ولا قوّۃ الّا بک، ولا ملجأ ولا منجا منک الاالیک۔

ماخوذ از: نقوش رفتگاں ، از مفتی محمد تقی عثمانی

حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری سے متعلق دیگر مفید اور معلوماتی مضامین کے مطالعہ کے لیے نیچے دیے گئے لنک سے کتاب ڈاؤن لوڈ کیجیے:

https://islaminsight.org/maulana-syed-muhammad-yousuf-banuri-%d9%85%d9%88%d9%84%d8%a7%d9%86%d8%a7-%d8%b3%db%8c%d8%af-%d9%85%d8%ad%d9%85%d8%af-%db%8c%d9%88%d8%b3%d9%81-%d8%a8%d9%86%d9%88%d8%b1%db%8c/
4,053 Views

One thought on “نقوش رفتگاں : علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ ، از مفتی محمد تقی عثمانی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!