وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود اور ان میں لفظی اختلاف کا مطلب، از مولانا اشرف علی تھانویؒ
تسہیل وترتیب: مفتی عمر انور بدخشانی
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
قال اللہ تعالی : یؤذینی ابن ادم یسب الدھر ، وأنا الدھر ، بیدی الأمر أقلب اللیل والنھار(اخرجہ الثلثۃ وابوداود)۔
حق تعالی شانہ فرماتے ہیں کہ ابن آدم ! مجھ کو آزردہ کرتا ہے کہ زمانہ کو برا کہتا ہے ،حالانکہ زمانہ میں ہوں (آگے اس کی تفسیر ہے کہ)میرے ہی قبضہ میں سب کام ہیں (جو کہ زمانہ میں واقع ہوتے ہیں )رات اور دن کو (جوکہ زمانہ کاحصہ ہیں) میں ہی ادل بدل کرتا ہوں (جس کی طرف آدمی واقعات کو منسوب کرتا ہے ، سوزمانہ تو اپنے سب کچھ کے ساتھ خود میرے قبضہ میں ہے ، پس یہ سب تصرفات میرے ہی ہیں ، تواس کو برا کہنے سے درحقیقت مجھے برا کہنا لازم آتا ہے) ۔
ہمہ اوست
ظاہر ہے کہ حق تعالی اورزمانہ دونوں متحد نہیں ہیں ، مگر اتحاد نہ ہونے کے باوجود ایک تاویل سے -جس کی تقریر ترجمہ کے ضمن میں کی گئی ہے -یہاں لفظ اتحاد کا حکم کیا ہے ، محققین کے نزدیک اسی تاویل سے ’’اوست‘‘ کا حکم ’’ہمہ‘‘ پر کیا گیا ہے ، جس کی تقریر یہ ہے کہ ’’ہمہ‘‘ کا جو مصداق ہے وہ سب اپنے افعال وآثار کے ساتھ قبضہ حق میں ہے ، پس متصرف حقیقی اورموجود مستقل صرف حق تعالی ہے ،(اس کے سامنے) ’’ہمہ‘‘ کوئی چیز نہیں ہے، اس حدیث سے صوفیاء کے قول کی تائید ظاہر ہے (التکشف عن مہمات التصوف)۔
ظاہر ہے کہ تمام کمالات حقیقۃً اللہ تعالی کے لیے ثابت ہیں ،اور مخلوقات کے کمالات عارضی طور پر ہیں ،کیونکہ اللہ تعالی کی عطا وحفاظت کے سبب وہ کمالات ان(مخلوقات) میں موجود ہیں ، سو ایسے وجود کو اصطلاح میں ’’وجود ظلی‘‘ کہتے ہیں ، اور’’ظل‘‘ کے معنی سایہ کے ہیں ، سو سائے سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالی کوئی جسم ہے اوریہ عالم اس کا سایہ ہے ، بلکہ ’’سایہ ‘‘کے معنی وہ ہیں جیساکہ کہا کرتے ہیں:’’ہم آپ کے زیر سایہ رہتے ہیں،یعنی آپ کی حمایت اور پناہ میں،اورہمارا امن وعافیت آپ کی توجہ کی بدولت ہے ‘‘، اسی طرح چونکہ ہمارا وجود عنایت خداوندی کی بدولت ہے ،اس لیے اس کو ’’وجود ظلی‘‘ کہتے ہیں ۔
وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کی مثالیں
پس یہ بات یقینا ثابت ہوئی کہ ممکنات کا وجود حقیقی اور اصلی نہیں ہے ،عارضی اور ظلی ہے ، اب وجود ظلی کا اگر اعتبار نہ کیا جائے تو صرف وجود حقیقی کا ثبوت ہوگا،اور وجود کو’’ واحد‘‘ کہا جائے گا، یہ’’ وحدۃ الوجود ‘‘ہے ،اوراگر اس کا بھی اعتبار کیجیے کہ آخر (ممکنات)کچھ تو ہے ،بالکل معدوم تو ہے ہی نہیں ، اگرچہ نورحقیقی کے غلبہ سے کسی مقام پر سالک کو وہ نظر نہ آئے ، تویہ وحدۃ الشہود ہے ،اس کی مثال ایسی ہے کہ چاند کی روشنی سورج سے حاصل ہے ، اگر اس نور ظلی کا اعتبار نہ کیاجائے تو صرف سورج کو منوراور چاند کو تاریک کہا جائے گا، یہ وحدۃ الوجود کی مثال ہے ، اوراگر اس چاندکے نور کا بھی اعتبار کیاجائے کہ آخر اس کے کچھ تو آثارخاصہ ہیں اگرچہ سورج کی روشنی ظاہر ہونے کے وقت وہ(چاند) بالکل مسلوب النور ہوجائے (اس کی روشنی ختم ہوجائے)تویہ وحدۃ الشہود کی مثال ہے ۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ حقیقت میں یہ اختلاف لفظی ہے ، مآل کار (نتیجہ) دونوں کا ایک ہے ،اور چونکہ اصل اور ظل(سایہ) میں نہایت قوی تعلق ہوتا ہے ،اسے صوفیاء کی اصطلاح میں ’’عینیت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ، عینیت کے یہ معنی نہیں کہ دونوں ایک ہوگئے ،یہ تو صریحا کفر ہے ، چنانچہ وہی صوفیاء محققین اس عینیت کے ساتھ غیریت کے بھی قائل ہیں ، پس یہ عینیت اصطلاحی ہے ، نہ کہ لغوی ، مسئلے کی تحقیق تو اسی قدر ہے ،اس سے زیادہ اگر کسی کے منثور یا منظوم کلام میں پایا جائے تو وہ کلام حالت سکر کا ہے ، نہ قابل ملامت ہے اور نہ لائق نقل وتقلید(تعلیم الدین)۔
وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کا مسئلہ کشفی مسائل میں سے ہے ، کسی نص کے مدلول نہیں ، ایسے مسائل کے لیے یہی غنیمت ہے کہ وہ کسی نص سے متصادم نہ ہوں ، یعنی کوئی نص ان کی نفی نہ کرتی ہو ، باقی اس کی کوشش کرنا کہ نص کو ان کا مثبت بنایا جائے (نص سے ثابت کیا جائے) تواس میں تفصیل ہے ، وہ یہ کہ اگر نص میں اس کا احتمال ہو تو احتمال کے درجہ تک اس کو رکھنا غلو تو نہیں مگر تکلف ہے ، اور اسے احتمال کے درجہ سے بڑھادینا غلو ہے ، اور اگر نص میں اس کا احتمال بھی نہ ہو تو اس کا دعوی کرنا نص کی صریح تحریف ہے خواہ وہ دعوی احتمال سے ہو یا جزم سے ہو ، البتہ اگروہ دعوی تفسیر یا تاویل کے طورپر نہ ہو ،بلکہ محض ’’علم اعتبار‘‘ کے طور پر ہو تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ وہ حکم اگر کسی اور نص سے ثابت ہو تب تو وہ ’’علم اعتبار‘‘ کی حدود میں داخل ہے ، اور اگر وہ کسی اور نص سےثابت نہ ہو تووہ بھی تکلف ہے ۔
کلامی مسائل کے متعلق ضروری وصیت
اول تو تمام کلامی مسائل میں عموما اور ان میں سے ان مباحث میں جن کا تعلق ذات وصفات سے ہے خصوصا، قطعی عقلی دلیل یا نقلی دلیل کے بغیر محض ظن کی بنا پر -کہ کشف سب سے انزل ہے-کوئی حکم کرنا ،اورخاص طور پر جزم ویقین سے حکم کرنا ،بلکہ بلا ضرورت کچھ بھی گفتگو کرنا سخت خطرے کا محل ہے اور سلف صالحین کے مسلک کے خلاف ہے ، اورجن بزرگوں نے کچھ کلام کیا ہے ان میں اکثر کی غرض محض اہل ہوا کا دفع تھا(جیسا کہ حضرت مجددالف ثانی صاحبؒ نے وحدۃ الوجود میں غلو کرنے والوں کی اصلاح کی غرض سے کلام فرمایا)اگرچہ بعض نے اس کو مقصود بنالیا جو کہ احتیاط کے خلاف ہے ، ایسے مسائل میں سلامتی یہی ہے کہ نصوص سے تجاوز نہ کریں ، اورسلف کے مسلک پر اوران کے اس ارشاد : ’’ابہموا ماابہمہ اللہ ‘‘ پر عمل رکھیں ، اور اگر نص پر زائد کوئی حقیقت کسی ظنی دلیل سے -کہ کشف بھی اس میں داخل ہے -منکشف ہو ، اورکسی عقلی قطعی دلیل ،اور نیز کسی قطعی نص یا ظنی کے مخالف نہ بھی ہو تواس میں بھی غورخوض نہ کریں ، دونوں جانب کا احتمال سمجھتے رہیں ، چونکہ یہ مسئلہ (وحدۃ الوجود) بھی انہی مسائل میں سے ہے جن کا تعلق ذات وصفات سے ہے ، کیونکہ اس کاحاصل ارتباط الحادث بالقدیم ہے ،اس لیے اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ رکھیں ،اوراجمالی طور پر یہ اعتقاد تو جزم کے ساتھ رکھیں کہ عالم پہلے ناپید تھا ، اللہ تعالی نے اس کو اپنے علم وقدرت اورارادہ سے پیدا فرمایا ، باقی یہ کہ کس طرح پیدا فرمایا ؟اس میں غورخوض نہ کریں ، نہ کلام کریں ، جیسے تقدیر کے مسئلہ میں احادیث میں بھی یہی تعلیم منصوص ہے کہ اجمال کے درجہ میں اس کے اعتقاد کو فرض اور ایمان کی شرط فرمایا ، اور تفصیل کے درجہ میں غورخوض یا کلام کو منع فرمایا ہے (بوادر النوادر)۔
ماخوذ از: شریعت وطریقت ، صفحہ ۳۰۹ تا ۳۱۳۔
اسی موضوع کے متعلق مزید پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے: