ولایت افضل ہے یا نبوت؟ ولایت عامہ وخاصہ کا مطلب، ولی کون؟
تسہیل وتدوین: مفتی عمر انور بدخشانی
ولایت عامہ اور ولایت خاصہ کا مطلب!
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے :
اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ
ترجمہ: یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ( ناک واقعہ پڑنے والا) ہے اور نہ وہ ( کسی مطلوب کے فوت ہونے پر) مغموم ہوتے ہیں ( یعنی اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو خوف ناک اور غم ناک حوادث سے بچاتا ہے، اور) وہ ( اللہ کے دوست) وہ ہیں جو ایمان لائے اور (گناہوں سے) پرہیز رکھتے ہیں ( یعنی ایمان اور تقوی سے اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے)،(از:آسان بیان القرآن)۔
اس آیت میں ولایت کا مدار دو چیزوں پر فرمایا ہے ، ایمان اور تقوی ، سو جس درجہ کا ایمان اور تقوی حاصل ہوگا ،اسی مرتبہ کی ’ولایت‘ حاصل ہوگی ،اگر ادنی درجہ کا ایمان اور تقوی ہو (جو کہ صحیح ضروری عقائداور ضروری اعمال سے حاصل ہوتا ہے )تو ادنی درجہ کی ولایت حاصل ہوگی جو کہ ہر مؤمن مسلمان کوحاصل ہے ، اوراسے ’’ولایت عامہ‘‘ کہتے ہیں ،اور اگر اعلی درجہ کا ایمان اورتقوی ہے تو اعلی درجہ کی ولایت حاصل ہوگی ،اوراسے ’’ولایت خاصہ‘‘ کہتے ہیں ۔
ولی کون ہوتا ہے؟
اصطلاح میں ’’ولی‘‘ وہی شخص کہلاتا ہے جو اس ’’ولایت خاصہ‘‘ یعنی اعلی درجہ کے ایمان اور تقوی کے ساتھ موصوف ہو ، تواب ’ولایت خاصہ ‘کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ٹھہری :کامل ایمان ، کامل تقوی ، اورنماز روزے کی طرح یہ بھی فرض وواجب ہے ، اور یہ دونوں چیزیں (کامل ایمان ، کامل تقوی) باطن کی اصلاح کے بغیر حاصل نہیں ہوتیں ، کیونکہ ایمان کا محل تو ظاہر ہے کہ قلب ہے ، رہا تقوی سو وہ اگرچہ ظاہری اعضاوجوارح سے متعلق ہے ،مگر حقیقی تقوی جو کہ کامل تقوی ہے وہ قلب ہی سے متعلق ہے ،حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
التقوی ھھنا، واشار الی الصدر۔
یعنی تقوی یہاں ہے اورسینے کی طرف اشارہ فرمایا۔
سو جبکہ کامل ایمان اور کامل تقوی کا حاصل کرنا فرض ٹھہرا ، اور وہ باطن کی اصلاح پر موقوف ہے ، توباطن کی اصلاح بھی فرض ہوئی ، اسی طرح ظاہر ہے کہ اگر ادنی درجہ کا ایمان اور تقوی ہی معدوم ہوگا تو اعلی درجہ کا ایمان اور تقوی بھی کسی طرح حاصل نہ ہوگا۔
مذکورہ بالاآیت میں ’’ولایت ‘‘یعنی اللہ سے دوستی کا دارومدار صرف ایمان اورتقوی پر ہے ،چنانچہ ایمان وتقوی پر ’ولایت ‘کی بنیاد رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ’ ولایت‘ کے لیے یہ شرط نہیں کہ اس کے ہاتھ پر کوئی کرامت بھی صادر ہوا کرے،اسی طرح آیت سے یہ نتیجہ بھی نکلا کہ جو لوگ شریعت و سنت کے خلاف عمل کرنے کے باوجود’’ ولی اللہ ‘‘ہونے کا دعوی کریں وہ جھوٹے ہیں ،اور جو ایسے لوگوں کو ’’ولی اللہ ‘‘سمجھیں وہ بھی دھوکے میں ہیں،’ولایت ‘کی بنیادی شرط ایمان اورتقوی یعنی گناہوں سے بچناہے، جب تک یہ نہ ہو انسان ’’ولی ‘‘نہیں ہوسکتا (مسائل السلوک ، بیان القرآن )۔
ولایت افضل ہے یانبوت؟
اس میں گفتگو ہے کہ ’نبوت ‘افضل ہے یا’ ولایت‘؟مگر اس پر اتفاق ہے کہ’ نبی‘ افضل ہے ’ولی ‘سے ، کیونکہ انبیاء نبوت اور ولایت کے جامع ہوتے ہیں۔
جو حضرات ’نبوت ‘کے افضل ہونے کے قائل ہیں وہ ’نبی ‘کی افضیلت سے استدلال کرتے ہیں،اور جو حضرات ’ولایت ‘کے افضل ہونے کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’ولایت ‘میں توجہ الی الحق یعنی صرف خدا کی طرف توجہ ہوتی ہے ، اور’ نبوت‘ میں توجہ الی الخلق یعنی مخلوق کی طرف توجہ ہوتی ہے ،چونکہ خدا کی طرف توجہ کرنا،مخلوق کی طرف توجہ کرنے سے افضل ہے ، اس لیے ’ولایت ‘افضل ہوئی ۔
لیکن تحقیق یہ ہے کہ ’ولایت ‘تو بے شک توجہ الی الحق یعنی خدا کی طرف توجہ ہے ، مگر’ نبوت‘ خدا اور مخلوق دونوں کی طرف توجہ ہے ( توجہ الی الخلق والحق معا )اور یہ جامع مرتبہ ہے ، اس لیے ’نبوت ‘کا افضل ہونا ظاہر ہے ۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ اگر’ ولا یت‘ کو افضل کہا جائے تواس سے یہ لازم آتا ہے کہ نبی کو’ نبوت‘ ملنے سے اعلی سے ادنی کی طرف نزول ہوتا ہے ، کیونکہ نبی تو’نبوت ‘سے پہلے ہی ولی ہوتا ہے ، پھر نبوت ملتی ہے (یعنی بالفرض اگر ولایت کو افضل مانا جائے تو پھر اس کے بعد نبی کو ولایت سے کم درجہ نبوت کیوں عطا کی جاتی ہے ، یہ تو اعلی سے ادنی کی طرف جانا ہوا، جبکہ ترقی ادنی سے اعلی کی طرف ہوتی ہے) مگران دونوں میں لفظی نزاع ہے ، کیونکہ جو لوگ نبوت کو افضل کہتے ہیں وہ نبوت کومعنی مطابقی (یعنی خدا اور مخلوق کی طرف توجہ)پر محمول کرتے ہیں ، اور جو لوگ ولایت کو افضل کہتے ہیں وہ معنی تضمنی (یعنی مخلوق کی طرف توجہ) کے اعتبار سے کہتے ہیں ۔
دوسری بات یہ کہ نبی کی دو شاخیں ہوتی ہیں :ایک ولایت کی ، ایک نبوت کی ، تو نبی کی ولایت،نبی کی نبوت سے افضل ہوتی ہے ، چنانچہ دیکھ لیجیے کہ نبی کی توجہ ،مخلوق کو فائدہ پہنچانے کے لیے نبوت کی حیثیت سے توجہ تھی (توجہ الی افادۃ الخلق من حیث النبوۃ)،اورنبی کی اللہ کی طرف توجہ ولایت کی حیثیت سے تھی(توجہ الی الحق من حیث الولایۃ) ، یعنی اصل مطلوب (لعینہ)یہی توجہ الی اللہ ہے ، اورمخلوق کی طرف توجہ مطلوب لغیرہ ہے ۔
الغرض ولی کبھی کسی نبی کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا ، نہ عبادت کبھی معاف ہوسکتی ہے ، بلکہ خواص کو تو زیادہ عبادت کا حکم ہے ، البتہ مجذوب(مسلوب الحواس) جس کے حواس سلب ہوجاتے ہیں وہ معذور ہوتا ہے ، ولی نہ معصوم ہوتا ہے اور نہ ہی صحابہ کے مرتبہ کو پہنچ سکتا ہے ،کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا :
کنتم خیر امۃ
یعنی تم لوگ بہترین امت ہو ۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
خیر القرون قرنی ۔
یعنی سب زمانوں سے بہتر میرا زمانہ ہے ۔
اوراس لیے کہ سب کا اجماع ہے کہ :
ان الصحابہ کلہم عدول
یعنی صحابہ کرام سب کے سب عادل ہیں ۔
عبد اللہ بن مبارک ؒ جو تابعین میں سے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ:
الغبار الذی دخل انف فرس معاویۃ خیر من اویس القرنی وعمر المروانی ۔
یعنی جو غبار حضرت معاویہؓ کے گھوڑے کی ناک میں گیا ہے وہ (مشہورولی)حضرت اویس قرنیؒ اور حضرت عمر بن عبد العزیز مروانی ؒ سے بہتر ہے ۔
اوراسی طرح حضرت غوث اعظم ؒ نے فرمایا ہے کہ حضرت معاویہ ؓاورحضرت عمر بن عبد العزیزؒ میں اتنا ہی فرق ہے کہ حضرت معاویہ ؓ کے گھوڑے کی ناک میں جو گرد بیٹھ کر جم گئی ہو وہ ہزار عمر بن عبد العزیز جیسوں سے افضل ہے ، اس لیے کہ عمر بن عبد العزیزؒ وہ آنکھ کہاں سے لائیں گے جن سے حضرت معاویہؓ نے حضور اکرم ﷺ کو دیکھا ہے ،اور وہ زمانہ کہاں سے لائیں گے جس میں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ رہے ،اور حضور اکرم ﷺ کے پاس اٹھے بیٹھے۔
ماخوذ از: شریعت وطریقت ،مولانا اشرف علی تھانوی ، ص۳۶-۳۷و۴۳تا۴۵، ومسائل السلوک از بیان القرآن۔