کیا پیر، صوفی ، بزرگ اور درویش پر شریعت کے احکام معاف ہیں ؟ مولانا اشرف علی تھانویؒ
تسہیل وترتیب : مفتی عمر انور بدخشانی
صوفیاء بہت سے غلط خیالات میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، ان سب کی اصلاح ضروری ہے ، تمام غلطیوں کی نشاندہی تو اس وقت ممکن نہیں ،اس لیے چند وہ غلطیاں جن میں آج کے لوگ مبتلا ہیں ان کو ذکر کرتے ہیں :
کیا تصوف میں اتباع شریعت کی ضرورت نہیں؟
فتوحات مکیہ میں ہے :
كل حقيقة علي خلاف الشريعة زنديقة باطلة
ترجمہ: ہر وہ حقیقت (صوفیانہ علوم وانکشافات) جو شریعت کے خلاف ہو وہ زندقہ اورباطل ہے اور مردود ہے ۔
اسی فتوحات میں ہے :
ما لنا طريق الي الله الا علي وجه المشروع لا طريق لنا الي الله الا ما شرعه
ترجمہ: ہم اللہ تعالی تک صرف شریعت کی پابندی سے ہی پہنچ سکتے ہیں ، ہمارے لیے اللہ کی طرف کوئی راستہ نہیں مگر وہی جو اس نے شریعت میں بتلادیا۔
نیز فتوحات میں ہے :
فمن قال ان ثم طريقا الي الله خلاف ما شرع فقوله زور فلا يقتدي بشيخ لا ادب
ترجمہ: جو شخص اس کا دعوی کرے کہ اللہ تک پہنچنے کا شریعت کے خلاف بھی کوئی راستہ ہے وہ اس قول میں جھوٹا ہے ، پس ایسے شخص کو مقتدا ،پیشوا نہ بنایا جائے جس میں ادب نہ ہو۔
حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
لو نظرتم الي رجل اعطي من الكرامات حتي يرتقي في الهواء فلا تغتروا به حتي تنظرونه كيف تجدونة عند الامر و النهي و حفظ الحدود و اداء الشريعة
ترجمہ: جب ایسا آدمی دیکھو کہ ان کو کرامتیں دی گئی ہیں ،یہاں تک کہ ہوا میں اڑتا ہے تواس کے ولی ہونے کے بارے میں دھوکہ میں مت آؤ جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ شریعت کے حکم کی بجا آوری ، مامورات (احکام) کے انجام دینے اورمنہیات(گناہوں) سے بچنے کا کس قدر اہتمام کرتا ہے ۔
شیخ جنید بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الطرق كلها مسدودة علي الخلق الا من اقتضي اثر رسول الله صلي الله عليه وسلم
ترجمہ:مخلوق پر اللہ تعالی تک پہنچنے کے سب راستے بند ہیں سوائے اس کے جو قدم بقدم رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرے۔
اور فتوحات میں ہے :
فما عند الله من لم يحكمه بمكان فان الله ما اتخذ وليا جاهلا۔
ترجمہ: اللہ تعالی کے نزدیک اس شخص کا کوئی مرتبہ نہیں ہے جو اللہ تعالی کے احکامات سے ناواقف ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے کسی جاہل کو ولی نہیں بنایا ہے ۔
فتوحات میں یہ بھی ہے :
ان البطالة مع العلم خير من العمل مع الجهل
ترجمہ: علم کے باوجود بیہودگی کرنا اس عمل سے بہتر ہے جو جہالت کی وجہ سے ہو ۔
یہ اس لیے کہ اگر عالم کوئی بیہودہ بات بھی کرتا ہے تو وہ ایسی بری نہیں ہوتی کہ جس کی وجہ سے کفر وشرک تک نوبت پہنچ جائے ، چونکہ عالم اس بیہودہ بات کی برائی سے واقف ہے اس لیے عالم کی توبہ کی امید ہے ، جاہل کے برخلاف ، کیونکہ جاہل کے تو بسا اوقات ضروری اعمال یعنی نماز روزہ بھی درست نہیں ہوتے ، اور وہ لاعلمی میں ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جس کی وجہ سے کفر وشرک لازم آجاتا ہے ، چونکہ جاہل ان غلط باتوں کی برائی سے واقف نہیں ہوتا اس لیے اسے توبہ بھی نصیب نہیں ہوتی ، اس بارے میں بزرگوں کے ہزاروں ارشادات موجود ہیں کہاں تک لکھا جائے ۔
رسالہ قشیریہ میں حضرت ذو النون مصری سرسقطی ، ابو سلیمان ، احمد بن ابی الحواری وابو حفص حداد ، ابو عثمان نوری ، ابو سعد حراز کے ارشادات ، نیز دوسری کتابوں میں مثلا دلیل العارفین ، ملفوظات خواجہ معین الدین چشتی ، مکتوبات قدسیہ حضرت شیخ قطب العالم عبد القدوس گنگوہی رحمہم اللہ اورقوت القلوب ابو طالب مکی وغیرہ میں یہ مضمون نہایت وضاحت اور استحکام کے ساتھ مذکور ومنقول ہے کہ :
’’فقیری (تصوف) میں اول علم شریعت پھر عمل شریعت کی سخت ضرورت ہے ، اس کے بغیر آگے راہ نہیں کھلتی‘‘۔
کبھی کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرکے اور بدعت کا طریق اختیار کرکے ولی نہیں بن سکتا،جب بدعت قاطع طریق ہے ، یعنی بدعتی کو ولایت حاصل نہیں ہوسکتی تو کفر وشرک کا کیا پوچھنا؟!!
حجاب اکبر اور آزادی کا دعوی
آج کل تو لوگوں نے علم اور عمل کی ضرورت کو اڑانے(ختم کرنے )کے لیے دو لفظ یاد کرلیے ہیں :
۱- علم کے بارے میں حجاب اکبر کا ۔
۲- اور عمل کے بارے میں آزادی کا دعوی۔
قارئین محترم ! اگر حجاب اکبر کا یہ معنی ہوں تو جتنے بزرگوں کے اوپر نام لکھے گئے ہیں سب محجوب ٹھہرتے ، درحقیقت یہ ایک اصطلاحی لفظ ہے ، علم تصوف یا حقائق کے قاعدے سے اس کے بہت باریک معنی ہیں ، اس کے موٹے سے معنی یہ سمجھیں کہ حجاب اس پردہ کو کہتے ہیں جو بادشاہ کے قریب پڑا رہتا ہے کہ جو آدمی وہاں پہنچ جاتا ہے وہ بادشاہ کے بہت ہی قریب ہوجاتا ہے ، تو اس طرح علم کو ’’حجاب اکبر ‘‘کہنا علم کی تعریف ہے ، یعنی جب علم حاصل کرلیا تو جتنے حجاب تھے سب اٹھ گئے یہاں تک کہ حجاب اکبر تک پہنچ گیا ، بس اب ایک تجلی سے حیرت کا غلبہ ہو تو یہ حجاب بھی اٹھ جائے اور واصل باللہ ہوجائے ، اور جس نے سرے سے علم ہی حاصل نہیں کیا نہ باقاعدہ درس کے ذریعہ ، نہ علماء حق کی صحبت کے ذریعہ وہ تو ابھی بہت پردوں کے پیچھے ہے اور اللہ تعالی سے بہت دور ہے۔
آزادی کا صحیح مطلب
رہا آزادی کا دعوی تو آزادی کےاصل معنی یہ ہیں کہ انسان شہوت اور غفلت کی قید سے آزاد ہوجائے ، یہ معنی ہرگزنہیں کہ محبوب حقیقی یعنی اللہ تعالی کے احکام سے آزاد ہوجائے۔
گر تو خواہی حری ودل زندگی
بندگی کن بندگی کن بندگی
زندگی مقصود بہر بندگی است
زندگی بے بندگی شرمندگی است
جزخضوع وبندگی واضطرار
اندر حضرت ندارد اعتبار
ہر کہ اندر عشق یابد زندگی
کفر باشد پیش او جز بندگی
ذوق باید تادہد طاعت بر
مغزباید تا دہد دانہ شجر
ترجمہ:اگر تو آزادی اور دل کی زندگی چاہتا ہے تو بندگی کر ،بندگی کر بندگی۔
زندگی کا مقصد بندگی ہی ہے ، زندگی بغیر بندگی کے شرمندگی ہے۔
خضوع بندگی اور عشق الہی کی بے قراری کے سوا نفس انسانی کی کسی بات کا اعتبار نہیں۔
جس شخص کو عشق کی زندگی مل جائے ،اس کے نزدیک عشق کے علاوہ ہر بات کفر ہے ۔
ذوق چاہیے تاکہ عبادت بار آور ہو ،اور مغز ہونا چاہیے تاکہ دانہ سے درخت پیدا ہو۔
شبہ: طریقت اور حقیقت یعنی شریعت کے خلاف ہےجبھی تواس کے اسرار پوشیدہ رکھے گئے؟
اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ علم حقیقت (طریقت ،تصوف ) شریعت کے علم کے خلاف ہے ، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو بزرگ اس کے اسرار ورموز کو نہ چھپاتے ، کیونکہ شریعت تو اظہار کے قابل ہے نہ یہ کہ اسے پوشیدہ رکھا جائے ۔
اس شبہ کا جواب بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہمارا یہ دعوی نہیں کہ علم شریعت ہی کو علم حقیقت کہتے ہیں ،بلکہ دعوی یہ ہے کہ حقیقت اور طریقت کا علم ،شریعت کے خلاف نہیں ہے ، یعنی ایسا نہیں ہے کہ شریعت نے تو ایک چیز کوحرام یا کفر کہا ہو اور علم طریقت اور حقیقت میں وہ حلال ہوجائے ، مثلادیوانی قانون اورہے ، فوجداری قانون اور ہے ، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک کام دیوانی قانون کے اعتبار سے جائز تو ہو اور فوجداری قانون کے اعتبار سے ناجائز ہو ، یا اس کا عکس ہو ، ہاں البتہ ہر ایک کے مضامین الگ الگ ہیں ، ایک کا مضمون دوسرے کے مضمون کا انکار نہیں کرتا ، اسی طرح طریقت اور حقیقت کا علم شریعت کے مضامین کا انکار نہیں کرتے ، سو طریقت اورحقیقت کے علم کو پوشیدہ رکھنے کی وجہ سے جو شبہ ہوتا تھا وہ تو دور ہوگیا ۔
علم حقیقت یعنی تصوف اور صوفیاء کے اسرار ورموز پوشیدہ کیوں رکھے جاتے ہیں؟
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ علم حقیقت اور طریقت کو پوشیدہ رکھنے کی کیا وجہ ہے ؟ سمجھ لینا چاہیے کہ امام غزالی رحمہ اللہ نے اس کی کئی وجوہات بیان فرمائی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ :
۱-حقیقت اور طریقت کے مضامین شریعت کے خلاف تو نہیں مگرزیادہ دقیق اور باریک ہونے کی وجہ سے عام فہم بھی نہیں ہوتے اس لیے عوام کے لیے نقصان کا باعث ہوجاتے ہیں۔
۲-سلوک کی تعلیم کے طریقوں میں پوشیدگی کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا اعلان کرنے میں لوگوں کی طرف سے بے قدری کا امکان ہے اور ساتھ ہی سالک یعنی طالب کی طرف سے ہوسناکی کا بھی احتمال ہے ، جس کی وجہ سے سالک کو نقصان کا اندیشہ ہے۔
۳-مجاہدہ اور مکاشفات وغیرہ کے کو چھپانے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اپنے بارے میں دعوی کا احتمال ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ کسی بات کو اس وجہ سےنہیں چھپایا جاتا کہ وہ شریعت کے خلاف ہے ، بلکہ کسی صحیح غرض کی وجہ سے بھی اس کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے ،ہاں اگر وہ شریعت کے خلاف ہے تو پھر وہ ضرور اس قابل ہے کہ اس کا انکار کیا جائے اوراس کو رد کردیا جائے ۔
سنت کی اتباع اللہ تک پہنچاتی ہے
اللہ تک پہنچنے کے لیے سنت کی اتباع لازمی ہے،خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس کو بھی وصول الی اللہ کی دولت میسر ہوئی وہ علم شریعت اور اتباع سنت سے ہوئی ہے ۔
اگر کسی بزرگ کا کوئی قول یا فعل خلاف سنت منقول ہو تو؟
اور اگر بالفرض کسی بزرگ کا کوئی قول یا فعل خلاف سنت منقول ہے تو اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ:
۱-یا تو غلبہ حال اور جذب کی کیفیت میں یہ صادر ہوا ہے ۔
۲-یا کہا جائے گا کہ وہ بات ان سے غلط طور پر منقول ہے ۔
۳-یا ان سے کسی باریک مسئلہ میں جہاں شرعی دلیل دقیق اور پوشیدہ تھی وہاں ان سے اجتہادی خطا ہوئی ہے جس میں وہ شرعا معذور ہیں اوراس کی وجہ سے انہیں اللہ تعالی سے دوری نہیں ہوتی ۔
جبکہ آج کل تو یہ حال ہے کہ کھلم کھلا شریعت کی مخالفت بلکہ اس کا انکار اورا س کے ساتھ استہزا اور تمسخر کیا جاتا ہے ، جس کے کفر ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ۔
اس سے معلوم ہوا کہ خلاف شریعت کوئی کام کرنا کسی کے لیے بھی درست نہیں ، جیسے قبروں کا طواف ، یا پیروں کو سجدہ کرنا وغیرہ ، اور یہ بھی معلوم بات ہے کہ پیر اورشیخ کی اطاعت بھی اس وقت تک ہے جب تک وہ اللہ اور رسول اللہ کے حکم کے خلاف کوئی حکم نہ کرے ،اگر پیرکسی گناہ کا حکم کرے تو اسے سلام اور رخصت کرنا چاہیے ۔
حضرت نوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
من رايتہ يدعي مع الله تعالي حالة تخرجه عن حد العلم الشرعي فلا تقربن منه (رسالہ قشیریہ)۔
ترجمہ:جس کو دیکھو کہ وہ اللہ تعالی کی معیت اور قرب میں ایسی حالت کا دعوی کرتا ہے جو شریعت کی حد سے خارج ہے تو اس کے قریب بھی مت پھٹکو۔
شریعت کے احکام کسی سے ساقط یا معاف نہیں ہوتے
ایک غلطی یہ ہے کہ بعض لوگوں کا یہ اعتقاد ہے کہ تصوف یاطریقت میں کوئی ایسا درجہ بھی ہے کہ اس درجہ پر پہنچنے کی وجہ سے شریعت کے احکام ساقط اور معاف ہوجاتے ہیں ، یہ عقیدہ رکھنا صریح کفر ہے ، جب تک ہوش وحواس قائم ہیں شریعت کے احکام ہرگز معاف نہیں ہوسکتے ، ہاں البتہ بے ہوشی کی حالت میں انسان معذور ہے ۔
حضرت ابراہیم بن شیبان فرماتے ہیں :
علم الفناء و البقاء يدور علي اخلاص الوحدانية وصحة العبودية وما كان غير هذا فهو المغاليط والزندقة
ترجمہ :علم فنا وبقا یعنی تصوف کادارومدار خالص توحید ، اور عبودیت یعنی بندگی کے ٹھیک اور درست ہونے پر ہے ، اس کے علاوہ تصوف کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ سب دھوکہ بازی اور بد دینی ہے۔
کسی نے حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ سے ذکر کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ’’ہم تو واصل باللہ ہوگئے ، اس لیے ہمیں شریعت کے ظاہری احکام کیا ضرورت ہے‘‘۔
آپ نے جواب میں فرمایا کہ :’’بے شک وہ واصل تو ہوگئے مگر واصل جہنم ہوئے ، خدا تک نہیں پہنچے ‘‘، اور پھر فرمایا کہ جس شخص کا یہ عقیدہ ہو اس سے تو زانی اور چور بہتر ہے ،اور فرمایا کہ اگر میں ہزار سال زندہ رہوں تو بلاعذر کسی شرعی وظیفہ کا بھی ناغہ نہ کروں۔
یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں: