ہمہ اوست: وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کیا ہے؟ مولانا اشرف علی تھانویؒ

تسہیل وترتیب: مفتی عمر انور بدخشانی

تعارف: حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نےمولانا جلال الدین رومیؒ کی شہرہ آفاق کتاب ’’مثنوی معنوی مولوی ‘‘کی اردو زبان میں شرح بھی لکھی ، جو کہ ’’کلید مثنوی ‘‘کے نام سے معروف ہے ، مثنوی کے دفتر اول کی ابتدا میں ایک شعر کے ضمن میں مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے مسئلہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کی تشریح وتوضیح بیان فرمائی ، یہاں ہم مثنوی مولانا روم کا وہ شعر اور اس کے تحت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی شرح آسان انداز میں پیش کررہے ہیں جس سے وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کے متعلق صحیح تعبیر اورتشریح ہمارے سامنے آجائے گی۔

جملہ معشوق ست وعاشق پردہ
زندہ معشوق ست وعاشق مردہ

ترجمہ: تمام کائنات(موجودات) معشوق ہے ،اور عاشق پردہ ہے ، معشوق زندہ ہے اورعاشق مُردہ ہے ۔

پیچھے(گزشتہ اشعارمیں) ’’راز عشق ‘‘کوجو کہ ’’وحدۃ الوجود‘‘ کا مسئلہ ہےمولانا رومؒ پوشیدہ کرگئے ،مگر وہ اخفاءوپوشیدگی عوام کے لیے تھی جو اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے ، اور ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہوتے ہیں ، اب یہاں اس شعر میں خواص کے لیے اس راز کی طرف کسی قدر اشارہ کردیا ہے ، سو یہ احقر اسے عوام کی سمجھ کے مطابق بیان کرتا ہے ۔

’’جملہ معشوق ست ‘‘کے معنی ’’ہمہ اوست‘‘ کے ہیں ،جو اس مسئلہ کا مشہور عنوان ہے،یعنی ذات حق’’عاشق ‘‘سے مراد کل ممکنات ہیں جوکہ مسخر قدرت خداوندی ہیں ،’’پردہ ‘‘سے مراد موجود ظاہری جو حجاب اور ساتر ہے موجود حقیقی کا ، تشبیہا اس کو’’ پردہ ‘‘کہہ دیا کہ وہ بھی ساتر ہوتا ہے ،اورخود ظاہر نظر آتا ہے اورپردہ دار نظر نہیں آتا، پس پردہ کے معنی موجود ظاہری ہوئے ۔

وحدۃ الوجود اور ’’ہمہ اوست‘‘ کا مطلب

پہلے مصرعہ میں اس مسئلہ (وحدۃ الوجود) کا دعوی ہے ، دوسرا مصرعہ میں اس کی تفسیر ہے ،خلاصہ اس دعوی کا یہ ہے کہ ممکنات تو صرف ظاہری وجود رکھتی ہیں ، اور حقیقت میں کوئی موجود حقیقی یعنی موصوف بکمال ہستی نہیں ہے بجز ذات حق کے ،اسی مضمون کو ’’ہمہ اوست‘‘ سے تعبیر کردیتے ہیں،یہ روز مرہ کے محاورات کے مطابق ایک جملہ ہے، جس طرح کوئی حاکم کسی فریاد کرنے والے سے کہےکہ :’’تم نے پولیس میں رپورٹ لکھوائی؟تم نے کسی وکیل سے بھی مشورہ کیا ؟‘‘اوروہ جواب میں عرض کرے کہ:’’جناب ! پولیس اور وکیل سب آپ ہی ہیں ‘‘، ظاہر ہے کہ اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ حاکم ، پولیس اوروکیل میں کوئی فرق نہیں ، بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ پولیس اوروکیل کوئی قابل شمار چیز نہیں ، آپ ہی صاحب اختیار ہیں ،یعنی حاکم کا صاحب اختیار ہونا مراد ہے ، اسی طرح یہاں سمجھ لینا چاہیے کہ ’’ہمہ اوست‘‘ میں ’’ہمہ‘‘اور’’او‘‘ کا اتحاد مقصود نہیں ،یعنی یہ مطلب نہیں کہ ’’ہمہ‘‘اور’’او‘‘ ایک ہیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ’’ہمہ‘‘ کی ہستی قابل اعتبار نہیں ، صرف ’’او‘‘ کی ہستی قابل شمار ہے ، ہستی تو باقی موجودات کی بھی ہے ،مگر ان کی ہستی ،کامل ہستی کے سامنے محض ایک ظاہری ہستی ہے ،حقیقی یعنی کامل نہیں ۔

چنانچہ اس شعر کا دوسرا مصرعہ اسی مضمون کی تفسیر اورتمثیل ہے ، تشریح اس کی یہ ہے کہ ہر صفت کے دو درجے ہوتے ہیں:ایک کامل، اور دوسرا ناقص ، اور یہ قاعدہ ہے کہ ناقص کو ہمیشہ کامل کے سامنے کالعدم سمجھا جاتا ہے ،اس کی مثال ایسی ہےجیسے کسی بستی میں ایک شخص مثلا پانچ پاروں کا حافظ ہو ،اور وہ ناظرہ قرآن پڑھنے والوں میں حافظ مشہور ہو ، اتفاق سے وہاں ایک ایسا شخص آکر رہنے لگے جو مکمل قرآن کا حافظ اور سبعہ قراءت کا قاری ہو، ایسی حالت میں اگر کوئی اجنبی آدمی بستی والوں سے دریافت کرنے لگے کہ:’’ تمہاری بستی میں کتنے حافظ ہیں ؟‘‘تو ہر سمجھ دار یہی جواب دے گا کہ ایک حافظ ہے ،اس جواب پر اگر کوئی عام آدمی کہنے لگے کہ میاں ! فلاں بھی تو حافظ ہے !تو سمجھدار یہی جواب دے گا کہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ ! بھلا اس (قاری ) کے سامنے وہ (پانچ پاروں کا حافظ) بھی کوئی حافظ ہے ، حالانکہ ایک معنی کر حافظ وہ بھی ہے ،مگر چونکہ ناقص ہے ، اس لیے کامل کے سامنے اسے غیر حافظ قرار دیا گیا ۔

یا مثلا کوئی ادنی درجہ کا حاکم یاوزیر کرسی صدارت پر بیٹھاہوا اپنی شان حکومت دکھلارہاتھا ،اوراپنے منصب کے غرور میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا کہ اتنے میں بادشاہ وقت اتفاق سے وہاں پہنچ گیا ،بادشاہ کو دیکھتے ہی اس کے ہوش اڑگئے،اوراس مذکورہ حاکم یا وزیرکا نشہ وغرور ہرن ہوگیا ، سلطانی رعب سے بے حس وحرکت ہوکر رہ جاتا ہے ،اب جو اپنے اختیارات کو بادشاہ کے اقتدار کے مقابلہ میں دیکھتا ہے تو اس کا کہیں نام ونشان نہیں پاتا،نہ آواز نکلتی ہے ، نہ سراوپر اٹھتا ہے ، اگرچہ اس وقت اس حاکم یاوزیرکا منصب و عہدہ معدوم نہیں ہوا، مگر کالعدم ضرور ہے ،پس اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ ممکنات اگرچہ موجود ہیں ،اورموجود کیوں نہ ہوتے ،کیونکہ اللہ تعالی نے ان کو وجود دیا ہے ، مگر’’وجود حق ‘‘کے روبرو ان (ممکنات)کا وجود نہایت ناقص ،ضعیف اور حقیر ہے ،اس لیے ’’وجود ممکن ‘‘کو ’’وجود حق ‘‘کے روبرو اگرچہ معدوم نہیں کہیں گے مگر کالعدم ضرور کہیں گے (ممکنات کے وجود کو معدوم نہیں کہہ سکتے مگرتقریبا معدوم کے برابر ہے )جب ممکن کالعدم ہوا تو معتد بہ وجود ایک ہی رہ گیا ، اور یہی ’’وحدۃ الوجود‘‘ کے معنی ہیں ، کیونکہ اس کا لفظی ترجمہ ہے ’’وجود کاایک ہونا‘‘ ،سو ایک ہونے کے معنی یہ ہیں کہ دوسرا اگرچہ ہے تو سہی ، مگر ایسا ہی ہے جیسا نہیں ہے ، اسی کومبالغۃً ادعاء ’’وحدۃ الوجود‘‘ کہا جاتا ہے ، شیخ سعدیؒ نے(بوستان میں) خوب فرمایا ہے :

یکے قطرہ باراں زابرے چکید خجل شد چو پہنائے دریابدید
کہ جائیکہ دریاست من کیستم گر او ہست حقا کہ من نیستم

(بارش کا قطرہ جب بادل سے ٹپکا تو نیچے دریا کی وسعت دیکھ کر شرمندہ سا ہوگیا اوراپنے آپ کو حقیر سمجھنے لگا کہ دریا کے سامنے میری کیا حقیقت ہے ،اس کی عاجزی پسند آگئی ،سیپی نے منہ کھول دیا اور قدرت نے اس قطرہ آب کو بادشاہ کے تاج کا موتی بنادیا، جوبھی نیستی کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے وہی ہست ہوجاتا ہےاورجو پستی اپناتا ہے وہ سربلند کردیا جاتا ہے)۔

شیخ سعدیؒ نے تصریح کردی کہ ’’ہست‘‘ تو سب ہیں ، مگر ان کی ہستی ، ہستی حق کے سامنے ’’ہستی ‘‘کہلانے کے قابل نہیں ،

وحدۃ الشہود کا مطلب

مولانا رومؒ نے یہاں(دوسرے ) مصرعہ میں اس تفسیر کو ایک مثال میں بیان کیا ہے کہ حضرت حق کو زندہ کے مثل سمجھو، اور ممکن کو مردہ کے مثل سمجھو، اگرچہ مردہ نعش بھی کسی درجہ کا وجود رکھتی ہے ،آخر جسم تو ہے، مگر زندہ کے سامنے اس کی ہستی قابل اعتبار نہیں ، کیونکہ مردہ کی ہستی ناقص ہے ، اور زندہ کی ہستی کامل ہے ، اورکامل کے سامنے ناقص بالکل کمزور اورمحض ناچیز ہے ، اس مسئلہ کو مرتبہ تحقیق علمی میں ’’توحید‘‘ کہتے ہیں، جسے حاصل کرنا کوئی کمال نہیں، اور جب یہ سالک کا حال بن جائے تو اس مرتبہ میں ’’فنا‘‘کہلاتا ہے ، یہ البتہ مطلوب ومقصود ہے ،اوریہی حاصل ہے’’وحدۃ الشہود‘‘ کا،جس کی دلالت اس معنی پر بہت ہی ظاہر ہے ،کیونکہ وحدۃ الشہود کا ترجمہ ہے’’شہود کا ایک ہونا‘‘(متعدد ہستی کا مشاہدہ میں ایک نظر آنا)یعنی واقع میں تو ہستی متعدد ہے ،مگر سالک کو ایک ہی کا مشاہدہ ہوتا ہے اوربقیہ سب کالعدم معلوم ہوتے ہیں ،جیسا کہ اوپر کی مثالوں سے واضح ہوچکا، شیخ سعدیؒ نے (بوستان میں) ایک مثال اس سے بھی زیادہ واضح بیان فرمائی ہے :

مگر دیدہ باشی کہ در باغ وراغ بتابد بشب کرمکے چوں چراغ
یکے گفتش اے کرمک شب فروز چہ بودت کہ بیروں نیائی بروز
ببیں کاتشیں کرمک خاک زاد جواب از سر روشانئی چہ داد
کہ من روزوشب جز بصحرانیم ولے پیش خورشید پیدا نیم

(رات کے وقت باغوں ،سبزہ زاروں اور سیرگاہوں میں ایک چھوٹا سا چمک دار کیڑا نظر آتا ہے جسے جگنو کہتے ہیں، کسی نے ایک دن اس کیڑے سے کہا اے رات کو روز روشن کرنے والے کیڑے ! کیا بات ہے تو دن کو کبھی نظر نہیں آیا ؟ذرا غور کرنا اس مٹی سے بنے ہوئے ننھے سے آتشیں کیڑے نے کیا جواب دیا ؟اس نے جواب میں کہا :’’میں تو دن رات جنگل کے علاوہ کہیں نہیں ہوتا ، بات در اصل یہ ہے کہ سورج کے سامنے میری حیثیت ہی کیا ہے کہ روشنی لٹاسکوں؟!‘‘)۔

پس وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود میں اختلاف لفظی ہے (کما قال مرشدی) مگر چونکہ وحدۃ الوجود کے معنی عوام میں غلط مشہور ہوگئے تھے ،اس لیے بعض محققین نے اس کا عنوان بدل دیا -جو متروک عنوان کی بہ نسبت اس معنی میں زیادہ ظاہر ہے -کیونکہ لفظ وحدۃ الوجود کی دلالت مذکورہ معنی پر مجازی ہے ، اوروحدۃ الشہود کی دلالت اس معنی پر حقیقی ہے ، اور نقلی دلیل اس مسئلہ کی یہ آیت ہوسکتی ہے :’’کل شیئ ھالک الا وجہہ ‘‘، جیسا کہ شارح عقائد نسفی نے تفسیر کی ہے ۔

ماخوذ از: کلید مثنوی، جلد اول،صفحہ ۴۶ تا ۴۸، مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ

اسی موضوع پر مزید پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

5,345 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!