تفسیر قرآن میں صوفیاء کے اقوال، فرقہ باطنیہ اور صوفیاء کی تفسیری تاویلات میں فرق، از مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ
ترجمہ: مولانا سید سلیمان یوسف بنوری
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اہل زیغ وضلال فرقہ باطنیہ کے بارے میں ایک ضروری انتباہ درج کردیا جائے ،جو بعض صوفیاء کرام ؒ کے اقوال سے سہارا لے کر دین سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں ، جیسے تیر پھینکنے کے بعد کمان سے علیحدہ ہوجایاکرتا ہے اور آیات قرآنیہ میں علم ودلیل کے بغیر تحریف کرتے ہیں ، نیزدلائل وبرہان کے بغیر مقررہ مسائل کو اپنی جگہوں سے تبدیل کردیتے ہیں ، چنانچہ خوب جان لینا چاہیے کہ علامہ نسفی ؒ نے اپنی کتاب ’’ العقائد النسفیۃ‘‘ میں لکھا ہے: ’’نصوص کو ان کے ظاہرہی کے موافق رکھا جائے اور ظاہری معنی سے صرف نظر کرتے ہوئے فرقہ باطنیہ کے بیان کردہ معانی کی طرف عدول ،الحاد اور زندقہ ہے ‘‘۔
علامہ تفتازانیؒ اس کی شرح میں فرماتے ہیں : ’’ملاحدہ کو ’باطنیہ‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اس بات کے دعوے دار ہیں کہ نصوص اپنے ظاہری معانی کے مطابق نہیں ، بلکہ ان کے ایسے باطنی وپوشیدہ معانی ہیں جنہیں معلم خاص کے علاوہ کوئی شخص نہیں جانتا ،(اس دعوی سے) درحقیقت ان کا اصلی مقصد یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کی بالکلیہ نفی کرکے اسے معدوم ٹھہرادیا جائے ‘‘۔
مزید لکھتے ہیں
وأما مایذھب إلیہ بعض المحققین من أن النصوص علی ظواھرھا، ومع ذلک فیھا إشارات خفیۃ إلی دقائق تنکشف علی أرباب السلوک یمکن التطبیق بینھا وبین الظواھر المرادۃ، فھو من کمال الإیمان ومحض العرفان‘‘۔
ترجمہ:’’بعض محققین کا یہ کہنا کہ نصوص اگرچہ اپنے ظاہری معانی ہی بتلاتی ہیں ، لیکن ان ظاہری نصوص میں کچھ ایسے چھپے ہوئے باطنی اشارات ہوتے ہیں جو ایسے باریک اور لطیف امور کاپتہ دیتے ہیں جو اہل سلوک ومتصوفین پر واضح ہوتےہیں ، نیز ان دقیق اشارات اور ظاہری مرادی معانی میں باہم تطبیق بھی ممکن ہوتی ہے ، یہ پہلو ایمان کے کمال اور محض معرفت وبصیرت کا نتیجہ ہے ‘‘۔
علامہ تاج الدین بن عطاء اللہ ؒ اپنی کتاب ’’لطائف المنن‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’جان لیجیے کہ ان صوفیائے کرام سے اللہ اور رسول کے کلام کی تفسیر کے بارے میں جو انوکھے معانی منقول ہیں ، یہ ظاہری معنی، نص کے ظاہر کو پھیرنا نہیں کہلائے گا، بلکہ ظاہر آیت سے تو وہ معنی سمجھا جائے جس کے لیےآیت ذکر کی گئی ہے اور جس معنی پر اہل زبان کا عرف جس مفہوم اور مطلب پر دلالت کرتا ہے ، جبکہ آیات قرآنی اور احادیث شریفہ کے باطنی اور مخفی معانی کی طرف اس شخص کی رہبری ورہنمائی ہوتی ہے جس کے دل کو خداتعالی نے انشراح کی دولت سے نوازا ہو ، حدیث شریف میں بھی اس مضمون کا باقاعدہ ذکر وارد ہوا ہے : ’’لکل آیۃ ظہر وبطن‘‘ یعنی ہر آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے ، چنانچہ ناقد اور معترض کا یہ کہنا کہ : ’باطنی اشارات کا بیان قرآن وحدیث کی تحریف کے مترادف ہے‘ آپ کو ان حضرات صوفیاء کے اقوال سے مستفید ومستفیض ہونے سے ہرگز نہ روکے ، یہ تحریف ہرگز نہیں ہے ، تحریف تو اس وقت ہوتی جب یہ حضرات یوں دعوی کرتے کہ : ’اس آیت کے یہی معنی ہیں اوراس کے علاوہ اور کوئی معنی نہیں‘ اور صوفیائے کرام تو یہ دعوی ہی نہیں کرتے ، بلکہ ظاہر کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے موضوع معانی کو مصداق جانتے ہوئے ان باتوں کا ادراک فرمالیتے ہیں جو اللہ تعالی ان کو سجھاتے اور سکھاتے ہیں ‘‘۔
مذکورہ بالا عبارت صاحب اتقان علامہ سیوطیؒ نے نقل کی ہے ۔
راقم الحروف عرض گزار ہے کہ اس مضمون کے متعلق مروی کئی احادیث بیان کردہ مفہوم کی تائید کرتی ہیں ، حضور اقدس ﷺ کا یہ فرمان
لاتنقضی عجائبہ ، ولاتبلغ غایتہ
یعنی اس قرآن کے عجائبات ختم نہ ہوں گے اور اس کی انتہا تک نہیں پہنچاجاسکتا، اسی طرح یہ ارشاد کہ
فیہ نبأ ما قبلکم وخبر مابعدکم
اس میں تم سے پہلے اوربعد کے لوگوں کی خبریں ہیں، اوریہ فرمان گرامی
إن القرآن ذوشجون وفنون وظہور وبطون
یعنی بلاشبہ قرآن کریم تہہ در تہہ تفصیلات کا حامل اورظاہری معانی وباطنی حقائق پر مشتمل ہے، اوردیگر کئی مرفوع وموقوف روایات اس مضمون کی تائید کرتی ہیں ،اورحضرت علی ؓ کا یہ فرمان :
أو فہم أعطیہ رجل مسلم
یعنی یا وہ فہم جو کسی مسلمان کو دیا گیا ہو -اسے امام بخاریؒ نے کتاب العلم میں نقل فرمایا ہے -اس حوالے سے واضح ترین دلیل ہے ، اور امام شافعیؒ کا قول ماقبل میں گزرچکا اورحضرت ابن عمرؓ ، مجاہدؒ اوردیگر حضرات کے ارشادت بھی میں نے ماقبل میں ذکر کردیے ہیں (ان کو دوبارہ دیکھ لیاجائے)۔
اگر قرآنی علوم ومقاصد صرف اس کے ظاہری الفاظ کے مفاہیم میں منحصر ہوتے ، اہل حقائق کے دقائق ولطائف نہ ہوتے اور نہ ہی وہ مخفی اشارات ومعارف ہوتے جن پر قرآنی مفہوم دلالت کرتا ہے اور قرآن کریم کی بلاغت ان کا پتہ دیتی ہے (اگر یہ نکات قرآن کریم میں نہ پائے جاتے ) تو کسی عالم کو دوسرے عالم پر ، کسی پیش رو کو بعد میں آنے والے پر،اور بعض متأخرین کو بعض متقدیم پر کوئی فوقیت حاصل نہ ہوتی ، تب حضرت ابن مسعودؓ کے اس ارشاد کا بھلا کیا مقصد ہوتا ؟!
وأعمقھم علما
یعنی وہ صحابہ میں علم کےاعتبار سے زیادہ گہرے تھے ۔
مذکورہ تفصیل سے یہ معاملہ واضح ہوگیا ،اور ان دونوں قسم کی تاویلات میں فرق منکشف ہوگیا ،چنانچہ اہل حقائق ان لطائف وتاویلات قرآنی کو بیان کرتے رہے ہیں جوآیات کے ضمن میں پوشیدہ ہیں ، اس کے باوجود ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ منقول نہیں کہ انہوں نے (قرآن کریم کے ) ظاہری معانی پر عمل اور اعتقاد چھوـڑدیا ہو، پھر صبح روشن کی مانند یہ معاملہ ان معترضین سے کیونکر مخفی رہا ؟
حالانکہ صوفیائے کرام تو علم الہی میں رسوخ رکھتے ہیں اور اعمال میں سچے اور مخلص ہوتے ہیں ، ان کے برخلاف ملحد فرقہ باطنیہ ، شریعت اسلامیہ کے منکر ، آیات قرآنیہ کے ظاہری معانی کو پھیرنے والے ، علم میں کج رو اور گمراہ اور عمل میں جھوٹے ہیں ، ان اولیاء وصوفیاء کرام کی کیا بلند وبالا شان ہے اور ان باطنیوں کا درجہ کیسا گرا ہوا ہے ؟ان میں سے ہر ایک کو واضح علامات سے آپ پہچان لیں گے ، اللہ تعالی نے اس باطنی گروہ جیسے لوگوں کے متعلق ارشاد فرمایا
فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ
ترجمہ :سو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے ،وہ اس کے اسی حصے کے پیچھے ہولیتے ہیں جو مشتبہ المراد ہے ،(دین میں ) شورش ڈھونڈنے کی غرض سے اور اس کا (غلط) مطلب ڈھونڈنے کی غرض سے ۔
أَفَمَن يَمْشِي مُكِبًّا عَلَىٰ وَجْهِهِ أَهْدَىٰ أَمَّن يَمْشِي سَوِيًّا عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
ترجمہ:( پس اس کافر کے متعلق سوچو کہ ) جو شخص منہ کے بل گرتا ہوا چل رہا ہو، وہ منزل مقصود پر زیادہ پہنچنے والا ہوگا یا وہ شخص جوسیدھا ایک ہموار سڑک پر چلا جارہا ہو۔
ولیس یصح فی الأفہام شیئ إذا احتاج النھار إلی دلیل
ترجمہ: جب دن کے وجود پر بھی دلیل کی ضرورت ہو تو ایسی عقل وفہم کے نزدیک توکوئی بھی بات درست نہیں قرار پائے گی۔
اس بحث کے مختلف پہلوؤوں کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے علامہ مرتضی زبیدیؒ کی ’’الاتحاف شرح الاحیاء‘‘ کی مراجعت کرلی جائے ، اللہ تعالی ہی حق کی طرف رہبری کرنے والے ہیں ۔
حوالہ: یتیمۃ البیان فی شیئ من علوم القرآن، اردو ترجمہ اصول تفسیر وعلوم قرآن از مولانا سید سلیمان یوسف بنوری
باطنی فرقہ کے متعلق جاننے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں: