فصوص الحکم کا تعارف اور شیخ اکبر ابن عربی کے افکار ونظریات کے متعلق متوازن رائے، از مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
تسہیل و ترتیب: مفتی عمر انور بدخشانی
تعارف: شیخ اکبر ابن عربیؒ کی مشہور کتاب ’’فصوص الحکم ‘‘ کے پہلے باب (فص اول) کی شرح حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ’’خصوص الکلِم فی حل فصوص الحکم ‘‘ کے نام سے ۱۳۳۸ھ میں قلم بند فرمائی ، شرح کی ابتدا میں حضرت تھانویؒ نے فصوص الحکم اور شیخ ابن عربیؒ کے متعلق ایک مختصر مقدمہ تحریر فرمایا ، ذیل میں وہی مقدمہ تسہیل کے ساتھ یہاں پیش کیا جارہا ہے ۔
مقدمہ
اس کی تقدیم اس لیے کی گئی تاکہ اجمالا رسالہ (فصوص الحکم) کی حقیقت ذہن میں آجائے جس سے رسالہ میں نظر(مطالعہ) بصیرت کے ساتھ ہو، سو وہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت انبیاء علیہم السلام سب کے سب ،تمام علمی وعملی کمالات کے جامع ہیں ، لیکن تاہم خاص خاص کمالات کو خاص خاص انبیاء کے ساتھ ایک خاص خصوصیت وتعلق ہے، اس معنی کر کہ کسی نبی پر کوئی کمال غالب ہے ، کسی (نبی) پر کوئی اور (کمال)، ان کمالات کی تعیین جس طرح نصوص کے اشارات سے ہوتی ہے اسی طرح کبھی کشفی ذوق اور وجدان سے بھی ہوتی ہے، اور آخر کوئی تو وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بعض صفات کو متعدد انبیاء میں مشترک فرمایا ، اور بعض (صفات) کو بعض (انبیاء) کے ساتھ متفرد ، مثلا حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ’’صادق الوعد‘‘ کے ساتھ موصوف فرمایا ، اگرچہ ’’صدق وعدہ‘‘ (کی صفت) تمام انبیاء میں مشترک ہے، مگر ان میں (یہ کمال) ایک خاص شان سے متحقق (ثابت) تھا ، چنانچہ درمنثور میں ابن ابی حاتم سفیان ثوری کی تخریج سے روایت ہے کہ کسی شخص سے وعدہ فرمایا کہ میں یہاں پر تیرا انتظار کروں گا ، وہ شخص بھول گیا ، اور ایک سال گزرگیا ، اتفاق سے (اس شخص کا کچھ دن بعد) وہاں جو گزر ہوا تو ان کو منتظر پایا ، پوچھا کہ آپ اب تک یہاں ہیں ؟آپ نے فرمایا کہ چونکہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ تیرے آنے تک یہاں رہوں گا ، اسی واسطے حق تعالی نے فرمایا :
انہ کان صادق الوعد
اور جو ’’صدق وعدہ ‘‘واجب ہے اس میں عدم حرج (حرج اور تنگی نہ ہونے) کی قید شرعی دلائل سے ثابت ہے ، اس لیے اتنا انتظار کرنا وعدہ پورا کرنے کے لیے شرط تونہیں مگر آپ نے عملا اس کو مطلق رکھا ، وعلی ہذا کمالات اخری۔
کتاب فصوص الحکم کا تعارف اور مطلب
جملہ حقائق کی طرح ان کمالات کے متعلق بھی خاص خاص علوم ومعارف ہیں ، اس رسالہ (فصوص الحکم) میں ان علوم ومعارف کا کچھ کچھ خلاصہ بیان کیا گیا ہے ، اوریہی وجہ ہے اس کے نام ’’فصوص الحکم‘‘ کی ، کیونکہ ’’فصوص‘‘ جمع ہے فص کی اور’’فص‘‘ کے معانی میں سے ایک معنی خلاصہ کے بھی ہیں (کذا فی الشرح لمولانا الجامیؒ) اور’’ حِکم ‘‘ جمع ہے ’’حکمت‘‘ کی ، اور حکمت کا معنی علم ہونا معلوم ہے ، اور ’’الحکم‘‘ میں الف لام عہد کا ہے ، اور مراد ان علوم سے وہ خاص علوم ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے خاص کمالات کے متعلق ہیں۔
چنانچہ کتاب کے اجزا میں سے ایک ایک جز کو خاص خاص نبی کی طرف منسوب کیا ہے ، جیسے آدمیہ ، نوحیہ ، موسویہ ، عیسویہ ، اور ان نسبتوں کو جو ’’کلمہ‘‘ کے ساتھ موصوف فرمایا ہے جیسے کلمہ آدمیہ،تواس ’’کلمہ‘‘ سے مراد خود اس نبی کی ذات اور روح ہے ، اورشیخ (ابن عربیؒ) اپنی اصطلاح میں تمام موجودات کو ’’کلمہ‘‘ کہتے ہیں ، جیسا کہ ’’فص عیسوی‘‘ میں تصریح فرمائی ہے
فالموجودات كلها كلمات الله التي لا تنفد فانها عن كن و كن كلمة الله
چنانچہ اس ترکیب کے معنی ہوئے’’فص حکمۃ فردیۃ فی کلمۃ محمدیۃ ‘‘ کہ کلمہ محمدیہ یعنی ذات محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والسلام) کا جو ایک ممتاز کمال فردیت ہے یعنی تمام مخلوق میں اکمل اور یکتا ہونا ، اس کمال کے متعلق جو حکمت یعنی علوم ومعارف ہیں ، یہ باب ان ان علوم ومعارف کا خلاصہ ہے (اسی طرح دیگر فصوص کے معانی)۔
شیخ ابن عربیؒ کی فصوص الحکم میں بیان کردہ آراء کے متعلق کیا عقیدہ رکھا جائے؟
اور یہ تو پہلے (شروع میں) اشارہ کرچکا ہوں کہ یہ اختصاص (کمالات و خصوصیات کا بیان) کبھی کشفی بھی ہوتا ہے ، چنانچہ ان کمالات کے اختصاص کا زیادہ حصہ اس رسالہ میں وجدانی وکشفی ہے ، اسی طرح جو علوم ان کمالات کے متعلق بیان کیے ہیں وہ بھی زیادہ تر کشفی ہیں ، اگرچہ کہیں نصوص (قرآن وسنت) سے تائید بھی ہوجائے ، لیکن یہ دعوے نصوص (قرآن، سنت) پر موقوف نہیں ، اوراسی لیے اگرکوئی شخص ان پر اعتقاد نہ رکھے تو اس پر کوئی ملامت نہیں ، اور اگر کوئی اعتقاد رکھے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ
اگر اعتقاد قطعی رکھے تو غالی ہونے (غلو کرنے) کے سبب عاصی (گناہ گار) ہوگا ، اور اگراعتقاد غیر قطعی ہو ، خواہ ظنی رکھے، یا متساوی الشقین (دونوں جانب برابر ہوں یعنی شک) رکھے تو اگر کسی نص کے ظاہر کے بھی خلاف نہ ہو تو اس کی اجازت ہے ، مگر یہ اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ اس کے خلاف کا بھی احتمال ہے ، اور کسی نص (قرآن وسنت) کے ظاہر کے خلاف ہو تو اس کا اعتقاد کسی درجہ میں بھی جائز نہیں ۔
شیخ اکبر ابن عربیؒ کی طرف منسوب غلط باتوں کا حکم
البتہ چونکہ حضرت شیخ (ابن عربیؒ) کا کامل ہونا اساطین (اکابر علماء) امت کی شہادت سے ثابت ہے (جس کی صحت ، حدیث انتم شہداء اللہ فی الارض کا مدلول ہے) اس لیے اس سے شیخ ابن عربی پر طعن کرنا خطرے کا محل اور سوء ادب ہے ، رہا اس غلطی کا شیخ ابن عربیؒ سے صادر ہونا تواس کی مناسب توجیہ کی جائے گی ، یا تو اسے اجتہاد کی غلطی کہا جائے گا، یا اس کی شیخ کی طرف نسبت کو غلط کہا جائے گا جیسا کہ درمختار میں معروضات سے نقل کیا ہے
لكنا تيقنا أن بعض اليهود افتراها علي الشيخ قدس سره
اوراسی واسطے جو فن کا محقق نہ ہو ، یا شریعت میں ماہر نہ ہو تو ایسے شخص کو ایسی کتابوں کا دیکھنا حرام ہے ،چنانچہ رد المحتار میں رسالہ تنبیہ الغبی بتبرئۃ ابن عربی سے نقل کیا ہے
فقد نقل عنه أنه قال نحن قوم يحرم النظر في كتبنا
اور عارف رومیؒ نے یہی مضمون اس عنوان سے فرمایا ہے
نکتهها چون تیغ پولاد است تیز گر نداری تو سپر واپس گریز پیش این الماس بیاسپر میا کز بریدن تیغ را نبود حیا
ترجمہ: نکتے فولادی تلوار کی طرح تیز ہوتے ہیں ، اگر تمہارے پاس ڈھال نہیں ہے تو واپس لوٹ جاؤ ، الماس جیسے قیمتی پتھر کے پاس بغیر ڈھال کے مت آو ، کیونکہ تلوار کاٹنے سے شرم و حیا نہیں کرتی