باطنی (اسماعیلی) تحریک کو خفیہ رکھنے کی وجوہات اور ان کا بھیانک کردار، از مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ

تعارف: حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ نے باطنی تحریک کے متعلق یہ مفید معلوماتی مضمون ایک کتاب کے مقدمہ کے طور پر لکھا تھا

باطنی اسماعیلی تحریک کو خفیہ رکھنے کی وجوہات

اسماعیلی مذہب پر کتابوں کی کمی کی شکایت قریبا ہر زمانہ میں رہی ہے ، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسماعیلی مذہب ایک باطنی تحریک ہے ، وہ اپنی دعوت خفیہ ذرائع سے پھیلانے کے قائل ہیں ، یہ لوگ اپنی تحریک کا کھلا تعارف پسند نہیں کرتے ،بلکہ ایسا بھی ہوا ہے کہ بعض حضرات نے بڑی محنت وجستجو سے باطنیوں کے حالات پر کتابیں لکھیں ،لیکن اس تحریک کے اکابر نے انہیں منظر عام سے غائب کرادیا،اس اخفا کی وجوہات کئی ایک ہوسکتی ہیں :

۱-ایک سب سے بڑی وجہ تو یہ کہ یہ باطنی دعوت ’’اہل بیت‘‘ کے نام پر پیش کی جاتی تھی ، مگر اہل بیت کے اکابر جو عام لوگوں کے سامنے موجود تھے ان کو اس دعوت کی ہوا بھی نہیں لگی تھی ، اگر علانیہ یہ دعوت پیش کی جاتی تو ’’ائمہ اہل بیت‘‘ اس کو فورا جھٹلادیتے ، اس لیے باطنی تحریک کے داعیوں نے نہ صرف اپنی دعوت اور اس کی سرگرمیوں کو صیغہ راز میں رکھا ، بلکہ خود ’’ائمہ اہل بیت‘‘ کو بھی ’’مکتوم‘‘ اور ’’مستور‘‘ بنادیا، جب ان سے پوچھا جاتا کہ وہ امام کہاں ہیں جس کی تم دعوت دیتے ہو؟ توکہہ دیا جاتا کہ بحکم الہی وہ کسی نامعلوم مقام پر چھپے ہوئے ہیں اوران سے ملاقات کی کسی کو اجازت نہیں ، ظاہر ہے کہ ایک ایسی دعوت جس کے مرکزی کردار بھی ’’پردہ ستر‘‘ میں ہوں اس کو کھلے بندوں کیسے جاری رکھاجاسکتا تھا؟

۲-دوسری بڑی وجہ یہ ہوئی کہ باطنی داعیوں کے پاس کوئی مربوط اور مفصل نظام نہیں تھا ، اس لیے جس داعی کی سمجھ میں جو بات آجاتی وہ کہہ دیتا ، علانیہ دعوت کی صورت میں ان کے آپس میں اختلافات رونما ہوتے ، اس لیے دعوت کا رخ ظاہر سے باطن کی طرف کردیا گیا ،تاکہ داعیوں کے خودتراشیدہ ’’حقائق‘‘ منظر عام پر نہ آسکیں۔

۳-اوراس سے بڑی وجہ اخفا کی یہ تھی کہ اسماعیلی دعوت میں جو باتیں بنیادی اصول کے طور پرپیش کی جاتی تھیں وہ ایک مسلمان کے لیے اتنی متوحش تھیں کہ بھلے زمانوں کے مسلمان ایسی باتوں کو کبھی برداشت ہی نہیں کرسکتے تھے ، مثال کے طور پر یہ باطنی اصول کہ اللہ تعالی کا نور حضرت علیؓ میں حلول کرگیا ہے ،اس لیے علیؓ خود اللہ ہے ، اورپھر یہی منصب الوہیت بعد کے دیگر ائمہ کی طرف منتقل ہوتا رہا ، کون مسلمان ہوگا جو اس باطنی اسماعیلی عقیدے کو سن کر آسانی سے ہضم کرجائے اوراس عقیدے کو علانیہ طور پرپھیلانے کی اجازت دے ؟

اس لیے اس دعوت کا ، اس کے بنیادی اصولوں اوراس کے مرکزی کرداروں کا یہاں تک اخفا کیا گیا کہ یہ تحریک ہی ’’باطنی تحریک‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئی ، اس تحریک کے ’’پردہ راز‘‘ میں رہنے کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ اس تحریک پر بہت کم کتابیں لکھی گئیں اور جو کچھ لکھا گیا وہ بھی مسلمانوں کے لیے ’’شجر ممنوعہ‘‘ قرار دیا گیا ، اس لیے باطنی تحریک کے باطنی احوال وکوائف یہاں تک پردہ راز میں رہے کہ اس تحریک کی تاریخ ، اس کے اصول وقواعد ، اس کے مذہبی رسوم وفرائض ، اس کے اغراض ومقاصد ، اس کے داعیوں کے حدود والقاب ،اوراس کی دعوت کے مدارج عام لوگوں کی نظر ہی سے اوجھل نہیں رہے ،بلکہ خود اسماعیلی باطنی بھی ان سے بے خبر رہے ،ان وجوہ واسباب کی بنا پر اسماعیلی تحریک کے لٹریچر کی کمی کی شکایت ہمیشہ رہی ،مگر اب کچھ عرصہ سے مستشرقین کی دل چسپی کی بنا پر خود اسماعیلیوں کی لکھی ہوئی کتابیں منظر عام پر آگئی ہیں اورانگریزی ، عربی اور گجراتی میں اس تحریک پر کافی مواد دستیاب ہونے لگاہے اوران مستند مآخذ کو سامنے رکھ کر ڈاکٹر زاہد علی صاحب نے اسماعیلی مذہب پر (جو ان کا خاندانی مذہب تھا) دو گراں قدر کتابیں لکھیں :(۱) تاریخ فاطمیین مصر (۲) ہمارا اسماعیلی مذہب اور اس کا نظام ۔

یہ دونوں کتابیں بہت ہی محنت وکاوش سے لکھی گئی ہیں اوراس موضوع پر گویا حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہیں ، مگر یہ کتابیں بھی بازار میں کم یاب ہیں ،ہمارے محترم جناب سید تنظیم حسین صاحب نے پیش نظر کتاب ’’اسماعیلیہ اورعقیدہ امامت کا تعارف تاریخی نقطہ نظرسے‘‘میں قدیم وجدید مآخذ سے استفادہ کرتے ہوئے اسماعیلی دعوت کے بارےمیں ایسا وقیع مواد جمع کردیا ہے کہ اس کا مطالعہ اس دعوت کے سمجھنے میں نہایت مفید اور ضروری ہوگا،کتاب میں طرز نگارش نہ صرف غیر جانب دارانہ ہے ،بلکہ ایسا عام فہم بھی ہے کہ ایک متوسط استعداد کا شخص بھی مطالب کے سمجھنے میں کوئی الجھن محسوس نہیں کرے گا۔

باطنی اسماعیلیوں کا بھیانک سفاکانہ کردار

کتاب کے چھٹے باب میں مؤلف نے ’’اسماعیلیوں کے منفی کردار‘‘ سے بحث کی ہے اوراس سلسلہ میں قرامطہ کی ہوش رہا سرگرمیوں اور حسن بن صباح کی تیار کردہ جماعت ’’فدائیین‘‘ (جو تاریخ میں ’’حشاشین‘‘ کے لقب سے معروف ہیں) کی ہولناک تباہ کاریوں کا تذکرہ کیا ہے ،اس ضمن میں اسماعیلیوں کی سفاکی وبے رحمی کی ایک مثال ابن النابلسی شہیدؒ کے قتل کا وہ واقعہ ہے جس کا تذکرہ حافظ ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ (ج۱۱، ص ۲۸۴) میں ،اور حافظ شمس الدین الذہبیؒ نے سیر اعلام النبلاء میں کیا ہے ، اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ :

امام ابوبکر محمد بن احمد بن سہل الرملی المعروف بہ ’’ابن النابلسی‘‘اپنے دور کے بہت بڑے محدث تھے ، عابد وزاہد اورصائم الدہر تھے ، حدیث وفقہ میں امام تھے ، فاطمیوں نے جب مصرپر غلبہ حاصل کیا تو اسماعیلی عقائد کو لوگوں پر بزور شمشیر مسلط کرنا چاہا ، ابن نابلسی شہیدؒ ان کی اس حرکت سے نالاں تھے ، اور وہ نہ صرف ان کے اس طرز عمل پر تنقید کرتے تھے ،بلکہ ان کے خلاف جہاد کا فتوی دیتے تھے ، اسماعیلی حکمران انہیں گرفتار کرنا چاہتے تھے ، وہ رملہ سے دمشق چلے گئے ، وہاں کے گورنر نے ان کو گرفتار کرکے لکڑی کے پنجرے میں بند کرکے مصر بھیج دیا ، یہ ۳۶۵ھ کا واقعہ ہے ، اس وقت ابو تمیم معز فاطمی حکمراں تھا، اوراس کا غلام امیر عساکر’’جوہر‘‘سیاہ وسفید کا مالک تھا ، ابن النابلسی شہیدؒ کو قائد جوہر کے سامنے پیش کیا گیا ، جوہر نے پوچھا کہ تم نے یہ فتوی دیا ہے کہ اگر کسی کے پاس دس تیر ہوں تو وہ ان میں سے ایک تیر روم کے نصرانیوں کے خلاف اور نو اسماعیلیوں کے خلاف استعمال کرے ؟ابن النابلسی شہیدؒ نے فرمایا :جناب ! آپ کو روایت غلط پہنچی ہے ، میں نے یہ فتوی نہیں دیا ، بلکہ میرا فتوی یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس دس تیر ہوں تو وہ نو تیر تو تمہارے خلاف استعمال کرے اور دسواں تیر بھی نصرانیوں کے بجائے تم لوگوں پر برسائے :

فإنکم غیرتم الملۃ ، وقتلتم الصالحین وادعیتم نور الإلھیۃ

ترجمہ : کیونکہ تم نے دین کو بدل ڈالا ، خدا کے نیک بندوں کے خون سے ہاتھ رنگے اور تم نور الہیت کے مدعی بن بیٹھے ۔

جوہرنے حکم دیاکہ ان کی تشہیر کی جائے (منہ کالا کرکے بازار میں پھرایاجائے) دوسرے دن ان کی پٹائی کاحکم دیا ، تیسرے دن ایک یہودی کو حکم دیا کہ ان کی زندہ کھال کھینچ لی جائے ، یہودی نے سرکی چوٹی سے ان کی کھال کھینچنا شروع کی ، چہرے تک کھال اتاری گئی ، مگر انہوں نے اُف نہیں کی ، بلکہ نہایت صبر وسکون کےساتھ ذکر الہی میں مشغول رہے اورقرآن کریم کی آیت :’’کان ذلک فی الکتاب مسطورا‘‘ (یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے) کی تلاوت فرماتے رہے ، یہاں تک کہ سینے کی کھال اتاری گئی ،اوران کے صبر واستقامت کے پاؤں میں لغزش نہیں آئی ، بالآخر کھال کھینچنے والے یہودی کو ان پر ترس آیا اوراس نے دل کی جگہ خنجر گھونپ کران کا قصہ تمام کردیا ، کھال اتارنے کے بعد اس میں بھوسہ بھرا گیا اور بھوسہ بھری کھال کو سولی پر لٹکایاگیا ، رحمہ اللہ تعالی (سیر اعلام النبلاء ج۱۶، ص ۱۴۸ تا۱۴۹)۔

یہ اسماعیلیوں کی سفاکی وبربریت کی ایک مثال ہے جس کے پڑھنے سے بھی بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ، اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے اسماعیلی خون خواروں کے ہاتھوں کتنے علماء حقانی نے جام شہادت نوش کیا ہوگا؟حق تعالی شانہ ان کے فتنے سے امت کی حفاظت فرمائے ، وللہ الحمد اولا وآخرا۔

4,584 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!