شیخ اکبر ابن عربیؒ پر اِجراءِ نبوت کا اِلزام اور اس کا جواب (پہلی قسط) از مولانا محمد نافع رحمہ اللہ

ترتیب وتدوین : مفتی عمر انور بدخشانی

پہلی بات: قبل اس کے کہ ہم شیخ اکبر ابن عربی ؒ پر افتراء کا جواب ذکر کریں اس سے مطلع کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ مرزائیوں کو شیخ اکبرابن عربیؒ کی عبارت سے اپنے مسلک کی تائید حاصل کرنے کا انصافا کوئی حق نہیں پہنچتا، اس لیے کہ مرزا صاحب نے جو اس طبقہ کے روحانی باپ ہیں اپنی تصانیف ( فتوی الحاد ایک خط اور تقریر) میں شیخ اکبر کو مسئلہ وحدۃ الوجود کے سلسلہ میں ملحد اور زندیق (بے دین)قرار دیا ہے ،مرزائیوں کو شرم کرنی چاہیے کہ جس شخص کو آپ کے (روحانی) والد زندیق بے دین یقین کرتا ہو اس کی عبارات سے سہارا پکڑنا تمہارے لیے قطعا ناجائز ہے ، بلکہ ایسا کرنے میں اپنے نبی کی عملا نافرمانی ہے ، لہذا اس وبال نافرمانی سے آپ لوگوں کو خوف کرنا چاہیے ۔

اَجزاء نبوت (انوار و کمالات) اور ختم نبوت

شیخ اکبر ابن عربی ؒ دوسرے جمہور اہل اسلام کی طرح قائل ہیں کہ نبوت ختم ہوچکی ہے ، نبی کریم ﷺ سب نبیوں کے آخری پیغمبر ہیں ، حضور علیہ السلام کے بعد دروازہ نبوت بند ہوچکا ہے ، آسمان سے وحی دین الہی کسی آدمی پر نبی کریم ﷺ کے بعد قیامت تک ہرگز نہیں آسکتی ، ہاں !کمالات نبوت ، انوار نبوت، فضائل وشمائل رسالت اور بشارتیں نبوت سے اس فیضان کو شیخ ہمیشہ جاری تسلیم کرتے ہیں اور اکابر امت بھی ان چیزوں کو صحیح تسلیم کرتے ہیں اور ان نبوت کے فضائل وکمالات کو اجزائے نبوت سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ :

۱-ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات (ابن ماجہ ، باب الرؤیا الصالحۃ)۔

یعنی نبوت گزرچکی ہے ، البتہ اس کے مبشرات باقی ہیں ۔ اور حدیث میں فرمایا گیا :

۲-الرؤیا الصالحۃ جزء من ستۃ واربعین جزأ من النبوۃ (مسلم ، بخاری ومشکوۃ)

یعنی اچھا خواب اجزائے نبوت میں سے چھیالیسواں جز ہے ۔

۳-قال السمت الحسن والتؤدۃ والاقتصاد جزء من اربع وعشرین جزء من النبوۃ (مشکوۃ بحوالہ ترمذی)۔

یعنی اچھا خلق اور آہستگی سے کام کرنا اور ہر امر میں میانہ روی اختیار کرنا نبوت کے اجزاء میں سے چوبیسواں جزا ہے ۔

یہ صحیح روایات صاف بتلا رہی ہیں کہ کمالات نبوت اور فضائل رسالت کو آنحضور ﷺ نے نبوت کے جزکے نام سے ذکر فرمایا ہے ، اور اس قسم کے اجزائے نبوت ہر زمانہ میں بعد اختتام نبوت بھی باقی ہیں ، اور خالص مؤمنوں میں پائے جاتے ہیں ، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کہ ان اجزائے نبوت کے پائے جانے سے خود نبوت کے اجراء کو تسلیم کیا جاسکتا ہے ؟اور کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ نبوت باقی ہے ؟

اَجزاء نبوت اورختم نبوت کے متعلق ابن عربی کی رائے

دوسری بات: اس گزارش کے بعد اب فتوحات مکیہ میں سے شیخ کی دو عبارتیں پیش کی جاتی ہیں ، جس میں شیخ اکبرابن عربیؒ نے اس مسئلہ کے متعلق خاص تحقیق ذکرکی ہے :

فأخبر رسول اللہ ﷺ ان الرؤیا جزء من أجزاء النبوۃ ، فقدبقی للناس فی النبوۃ ھذا وغیرہ ، ومع ھذا لا یطلق اسم النبوۃ والا النبی علی المشرع خاصہ فجر ھذا الاسم لخصوص وصف معین فی النبوۃ (فتوحات مکیۃ ج ۲، ص ۴۹۵)۔

نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا کہ نبوت کے جزؤوں میں سے اچھا خواب ایک جز ہے ، پس نبوت میں سے لوگوں کے لیے یہ رؤیا وغیرہ باقی رہ گیا ہے ، مگر اس کے باوجود خصوصی طور پر بجز صاحب دین وشریعت کے کسی دوسرے پر لفظ نبوت اور نبی کے نام کا اطلاق قطعا درست نہیں ، ایک خاص وصف معین کی بنا پر اس نام (نبی ) کی بندش کردی گئی ہے ۔

فما تطلق النبوۃ إلا لمن اتصف بالمجموع فذالک النبی وتلک النبوۃ التی حجزت علینا انقطعت فإن جملتھا التشریع بالوحی المکی فی التشریع ، وذالک لا یکون إلا لنبی خاصۃ (فتوحات ، ص ۵۶۸)۔

ترجمہ : نبوت کا اطلاق صرف اسی وقت درست ہوسکتا ہے جبکہ وہ ذات تمام اجزائے نبوت کے ساتھ متصف ہو ، پس اس قسم کا نبی اور ایسی نبوت ( جو تمام اجزاء کو جامع اور سب کو شامل ہو) ہم (اللہ کے صالح بندوں) سے بندکردی گئی اوربالکل منقطع ہوگئی ہے ، اس لیے کہ اس نبوت کے جملہ اجزاء میں سے دینی وشرعی احکام ہیں ، جو فرشتہ کی وحی سے ہوں اور یہ کام صرف نبی کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی کے لیے نہیں ہوسکتا۔

خلاصہ یہ ہے کہ :
۱-شیخ کے نزدیک کمالات واجزائے نبوت لوگوں میں باقی ہیں ۔
۲-اجزائے نبوت ، کے بقاکے باوجود اس پر اسم نبوت اور لفظ نبی کا اطلاق شیخ ابن عربیؒ کے نزدیک بالکل ناجائز ہے ۔
۳-ہاں صرف اس وقت نبی کا لفظ اور نبوت کا اطلاق درست ہے جس وقت تمام اجزائے نبوت بتما مہا مجتمع ہوں ، اور ان جملہ اجزاء میں سے احکام دینی وشرعی ہیں جو فرشتہ کی وحی سے نازل ہوتے ہیں ۔
۴-نبوت کا اصل دارومدار احکام شرعیہ پر ہے ، جس نبوت میں یہ اجزاء (یعنی احکام شرعی ودینی جو وحی ملکی سے حاصل ہوتے ہیں) نہ پائے جائیں ،اس کو شیخ نبوت ہی نہیں قرار دیتے ،اور ان احکام کے بغیر شیخ ابن عربیؒ کے نزدیک نبوت متحقق ہی نہیں ہوسکتی۔

الغرض شیخ اکبرابن عربیؒ جس چیز کے اجرا وابقا کے قائل ہیں (اجزاء نبوت ومبشرات وکمالات وغیرہ) وہ نبوت نہیں ہے ، اور جو نبوت ہے اس کے اجراء وابقاء کے وہ قائل نہیں ۔

ختم نبوت: الہام اور کشف کے متعلق شیخ اکبر ابن عربی ؒ کی رائے

تیسری بات: اس مقام میں شیخ اکبرابن عربیؒ کی وہ عبارت جو علامہ عبد الوہاب شعرانی ؒ نے ’’الیواقیت والجواہر‘‘ میں نقل کی ہے وہ قابل ملاحظہ ہے ، اس کوبلفظہ یہاں نقل کیا جاتا ہے :

واعلم أن الملک یأتی النبی بالوحی علی حالین تارۃ یأتی فی صورۃ جسدیۃ من خارج فیلقی ماجاء بہ إلی ذلک النبی علی اذنہ فیسمعہ فیحصل لہ من النظر مثل لیحصل لہ من السمع سواء ، قال (شیخ اکبر) ھذا باب اغلق بعد موت محمد ﷺ فلا یفتح لأحد إلی یوم القیامۃ لکن بقی للأولیاء وحی الإلہام الذی لا تشریع فیہ (الیواقیت والجواہر ج2ص37)۔

ترجمہ :عبد الوہاب شعرانی ؒفرماتے ہیں کہ جاننا چاہیے کہ نبی کے پاس وحی دو طریقوں پرنازل ہوتی ہے ، کبھی فرشتہ وحی کو نبی کے دل پر نازل کرتا ہے اورکبھی صورت جسدیہ کے ساتھ خارج میں آکر اس وحی کو اس کے کانوں پر اور آنکھوں کے سامنے پیش کردیتا ہے ،پس اس نبی کو آنکھوں کے دیکھنے اور کانوں سے سننے سے پورا یقین حاصل ہوجاتا ہے ، اور کوئی شک نہیں رہ جاتا ، شیخ اکبرؒ نے فرمایا یہ دروازہ (وحی کے نزول) نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بند کردیا گیا ہے ، پس اب قیامت تک کسی کے لیے یہ دروازہ نہیں کھل سکتا ، لیکن اولیاء اللہ کے لیے الہام (اورکشف) کا القاء جس میں کوئی احکام دینی نہیں ہوا کرتے باقی ہے ۔

مذکورہ عبارت میں شیخ اکبرؒاورشیخ عبد الوہاب شعرانی دونوں حضرات کا نظریہ بالکل عیاں ہوچکا ہے کہ حضور ﷺ کے بعد قیامت تک وحی ختم ہوچکی ہے ، اور اولیاء اللہ کو الہام یا کشف ہوا کرتا ہے ، اس کا نام نبوت نہیں ہے ،اس لیے کہ جب تک احکام شرعی ودینی (یعنی تشریع) نہ پائے جائیں تب تک نبوت متحقق نہیں ہوتی (جیسا کہ شیخ نے سابقاواضح کردیا ہے ) لہذا الہامات وکشوف وغیرہ سے ختم نبوت میں کوئی فرق نہ آئے گا، نیز شیخ عبد الوہاب شعرانی ؒ کی کسی دوسری عبارت سے ان کی ایسی تصریح وتشریح کے بعد بزور اجرائے نبوت ثابت کرنا مصنف کے مقصود کے خلاف ہے ، مرزائیوں کا استدلال اسی طرح ہوتا ہے کہ ایک واضح بیان کو چھوڑ کر ایک موہوم عبارت کو پکڑ کر بڑا شور مچایا کرتے ہیں ۔

شیخ ابن عربی ؒ کے برخلاف مرزا قادیانی کےمزعومہ دعوے

چوتھی بات: یہ بھی یا د رہے کہ شیخ اکبر ؒ نے جن جن چیزوں کی نفی کردی ہے ااور ان کے انقطاع اوراختتام کا قول کرتے ہیں مرزا صاحب ان سب کے ایک ایک کرکے اِجرا کے مدعی ہیں ، انصاف کے ساتھ مندرجہ ذیل حوالہ جات ملاحظہ فرماکر شیخ کے عقائد ونظریات اورمرزا صاحب کے مزعومات کا توازن (تقابل ) کیجیے :

۱-اوائل میں میرا بھی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے ، وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین سے ،اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تھا تو میں اس کو جزوی فضیلت قرار دیتا تھا ، مگر بعد میں جو خدا تعالی کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی تو اس نے مجھ کو اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریحی طور نبی کا خطاب مجھے دیا گیا(حقیقۃ الوحی،ص ۱۴۹و۱۵۰، روحانی خزائن ،ج۲۲ ص۱۵۳،۱۵۴)

۲-مگر میں خدا تعالی کی ۲۳ برس کی متواتر وحی کو کیونکر رد کرسکتا ہوں ، میں اس کی پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ ان تمام خدا کی وحیوں پر ایمان لاتا ہوں جو مجھ سے پہلے ہوچکی ہیں (حقیقۃ الوحی، ص ۱۵۰، روحانی خزائن ، ج۲۲، ص ۱۵۴)۔

۳-حق یہ ہے کہ خدا تعالی کی وہ پاک وحی جو میرے اوپر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں ، نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ ۔۔۔۔۔۔(ذرا آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ) چنانچہ وہ مکالمات الہیہ جو براہین احمدیہ میں شائع ہوچکے ہیں ان میں ایک وحی الہیہ یہ ہے :ہو الذی ارسل رسولہ بالہدٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ‘‘دیکھو صحفحہ ۴۹۸ براہین احمدیہ ، اس میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کرکے پکاراگیا ہے ۔(ایک غلطی کا ازالہ، ص ۲،۳، روحانی خزائن ، ج ۱۸، ص ۲۰۶،۲۰۷)۔

۴-ما سوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے ، جس نے اپنی وحی کے ذریعہ چند امر ونہی بیان کیے ، اور اپنی امت کے لیے قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہوگیا ، پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں،کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی ، مثلا یہ الہام : قل للمؤمنین یغضوا من ابصارہم ویحفظوا فروجہم ، ذالک ازکی لہم ‘‘ یہ براہین احمدیہ میں درج ہے ، اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی ، اور اس پر ۲۳ برس کی مدت بھی گزرگئی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی ۔۔۔۔۔۔الخ (اربعین نمبر ۴، ص ۶، روحانی خزائن ج۱۷، ص ۴۳۵)۔

قارئین کرام !

شیخ اکبرؒ غیر مبہم اور صاف الفاظ میں بار بار کہہ رہے ہیں کہ وحی ملکی جو انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوتی تھی اس کا دروازہ قیامت تک حضور نبی کریم ﷺ کے بعد قطعا بند ہوچکا ہے ، اور کسی شخص کے لیے کھولا نہیں جاسکتا ، صرف اولیاء اللہ اور صلحاء امت کے لیے الہام وکشف ودیگر اوصاف وکمالات نبوت باقی ہیں ، جو یقینا نبوت نہیں ، ادھر مرزا صاحب بے چارے بڑے زور وشور سے کہہ رہے ہیں کہ مجھ پر بارش کی طرح وحی نازل ہوتی ہے اور میری وحی میں جو ۲۳ برس سے متواتر نازل ہورہی ہے امر بھی ہے اور نہی بھی ، اور میرا نام وحیوں میں نبی اور رسول اور مرسل رکھا گیا ہے ، اگر ذرہ بر بھی انصاف ہے تو

بہ بیں تفاوت راہ از کجا ست تا بکجا

ماخوذ از: مسئلہ ختم نبوت اور سلف صالحین ، از حضرت مولانا محمد نافع رحمہ اللہ ، ص ۳۳ تا ۳۸۔

اس مضمون کی دوسری قسط نیچے دیے گئے لنک پر ملاحظہ کیجیے :

5,079 Views

One thought on “شیخ اکبر ابن عربیؒ پر اِجراءِ نبوت کا اِلزام اور اس کا جواب (پہلی قسط) از مولانا محمد نافع رحمہ اللہ

  1. Being a begginer i found this site meaningful and beneficial..hope it will serve the seekers of truth in the long run..Got some clarity regarding some misconceptions about Shaikh e Akbar.There is terminology of sufism which is very helpful to search for the meanings.very happy to find such a glorifying page of knowledge..

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!