قرآن فہمی کے دو دریا، آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی ، از مولانا محمد شفیع چترالی
رمضان کی بابرکت ساعتیں آہستہ آہستہ نکلتی جارہی ہیں۔ اس سال کورونا وبا کی وجہ سے پورے عالم اسلام میں رمضان کی رونقیں ماند پڑی ہیں تاہم پھر بھی اللہ کا شکر ہے کہ شاید رمضان ہی کی برکت سے اسلامی دنیا کورونا وبا سے اتنی زیادہ متاثر نہیں ہوئی جتنے باقی ممالک اس بلائے ناگہانی کی زد میں آئے ہیں۔ ہماری مساجد اور گھروں میں محدود پیمانے پر سہی عبادات، تراویح اور ختمات قرآن کا سلسلہ جاری ہے بلکہ کورونا آزمائش کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب گھر گھر سے تلاوت قرآن کریم کی پرکیف صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ ہر دوسرے تیسر گھر کی چھت یاصحن مسجد کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ رمضان اور قرآن میں کیا خوب رشتہ ہے کہ دونوں ایک مسلمان کے گھر میں مشترکہ مہمان بن کر آتے ہیں اور قیامت کے دن حشر کے میدان میں یہ اس کے لیے مشترکہ سفارشی بن کر نمودار ہوں گے۔ ویسے قرآن کے ساتھ تو ایک مسلمان کا تعلق پورے سال کا ہوتا ہے اورہونا بھی چاہیے تاہم رمضان میں تقریبا ًہر کلمہ گو کسی نہ کسی حد تک قرآن سے جڑ ہی جاتا ہے۔ کم سے کم تراویح میں قرآن سننے کی سعادت ہر اس شخص کو بھی مل جاتی ہے جس کو قرآن پڑھنا بھی نہ آتا ہو۔ جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ تراویح میں پورے قرآن مجید کو سننے سنانے کی حکمت یہی ہے کہ کم از کم سال میں ایک دفعہ اللہ کا کلام ہماری سماعتوں کے واسطے سے ہمارے دل و دماغ پر اترے، ہمیں روحانی بالیدگی نصیب کرے، ہمارارواں رواں سرشار ہوجائے اور ہم ایمانی اعتبار سے پورے سال کے لیے تازہ دم ہوں۔ جب ہم کسی اچھے مجود قاری یا معصوم حافظ سے قرآن سنتے ہیں تو بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کلام اسی وقت اوپر سے نازل ہورہا ہے۔ ہر مسلمان جب قرآن کریم کو سنتا ہے تو فطری طور پر اس کلام الٰہی کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ بیدار ہوجا تا ہے۔
جب بات قرآن کریم کو سمجھنے کی آتی ہے تو یہ سوال ہمارے سامنے آتا ہے کہ کونسا ترجمہ اور کونسی تفسیر پڑھی جائے۔ الحمد للہ! قرون اولیٰ سے لے کر آج تک قرآن مجید کی لاتعداد تفسیریں لکھی جاچکی ہیں، دنیا کی تقریباً ہر زبان میں قرآن کا ترجمہ ہوچکا ہے اور اگر ہم اردو زبان کی بات کریں تو اگرچہ خود اردو زبان کی عمر بہت زیادہ نہیں ہے تاہم اردو زبان میں لکھی گئی تراجم و تفاسیر قرآن کی فہرست بہت لمبی ہے۔ ہر مترجم اور مفسر کا اپنا انداز اور اپنا رنگ ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ برصغیر میں قرآن مجید کی سب سے زیادہ خدمت کا اعزاز مسند الہند امام شاہ ولی اللہ، ان کے خانوادے اور ان کی فکر سے وابستہ جماعت کو حاصل رہا ہے۔ شاہ صاحب کی سوچی سمجھی رائے تھی کہ مسلمانوں کو زوال و ادبار سے نکال کر ترقی واستحکام کی راہ پر لگانے کا واحد نسخہ قرآن مجید ہی ہے۔
1857ءکی جنگ آزادی کے بعد ولی اللہی جماعت کی قیادت علماءدیوبند کے ہاتھوں میں آئی اور دیوبند کے پہلے طالب علم مولانا محمود حسن نے جو بعد میں شیخ الہند کہلائے، مسلمانوں کو غلامی سے نجات دلانے کی جدوجہد شروع کی تو قرآن کو ہی اپنا مقتدیٰ و راہنما بنایا۔ شیخ الہند نے تحریکی زندگی کی مشکلات اور قیدو بند کی صوبتوں کے باوجود اسلامیان ہند کا رشتہ قرآن مجید سے جوڑنے کے لیے قرآن مجید کا عام فہم ترجمہ اور مختصر مگر جامع تفسیر لکھنے کا ارادہ فرمایا۔ ترجمہ مکمل کرنے کے بعد حواشی کا کچھ حصہ لکھا تھا کہ داعی¿ اجل نے آواز دی۔ شیخ الہند نے اپنے انتہائی قابل و فاضل شاگردوں کی پوری ایک جماعت چھوڑی تھی جس کا ہر فرد اپنی جگہ چندے آفتاب و چندے ماہتاب تھا۔ چنانچہ شیخ الہند کے ایک شاگردنے اپنے استاد کی منشا کے مطابق مگر اپنے اسلوب میں ”بیان لقرآن“ کے نام سے قرآن مجید کا ترجمہ اور مختصر تفسیر لکھی جو اختصار، جامعیت اور منطقی وکلامی اسلوب میں اپنی مثال آپ ہے، جبکہ شیخ الہند کے دوسرے شاگرد علامہ شبیر احمد عثمانی نے اپنے شیخ کے ہی زیر تکمیل کام کو آگے بڑھایا اور ان ہی کے اسلوب میں تفسیری حواشی کی تکمیل کی جو” تفسیر عثمانی“ کے نام سے مشہور و معروف اور تقریباً ہر لائبریری کی زینت ہے۔
برصغیر کی علمی دنیا میں ان دو تفسیروں کا جو مقام و مرتبہ ہے، وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ کوئی بھی مدرس، مفسر، خطیب اور مصنف ان دو تفسیروں سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ بیان القرآن بنیادی طور پر ایک فنی تفسیر ہے جس میںفن تفسیر کے تقاضوں کے مطابق منطقی اسلوب بیان میں تمام اہم علمی نکات کو سمونے، شبہات کا جواب دینے اورکم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس طرح اس تفسیر پر علمی رنگ غالب آگیا ہے اور اسی وجہ سے ایک عام پڑھے لکھے شخص بلکہ معمولی استعداد کے حامل علماءکوبھی اس سے استفادہ کرنے کے لیے بڑی توجہ اور محنت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، جبکہ تفسیر عثمانی میں بنیادی طور پر ایک عام آدمی کی ذہنی و تعلیمی استعداد کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔ اس لیے اس میں بہت دل نشین عبارات اور عام فہم انداز میں قرآن مجید کے معانی و معارف کو بیان کیا گیا ہے اور ان فنی مباحث کو بیان کرنے سے گریز کیا گیا ہے جو علم تفسیر کے طالب علموں کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ جبکہ ایک طالب علم کو بحیثیت طالب علم ان دونوں اسالیب کی بیک وقت ضرورت ہوتی ہے۔
ہم جب پڑھتے تھے تو ہمیں اردو تفاسیر میں ان دونوں تفسیروں کو ساتھ رکھ کر پڑھنے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ اس لیے دل میں یہ خواہش رہتی کہ کاش کوئی اللہ کا بندہ ان دوونوں تفسیروں کویکجا کردے اور بیان القرآن کی ایسی تسہیل کی جائے کہ اس سے استفادہ ایک مبتدی طالب علم یا عام پڑھے لکھے شخص کے لیے بھی آسان ہو۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ہمارے محترم دوست اوراستادزادے مولانا عمر انور بدخشانی استاذ جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوی ٹاون کو کہ انہوں نے دینی طلبہ کی یہ دیرینہ خواہش پوری کردی ہے اور تشنگان فہم قرآن کے دو دریا ملا دیے ہیں۔ بیان القرآن کی تسہیل کاکام پہلے مولانا ظفر احمد عثمانیؒ بھی کرچکے ہیں اور حال ہی میں ہندوستان سے مولانا عقیدت اللہ قاسمی کی تسہیل بھی( پانچ چلدوں میں) چھپ چکی ہے تاہم مولانا عمر انور نے بیان القرآن کی تسہیل کے ساتھ مولانا شبیر احمد عثمانی کے تفسیری حواشی کا اضافہ کرکے اور بیان القرآن کی زبان کو جدید عصری زبان میں ڈھال کر( وہ بھی صرف تین جلدوں میں) عوام اور طلبہ کی مشکل آسان کردی ہے اور اسی وجہ سے” آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی“ کو ماشاءاللہ علماءو طلبہ میں کافی مقبولیت ملی ہے۔ شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور صدر وفاق علامہ ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر اور دور حاضر کے معروف محقق عالم دین علامہ ڈاکٹر عبد الحلیم چشتی سمیت بہت سے دیگر علماءو اکابر نے بھی مولانا عمر انور کی اس کاوش کی تحسین کی ہے۔
مولانا عمر انور کے والد ماجد اور ہمارے استاذ گرامی حضرت مولانا محمد انور بدخشانی کا فارسی ترجمہ و تفسیر قرآن اس وقت فارسی زبان کے مقبول ترین ترجمہ و تفسیر کا درجہ حاصل کرچکا ہے جسے مجمع الملک فہد سعودی عرب نے چھاپ کر لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کیا ہے۔ مولانا عمر انور نے قرآن مجید کی خدمت کے معاملے میں اپنے والد ماجد کی عمدہ پیروی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبول فرمائے اور اسے پورری دنیا بھر میں قرآن مجید کی اشاعت کا ذریعہ بنادے۔
تفسیر آسان بیان القرآن اردو زبان میں سننے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://www.youtube.com/channel/UCjuGJYApb2zuFKO7U4lSlxQ