ختم نبوت: ابن عربیؒ ، مولانا رومؒ اور دیگر صوفیاء کے شطحیات، اور قرآنی آیات کے باطنی معنی کا مطلب، از علامہ انور شاہ کشمیریؒ

ترتیب وتدوین: مفتی عمر انور بدخشانی

تعارف:۱۹؍ اگست ۱۹۳۲ کو حضرت شاہ صاحبؒ بہاول پور کے تاریخی مقدمہ میں شہادت کے لیے بہاول پور تشریف لے گئے تھے ،۲۵؍اگست کو مرزائی قادیانیوں کے خلاف حضرت کا بیان شروع ہوا جو متواتر پانچ دن جاری رہا ، یہاں شاہ صاحبؒ کے اسی بیان کا صرف وہ حصہ دیا جارہا ہے جو صوفیاء کرام اور ان کے اقوال سے متعلق ہے ۔

صوفیاء کرام کے اقوال اور مرزا قادیانی کے دعوائے نبوت میں بنیادی فرق

۱-قادیانیوں کے وکیل نے صوفیاء کرام کے بعض ایسے قابل اعتراض اقوال پیش کیے جو مرزا صاحب کے اقوال سے مشابہ ہیں ، اور صوفیاء کے ان اقوال کے باوجود انہیں مسلمان کہا جاتا ہے تو حضرت شاہ صاحبؒ نے جواب میں فرمایا:

ہم نے اولیاء اللہ کو ان کی طہارت، تقدس وتقوی کی بے شمار خبریں سن کر اور ان کے شواہد افعال واعمال اوراخلاق سے تائید پاکر ان کو ولی مقبول تسلیم کرلیا ہے ، یعنی ان شطحیات (مغالطہ میں ڈالنے والی باتوں) سے ان کی ولایت ثابت نہیں کرتے ، بلکہ ان کی ولایت خارجی قرائن اور نشانیوں سے پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے جو کہ ثبوت کا طریقہ ہے ، اس کے بعد ہم نے کسی کی ولایت تسلیم کی اورہم اس تسلیم میں صواب پر تھے ، تو اس کے بعد اگر (ان کا) کوئی کلمہ مغائر یا موہم (وہم میں ڈالنے والا) ہمارے سامنے آتا ہے تو ہم اس کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کی توجیہ کریں اور محمل نکالیں کہ اس بات کا ٹھکانہ کیا ہے ، لیکن کسی شخص (مرزا غلام احمد قادیانی) کی راست بازی ثابت ہونے سے پیشتر ہی اس کے شطحیات (مغالطہ میں ڈالنے والے کلمات) پیش کرکے اس کو مسلم الثبوت مقبولوں (اولیاء اللہ) پر قیاس کرنا عاقل کا کام نہیں ، نہ ان کی تاویل کی ضرورت ہے، حاصل یہ کہ کسی راست بازی اگر جداگانہ کسی طریقہ اور دلیل سے معلو م ہوچکی ہو تو(ان کی شطحیات پر) ہم تاویل وتوجیہ کے محتاج ہوں گے ، اور اگر زیر بحث صرف یہی مغالطہ آمیز ، موہم کلمات ہیں اوراس سے پیشتر کچھ سامان خیرکا ہے ہی نہیں تو ہم یہ کھوٹی پونجی اس کے منہ پر ماردیں گے ۔

صوفیاء کے شطحیات ، اور غیر تشریعی نبوت کا مطلب

۲-قادیانیوں کے وکیل کی طرف سے شیخ محی الدین ابن عربیؒ اور دیگر بزرگوں کے اقوال نقل کرکے یہ ثابت کیا گیا کہ ان کے نزدیک بھی نبوت مرتفع (ختم) ہونے سے یہ مراد ہے کہ شریعت والی نبوت مرتفع (ختم) ہوگئی ، نہ کہ مقام نبوت ، اور وہ حضور ﷺ کے قول ’’لا نبی بعدی‘‘ کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہوگا جو آپ کی شریعت کے خلاف ہو، بلکہ جب بھی ہوگا آپ کی شریعت کے ماتحت ہوگا۔

اس کے جواب میں ہماری طرف سے ان حضرات کے اقوال کی توجیہیں بیان کی گئیں اورمیں نے کہا کہ دین کے معاملے میں ان کے اقوال دوسروں پر کوئی حجت نہیں ہوسکتے ، کیونکہ دینی معاملات میں نبی کی وحی کے سوا اورکوئی بات قطعی نہیں ۔

۳-قادیانیوں کے وکیل کی طرف سے کہا گیا کہ’’ حضرت شیخ اکبر ابن عربی اور حضرت مجدد صاحب اور مولانا روم کی کتابوں میں ہے کہ وحی کی تمام اقسام جو قرآن میں مذکور ہیں خدا کے نیک بندوں (اولیاء اللہ) میں پائی جاتی ہیں ، اور وہ ’’وحی‘‘ جو نبی میں ہے وہ خاص ہے ، اور وہ شریعت والی وحی ہے جو انبیاء علیہم السلام کو ہوتی ہے ، اور اس امت کے بعض کامل افراد کو بھی ہوئی ہے ، اور جیسا کہ مولانا روم نے کہا ہے کہ ہوتی تو وہ وحی حق ہی ہے ، لیکن صوفیاء عام لوگوں سے پردہ کرنے کی خاطر اسے ’’وحی دل ‘‘ بھی کہہ دیتے ہیں اور جن طریقوں سے انبیاء علیہم السلام کو وحی یا الہام ہوتا ہے ان ہی طریق سے اولیاء اللہ کو ہوتا ہے ، اگرچہ اصطلاحا ان کا نام رکھنے میں فرق مراتب کے لیے فرق کیا ہے کہ انبیاء کی وحی کو’’ وحی‘‘، اور اولیاء کی وحی کو’’ الہام‘‘ کہتے ہیں اورولی پر بھی وحی فرشتہ کے واسطہ سے ہوتی ہے ‘‘۔

حضرت شاہ صاحب نے اس پر بحث کے دوران فرمایا کہ :
’’صوفیاء کے ہاں ایک باب ہے جس کو ’’شطحیات‘‘ کہتے ہیں ،اورخود ’’فتوحات‘‘ میں اس کا باب ہے ، اس کا حاصل یہ ہے کہ ان پر حالات گزرتے ہیں اور ان حالات میں کچھ کلمات ان کے منہ سے نکل جاتے ہیں جو ظاہری قواعد پر چسپاں نہیں ہوتے ، اور بسا اوقات غلط راستہ لینے (مغالطہ) کا سبب بن جاتے ہیں ، صوفیاء کی تصریح ہے کہ ان پر کوئی عمل پیرا نہ ہو ، اور تصریح کرتے ہیں کہ جن پر یہ احوال نہ گزرے ہوں یا جو ان کی اصطلاحات سے واقف نہ ہوں وہ ہماری کتابوں کا مطالعہ نہ کریں ، مجملا ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ کوئی شخص جو کسی حال کا مالک ہوتا ہے ، دوسرا خالی (نا واقف) آدمی ضرور اس سے الجھ جائے گا، لیکن دین میں کسی زیادتی ، کمی کا صوفیاء میں سے کوئی قائل نہیں ، اوراس کے مدعی کو بالاتفاق کافر کہتے ہیں ۔

وحی، کشف اور الہام میں فرق

دوسرے یہ کہ صوفیاء نے نبوۃ بمعنی لغوی لے کر مقسم (جس کے تحت چند قسمیں ہوں) بنایا ہے ، اوراس کی تفسیر خدا سے اطلاع پانا ، دوسرے کو اطلاع دینا کی ہے ، اور اس (نبوۃ بمعنی لغوی) کے تحت انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام دونوں (قِسموں) کو داخل کیا اور نبوت کی دو قسمیں کردیں : (۱) نبوت شرعی (۲) نبوت غیر شرعی ، (پہلی قسم) نبوت شرعی کے نیچے ’’وحی‘‘ اور ’’رسل‘‘ دونوں درج (شامل) کردیے ، تو اب ان کے لیے (دوسری قسم) نبوت غیر شرعی اولیاء کے کشف و الہام کے لیے نکھرگئی اور مخصوص ہوگئی ، پھر صوفیاء کی تصریح ہے کہ کشف کے ذریعہ مستحب کا درجہ بھی ثابت نہیں ہوسکتا ، صرف اسرار ومعارف اورمکاشف اس کا دائرہ ہیں ،اگر کوئی دعوی کرے کہ مجھ پر(کشف والہام کے ذریعہ) مستحب کا حکم آیا ہے ، پس اگر یہ (مستحب) پہلے سے شریعت محمدیہ ﷺ میں موجود ہے تو ثابت ہے ، اوراگر پہلے سے موجود نہیں ہے اور پھر وہ (صوفی کشف یا الہام کے ذریعہ) اضافہ کا دعوی کرتا ہے تو گردن زدنی (قابل رد) ہے ، اور تصریح فرماتے ہیں کہ ہمارا کشف دوسرے پر حجت نہیں ، ہمارا کشف ہمارے لیے ہے ۔

’’کشف ‘‘اسے کہتے ہیں کہ کوئی پیرایہ آنکھوں سے دکھلایا جس کی مراد کشف والا خود نکالے ،’’الہام ‘‘اسے کہتے ہیں کہ دل میں کوئی مضمون ڈال دیا اور سمجھا دیا جائے ،’’ وحی‘‘ یہ ہے کہ خدا اپنے ضابطہ کا پیغام کسی نبی یا رسول پر بھیجے ، پھر وحی قطعی ہے ، اور کشف والہام ظنی ہیں ، بنی آدم میں ’’وحی‘‘ پیغمبروں کے ساتھ مخصوص ہے ، غیروں کے لیے ’’کشف ‘‘یا ’’الہام‘‘ ہے یا ’’معنوی وحی‘‘ تو ہوسکتی ہے لیکن شرعی نہیں ۔

قرآنی آیات کے ظاہری اور باطنی معنی

۴-فرمایا ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کے اہم اور بنیادی مسائل میں سے ہے اور خاتم النبیین کے جو معنی قادیانی بیان کرتے ہیں آیات قرآنی واحادیث صحیحہ سے اس کی تائید نہیں ہوتی ، ختم نبوت کا عقیدہ قرآن مجید کی بہت سی آیات سے ، احادیث متواترالمعنی سے ،اور قطعی اجماع امت سے روز روشن کی طرح ثابت ہے ، اس کا منکر قطعا کافر ہے ، کوئی تاویل وتخصیص اس میں قبول نہیں کی گئی ، اس میں تاویل وتخصیص کرنے سے وہ شخص ضروریات دین میں تاویل کرنے کی وجہ سے ضروریات دین کا منکر سمجھا جائے گا، قادیانی وکلاء کی طرف سے اس ضمن میں یہ کہا گیا ہے کہ حدیث میں ہے کہ قرآن شریف کی ہر آیت کے ایک ظاہری معنی ہیں اور ایک باطنی ، اور تاویل کرنے والے کو کافر نہیں کہا گیا ۔

اس کے جواب میں حضرت شاہ صاحب قدس سرہ نے فرمایا کہ : یہ حدیث قوی نہیں ہے ، اور قوی نہ ہونے کے باوجود اس کی مراد ہمارے نزدیک صحیح ہے ، اس حدیث میں لفظ ’’بطن ‘‘ سے تو جو کچھ حضور ﷺ کے دل میں تھا وہ سب منکشف نہیں ہے ، مجملا ہم سمجھتے ہیں کہ ’’ظہرقرآن‘‘ کی مراد وہ ہے جو قواعد لغت اور عربیت سے ، اور دلائل شریعت سے علماء شریعت سمجھ لیں ، اور’’بطن قرآن‘‘سے یہ مراد ہے کہ حق تعالی اپنے ممتاز بندوں کو ان حقائق سے سرفراز کردے اور بہتوں سے وہ خفی رہ جائیں ، لیکن ایسا کوئی ’’بطن ‘‘جو ظاہر(شریعت) کے خلاف ہو اور قواعد شریعت اس کو رد کرتے ہوں مقبول نہ ہوگا اور رد کیا جائے گا، اور بعض اوقات باطنیت والحاد تک پہنچادے گا، حاصل یہ ہے کہ ہم مکلف فرماں بردار بندے اپنے مقدورکے موافق ’’ظاہر‘‘ کی خدمت کریں اور’’بطن‘‘ کو خدا کے سپرد کردیں ، رہا تاویل کا مسئلہ تو اخبار آحاد کی تاویل اگر کوئی شخص قواعد کے مطابق کرے تو اس کے قائل کو بدعتی نہیں کہیں گے ، البتہ اگر قواعد کی رو سے صحیح نہیں تو وہ خاطی ہے ۔

ماخوذ از: ملفوظات محدث کشمیریؒ ، احتساب قادیانیت

3,555 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!