جدید فقہی مسائل میں اجتماعی غور وفکر کی ضرورت واہمیت ، از مفتی ولی حسن ٹونکیؒ

ترتیب وتدوین: مفتی عمر انور بدخشانی

تعارف: مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ کا یہ مختصر مضمون بیمہ سے متعلق ایک سوالنامہ کے جواب کی تمہید ہے جو ان کے فتوی ’’بیمہ زندگی‘‘ سے لیا گیا ہے

دین اسلام :ربانی ہدایات اورآخری الہی پیغام

ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام نوع انسانی کے لیے وہ آخری پیغام حیات ہے جو قیامت تک آنے والی نسلوں کو زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی کے لیے ہر زمانہ اور ہر ماحول میں کافی وافی ہے،اب خدائی ہدایت اور تشریح الہی کا مستند ماخذ صرف اسلام ہے ، آئندہ کوئی مزید ہدایات اور تشریح آنے والی نہیں ہے ، جس کی طرف انسان کو رجوع کرنے کی ضرورت ہو۔

اسی ہدایات ربانی میں ہماری مادی ، روحانی ، شخصی ، اجتماعی ، اقتصادی ، معاشی ،سیاسی غرض ہر ضرورت کا سامان موجود ہے ۔

قرآن حکیم نے اس ہدایت ربانی کے اصول وکلیات کی طرف رہنمائی کی ،اور جناب رسول اللہ ﷺ نے اپنے قول وعمل اور تقریر(بیان سکوتی) سے ان اصول وکلیات کی تفصیلات اور جزئیات بیان فرمائیں ، پھر چونکہ یہ آخری ہدایت ہے ،اس لیے امت محمدیہ کو اللہ تعالی نے اجتہاد کے شرف سے نوازا، ائمہ مجتہدین نے اپنی مقدور بھر کوششیں اورعمریں قرآن کریم وحدیث نبوی کے سمجھنے اور ان ہر دو ماخذوں سے احکام اور ان کی علل وغایات استنباط کرنے میں اور غیر منصوص مسائل کے احکام ان سے اخذ کرنے میں صرف کیں ، بالآخر ان برگزیدہ نفوس کی سعی وکوشش سے ایک عظیم ذخیر ہ احکام وقوانین ظہور پذیر ہوگیا جس کو ’’فقہ اسلامی‘‘ کے نام سے یاد کیاجاتا ہے ۔

فقہ اسلامی : زمانہ کی تمام ضروریات کا حل

فقہ اسلامی میں ہمارے اس زمانہ کی بیشتر ضروریات کا حل موجود ہے ،لیکن جدید تمدن اور صنعتی انقلاب نے اس زمانہ میں نت نئے مسائل پیدا کردیے ہیں ، معاملات، معاشیات اور اقتصادیات کے سلسلہ میں سینکڑوں ایسے مسائل پیدا ہوگئے ہیں جو حل طلب ہیں اور علماء امت کو دعوت فکر دے رہے ہیں کہ وہ فقہ اسلامی کی روشنی میں ان کا حل پیش کریں ، اصل میں تو یہ کام اسلامی حکومتوں کا تھا کہ وہ اپنے وسیع تر ذرائع و وسائل استعمال کرکے عالم اسلام کے منتخب اور مستند علماء کو جمع کرتیں اوران کے ساتھ نئے معاملات ومسائل کے جاننے والے ماہرین موجود ہوتے ، پھر یہ سب حضرات قرآن حکیم ، حدیث نبوی اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ان جدید مسائل کے صحیح حل اور جوابات دیتے ، اسی طرح منصوص احکام کی علتوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر ان تمام جدید معاملات میں ان کو جاری کرتے جن میں وہ علتیں فی الواقع پائی جاتی ہیں ۔

دین اسلام میں تجدید والحاد کی پیوند کاری کی کوشش

لیکن تاریخ کا یہ بھی ایک عجیب المیہ ہے کہ موجودہ مسلم حکومتوں پر ایسے افراد مسلط ہیں کہ جو اپنے وسائل وذرائع کو اسلام کے احیاء اور اس کی نشاۃ ثانیہ پر صرف کرنے کے بجائے اسلام کی ’’تجدید‘‘ پر خر چ کررہے ہیں ، ان کی تمام تر کوششوںکا حاصل یہی ہے کہ عام مسلمانوں کو اسلامی کی حقیقی تعلیمات واحکام سے برگشتہ کرکے الحاد اور ذہنی آوارگی کے حوالہ کردیا جائے ، اگر کسی حکومت کے زیر انصرام کوئی آدھ ادارہ ’’تحقیقات اسلامی‘‘ کے نام سے بھی نظر آتا ہے تو وہ بھی صرف اس غرض کے لیے ہے کہ ’’جدیداسلام‘‘ کی داغ بیل ڈال کر صحیح اسلام کے نقوش مسلمانوں کے دلوں سے مٹادیے جائیں ، اس قسم کے اداروں کا مافی الضمیر سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کو غذا استشراق کے طعام خانوں سے ملتی ہے ،جن کا مقصد وحیدیہی ہے کہ جو اسلام تلوار کے زور سے فتح نہیں ہوسکا اس کو تشکیک کی راہوں پر ڈال کر ختم کردیا ہے ۔

نئے پیش آنے والے مسائل اور علماء امت

دوسرےدرجہ میں علماء امت کا فریضہ تھا کہ وہ ان پیش آنے والے مسائل کا حل پیش کرتے، اجتماعی طورپر نئے مسائل میں غور وفکر کرنا اسلام کی منشاء کے عین مطابق ہے اور سلف میں اس کی متعدد نظیریں موجود ہیں، امام ابوبکر رازی الجصاص اپنی بے نظیر کتاب ’’احکام القرآن‘‘ میں آیت کریمہ : لعلمہ الذبن یستنبطونہ منھم اورانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم کے تحت احکام شرعیہ میں غور وفکر کرنے کی اس طرح دیتےہیں:

فحثنا علی التفکر فیہ و حرضنا علی الاستنباط والتدبر وامرنا بالاعتبار لنتسابق إلی إدراک أحکامہ و ننال درجۃ المستنبطین والعلماء الناظرین (ص ۲۷۷،ج۲)۔

ترجمہ: اللہ تعالی نے ہم کو غور وفکر کرنے پر آمادہ کیا ہے اور احکام معلوم کرنے اور ان میں غور وخوض کرنے کی دعوت دی ہے اور قیاس سے کام لینے کا حکم دیا ہے تاکہ ہم اس کے احکام معلوم کرنے کی طرف پیش قدمی کریں اوراحکام معلوم کرنے والے اور غور وفکر کرنے والے علماء میں شامل ہوجائیں ۔

جدید مسائل میں اجتماعی غور وفکر

فقیہ ملت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ غالبا ائمہ مجتہدین میں سب سے پہلے امام ہیں جنہوں نے ’’مسائل وواقعات‘‘ میں غور فکر کرنے کے اجتماعی طریقے کو فروغ دیا ، امام ممدوح نے اپنے شاگردوں میں سے چند نامور شخص انتخاب کیے جن میں سے اکثر خاص خاص فنون میں جو تکمیل فقہ کے لیے ضروری تھے استاد زمانہ تسلیم کیے جاتے تھے ، مثلا یحیی بن ابی زائدہ ، حفص بن غیاث ، قاضی ابو یوسف ، دود الطائی حبان مندل ، حدیث وآثار میں نہایت کمال رکھتے تھے ، امام زفر قوت استنباط واستحسان میں مشہور تھے ، قاسم بن معن اور امام محمد کو ادب اور عربیت میں کمال حاصل تھا ، امام اعظمؒ نے ان حضرات کی شرکت میں ایک مجلس مرتب کی اور مسائل حاضرہ پر غور وفکر شروع کیا ، امام طحاویؒ نے بسند متصل اسد بن فرات سے روایت کیا ہے کہ ابو حنیفہ ؒکے تلامذہ جنہوں نے فقہ کی تدوین کی اور اس عظیم کام میں امام صاحبؒ کے شریک رہے چالیس تھے ، ۵۰۰ھ میں جب بیع بالوفا (۱) کا بخارا اوراس کے اطراف میں رواج شروع ہو اتو چونکہ یہ معاملہ کی ایک نئی صورت تھی ، بیع صحیح ، بیع فاسد اوررہن کا مجموعہ نظر آتی تھی اس لیے زمانہ کے علماء کا س کے جواز وعدم جواز میں اختلاف ہوا ، بعض نے اجازت دی ، بعض نے ممانعت کی ، امام ابوالحسن ماتریدیؒ کو اس زمانہ کے ایک مشہور عالم نے مشورہ دیا کہ اس مسئلہ میں اختلاف رونما ہوگیا ہے ، آپ اس مسئلہ کو رہن سمجھتے ہیں ، میرا بھی خیال یہی ہے ،مگرلوگ پریشان ہیں ، آپ علماء امت کو جمع کریں اور اس مسئلہ میں غور وفکر کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچ کر عوام کے سامنے ایک ’’متفقہ فتوی‘‘ فتوی پیش کریں تاکہ ان کا اضطراب دتردد دور ہو ، اضی سماوہ نے جامع الفصولین میں نقل کیا ہے :

قلت للإمام أبی الحسن الماتریدی قد فشی ھذا البیع بین الناس وفیہ مفسدۃ عظیمۃ وفتواک أنہ رھن ، وأنا أیضا علی ذالک ، فالصواب أن تجمع الأئمۃ وتتفق علی ھذا وتظھرہ بین الناس

ترجمہ : میں نے امام ابو الحسن ماتریدی سے عرض کیا بیع بالوفا کا رواج عام ہوگیا ہے ، اوراس میں بڑی خرابی ہے ، آپ کا فتوی یہ ہے کہ یہ رہن کے حکم میں ہے ، میرابھی یہی خیال ہے ، لہذا بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ علماء کبار کو جمع کریں اور ان کے اتفاق رائے سے متفقہ فیصلہ لوگوں کے سامنے ظاہر فرمادیں ۔

قابل مبارک باد ہیں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے منتظمین کہ انہوں نے اس ملی ضرورت کو محسوس کیا اور ایک مجلس بنام’’ مجلس تحقیقات شرعیہ‘‘ تشکیل کی جس کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسائل جدیدہ میں علماء غور وفکر کریں اور متفقہ فیصلہ عوام کے سامنے پیش کریں ، چنانچہ اس سلسلہ کی پہلی کڑی ’’بیمہ‘‘ کے بارے میں ایک تفصیلی سوالنامہ ہے جس کو بڑی قابلیت سے مرتب کیا گیا ہے ۔

حاشیہ: (۱) بیع بالوفاکی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلا ایک شخص دوسرے شخص سے کہے کہ میں نے تم کو یہ مکان فروخت کردیا ، اور پھر یہ شرط طے کرلے اور اس کی تحریر لکھا لے کہ جب میں تم کو قیمت ادا کردوں تو تم کو مکان واپس کرنا ہوگا، اس بیع کے بارے میں فقہا کے درمیان شدید اختلاف ہے ، بعض رہن کہتے ہیں اور بعض بیع، پھر یہ بیع صحیح ہے یا فاسد؟فتوی یہی ہے کہ بیع ہے ،کیونکہ بیع وشراء کے الفاظ پائے جاتے ہیں ، اگر بیع کے اندر واپسی کی شرط کی گئی تو بیع فاسد ہے ، اور اگر ایجاب وقبول کے بعد شرط واپس کی گئی تو بیع صحیح ہے ، اور یہ شرط ایک وعدہ ہے جس کی وجہ سے بیع میں کوئی خرابی نہیں آتی۔

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

3,248 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!