قبر میں ثواب یا عذاب کس طرح دیا جائے گا؟ قبر کے عذاب و ثواب پر شبہات اور ان کے جواب، از مولانا اشرف علی تھانویؒ

ترتیب وتدوین: مفتی عمر انور بدخشانی

سوال

حضرت ابن قیم رحمہ اللہ کے سامنے قبر میں عذاب اور ثواب کے متعلق مندرجہ ذیل اعتراضات پیش کیے گئے کہ قبر میں عذاب اور ثواب کا انکار کرنے والے ملحداور زندیق (بےدین)کو ہم کیا جواب دیں جو کہتے ہیں کہ قبر دوزخ کے گڑھوں میں سے گڑھا ،یا جنت کے باغوں میں سے باغ کیسے ہوسکتا ہے ؟(قبر کا نیک کے لیے کشادہ اورگناہ گار کے لیے تنگ ہونا بیان کیا گیا ہےتو)قبر کیونکر کشادہ اور تنگ ہوسکتی ہے جبکہ میت نہ اس میں بیٹھ سکتی ہے اور نہ کھڑی ہوسکتی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ہم قبر کھودتے ہیں تو اس میں نہ تو وہ اندھے اورگونگے فرشتے دیکھتے ہیں جو مردوں کو لوہے کے گرزاور ہتھوڑوں سے مارتے ہوں ، اور نہ قبر میں سانپ اور اژدھے دیکھتے ہیں ،اور نہ ہم بھڑکتی ہوئی آگ محسوس کرتے ہیں ، اوراگر میت کے احوال میں سے کوئی حال قبر کھود کر معلوم کریں تو ہم میت کو بدستوراسی حالت پر پاتے ہیں اور اگر ہم میت کی آنکھ پر پارہ اوراس کے سینے پر رائی کا دانہ رکھیں تو ہم اسے بھی بدستور اسی طرح پاتے ہیں،اورپھر مردہ پر تاحد نگاہ قبر کس طرح کشادہ یا تنگ ہوسکتی ہے حالانکہ ہم قبر کو اسی طرح دیکھتے ہیں ، اورقبر کی کشادگی کو بھی اسی حد پر پاتے ہیں جس حد (مقدار)پر ہم نے قبر کو کھودا تھا،نہ زیادہ ہوتی ہے اورنہ تنگ ہوتی ہے ، اورپھر قبر کی لحد میں تنگی کس طرح ممکن ہوسکتی ہے ، اور فرشتے اور وہ صورت جو مردہ کے ساتھ انسیت رکھے یا مردہ کو ڈارئیں وہ قبر میں کس طرح سما سکتے ہیں (جبکہ لحد چھوٹی سی ہے)،وہ کہتے ہیں کہ ہر وہ بات جو عقل ومشاہدہ کے خلاف ہو وہ کہنے والے کی یقینا غلطی ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ مصلوب یعنی جسے پھانسی دی گئی ہو ہم اسے ایک طویل مدت تک لکڑی (پھانسی گھاٹ) پر لٹکتا ہوا دیکھتے ہیں وہاں پر نہ اس سے منکر ونکیر کا سوال ہوتا ہے ، نہ وہ حرکت کرتا ہے ، اور نہ اس کے جسم پردہکتی ہوئی آگ دیکھی جاتی ہے ، اور پھر جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو اور پرندوں نے نوچ لیا ہو اور اس کے ٹکڑے درندوں اورسانپوں کے پیٹوں اور پرندوں کے پوٹوں اور ہوا (فضا) کے طبقوں میں(اوپر نیچے) الگ الگ ہوجاتے ہیںتو اس کے ٹکڑوں سےالگ الگ ہونے کے باوجود کس طرح سوال وجواب ہونا ممکن ہوسکتا ہے ، اور جس کے جسم کے ٹکڑوں کی یہ حالت ہوجائے اس کے ساتھ دو فرشتوں یعنی منکر ونکیر کا سوال وجواب کرنا کس طرح ممکن ہے ؟اورایسے شخص پر اس کی قبر جنت کے باغوں میں سے باغ ، یا دوزخ کے گڑھوں میں سے گڑھا ہونا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے ، اور کس طرح قبر اس پر تنگ ہوسکتی ہے ، یہاں تک کہ مردہ کی پسلیاں قبر کے ملنے سے ادھر کی ادھر ہوجائیں ؟۔

جواب

واضح ہو کہ ہم پہلے چند باتیں تمہید کے طور پر ذکر کرتے ہیں جن سے جوابات واضح ہوجائیں گے :

۱-انبیاء کرام نے ایسی کوئی بات نہیں بتائی جسے عقل محال سمجھے اوروہ اس کے محال ہونے پر قطعی حکم لگاسکیں، بلکہ انبیاء کی طرف سے خبر دینا دو قسم کی ہوتی ہے :
(۱) ایک تو وہ جس پر عقل اور فطرت گواہی دے ۔
(۲) دوسری وہ جن کو صرف (نری)عقل دریافت نہ کرسکیں، مثلا غیب کی باتیں جو انبیاء نے عالم برزخ ،قیامت اور عذاب کے متعلق تفصیل سے بیان فرمائی ہیں (جو اور لوگوں کو معلوم نہیں ہوسکتی) اور باقی ہر حال میں انبیاء کی خبریں عقل سلیم کی رو سے محال نہیں ہوتی (اوراگر وہ بظاہر عقلی طور پر محال معلوم ہوں ،لیکن صحیح سند سے اس کی نسبت (آیت ، یا صحیح حدیث ہونا) بھی ثابت ہو تو اس موقع پر دوسرے شرعی قواعد کے مطابق تاویل واجب ہوگی) پس قبر کے واقعات دوسری قسم کی خبر ہے جو عقلی طور پر تو محال نہیں ،مگر وہاں تک عقل کی خود رسائی نہیں ، وہ وحی کی محتاج ہے ، باقی جو شخص اسے محال سمجھتا ہے وہ محض اس شخص کا ایک خیال اور وہم ہے جسے وہ اپنے زعم میں معقول سمجھ رہا ہے (حالانکہ وہ حقیقت میں اس کے زعم یا فہم کے خلاف ہے اوراس کی عقل وعلم کی حد اس سے پہلے ختم ہوچکی ہے )۔

۲-دوسری بات یہ ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی مراد کو افراط وتفریط (زیادتی اورکمی) کے بغیر سمجھا جائے ، اورآپ ﷺ کے کلام سے وہ مراد نہ سمجھی جائے جس کا آپ نے ارادہ نہ کیا ہو ، جو شخص آپ ﷺ کی مراد ومطلوب سے ہٹ کر دوسری طرف پھرگیا اور اس کے قرار واقعی معنی سمجھنے میں غفلت اور کوتاہی کی تو وہ سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا، اورخدا اوررسول کے کلام میں لوگوں کی غلط فہمیاں واقع ہونے سے اسلام میں بہت سے گمراہ اور بدعتی فرقے پیدا ہوگئے ہیں ، مثلا قدریہ (جوانسان کو ہر کام کرنے پر خود بخود قدرت والا مانتے ہیں) ،ملحد (بے دین ) ،خارجی(حضرت علیؓ کوبرا کہنے والے ) ، معتزلہ (عقل پرست)، جہمیہ(خدا کا جسم وغیرہ ماننے والے)،رافضی(شیعہ) ، یہاں تک کہ دین اسلام اکثر ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ میں ہوگیا ہے جو غلط فہمی سے کچھ کا کچھ سمجھ رہے ہیں ، اور جو کچھ خدا تعالی اور رسول اللہ ﷺ کی مراد تھی ،اورجو کچھ صحابہ کرامؓ نے سمجھا تھا وہ اکثر لوگوں نے چھوڑدیا ہے ، اس کی طرف بہت کم توجہ کرتے ہیں ۔

۳-تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کے لیے تین مقام ٹھہرائے ہیں:(۱) دنیا(۲) برزخ (۳) آخرت،اور ہر ایک مقام کے لیے علیحدہ علیحدہ کچھ احکام ٹھہرائے ہیں جواسی کے ساتھ مخصوص ہیں ، اورانسان کو بدن (جسم) اور نفس (روح) سے مرکب کیا ،اور دنیا کے احکام بدن (جسم) پر ٹھہرائے ، اورروح کو بدن کے تابع کیا ،اس لیے شرعی احکام ان حرکات سے مرکب کیے جو زبان اورجسم سے ظاہر ہوتے ہیں ، اگرچہ دل میں کچھ اورباتیں چھپی ہوئی ہیں ، اور خدا تعالی نے برزخ کے احکام روح پر ٹھہرائے اورجسموں کو روح کے تابع کیا،سوجیسا کہ روح دنیا کے احکام میں بدن کے تابع ہوکر بدن کے درد ناک ہونے سے درد ناک ہوتی ہے ،اوربدن کے لذت پانے سے لذت پاتی ہے ، قبر یعنی عالم برزخ میں جسم دکھ اور سکھ میں روح کے تابع ہوجاتا ہے ، اور روح دکھ اور سکھ کو سہتی ہے ، تو بدن بھی اس دکھ سکھ کے تابع ہوجاتا ہے ،اور اس جگہ (دنیا میں) بدن ظاہر ہے اور روح پوشیدہ ، اور عالم قبر یعنی عالم برزخ میں روح غالب و ظاہر ہوگی اور بدن پوشیدہ ،اور برزخ کے احکام روح پر جاری ہوں گے ، یعنی دکھ سکھ روح کو جب پہنچے گا تو وہ حال اس صاحبِ روح کے جسم میں بھی سرایت کرے گا، جیسا کہ دنیا میں جسم کو کچھ راحت یا دکھ پہنچے تو اس کا اثر روح میں بھی سرایت کرجاتا ہے (جب یہ ہے ) تو ان واقعات کا ظاہری جسم پر ظاہر ہونا ضروری نہیں ، وہ سب احکام روحانی ہیں جن کو روح معلوم کرتی ہے ، اور وہ سب واقعات بھی اس عالم برزخ کے ہیں ، پس ان کا محسوس ہونا بھی ضروری نہیں ، بلکہ عادتا ممکن بھی نہیں (الا ماشاء اللہ) خدا تعالی نے اپنی رحمت ولطف واحسان سے اس بات کا نمونہ دنیا میں بھی سونے والے کے حال سے ظاہر فرمایا ہے ، کیونکہ خواب(نیند) میں جو دکھ اور سکھ سونے والے کو پہنچتا ہے وہ اس کی روح پر جاری ہوتا ہے ، اور اس میں بدن روح کے تابع ہوتا ہے ، ایسا ہی عالم برزخ میں بھی جسم اور روح کے لیے دکھ اور سکھ کے طریقے جاری ہیں ، بلکہ اس خواب (نیند)سے بھی بڑھ کرہوگا ، کیونکہ اس عالم برزخ میں روح کا جسم سے الگ ہونا اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا نیند میں تھا، اور روح کا تعلق بدن سے اگرچہ عام حالات میں ظاہر نہیں ، لیکن ایک غیر معلوم درجہ پر یہ بھی رہتا ہے ، بدن سے اس کا بالکل انقطاع اور جدائی نہیں ہوتی ( جیسے سونے میں روح کا تعلق جسم سے بالکل جدا ہوجائے یہ نہیں ہوتا، بلکہ پاؤں کو چھونے سے بھی احساس ہوتا ہے )۔

اب رہا تیسرا مقام یعنی آخرت ، سو جب جسم زندہ کیے جائیں گے اور لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو اس دن سکھ اور دکھ کا حکم روح اور جسم دونوں پر غالب اور ظاہر ہوگا، مذکورہ بالا مضامین سے پتہ چل گیا ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ نے قبر کے عذاب ، دکھ سکھ ، ثواب اور عذاب ، تنگی اور کشادگی یا دوزخ کا گڑھا ہونے یا جنت کا باغ ہونے کی جو کچھ خبر دی ہے وہ عقل کے مطابق ہے ، عقل کے خلاف نہیں (روح پر ان کا بڑا اثر ہوتا ہے ، اور اس کے واسطہ سے جسم پر بھی ،اگرچہ دوسروں کو جسم پر ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے محسوس نہ ہو، جیسے نیند میں دکھ ،سکھ پہلے روح پھر جسم کو ہوگا ، مگر دوسروں کو محسوس نہیں ہوتا، فرق یا تو عارضی اور مستقل ہونے کے اعتبار سے ہے یا کمی اور بیشی کے اعتبار سے )اوراس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اگر کسی کو یہ بات سمجھنی مشکل ہو تو اس کی غلط فہمی یا کم علمی اس کا سبب ہے (روح کوجسم سے آلودہ ہونے کی وجہ سے کامل صفائی حاصل نہیں ، اس لیے ایسی باتوں کی طرف نظر نہیں جاسکتی ، اگر آلودگی کم کرلی جائے تو کامل صفائی ہوکر علم کشفی بن جاتا ہے اور یہ چیزیں آنکھوں سے نظر آنے لگتی ہیں)۔

انسان کو قبر میں عذاب اور ثواب ملنے کا ایک نمونہ

اس سے عجیب تر بات یہ ہے کہ دو شخص ایک ہی بستر پر سوئے ہوئے ہوں ،اورایک کی روح کو سکھ چین ہوگا، اور جب جاگے تو سکھ ،راحت اور آرام کے آثار اس کے بدن پر ظاہر ہوں گے ، اوردوسرے کی روح کو دکھ ہوتا ہے ، جب جاگتا ہے تو دکھ اور عذاب کا اثر اس کے بدن پر ہوتا ہے ،ان دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے کے حال کی اطلاع نہیں ہوتی ، اسی پر عالم برزخ کے عذاب وثواب کا استدلال کرلو (کہ جیسے یہاں روح پر سر درد، غم ، پھر جسم پر اثر کا ایک دوسرے کو احساس نہیں جب تک وہ خود نہ بتادے ، ایسے ہی وہاں کا روح اور اس کے واسطہ سے جسم کا اثر دوسروں کو محسوس نہیں ہوتا)اور دلائل سے یہی ثابت ہے کہ اسلامی اصول کی رو سے جسم کی رفاقت روح کے ساتھ دائمی ہے ، اگرچہ موت کے بعد یہ فانی جسم روح سے الگ ہوجاتا ہے ، مگر عالم برزخ میں مستعار طور پر روح کو کسی قدر اپنے اعمال کا مزہ چکھنے کے لیے ایک جسم ملتا ہے ، اور وہ جسم اس (دنیاوی) جسم کی قسم سے نہیں ہوتا،بلکہ ایک نور سے ، باریک تاریکی سے جیسی اعمال کی صورت ہوتو وہ جسم تیار ہوتا ہے (کہ اگر عمل اچھے ہوں تو تاریکی بہت کم کم ، اور اگرعمل برے ہوں تو زیادہ اور دھواں سے ہوجائےگا) اگر اس عالم برزخ میں انسان کی عملی حالتیں جسم کا کام دیتی ہیں ، اوراگرچہ یہ راز ایک باریک رازہے مگر غیر معقول نہیں ہے ، کامل انسان اسی (دنیاوی)زندگی میں اپنے کثیف ظاہری جسم کے علاوہ ایک نورانی وجودپاتا ہے ،اورعالم مکاشفاتگ میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں ، جن کو عالم مکاشفات میں سے کچھ حصہ ملا ہے وہ اس قسم کے جسم کو جوکہ اعمال سے تیار ہوتا ہے تعجب اور استبعاد(بعید سمجھنے )کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ، غرض یہ جسم جو اعمال کی کیفیت سے بنتا ہے یہی عالم برزخ میں نیک وبد کی جزا کا محل ہوجاتا ہے ، اصحاب مکاشفہ کو عین بیداری میں مردوں سے ملاقات ہوتی ہے ، اورہ وہ فاسقوں اور گمراہی اختیار کرنے والوں کا جسم ایسا سیاہ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ دھوئیں سے بنایاگیا ہے ، بہرحال مرنے کے بعد ہر ایک کو ایک نیا جسم ملتا ہے ، خواہ نورانی ہو ، خواہ ظلمانی ، لیکن خدا تعالی نے آخرت کے امور کو عمل کے مکلفوں کو عقل کے ذریعہ دریافت یا معلوم کرنے سے پردہ اور پوشیدہ رکھا ہے ، اور یہ بات خدا تعالی کی حکمت کے کامل ہونے پر دلالت کرتی ہے تاکہ مؤمن غیب پر ایمان لانے کی وجہ سے منکروں سے ممتاز ہوجائے۔

چنانچہ فرشتے مرنے کے قریب ہوجانے والے آدمی پر اترتے ہیں ،اور اس کے نزدیک آکر بیٹھتے ہیں اور وہ آدمی ان فرشتوں کو دیکھتا ہے ، اور اس کے پاس وہ باتیں کرتے ہیں اورفرشتوں کے پاس اس کے لیےجنت میں سے کفن اور خوشبو یا دوزخ سے بدبو ہوتی ہے ، اور وہ حاضرین کے سلام اور دعا پر آمین کہتے ہیں ، اور بسا اوقات قریب الموت آدمی کو سلام کرتے ہیں ، اور وہ ان کے سلام کا جواب کبھی لفظ سے ،کبھی اشارہ سے اورکبھی دل سے دیتا ہے ، اور بسا اوقات بعض مرنے کے قریب ہوجانے والے آدمی ’’خوش آمدید‘‘ کہتے ہیں ،اور مردہ کے سوا حاضرین میں سے ان فرشتوں کو بھی کوئی نہیں دیکھتا، اس بارے میں بے شمار احادیث ہیں ۔

آخرت کے بارہ میں یہ پہلا معاملہ ہے جو اس دنیا میں ہمارے درمیان واقع ہوتا ہے ، اوراس دنیا میں واقع ہونے کے باوجود ہمیں دکھلائی نہیں دیتا، حالانکہ یہ سب کچھ اسی دنیا میں واقع ہوتا ہے ، پھر فرشتہ روح کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاکر اس کو قبض کرلیتا ہے ، اور روح سے بات چیت کرتا ہے ، اور حاضرین نہ فرشتے کو دیکھتے ہیں ، نہ اس کی آواز سنتے ہیں ، پھر روح نکلتی ہے ،اوراس کا نور سورج کی شعاعوں کی طرح اور اس کی خوشبو مشک سے زیادہ ہوتی ہے ، اور حاضرین ان سب میں کسی کوبھی نہیں دیکھتے ، اورنہ خوشبو کو سونگھ سکتے ہیں ، پھر وہ فرشتہ روح کو لے کر ملائکہ کے گروہ میں جاملتا ہے ، اور حاضرین یعنی لوگ اس کو نہیں دیکھ سکتے ، پھر روح ایک خاص اعتبار سے (کہ اسے جسم کے ساتھ پہلے سے زیادہ تعلق ہوجاتاہے)واپس آکر مردہ کا نہلانا اور اس کا اٹھانا دیکھتی ہے اورکہتی ہے مجھے آگے لے چلو ، مجھے آگے لے چلو ، یا کہتی ہے مجھے کہاں لیے جاتے ہو ، مجھے کہاں لیے جاتے ہواورلوگ اس کی کوئی بات بھی نہیں سن سکتے ۔

قبر میں مردہ کے پاس فرشتہ پہنچنے کی صورت

اسی طرح جب مردہ کو لحد میں رکھا جاتا ہے اوراس کی قبر پر مٹی ڈالی جاتی ہے تو مٹی فرشتوں کو مردہ کے پاس جانے سے نہیں روک سکتی ، بلکہ اگر پتھر بھی کندہ کیا جائے اور مردہ کو اس میں رکھ کر اس پتھر کو قلعی (چونہ ،سیمنٹ وغیرہ) سے بند کردیا جائے تو بھی مردہ کے پاس فرشتے کے پہنچنے سے یہ باتیں رکاوٹ نہیں بن سکتیں ، کیونکہ موٹے غلیظ جسم کی چیزیں جیسے مٹی پتھر وغیرہ لطیف روحوں کو ان کے اندر ہوکر ادھر اسے ادھر جانے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے ،جیسے کہ سخت گرمی ،سردی ان میں ادھر سے ادھر کو نکل جاتی ہے ،بلکہ ان کثیف غلیظ جسموں سے تو جن بھی گذر جاتے ہیں ، خداتعالی نے پتھر اور مٹی کو فرشتوں کے لیے ایسا کیا ہے جیسے فضا پرندوں کےلیے،جس میں وہ پرندے اڑتے پھرتے ہیں ، اور قبر کی کشادگی اصل روح کے لیے ہوتی ہے ، اور بدن کو روح کے تابع ہوکر کشادگی مل جاتی ہے ، ورنہ جسم تو بہت تھوڑی جگہ میں سمایا ہوتا ہے۔

قبر کا مردہ کے لیے دبنا اور گھٹنا

اسی طرح قبر کا مردہ کےلیے گھٹنا حق ہے ، مردہ کی پسلیاں ادھر کی ادھر چلی جاتی ہیں ، اس میں کچھ شک نہیں ، اور اس بات کو عقل رد نہیں کرسکتی ، باقی یہ بات کہ اگر کوئی شخص مردہ کی قبر کھود کر اس دیکھے تو اس کی پسلیاں بدستور پہلی حالت میں ہوتی ہیں ، ادھر کی ادھر دکھائیں نہیں دیتیں ، سو خدا قادر مطلق کو کوئی بات اس سے روک نہیں سکتی کہ یہ سب روحانی طور پر واقع ہوتا ہو اور حواس سے محسوس نہ ہو۔

یہ مضمون انگریزی میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

4,565 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!