کیا جانور ذبح کرنا ظلم یا رحم کے خلاف ہے؟ از مولانا اشرف علی تھانویؒ
ترتیب وتدوین: مفتی عمر انور بدخشانی
قربانی کا مطلب اور اس کی حقیقت
: قربانی اصل ’’قربان‘‘ سے ہے، چناںچہ ’’صراح‘‘ میں لکھا ہے
قربان بالضم، وھو ما یتقرب بہ إلی اللّٰہ تعالی، یقال: قربت اللّٰہ
یعنی ’’قربان ‘‘اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ انسان خدا تعالیٰ کا قرب ڈھونڈتا ہے۔چنانچہ کہتے ہیں: قربت اللّٰہ قربانا (میں نے اللہ کے لیے قربانی دی) چونکہ انسان قربانی سے اللہ کے قرب کا طالب ہوتا ہے اس لیے اس فعل کا نام بھی ’’قربانی ‘‘ہوا۔
۱-دراصل قربانی کیا ہے ؟ ایک تصویری زبان میں تعلیم ہے جسے جاہل اور عالم سب پڑھ سکتے ہیں۔ وہ تعلیم یہ ہے کہ خدا کسی کے خون اور گوشت کا بھوکا نہیں وہ تو وھو یطعم ولا یطعم ہے(وہ اللہ دوسروں کو کھلاتا ہے اوراسے کوئی نہیں کھلاتا)، (اللہ) ایسا پاک اور عظیم الشان نہ تو کھالوں کامحتاج ہے، نہ گوشت کے چڑھاوے کا، بلکہ وہ تمھیں سکھانا چاہتا ہے کہ تم بھی خدا کے حضور میں اسی طرح قربان ہوجاؤ اور یہ بھی تمہارا ہی قربان ہونا ہے کہ اپنے بدلے اپنا قیمتی پیارا جانور قربان کردو۔
کیا جانور ذبح کرنا عقل اور حکمت کے خلاف ہے؟
۲- جو لوگ قربانی کوخلافِ عقل کہتے ہیں وہ سن لیں کہ ساری دنیا میں قربانی کا رواج ہے اور قوموں کی تاریخ پر نظر کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادنیٰ چیز اعلیٰ کے بدلہ میں قربان کی جاتی ہے، یہ سلسلہ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیزوں میں پایا جاتا ہے، ہم بچے تھے تو یہ بات سنی تھی کہ کسی کو زہریلا سانپ کاٹے تو وہ انگلی کاٹ دی جائے، تاکہ (بقیہ) سارا جسم زہریلے اثر سے محفوظ رہے۔ گویا انگلی تمام جسم کے لیے قربان کی گئی ہے۔
۳-اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا کوئی دوست آجائے جو کچھ ہمارے پاس ہو اسی کی خوشی کے لیے قربان کرنا پڑتا ہے، گھی، آٹا، گوشت وغیرہ قیمتی اشیا اس پیارے کے سامنے کوئی ہستی (حیثیت) نہیں رکھتیں (قربان کرنا بے جان کا یا جاندار کا ، آخر سب ہی قربانی ہے اگرچہ چھوٹی بڑی ہے یہاں تک کہ انسان کی جان ، عزت اور مال کا بھی)۔
۴-اس سے زیادہ عزیز ہو تو مرغے مرغیاں حتیٰ کہ بھیڑیں اور بکرے قربان کیے جاتے ہیں،بلکہ اس سے بھی بڑھ کر گائے اور اونٹ بھی عزیز مہمان کے لیے قربان کردیے جاتے ہیں۔
۵-طب میں دیکھا گیا ہے کہ وہ قومیں جو اس کو جائز نہیں سمجھتیں کہ کوئی جاندار قتل ہو وہ بھی اپنے زخموںکے لیے سینکڑوں کیڑوں کو مار کر اپنی جان پر قربان کردیتے ہیں۔ اس سے اوپر چلو تو ہم دیکھتے ہیں کہ ادنیٰ لوگوں کو اعلیٰ کے لیے قربان کیا جاتا ہے، مثلاً بھنگی ہیں، اگرچہ تمام قوموں کی عید ہی کا دن ہو مگر ان بے چاروں کے سپرد وہی کام ہوتا ہے، بلکہ ایسے ایام میں ان کو زیادہ تاکید ہوتی ہے کہ لوگوں کی آسایش و آرام کی خاطر کوئی گندگی کسی گزر گاہ میں نہ رہنے دیں، گویا ادنیٰ کی خوشی اعلیٰ کی خوشی پر قربان ہوئی۔
۶- بعض ہندو گنور کھشا (گائے کی حفاظت) بڑے زور سے کرتے ہیں، لداخ کے ملک میں تو دودھ تک نہیں پیتے، کیونکہ یہ بچھڑوں کا حق ہے مگر یہاں کے ہندو دھوکا دے کر اس کا دودھ دوہ لیتے ہیں ،اور پھر اس سے اور اس کی اولاد سے سخت کام لیتے، یہاں تک کہ اپنے کاموں کے لیے انھیں مار مار کر درست کرتے ہیں، یہ بھی ایک قسم کی قربانی ہے۔
۷- ادنیٰ سپاہی اپنے افسر کے لیے اور وہ افسر اپنے اعلیٰ افسر کے لیے اور وہ اعلیٰ افسر اپنے بادشاہ کے بدلے میں قربان ہوتا ہے۔ پس خدا نے اس فطرتی مسئلہ کو برقرار رکھا اور اس قربانی میں تعلیم دی کہ اعلیٰ ادنیٰ کے لیے قربان کیا جائے۔
قربانی کے جانوروں کا ذبح کرنا ظلم یا رحم کے خلاف کیوں نہیں؟
خد اتعالیٰ کو ماننے والی قومیں خواہ وہ کوئی ہوں اس بات کی ہرگز قائل نہیں ہیں کہ خدا تعالیٰ ظالم ہے، بلکہ خدا تعالیٰ کو رحمن، رحیم مانتے ہیں،اب خدا تعالیٰ کا فعل دیکھو کہ ہوا میں باز، شکرے، گدھ، چرغ وغیرہ شکاری جانور موجود ہیں اور وہ غریب پرندوں کا گوشت ہی کھاتے ہیں، گھاس اور عمدہ سے عمدہ میوے اور اس قسم کی کوئی چیز نہیں کھاتے۔ پھر دیکھو آگ میں پروانہ کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، پھر پانی کی طرف خیال کرو کہ اس میں کس قدر خون خوار جانور موجود ہیں، گڑیال اور بڑی بڑی مچھلیاں اود بلاؤ وغیرہ، یہ چھوٹے چھوٹے آبی جانوروں کو کھا جاتے ہیں، بلکہ بعض مچھلیاں قطبِ شمالی سے قطبِ جنوبی تک شکار کے لیے جاتی ہیں۔ پھر ایک اور قدرتی نظارہ سطح زمین پر دیکھو کہ چیونٹی کھانے والا جانور کیسے زبان نکالے پڑا رہتا ہے، جب بہت سی چیونٹیاں اس کی زبان کی شیرینی کی وجہ سے اس کی زبان پر چڑھ جاتی ہیں تو جھٹ زبان کھینچ کر سب کو نگل جاتا ہے۔ مکڑی مکھیوں کا شکار کرتی ہے۔ مکھی کھانے والا جانور اپنی غذا ان جانوروں کو مار کر بہم پہنچاتے ہیں۔ بندروں کو چیتا مار کر کھاتا ہے۔ جنگل میں شیر بھیڑیئے تیندوے کی غذا جومقرر ہے وہ سب کو معلوم ہے، بلی کس طرح چوہوں کو پکڑ کر ہلاک کرتی ہے۔
اب بتلاؤ کہ اس نظارۂ عالم کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ ذبح کا قانون جو عام طور پر جاری ہے یہ کسی ظلم کی بنا پر ہے؟ ہر گز نہیں! پھر انسان پر حیوان کے ذبح کرنے کے ظلم کا الزام کیا مطلب رکھتا ہے؟ (اور اگر کھانے کو ظلم کہا جائے تو غلوں، سبزیوں، اور دودھ وغیرہ کھانے کو بھی ظلم کہا جاسکتا ہے ، جبکہ تمام عالم کا کارخانہ اسی پر چل رہا ہے کہ ادنی چیز اعلی کے لیے ہے) انسان کے جوئیں پڑ جاتی ہیں یا کیڑے پڑ جاتے ہیں، کیسی بے باکی سے ان کی ہلاکت کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیا اس کا نام ظلم رکھا جاتا ہے؟ جب اسے ظلم نہیں کہتے کہ اشرف (اعلی) کے لیے اخس (ہلکی اور ادنی چیز) کا قتل جائز ہے تو ذبح پر اعتراض کیوں کر ہوسکتا ہے؟
بلکہ غور کرو تو حضرت ملک الموت (موت کے فرشتہ) کو دیکھو کیسے کیسے انبیا، و رسل، بادشاہ، بچے، غریب، امیر، سوداگر سب کو مار کر ہلاک کرتے اور دنیا سے نکال دیتے ہیں۔
پھر غور کرو! اگر ہم جانوروں کو عید الاضحی پر اس لیے ذبح نہ کریں کہ ہمارا ذبح کرنا رحم کے خلاف ہے تو کیا اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ زندہ رکھے گا؟ اور ان پر یہ رحم ہوتا تو اللہ تعالیٰ شکاری اور گوشت خوار جانوروں کو پیدا نہ کرتا، نیز اگر ان کو ذبح نہ کیا جائے تو خود بیمار ہو کر مریں گے۔ پس غور کرو کہ ان کے مرنے میںان کوکیسی تکلیف لاحق ہوگی۔
قانون الٰہی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر چیز بے حد بڑھنا چاہتی ہے، اگر ہر ایک برگد کے بیج حفاظت سے رکھے جائے تو دنیا میں برگد ہی ہوں اور دوسری کوئی چیز نہ ہو مگر دیکھو ہزار جانور اس کا پھل کھاتے ہیں۔ اس سے پتا لگتا ہے کہ اس بڑھنے کو ر وکنا اللہ کی مرضی ہے، اسی طرح اگر ساری گائیوں کی پرورش کریں تو ایک وقت میں دنیا کی ساری زمین بھی ان کے چارے کے لیے کافی نہ ہوگی۔ آخر بھوک پیاس سے خود ان کو مرنا پڑے گا (اوراسی طرح سب جانور ہیں) جب کہ یہ نظارۂ قدرت موجود ہے تو ذبح کرنا اللہ کی مرضی کے خلاف کیوں ہے؟ (بلکہ عالم کا نظم باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے ، لوگ کہتے ہیں کہ اتنے جانور ذبح کرنے سے پھر گوشت کی غذا ہی نہیں رہے گی ، ختم ہوجائے گی، مگر یہ خود قانون فطرت کے خلاف ہے ، بلکہ جو جانور ذبح نہیں کیے جاتے ان کی نسل معدوم ہوتی جارہی ہے)۔
پھر انسان کا ذبح ناجائز کیوں؟
پھر کوئی کہے کہ ذبح انسان بھی جائز ہوسکتا ہے؟ اس میں شک نہیں کہ فی نفسہ ذبح انسان کے لیے بھی عمدہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ شہادت کو متفق اللفظ ہو کر اعلیٰ کمال مانا، مگر انسان کے ذبح نہ کرنے پر اور بہت سے قوی دلائل ہیں (انسان سب مخلوقات سے اشرف ہے) خلاصہ اس کا یہ ہے کہ انسان کے ساتھ اوروں کے بھی حقوق ہیں، کسی کی پرورش ہے، کسی کا کچھ اور کسی کا کچھ۔ اگر ایسا حکم دیں تو مشکلات کا ایک بڑا سلسلہ پیدا ہوجاتا ہے، اس لیے انسان کے قتل پر سزا لازم ہے ، عرفی اور شرعی قانون میں سخت گناہ کہا گیا ہے۔ الغرض انسان کا قتل اس لیے تجویز نہیں ہوا کہ انسان کے ساتھ بہت سے حقوق ہوتے ہیں ان کا ضائع ہونا زیادہ دکھوں کا موجب ہے
یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں: