شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کی تعریف اور ان میں باہمی تعلق، از مولانا اشرف علی تھانویؒ

ترتیب وتدوین: مفتی عمر انور بدخشانی

تعریفات: شریعت، طریقت، حقیقت، معرفت، محقق اور عارف

جن احکامات کا ایک مسلمان مکلف ہوتا ہے ان احکامات کے مجموعہ کو ’’شریعت ‘‘کہتے ہیں، اس میں ظاہری اور باطنی سب اعمال شامل ہیں ، متقدمین کی اصطلاح میں ’’فقہ‘‘کے لفظ کو ’’شریعت‘‘ کا مرادف یعنی ہم معنی سمجھا جاتا ہے ،جیسے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ’’فقہ ‘‘کی یہ تعریف منقول ہے :

معرفۃ النفس ما لھا وماعلیھا

یعنی نفس کے نفع اور نقصان کی چیزوں کو پہچاننا، پھر متاخرین کی اصطلاح میں ’’شریعت ‘‘کے جو اعمال ظاہر کے متعلق ہیں ان کا نام ’’فقہ ‘‘ ہوگیا، اور جواعمال باطن کے متعلق ہیں ان کا نام ’’تصوف‘‘ ہوگیا ۔

ان باطنی اعمال کے طریقوں کو ’’طریقت‘‘ کہتے ہیں ، پھر ان اعمال کی اصلاح ودرستگی سے دل میں جو جلا اور پاکیزگی پیدا ہوتی ہے اس سے دل پر بعض وہ تکوینی حقائق جو اعیان واعراض کے متعلق ہیں وہ منکشف ہوتے ہیں ، خاص طور پر اچھے برے اعمال ، حق تعالی کی صفات وافعال اور وہ معاملات جو اللہ اور بندے کے درمیان ہیں وہ منکشف ہوتے ہیں ،اوران مکشوفات کو ’’حقیقت‘‘ کہتے ہیں ،اوراس انکشاف کو ’’معرفت‘‘ کہتے ہیں ، صاحب انکشاف یعنی اس شخص کو جس پر یہ انکشاف ہوا اسے ’’محقق‘‘ اور ’’عارف‘‘ کہتے ہیں ، سو یہ سب باتیں ’’شریعت ‘‘ ہی کے متعلق ہیں (شریعت کے دائر ے سے باہر نہیں)

ظاہر و باطن دونوں شریعت کا جز ہیں

عوام میں جو یہ مشہور ہوگیا ہے کہ’’ شریعت‘‘ صرف ان احکام کو کہا جاتا ہے جو ظاہر سے متعلق ہیں یہ اصطلاح کسی بھی اہل علم سے منقول نہیں ، اور عوام کے اعتبار سے اس بات کی منشا (سبب) بھی صحیح نہیں ، کیونکہ وہ ظاہر اور باطن میں تفریق کا اعتقاد رکھتے ہیں (جبکہ شریعت کا تعلق ظاہر اور باطن دونوں سے ہے)۔

تصوف: خشک علماء اور غالی متشدد صوفیوں کا غلط طرز عمل

تصوف کے صحیح اصول قرآن اور حدیث میں سب موجود ہیں ، اور یہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ تصوف قرآن اور حدیث میں نہیں ہے یہ بالکل غلط ہے ، یعنی غالی (متشدد) صوفیوں کا بھی یہی خیال ہے ،اور دوسری طرف خشک علماء کا بھی کہ قرآن وحدیث تصوف سے خالی ہے ، مگر یہ دونوں ہی غلط سمجھے ، خشک علماء تو یہ کہتے ہیں کہ تصوف کوئی چیز نہیں ،یہ سب واہیات ہے ، بس نماز روزہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے اوراسی کو کرنا چاہیے ، یہ صوفیوں نے کہاں کا جھگڑا نکالا ہے ، تو گویا ان خشک علماء کے نزدیک قرآن وحدیث تصوف سے خالی ہیں ، اور دوسری طرف غالی (متشدد) صوفی یوں کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں تو ظاہری احکام ہیں ، تصوف باطن کا علم ہے ، ان کے نزدیک (نعوذ باللہ) قرآن وحدیث ہی کی ضرورت نہیں ، غرض یہ دونوں طبقے قرآن وحدیث کو تصوف سے خالی سمجھتے ہیں ، پھراپنے اپنے خیال کے مطابق ایک طبقہ (خشک علماء) نے تو تصوف کو چھوڑ دیا ، اور ایک طبقہ (متشدد غالی صوفیوں) نے قرآن وحدیث کو چھوڑ دیا ۔

کیا غضب کرتے ہو ، خدا سے ڈرو، اس کے متعلق میں نے اس مضمون پر دو مستقل کتابیں لکھی ہیں ، ایک تو ’’حقیقۃ الطریقۃمن السنۃ الانیقۃ‘‘ جس میں مسائل تصوف کی حقیقت احادیث سے ثابت کی گئی ہے ، اور ایک رسالہ مستقل مسائل السلوک جس میں صاف طور پر ظاہر کیا گیا ہے کہ تصوف کے مسائل قرآن مجید سے بھی ثابت ہیں ، ان دونوں کتابوں سے معلوم ہوگا کہ قرآن وحدیث تصوف سے لبریز ہیں ، اور واقعی وہ تصوف ہی نہیں جو قرآن وحدیث میں نہ ہو، غرض تصوف کے جتنے صحیح اور مقصود مسائل ہیں وہ سب قرآن وحدیث میں موجود ہیں ۔

شریعت کیا ہے اور اس کی حقیقت

غور سے سن لیجیے کہ دین یعنی شریعت کے پانچ اجزاء ہیں:

ایک جز تو ’’عقائد‘‘ کا ہے کہ دل سے اورزبان سے یہ اقرار کرنا کہ اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ نے جس چیز کی جس طور پر خبر دی ہے وہی حق ہے (اس کی تفصیل عقائد کی کتابوں سے معلوم ہوگی)۔
دوسرا جز’’عبادات‘‘ ہیں ، یعنی نماز ، روزہ ، زکوۃ اورحج وغیرہ ۔
تیسرا جز ’’معاملات‘‘ ہیں ، یعنی نکاح ، طلاق ، حدود، کفارات ،خرید وفروخت ، اجارہ ، زراعت وغیرہ کے احکام، ان کے جز ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ شریعت یہ سکھاتی ہے کہ کھیتی یوں بویا کرو اور تجارت فلاں فلاں چیز کی کرو، بلکہ ان میں شریعت یہ بتلاتی ہے کہ کسی پر ظلم وزیادتی نہ کرو ،اوراس طرح کا معاملہ نہ کرو جس میں نزاع اور جھگڑے کا اندیشہ ہو، غرض جواز اور عدم جواز بیان کیا جاتا ہے ۔
چوتھا جز ’’معاشرت‘‘ ہے ، یعنی اٹھنا،بیٹھنا، ملناجلنا، مہمان بننا، کسی کے گھر پر کیونکر جانا چاہیے اوراس کے آداب کیا ہیں ؟بیوی ،بچوں ،عزیز اقارب ،اجنبیوں اور نوکروں وغیرہ کے ساتھ کس طرح برتاؤ کرنا چاہیے۔
پانچواں جز ’’تصوف‘‘ ہے ، جس کو شریعت میں اصلاح نفس کہتے ہیں ، آج کل لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تصوف کے لیے بیوی بچوں اور دوسرے دنیاوی اور معاشرتی کاموں کو چھوڑنا پڑتا ہے ، یہ بالکل غلط ہے ، یہ جاہل صوفیوں کا مسئلہ ہے ، جو تصوف کی حقیقت کو نہیں جانتے ، غرض دین کے پانچ اجزاء ہیں ، ان پانچوں کے مجموعہ کا نام دین ہے ،اگر کسی میں ایک جز بھی ان میں سے کم ہو تو وہ ناقص دین ہے جیسے کسی کے ایک ہاتھ نہ تو وہ ناقص الخلقت (معذور) ہے۔

دین(شریعت) کے جتنے حصے ہیں ،عقیدہ ، عبادات، معاملات ،اخلاق اور رہنے سہنے کے طریقے سب کی اصلاح کریں ، اور جو معلوم نہ ہوں وہ پوچھتے رہیں ، جو کام کریں پہلے شرعی تحقیق کرلیں ، مگر تحقیق ایسوں سے کریں جو سچی بات بتلائیں ،اور جو خود ہی اپنی نفسانی خواہش کو شریعت کے اندر ٹھونسیں ، اور زبردستی غیردینی باتوں کو مصلحت اورپالیسی کی وجہ سے دین بنائیں وہ واقع میں عالم نہیں ، وہ تو جاہل ہیں ، ان سے مت پوچھیں ،ورنہ وہ اپنے ساتھ تمہیں بھی گمراہ کریں گے ،اب اگر کوئی یہ کہے کہ اس زمانہ میں سچے عالم کہاں ملتے ہیں ؟تویہ غلط ہے ، بلکہ ڈھونڈنے سے مل جاتے ہیں ۔

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

8,023 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!