مشاجراتِ صحابہ کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا موقف، از مولانا مفتی محمد شفیعؒ

وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الحجرات:9-10)۔

خلاصہ تفسیر: اور اگر مسلمانوں میں دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان اصلاح کردو (یعنی جھگڑے کی بنیاد کو دور کر کے لڑائی رکوادو) پھر اگر (اصلاح کی کوشش کے بعد بھی) ان میں کا ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے (اور لڑائی بند نہ کرے) تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع ہوجائے (خدا کے حکم سے مراد لڑائی بند کرنا ہے) پھر اگر وہ (زیادتی کرنے والا فرقہ خدا کے حکم کی طرف) رجوع ہوجائے (یعنی لڑائی بند کردے) تو ان دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ اصلاح کردو (یعنی شرعی حدود کے مطابق اس معاملہ کو طے کردو، صرف لڑائی بند کرنے پر اکتفا نہ کرو، اگر صلح و مصالحت نہ ہوئی تو پھر بھی لڑائی کا احتمال رہے گا) اور انصاف کا خیال رکھو ( یعنی کسی ذاتی اور نفسانی غرض کو غالب نہ ہونے دو) بیشک اللہ تعالیٰ انصاف والوں کو پسند کرتا ہے (اور باہمی اصلاح کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ) مسلمان تو سب (دینی اشتراک جو کہ روحانی اور معنوی رشتہ ہے اس رشتہ سے ایک دوسرے کے) بھائی ہیں اس لئے اپنے دو بھائیوں کے درمیان اصلاح کردیا کرو (تاکہ یہ اسلامی برادری قائم رہے) اور (اصلاح کے وقت) اللہ سے ڈرتے رہا کرو (یعنی شرعی حدود کی رعایت رکھا کرو) تاکہ تم پر رحمت کی جائے(بیان القرآن تھانویؒ)۔

معارف ومسائل

اگر مسلمان کی کوئی بڑی طاقتور جماعت امام المسلمین کی اطاعت سے نکل جائے تو امام المسلمین پر لازم ہے کہ اول ان کی شکایات سنے، ان کو کوئی شبہ یا غلط فہمی پیش آئی ہے تو اس کو دور کرے، اور اگر وہ اپنی مخالفت کی ایسی وجوہ پیش کریں جن کی بنا پر کسی امام و امیر کی مخالفت شرعاً جائز ہے، یعنی جن سے خود امام المسلمین کا ظلم و جور ثابت ہو تو عام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس جماعت کی مدد کریں، تاکہ امام اپنے ظلم سے باز آجائے بشرطیکہ اس کے ظلم کا ثبوت یقینی بلا کسی اشتباہ کے ثابت ہوجائے (کذا قال ابن الہمام، مظہری)، اور اگر کوئی ایسی واضح وجوہ اپنی بغاوت اور عدم اطاعت کی بیان نہ کرسکیں اور امام المسلمین کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوجائیں تو مسلمانوں کو ان سے قتال کرنا حلال ہے، اور امام شافعیؒ نے فرمایا کہ جب تک وہ خود قتال شروع نہ کردیں اس وقت تک مسلمانوں کو ان سے قتال کی ابتدا کرنا جائز نہیں (مظہری) یہ حکم اس وقت ہے جبکہ اس جماعت کا باغی اور ظالم ہونا بالکل یقینی اور واضح ہو، اور اگر صورت ایسی ہے کہ دونوں فریق کوئی شرعی حجت رکھتے ہیں اور یہ متعین کرنا مشکل ہے کہ ان میں کون باغی ہے کون عادل؟ وہاں جس شخص کو کسی ایک کے عادل ہونے کا ظن غالب ہو وہ اس کی مدد کرسکتا ہے، اور جس کو کسی جانب رجحان نہ ہو وہ دونوں سے الگ رہے، جیسا کہ مشاجرات صحابہ کرام کے وقت جنگ جمل اور صفین میں پیش آیا۔

مشاجرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین

امام ابوبکر بن العربیؒ نے فرمایا کہ یہ آیت قتال بین المسلمین کی تمام صورتوں کو حاوی اور شامل ہے اس میں وہ صورت بھی داخل ہے جس میں دونوں فریق کسی حجت شرعی کے تحت جنگ کے لئے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ صحابہ کرام کے مشاجرات اسی قسم میں داخل ہیں۔ قرطبیؒ نے ابن عربیؒ کا یہ قول نقل کر کے اس جگہ مشاجرات صحابہ جنگ جمل اور صفین وغیرہ کی اصل حقیقت بیان کی ہے اور مشاجرات صحابہ کے بارے میں بعد کے آنے والے مسلمانوں کے عمل کے متعلق ہدایات دی ہیں۔ احقر نے یہ سب مضامین احکام القرآن میں بزبان عربی اور بزبان اردو اپنے رسالہ مقام صحابہ میں تفصیل کے ساتھ لکھ دیئے ہیں، یہاں اس کا خلاصہ جو تفسیر قرطبی ص 322 ج 16 کے حوالہ سے اس رسالہ میں دیا گیا ہے نقل کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

” یہ جائز نہیں ہے کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے، اس لئے کہ ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اور سب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی، یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے باہمی اختلافات سے کف لسان کریں اور ہمیشہ ان کا ذکر بہترین طریقے پر کریں، کیونکہ صحابیت بڑی حرمت کی چیز ہے، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے، اور یہ خبر دی کہ اللہ نے انہیں معاف کر رکھا ہے اور ان سے راضی ہے “ اس کے علاوہ متعدد سندوں سے یہ حدیث ثابت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:

ان طلحة شھید یمشی علی وجہ الارض

یعنی طلحہ روئے زمین پر چلنے والے شہید ہیں۔
اب اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا جنگ کے لئے نکلنا کھلا گناہ اور عصیان تھا تو اس جنگ میں مقتول ہو کر وہ ہرگز شہادت کا رتبہ حاصل نہ کرتے، اسی طرح حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل تاویل کی غلطی اور ادائے واجب میں کوتاہی قرار دیا جاسکتا تو بھی آپ کو شہادت کا مقام حاصل نہ ہوتا، کیونکہ شہادت تو صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کوئی شخص اطاعت ربانی میں قتل ہوا ہو۔ لہٰذا ان حضرات کے معاملہ کو اسی عقیدہ پر محمول کرنا ضروری ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔

اس بات کی دوسری دلیل وہ صحیح اور معروف و مشہور احادیث ہیں جو خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں اور جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ” زبیر کا قاتل جہنم میں ہے “۔
نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ” صفیہ کے بیٹے کے قاتل کو جہنم کی خبر دے دو “ جب یہ بات ہے تو ثابت ہوگیا کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیررضی اللہ عنہما اس لڑائی کی وجہ سے عاصی اور گنہگار نہیں ہوئے، اگر ایسا نہ ہوتا تو حضور حضرت طلحہ کو شہید نہ فرماتے اور حضرت زبیر کے قاتل کے بارے میں جہنم کی پیشین گوئی نہ کرتے۔ نیز ان کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہے جن کے جنتی ہونے کی شہادت تقریباً متواتر ہے۔

اسی طرح جو حضرات صحابہ ان جنگوں میں کنارہ کش رہے، انہیں بھی تاویل میں خطا کار نہیں کہا جاسکتا، بلکہ ان کا طرز عمل بھی اس لحاظ سے درست تھا کہ اللہ نے ان کو اجتہاد میں اسی رائے پر قائم رکھا جب یہ بات ہے تو اس وجہ سے ان حضرات پر لعن طعن کرنا ان سے برات کا اظہار کرنا اور انہیں فاسق قرار دینا، ان کے فضائل و مجاہدات اور ان عظیم دینی مقامات کو کالعدم کردینا کسی طرح درست نہیں، بعض علماء سے پوچھا گیا کہ اس خون کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو صحابہ کرام کے باہمی مشاجرات میں بہایا گیا؟ تو انہوں نے جواب میں یہ آیت پڑھ دی کہ :

تلک امتہ قد خلت لھا ماکسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون

یہ ایک امت تھی جو گزر گئی، اس کے اعمال اس کے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں، اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔

کسی اور بزرگ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا ” ایسے خون ہیں کہ اللہ نے میرے ہاتھوں کو ان میں (رنگنے سے) بچایا، اب میں اپنی زبان کو ان سے آلودہ نہیں کروں گا “ مطلب یہی تھا کہ میں کسی ایک فریق کو کسی ایک معاملے میں یقینی طور پر خطا کار ٹھہرانے کی غلطی میں مبتلا نہیں ہونا چاہتا۔

علامہ ابن فورکؒ فرماتے ہیں :۔
” ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان جو مشاجرات ہوئے ان کی مثال ایسی جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے درمیان پیش آنے والے واقعات کی، وہ حضرات آپس کے ان اختلافات کے باوجود ولایت اور نبوت کی حدود سے خارج نہیں ہوئے، بالکل یہی معاملہ صحابہ کے درمیان پیش آنے والے واقعات کا بھی ہے “۔

اور حضرت محاسبیؒ فرماتے ہیں کہ
” جہاں تک اس خونریزی کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں ہمارا کچھ کہنا مشکل ہے، کیونکہ اس میں خود صحابہ کے درمیان اختلاف تھا “

اور حضرت حسن بصریؒ سے صحابہ کے باہمی قتال کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ
” ایسی لڑائی تھی جس میں صحابہ موجود تھے اور ہم غائب، وہ پورے حالات کو جانتے تھے اور ہم نہیں جانتے، جس معاملہ پر تمام صحابہ کا اتفاق ہے ہم اس میں ان کی پیروی کرتے ہیں اور جس معاملہ میں ان کے درمیان اختلاف ہے اس میں سکوت اختیار کرتے ہیں “۔

حضرت محاسبیؒ فرماتے ہیں کہ ہم بھی وہی بات کہتے ہیں جو حسن بصریؒ نے فرمائی، ہم جانتے ہیں کہ صحابہ کرام نے جن چیزوں میں دخل دیا ان سے وہ ہم سے کہیں بہتر طریقے پر واقف تھے، لہٰذا ہمارا کام یہی ہے کہ جس پر وہ سب حضرات متفق ہوں اس کی پیروی کریں اور جس میں ان کا اختلاف ہو اس میں خاموشی اختیار کریں اور اپنی طرف سے کوئی نئی رائے پیدا نہ کریں، ہمیں یقین ہے کہ ان سب نے اجتہاد سے کام لیا تھا اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہی تھی، اس لئے کہ دین کے معاملہ میں وہ سب حضرات شک و شبہ سے بالا تر ہیں۔

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

3,733 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!