صحابہ کو فاسق کہنا اور سورہ حجرات میں لفظ ’فاسق‘ سے کیا مراد ہے؟ از مولانا مفتی محمد شفیعؒ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (الحجرات: 6)۔

خلاصہ تفسیر

اے ایمان والو ! اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے ( جس میں کسی کی شکایت ہو) تو (تحقیق کے بغیر اس پر عمل نہ کیا کرو، بلکہ اگر عمل کرنا مقصود ہو تو) خوب تحقیق کرلیا کرو کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر(نقصان) نہ پہنچا دو پھر اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔

عدالت صحابہ کے متعلق ایک اہم سوال وجواب

اس آیت کا ولید بن عقبہؓ کے متعلق نازل ہونا صحیح روایات سے ثابت ہے، اور آیت میں ان کو فاسق کہا گیا ہے، اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں کوئی فاسق بھی ہوسکتا ہے ،اور یہ اس مسلمہ اور متفق علیہ ضابطہ کے خلاف ہے کہ’’ الصحابة کلہم عدول‘‘، یعنی صحابہ کرام سب کے سب ثقہ ہیں ،ان کی کسی خبر و شہادت پر کوئی گرفت نہیں کی جاسکتی، علامہ آلوسیؒ نے روح المعانی میں فرمایا کہ اس معاملے میں حق بات وہ ہے جس کی طرف جمہور علماء گئے ہیں کہ صحابہ کرام معصوم نہیں ،ان سے گناہ کبیرہ بھی سر زد ہوسکتا ہے جو فسق ہے، اور اس گناہ کے وقت ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جس کے وہ مستحق ہیں ،یعنی شرعی سزا جاری کی جائے گی، اور اگر کذب ثابت ہوا تو ان کی خبر و شہادت رد کردی جائے گی، لیکن اہل سنت والجماعت کا عقیدہ نصوص قرآن و سنت کی بنا پر یہ ہے کہ صحابی سے گناہ تو ہوسکتا ہے مگر کوئی صحابی ایسا نہیں جو گناہ سے توبہ کر کے پاک نہ ہوگیا ہو، قرآن کریم نے علی الاطلاق ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی ’’رضا ‘‘کا فیصلہ صادر فرما دیا ہے :رضی اللہ عنہم و رضواعنہ الآیۃ، اور رضائے الٰہی گناہ ہوں کی معافی کے بغیر نہیں ہوتی، جیسا کہ قاضی ابویعلی ؒنے فرمایا کہ ’’رضا ‘‘اللہ تعالیٰ کی ایک صفت قدیمہ ہے، وہ اپنی رضا کا اعلان صرف انہی کے لئے فرماتے ہیں جن کے متعلق وہ جانتے ہیں کہ ان کی وفات موجبات رضا پر ہوگی (کذا فی الصارم المسلول الابن تیمیہ)۔

خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کی عظیم الشان جماعت میں سے گنے چنے چند آدمیوں سے کبھی کوئی گناہ سرزد بھی ہوا ہے تو ان کو فوراً توبہ نصیب ہوئی ہے، حق تعالیٰ نے ان کو رسول کریم ﷺ کی صحبت کی برکت سے ایسا بنادیا تھا کہ شریعت ان کی طبیعت بن گئی تھی، خلاف شرع کوئی کام یا گناہ سرزد ہونا انتہائی شاذ و نادر تھا، ان کے اعمال صالحہ، نبی کریم ﷺ اور اسلام پر اپنی جانیں قربان کرنا ،اور ہر کام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے اتباع کو وظیفہ زندگی بنانا ،اور اس کے لئے ایسے مجاہدات کرنا جن کی نظیر پچھلی امتوں میں نہیں ملتی، ان بیشمار اعمال صالحہ اور فضائل و کمالات کے مقابلے میں عمر بھر میں کسی گناہ کا سرزد ہوجانا اس کو خود ہی کالعدم کردیتا ہے۔

دوسرے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت و عظمت اور ادنیٰ سے گناہ کے وقت ان کا خوف خشیت اور فوراً توبہ کرنا بلکہ اپنے آپ کو سزا کے لئے خود پیش کردینا، کہیں اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دینا وغیرہ روایات حدیث میں معروف مشہور ہیں اور بحکم حدیث گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہوجاتا ہے کہ جیسے گناہ کیا ہی نہیں۔

تیسرے حسب ارشاد قرآن ،اعمال صالحہ اور حسنات خود بھی گناہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں :

ان الحسنت یذھبن السیئات

خصوصاً جبکہ ان کے حسنات عام لوگوں کی طرح نہیں ،بلکہ ان کا حال وہ ہے جو ابوداؤ و ترمذی نے حضرت سعید بن زید سے نقل کیا ہے کہ:

واللہ لمشھد رجل منھم مع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یغبر فیہ وجھہ خیر من عمل احدکم و لو عمر عمر نوح

یعنی خدا کی قسم ان میں سے کسی شخص کا نبی کریم ﷺ کے ساتھ کسی جہاد میں شریک ہونا جس میں ان کے چہرہ پر غبار پڑگیا ہو ،تمہاری عمر بھر کی اطاعت و عبادت سے افضل ہے اگرچہ اس کو عمر نوح (علیہ السلام) دے دی گئی ہو، اس لئے ان سے صدور گناہ کے وقت اگرچہ سزا وغیرہ میں معاملہ وہی کیا گیا جو اس جرم کے لئے مقرر تھا مگر اس کے باوجود بعد میں کسی کے لئے جائز نہیں کہ ان میں سے کسی کو فاسق قرار دے، اس لئے اگر آنحضرت ﷺ کے عہد میں کسی صحابی سے کوئی گناہ موجب فسق سر زد بھی ہو اور اس وقت ان کو فاسق کہا بھی گیا تو اس سے یہ جائز نہیں ہوجاتا کہ اس فسق کو ان کے لئے مستمر سمجھ کر معاذ اللہ ’’فاسق ‘‘کہا جائے (کذافی الروح)

آیت میں لفظ ’’فاسق ‘‘ سے کیا مراد ہے؟

اور آیت مذکورہ میں تو قطعاً یہ ضروری نہیں کہ ولید بن عقبہ کو فاسق کہا گیا ہو ،سبب نزول خواہ ان کا معاملہ ہی سہی ، مگر لفظ فاسق ان کے لئے استعمال کیا گیا یہ ضروری نہیں، وجہ یہ ہے کہ اس واقعہ سے پہلے تو ولید بن عقبہ سے کوئی ایسا کام ہوا نہ تھا جس کے سبب ان کو ’’فاسق ‘‘کہا جائے اور اس واقعہ میں بھی جو انہوں نے بنی المصطلق کے لوگوں کی طرف ایک بات غلط منسوب کی وہ بھی اپنے خیال کے مطابق صحیح سمجھ کر کی، اگرچہ واقع میں غلط تھی ،اس لئے آیت مذکورہ کا مطلب بےتکلف وہ بن سکتا ہے جو خلاصہ تفسیر میں اوپر گزرا ہے کہ اس آیت نے فاسق کی خبر کے نامقبول ہونے کے متعلق قاعدہ کلیہ بیان کیا ہے اور مذکورہ واقعہ پر اس آیت کے نزول سے اس کی مزید تاکید اس طرح ہوگئی کہ ولید بن عقبہ اگرچہ فاسق نہ تھے ، مگر ان کی خبر قوی قرائن کے اعتبار سے ناقابل قبول نظر آئی تو رسول اللہ ﷺ نے محض ان کی خبر پر کسی اقدام سے گریز کر کے حضرت خالد بن ولید کو تحقیقات پر مامور فرما دیا تو جب ایک ثقہ اور صالح آدمی کی خبر میں قرائن کی بنا پر شبہ ہوجانے کا معاملہ یہ ہے کہ اس پر قبل از تحقیق عمل نہیں کیا گیا تو فاسق کی خبر کو قبول نہ کرنا اور اس پر عمل نہ کرنا اور زیادہ واضح ہے،’’عدالت صحابہ‘‘ کی مکمل بحث احقر نے اپنی کتاب ’’مقام صحابہ‘‘ میں بیان کردی جو شائع ہوچکی ہے ۔

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

3,985 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!