مباہلہ کی تعریف و پس منظر، اور حضرت علیؓ کی خلافت بلا فصل پر استدلال، از مولانا مفتی محمد شفیعؒ

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (آل عمران: 61)۔

آیت مباہلہ: خلاصہ تفسیر

پس جو آپ سے عیسیٰ کے بارے میں (اب بھی) حجت کرے آپ کے پاس علم (واقعی) آئے پیچھے(آنے کے بعد) تو آپ (جواب میں یوں) فرما دیجیے کہ (اچھا ! اگر دلیل سے نہیں مانتے تو پھر) آجاؤ ہم (اور تم) بلا (کر جمع کر) لیں اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور خود اپنے تنوں کو اور تمہارے تنوں کو، پھر ہم (سب مل کر) خوب دل سے دعا کریں اس طور پر کہ اللہ کی لعنت بھیجیں ان پر جو (اس بحث میں) ناحق پر ہوں۔

مباہلہ کی تعریف

اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کو مباہلہ کرنے کا حکم دیا ہے، جس کی تعریف یہ ہے کہ اگر کسی امر کے حق و باطل میں فریقین میں نزاع ہوجائے اور دلائل سے نزاع ختم نہ ہو تو پھر ان کو یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ سب مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جو اس امر میں باطل پر ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وبال اور ہلاکت پڑے، کیونکہ لعنت کے معنی رحمت حق سے بعید ہوجانا ہے، اور رحمت سے بعید ہونا قہر سے قریب ہونا ہے، پس حاصل معنی اس کے یہ ہوئے کہ جھوٹے پر قہر نازل ہو، سو جو شخص جھوٹا ہوگا وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا، اس وقت صادق و کاذب کی پوری تعیین منکرین کے نزدیک بھی واضح ہوجائے گی، اس طور پر دعا کرنے کو ’’ مباہلہ ‘‘ کہتے ہیں، اور اس میں اصل خود مباحثہ کرنے والوں کا جمع ہو کر دعا کرنا ہے، اپنے اعزہ و اقارب کو جمع کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن اگر جمع کیا جائے تو اس سے اور اہتمام بڑھ جاتا ہے۔

مباہلہ کے واقعہ کا پس منظر

اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے نجران کے نصاری کی جانب ایک فرمان بھیجا جس میں تین چیزیں ترتیب وار ذکر کی گئی تھیں:
(١) اسلام قبول کرو (٢) یا جزیہ ادا کرو ( ٣) یا جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ۔

نصاری نے آپس میں مشورہ کر کے شرجیل، عبداللہ بن شرحبیل اور جبار بن قیص کو حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں بھیجا، ان لوگوں نے آکر مذہبی امور پر بات چیت شروع کی، یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث و تکرار سے کام لیا، اتنے میں یہ آیت مباہلہ نازل ہوئی، اس پر آپ ﷺ نے نصاری کو مباہلہ کی دعوت دی اور خود بھی حضرت فاطمہ ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، امام حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر مباہلہ کے لئے تیار ہو کر تشریف لائے۔ شرحبیل نے یہ دیکھ کر اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا کہ تم کو معلوم ہے کہ یہ اللہ کا نبی ہے، نبی سے مباہلہ کرنے میں ہماری ہلاکت ہے، بربادی یقینی ہے، اس لئے نجات کا کوئی دوسراراستہ تلاش کرو، ساتھیوں نے کہا کہ تمہارے نزدیک نجات کی کیا صورت ہے ؟ اس نے کہا کہ میرے نزدیک بہتر صورت یہ ہے کہ نبی کی رائے کے موافق صلح کی جائے، چناچہ اسی پر سب کا اتفاق ہوگیا، چناچہ نبی ﷺ نے ان پر جزیہ مقرر کر کے صلح کردی، جس کو انہوں نے بھی منظور کرلیا۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد ١)

واقعہ مباہلہ میں حضرت علیؓ ’’ابناء‘‘ میں داخل ہیں

اس آیت میں ’’ابناءنا‘‘ سے مراد صرف اولاد صلبی نہیں ہے بلکہ عام مراد ہے خواہ اولاد ہو یا اولاد کی اولاد ہو، کیونکہ عرفا ان سب پر اولاد کا اطلاق ہوتا ہے۔ لہذا ’’ابناءنا ‘‘میں آپ ﷺ کے نواسے حضرات حسنین رضی اللہ عنہما اور آپ ﷺ کے داماد حضرت علی رضی اللہ داخل ہیں۔ خصوصا حضرت علی ؓ کو’’ ابناءنا ‘‘میں داخل کرنا اس لئے بھی صحیح ہے کہ آپؓ نے تو پرورش بھی حضور ﷺ کی آغوش میں پائی تھی،آپ ﷺ نے ان کو اپنے بچوں کی طرح پالا پوسا اور آپؓ کی تربیت کا پورا پورا خیال رکھا، ایسے بچے پر عرفا ’’بیٹے ‘‘کا اطلاق کیا جاتا ہے، اس بیان سے یہ بات واضح ہوگئ کہ حضرت علیؓ اولاد میں داخل ہیں، لہذا روافض کا آپؓ کو ’’ابناءنا ‘‘سے خارج کر کے اور ’’انفسنا ‘‘میں داخل کر کے آپؓ کی خلافت بلا فصل پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

5,910 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!