بنو ہاشم و اُمیہ، جنگ جمل و صِفین، حضرت حسینؓ، حضرت معاویہؓ اور یزید سے متعلق چند سوال و جواب،از مفتی محمد تقی عثمانی

تعارف: پیش نظر مضمون شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم کی طرف سے سوالات پرمشتمل ایک خط کا جواب ہے ، یہ سوال وجواب ’’فتاوی عثمانی ‘‘جلد اول سے لیاگیا ہے ، واضح رہےکہ مطبوعہ مضمون میں پہلے تمام سوالات اور اس کے بعد ایک ساتھ ان کے جوابات تھے ، لیکن یہاں قارئین کی سہولت کے لیے ہم نے ہر سوال اور ساتھ ہی اس کا جواب درج کردیا تاکہ پڑھنے والوں کو سہولت اور آسانی رہے ۔

بنو ہاشم، بنو امیہ، جنگ جمل، جنگ صفین، حضرت حسینؓ، حضرت معاویہؓ اور یزید سے متعلق متعدد سوالات اور جوابات

محترمی و مکرمی! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

شرمندہ ہوں کہ اب تک آپ کے سوالات کا جواب لکھنے کا موقعہ نہیں مل سکا ،دراصل میں اس انتظار میں تھا کہ کوئی اطمینان کا وقت ملے تو مفصل جواب تحریر کروں ،لیکن اندازہ یہ ہوا کہ اطمینان کا وقت ملنا بہت مشکل ہے، اب جو تھوڑی بہت فرصت ملی ہے اس میں اختصار کے ساتھ آپ کے سوالات کا جواب عرض کر دینا زیادہ مناسب ہے، اگر کسی جواب میں پھر کوئی اشکال رہ جائے تو براہ کرم آپ دوبارہ رجوع فرمالیں اپنے ناقص علم کی حد تک میں انشاء اللہ جواب عرض کر دوں گا۔

اصول تاریخ: روایت اور درایت کی اہمیت

سب سے پہلے ایک اصولی بات عرض کر دوں اور وہ یہ کہ ہمارے پاس علم تاریخ پر کتابوں کا جو ذخیرہ موجود ہے اس میں ایک ہی واقعہ سے متعلق کئی کئی روایتیں ملتی ہیں اور تاریخ میں روایت کی چھان پھٹک اور جرح و تنقید کا وہ طریقہ اختیار نہیں کیا گیا جو حدیث میں حضرات محدثین نے اختیار کیا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کتب تاریخ میں ہر طرح کی روایتیں درج ہوگئی ہیں صحیح اور غلط بھی، کسی معاملے کی حقیقت پسندانہ تحقیق کرنی ہو تو یہ ضروری ہے کہ رطب و یابس کے اس مجموعہ میں سے صرف ان روایات پر اعتماد کیا جائے جو روایات اور درایت کے اصولوں پر پوری اترتی ہوں، اگر کوئی ایسا عالم جسے جرح و تعدیل کے اصولوں سے واقفیت ہو ان روایتوں کو ان ہی اصولوں کے مطابق چھانٹتا ہے تو شکوک و شبہات کا ایک بہت بڑا حصہ وہیں ختم ہوجاتا ہے، وجہ یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ کے آخری زمانے میں عبد اللہ بن سبا کی سازش نے جو تحریک شروع کی تھی ،اس کے دو بڑے مقاصد تھے :ایک صحابہؓ کی عظمت کو مجروح کرنا ،اور دوسرے جھوٹی روایتیں پھیلانا ،چنانچہ انہوں نے بے شمار غلط سلط حکایتیں معاشرے میں پھیلانے کی کوشش کی۔ حضرات محدثین نے پوری تندہی اور جانفشانی کے بعد احادیث رسول اللہ ﷺ کو تو اس سبائی تحریک کے اثرات سے جد و جہد کر کے دودھ کو دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیا ،لیکن علم تاریخ میں اہتمام نہ ہوسکا اور وہ روایتیں کتابوں میں درج ہوتی رہیں جو خالص سبائی پروپیگنڈے کی پیداوار تھیں۔

ہاں !محتاط مؤرخین نے اتنا ضرور کیا ہے کہ ہر روایت کی سند لکھ دی ،اور اب تحقیق حق کرنے والوں کے لئے یہ راستہ کھلا ہوا ہے کہ علم اسماء الرجال کی مدد سے وہ روایتوں کی تحقیق کریں ،اور جن روایتوں کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ وہ کسی سبائی تحریک کے فرد کی بیان کی ہوئی ہے ان پر صحابہ کرامؓ کے بارے میں اعتماد نہ کریں ،کیونکہ صحابہؓ کے فضائل و مناقب اور ان کا اللہ کے نزدیک انبیاء کے بعد محبوب ترین امت ہونا قرآن کریم اور سنت رسول اللہ ﷺ کے ناقابل انکار دلائل سے ثابت ہے، لہٰذا اس سبائی پروپیگنڈے پر کان دھر کر قرآن و سنت کے واضح ارشادات کو دریا برد نہیں کیا جا سکتا ، اہل سنت کا جو عقیدہ ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ ہے کہ مشاجرات صحابہ کی تحقیق میں پڑنا درست نہیں ،بلکہ اس معاملے میں سکوت اختیار کیا جائے، یہ کوئی تلخ حقائق سے فرار نہیں ،بلکہ اس کی وجہ یہی ہے کہ تاریخی روایات میں سے صحیح اور غلط اور سچی اور جھوٹی کا امتیاز ہر انسان کا کام نہیں ہے، اس لئے جو شخص جرح و تعدیل کے اصولوں سے ناواقف رہ کر ان روایات کو پڑھے گا وہ ہرگز کسی صحیح نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا ،صحیح روایات میں مشاجرات صحابہؓ سے متعلق جو مواد آیا ہے اسے سامنے رکھ کر اہل سنت کے تمام مرکزی علماء نے متفقہ طور پر یہ عقیدہ اختیار کیا ہے کہ اگرچہ صفین و جمل کی جنگوں میں حق حضرت علیؓ کے ساتھ تھا ،لیکن ان کے مقابل حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت معاویہؓ و غیرہم کا موقف بھی سراسر بے بنیاد نہیں تھا ،یہ حضرات بھی اپنے ساتھ شرعی دلائل رکھتے تھے ،اور ان سے جو غلط فہمی صادر ہوئی وہ خالص اجتہادی نوعیت کی تھی، اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کا جواب درج ذیل ہے:

کیا بنو ہاشم اپنے کو خلافت کا سب سے زیادہ مستحق سمجھتے تھے؟

سوال(۱): کیا بنو ہاشم اپنے آپ کو خلافت کا سب سے زیادہ مستحق سمجھتے تھے؟ جیسا کہ مولانا ابو الکلام آزاد ؒنے اپنی کتاب شہادت حسین میں تحریر کیا ہے۔

جواب: مولانا ابو الکلام مرحوم کی کتاب میں نے نہیں پڑھی ،اس لئے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ،لیکن یہ خیال غلط ہے کہ بنو ہاشم اپنے آپ کو خلافت کا سب سے زیادہ مستحق سمجھتے تھے ،اس کی واضح ولیل یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ کی خلافت تک بنو ہاشم کے کسی فرد نے خلافت کا دعویٰ نہیں کیا ،صرف حضرت علیؓ کے بارے میں یہ منقول ہے کہ انہوں نے ابتداء ً حضرت صدیق اکبرؓ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی ،لیکن خود انہوں نے بعد میں یہ وجہ بیان فرمائی کہ میری رنجیدگی کا اصل سبب یہ تھا کہ ہمیں مشورہ خلافت میں شریک نہیں کیا گیا ،چنانچہ بعد میں انہوں نے برسرعام حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ،اور نہ صرف حضرات شیخین بلکہ حضرت عثمانؓ کی خلافت کے ساتھ بھر پور تعاون فرمایا۔

قبول اسلام کے بعد بنو ہاشم اور بنو امیہ کی خاندانی رنجشوں کی کیفیت

سوال(۲) : کیا اسلام قبول کر لینے کے بعد بھی بنو ہاشم اور بنو امیہ نے قبل اسلام کی خاندانی رنجشوں کو ختم نہیں کیا ،تھا جیسا کہ واقعہ کربلا کے پس منظر میں بیان کیا جاتا ہے ،حالانکہ قرآن پاک نے مسلمان ہونے کے بعد خصوصاً صحابہؓ میں مودت قلبی کا ذکر کیا ہے ،اثبات کی صورت میں اس تاثر کے حامل کا کامل الایمان ہونا ثابت نہیں ہوتا۔

جواب: اسلام کے بعد بلا شبہ بنو ہاشم اور بنو امیہ کی خاندانی رنجش ختم ہو گئی تھیں ،اس کے بعد جو تھوڑی بہت رنجشیں ظاہر ہوئی ہیں ان کا سبب خاندانی رقابت نہ تھی ،بلکہ کچھ دوسرے امور تھے ،اس کی واضح ولیل یہ ہے کہ ان رنجشوں کے باوجود دونوں خاندانوں میں برابر رشتے ناطے ہوتے رہے۔

کیا حضرت علیؓ نے خلافت کیلئے خلفاء سابقہ کے اتباع کی شرط سے انکار کر دیا تھا؟

سوال (۳) : کچھ تواریخ میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد انتخابی شوری نے حضرت عثمان و حضرت علیؓ کے سامنے اطاعت خدا و رسول کے ساتھ اتباع خلفاء اول و ثانی کی شرط بھی رکھی تھی جسے حضرت عثمانؓ نے قبول کر لیا ،لیکن حضرت علیؓ نے خلفائے سابقہ کے اتباع کی شرط کو قبول نہیں کیا ،چنانچہ حضرت عثمانؓ کا انتخاب عمل میں لایا گیا کیا یہ صحیح ہے اور کیا اطاعت خدا و رسول کے بعد خلفاء سابقین کا اتباع منتخب خلیفہ کیلئے ایک لازمی امر تھا؟

جواب: یہ غلط ہے کہ حضرت علیؓ نے انتخابی شوریٰ کی اس شرط کو ٹھکرادیا تھا کہ وہ خلفائے سابقین کی اتباع کریں گے، علامہ طبریؒ نے حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد شوریٰ کا واقعہ تفصیل کے ساتھ نقل فرمایا ،اور اس میں صحیح و غلط ہر طرح کی روایت جمع کی ہیں، لیکن اس میں یہ بھی موجود ہے کہ حضرت عبد الرحمنؓ نے جو شوریٰ کے متفقہ نمائندہ تھے حضرت علیؓ سے پوچھا :

علیک عھد اللہ و میثاقہ لتعلمن بکتاب اللہ و سنۃ رسولہ و سیرۃ الخلیفتین من بعدہ

تم پر اللہ کی طرف سے عہد ہوگا کہ تم کتاب و سنت اور آپ کے بعد آنے والے دو خلفاء کی سیرت پر عمل کرو گے ،اس کے جواب میں حضرت علیؓ نے فرمایا :

أرجو ان أفعل و أعمل بمبلغ علمی و طاقتی

مجھے امید ہے کہ میں اپنے علم اور اپنی طاقت کی حد تک اس پر عمل کروں گا (ملاحظہ ہو تاریخ طبری ۲۹۷/ ج۳ مطبعۃ الاستقامہ قاہرہ ۱۳۵۷ھ) اسی طرح کے الفاظ ایک اور روایت میں بھی ہیں جو مذکورہ تاریخ کے ص ۳۰۱ پر منقول ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنی طاقت کی حد تک اتباع کا وعدہ کیا تھا۔

قصاص عثمانؓ کا مطالبہ کرنے والوں کا حقیقی مقصد قصاص عثمانؓ تھا یا حضرت علیؓ کو خلافت سے روکنا؟

سوال (۴) : عام تاریخوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ قصاص عثمانؓ ایک بہانہ تھا، ورنہ اصل مقصد خلافت علیؓ کو مرتب نہ ہونے دینا تھا ،اگر یہ تاثر قبول کر لیا جائے تو اس میں حضرت عائشہؓ سے لے کر حضرت معاویہؓ تک اور حضرت طلحہؓ و زبیرؓ سے لے کر عمرو بن العاصؓ اور ابو موسیٰ اشعریؓ تک سب ملوث ہیں ،اور ان کے علاوہ بہت سارے ایسے صحابہ بھی ملوث ہیں جن کو اکابر میں شمار کیا جاتا ہے، اور جن کے ذریعہ دین کا ایک بڑا حصہ ہم تک پہنچا ہے ،مذہب اہل السنۃ کس چیز سے انکار کرے گا؟ فساد ایمان سے بچنے کے لئے سکوت اختیار کرنے کا حکم ضرور دیا گیا ہے ،لیکن اس سکوت کو فرار سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

جواب: عام تاریخوں میں یہ تاثر پیدا کرنے والے وہی عبد اللہ بن سبا کے افراد ہیں ،ورنہ حقیقت یہ ہے کہ قصاص عثمانؓ کا مطالبہ کرنے والے صحابہؓ پوری دیانت داری کے ساتھ یہی سمجھتے تھے کہ حضرت عثمانؓ کا قصاص اگر اس مرحلہ پر نہ لیا گیا تو ایک طرف دین کا اہم حکم جس پر قرآن کریم کی کئی آیات اتری ہیں مجروح ہوگا۔ دوسری طرف فتنہ پرور لوگوں کی جرأتیں بڑھ جائیں گی، اور وہ جس خلیفہ کے ساتھ چاہیں گے یہی معاملہ کریں گے، جنگ جمل میں تو یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ فریقین کے درمیان لڑائی صرف سبائی فتنہ پردازوں نے کرائی ،حضرت عائشہؓ اور حضرت علیؓ صلح پر متفق ہو چکے تھے، رات کے وقت فتنہ پردازوں نے آپس میں مشورہ کیا اور کہنے لگے:

رأی الناس فینا واللہ وأحد وان یصطلحواو علی فعلی دمائنا (تاریخ طبری ، ج۳، ص۵۰۷، مطبعۃ الاستقامۃ ،قاہرۃ)۔

ہمارے بارے میں ان سب لوگوں کی رائے ایک ہے ،اب اگر ہم میں اور ان میں صلح ہوگئی تو وہ ہمارے خون پر ہوگی ،عبد اللہ بن سبا نے یہ تجویز پیش کی کہ :

اذا التقی الناس غدا فانشبوا القتال ولا تفرغوھم للنظر (تاریخ طبری، ج۳، ص۵۰۸،مطبعۃ الاستقامۃ ،قاہرۃ)۔

(جب کل یہ لوگ ملیں تو لڑائی شروع کر دینا اور انہیں سوچنے کی مہلت نہ دینا) چنانچہ ایسا ہی ہوا اور انہوں نے لڑائی چھیڑ دی اس کے نتیجے میں جنگ جمل پیش آئی۔
(ملاحظہ ہو :تاریخ طبری ص۴۸۸ و ۴۸۹ و ۴۹۴ و ۵۰۵ و ۷۰۵ (۳)ج۳ ، اور کامل ابن اثیر ج۳ ص۲۳۳ و ۲۳۶، ۲۴۱ و ۲۴۲ (۴)،اور البدایۃ و النہایۃ ج۷ ص۲۳۷ تا ۲۳۴)۔(۵)

رہا حضرت معاویہؓ کا معاملہ جس وقت حضرت ابو الدرداءؓ اور حضرت ابو امامہ ؓ حضرت معاویہؓ سے گفتگو کرنے کے لئے تشریف لے گئے ہیں ،اسی وقت حضرت معاویہؓ نے واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ حضرت علیؓ مجھ سے بہتر اور افضل ہیں ،میرا اُن سے اختلاف صرف قصاص عثمانؓ کے معاملہ میں ہے ،وہ اگر حضرت عثمانؓ کاقصاص لے لیں تو اہل شام میں سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا میں ہوں گا (البدایۃ و النہایۃ ص ۲۵۸ و ۲۵۹ ج۷، ص ۱۲۹ ج ۸) اس کے بعد اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ حضرت معاویہؓ نے یہ محض بہانہ بنایا تھا تو اس کے اطمینان کے لئے شدید کوئی اور بات کافی نہ ہوگی۔

حضرت معاویہؓ کے کردار کا تاریخی و شرعی جائزہ

سوال (۵) : تاریخوں سے حضرت معاویہؓ کے کردار کا مطالعہ کرنے کے بعد دو باتیں لازمی طور پر پیدا ہوتی ہیں ،یا تاریخیں غلط یا حضرت معاویہؓ کا ایمان مصلحت وقت کا تقاضا تھا ،تیسری صورت میں جیسا کہ اہل السنۃ انہیں اکابر صحابہ میں شمار کرتے ہیں، نبی کی تربیت اور ذات محل نظر رہ جاتی ہے۔

جواب: آپ کا خیال بڑی حد تک صحیح ہے اور واقعہ یہ ہے کہ تاریخ میں حضرت معاویہؓ پر جو الزامات عائد کئے گئے ہیں وہ غلط سلط اور موضوع روایات پر مبنی ہیں ،اگر صرف صحیح روایات پر بھروسہ کر کے حضرت معاویہؓ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو صورت حال بالکل مختلف ہو جاتی ہے میں نے اپنے مضمون ’’حضرت معاویہؓ اورتاریخی حقائق‘‘میں اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے یہ مضمون ’’سیرت معاویہؓ‘‘کے اضافہ کے ساتھ عنقریب کتابی صورت میں آجائیگا ان شاء اللہ تعالیٰ۔

کیا حضرت معاویہؓ نے اپنی زندگی میں بزور ولی عہدی کی بیعت لی تھی؟

سوال (۶) : حضرت معاویہؓ کا اپنی زندگی میں بروز ولی عہدی کی بیعت لینا ایک سیاسی مسئلہ ہے یا مذہبی؟ اگر سیاسی مسئلہ ہے اور حضرت معاویہؓ کو خلفائے راشدین میں شمار نہیں کیا جاتا تو اعتراض کس چیز کا رہ جاتا ہے اس سلسلے میں دو ضمنی سوال بھی پیش ہیں:
(الف) کیا نفس ولی عہدی کی بیعت لینا صحیح نہیں ہے؟
(ب) لوگوں کو اپنے بعد کسی کو ولی عہد بنانے کی وصیت کرنے بلکہ جواب حاصل کرنے اور بیعت لینے میں کیا فرق ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے آخری وقت میں نہ صرف حضرت عمرؓ کو ولی عہد نامزد کیا تھا، بلکہ لوگوں سے ان کی اطاعت کا اقرار بھی کرایا تھا اور حضرت علیؓ نے بھی اپنے آخری وقت میں حضرت حسنؓ کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔

جواب: یزید کی ولی عہدی کے مسئلہ پر میں اپنے مقالہ (حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق) میں مفصل گفتگو کر چکا ہوں۔ اگر آپ نے اس کا مطالعہ فرمایا ہوگا تو امید ہے کہ اس میں آپ کو تمام سوالات کا جواب مل گیا ہوگا۔

یزید کیلئے ولایت عہد کی بیعت لینے کا شرعی حکم

سوال (۷ ): یزید فاسق و فاجر تھا اور ایسے بیٹے کے لئے ولایت عہد کی بیعت لینا جائز تھا یا ناجائز؟ ناجائز کام کرنا معصیت خداوندی ہے یا نہیں؟

جواب: اس مسئلہ پر بھی میں اپنے مضمون (حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق) میں روشنی ڈال چکا ہوں۔

حضرت معاویہؓ کے عہد میں یزید پر شرعی حد کیوں جاری نہیں کی گئی؟

سوال(۸) : تاریخوں میں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت معاویہؓ کی خلافت کے زمانہ میں شرعی عدالتیں موجود تھیں جو خدا کی نافرمانیوں اور قابل تعزیر جرائم کا ارتکاب کرنے والوں پر حدود جاری کیا کرتی تھیں کیوں یزید پر حد جاری نہیں کی گئی؟ جب کہ اس کا شرابی زانی ہونا اس قدر مشہور تھا کہ بیعت ولی عہدی کے دوران اس کا بروز اظہار کیا گیا اس مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت معاویہؓ کے لئے یہ ریمارکس قائم نہیں کیا جاسکتا :اتامرون الناس بالبر و تنسون انفسکم۔

جواب: یزید کا شراب پینا یا زنا کرنا کسی بھی قابل اعتماد روایت سے ثابت نہیں ہے ،زنا کی روایت تو میں نے کسی بھی تاریخ میں نہیں دیکھی، کمی نے جو شیعہ راوی ہے یزید کا شراب پینا وغیرہ بیان کیا ہے ،لیکن کسی مستند روایت میں اس کا ذکر نہیں ،اگر یزید کھلم کھلا شرابی ہوتا تو حضرات صحابہؓ کی اتنی بڑی جماعت اس کے ساتھ قسطنطنیہ کے جہاد میں نہ جاتی ،اس دور کے حالات کو دیکھ کر ظن غالب یہی ہے کہ یزید کم از کم حضرت معاویہؓ کے عہد میں شراب نہیں پیتا تھا اور حد شرعی اس وقت قائم ہو سکتی ہے جب کہ دو گواہوں نے پیتے وقت دیکھا ہو ایسا کوئی واقعہ کسی شیعہ روایت میں بھی موجود نہیں ہے۔

یزید کا حکم ؟ اور کیاحضرت معاویہؓ کے عہد میں مجالس غناء عام تھیں؟

سوال (۹) : تاریخوں میں اجمالی حیثیت سے یزید کے فسق و فجور کا ذکر تو آیا ہے لیکن کسی خاص واقعے کا ذکر کم از کم اردو ترجموں میں سامنے نہیں آیا ،کیا کسی عربی تاریخ نے حضرت معاویہؓ کے عہد میں اس قسم کے واقعات کا ذکر کیا ہے؟ شاید ابن خلدون نے مجالس غناء کا ذکر کیا ہے ،کیا اس قسم کی مجالس غناء جو خلاف شرع ہوں حضرت معاویہؓ کے دور میں عام ہوا کرتی تھیں؟

جواب: ابن خلدون نے صرف اتنا لکھا ہے کہ حضرت معاویہؓ کی وفات کے بعد یزید کا فسق ظاہر ہو گیا تھا اس میں غالباً مجلس غناء کا تذکرہ بھی ہے۔

حضرت حسینؓ کے نام کوفیوں کے خطوط میں کیا بات درج تھی؟

سوال (۱۰) : تاریخوں میں حضرت معاویہؓ کی وفات کے بعد حضرت حسینؓ کے ساتھ کوفیوں کی خط و کتابت کا جو تذکرہ اردو میں منتقل ہوچکا ہے اس کے مطابق حضرت معاویہؓ کی وفات پر حضرت حسینؓ کو مبارکباد اور اپنا حق لینے کی ترغیب ہے ،اس خط و کتابت میں ایک فاسق و فاجر خلیفہ کو ہٹانے کی جدو جہد کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا ،براہ کرم اگر عربی تاریخوں میں ایسا کوئی واقعہ ہو تو مطلع کریں مختلف روایتوں کے مطابق تین سو خطوط یا بروایت دیگر ۳ بوریوں کی مقدار میں خطوط آنے کے بعد اور وفود آنے کے بعد حضرت حسینؓ نے مکہ مکرمہ چھوڑا۔

جواب: اس زمانے میں مکتوب نگاری کا اسلوب نہایت مختصر ہوتا تھا ،آپ اس دور کے کسی بھی ایسے مکتوب کی مثال نہیں پائیں گے جس میں تفصیل و اطناب سے کام لیا گیا ہو، مختصر خطوط میں سب باتوں کی رعایت ممکن نہیں ،پھر کوفہ کے باشندے حضرت حسینؓ کو خواہ کس لئے بلا رہے ہوں ،حضرت حسینؓ کا اپنا موقف یہ تھا کہ ایک سلطان متغلب جو اُن کی نظر میں نااہل تھا، ابھی پورے عالم اسلام پر غلبہ نہیں پا سکا، اس کے غلبہ کو روکنا ان کے پیش نظر تھا اور اسی مقصد کے لئے وہ روانہ ہوئے تھے ،اس پہلو کو بھی میں اپنے مضمون میں واضح کر چکا ہوں۔

فاسق حکمران کے خلاف حضرت حسینؓ کے خروج و جہاد کی شرعی حیثیت

سوال(۱۱) : واقعہ کربلا کا پس منظر بتاتے ہوئے ہر تحریر و تقریر میں یہ بات وضاحت کے ساتھ آتی ہے کہ ایک فاسق و فاجر حکمران سے جہاد کی خاطر حضرت حسینؓ مکہ مکرمہ سے نکلے تھے یہ مقصد واجب تھا یا مستحب؟ اگر واجب تھا تو دوسروں کو ترغیب دلانا ضروری تھا ،کیا حضرت حسینؓ نے اس سلسلے میں دوسروں کو ترغیب دلائی؟ اور اگر مستحب تھا تو نتائج کا اندازہ کر کے حضرت حسینؓ کو ترک کر دینا چاہئے تھا ،ہر صورت میں بہتر تھا کہ حضرت حسینؓ اپنے ہم نوا پیدا کرتے ،پھر نظریاتی یا عملی دباؤ ڈال کر حالات کو بہتر بناتے ،اور اگر یہ خیال تھا کہ تیس ہزار کوفی تیار ہیں جیسا کہ تاریخیں لکھتی ہیں اور مسلم نے اطلاع دی تھی اور بغیر کسی مشورے کے حضرت حسینؓ ان تک پہنچنا چاہتے تھے تو بھی پورے خاندان و اسباب کو لے کر روانہ ہونا مناسب نہ تھا اکیلے یا ایک دو ساتھی کو لے کر کسی غیر معروف راستہ سے جا کر کوفہ والوں سے ملتے، بلکہ تاریخوں میں جیسے آتا ہے کہ کوفہ والوں نے کھلم کھلا یزید کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا اور مسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور حکومت کو ان کے رجحانات کا علم تھا، لہٰذا حکومت کی طرف سے مزاحمت متوقع تھی ،چنانچہ حضرت حسینؓ کا ایسے حالات میں خاندان والوں کو لے کر نکلنا اپنے آپ کو اور مشن کو نقصان پہنچانے کے مترادف تھا اس لحاظ سے حضرت حسینؓ کو اپنے اس مشن میں مخلص ماننے میں تامل پیدا ہوتا ہے یا پھر یہ مقصد ہی نہ تھا۔

جواب: حضرت حسینؓ کے خروج کی شرعی حیثیت میرے مضمون میں موجود ہے امید ہے کہ آپ نے دیکھ لی ہوگی ،یہ کہنا مشکل ہے کہ آپ نے پورے خاندان کو لے کر جانا کس وجہ سے مناسب سمجھا تھا؟ لیکن اگر بالفرض حضرت حسینؓ کو معاذ اللہ غیر مخلص قرار دیا جاتا تب بھی تو یہ سوال باقی رہتا ہے ،درحقیقت حضرت حسینؓ کا خلوص شک و شبہ سے بالاتر ہے، انہوں نے جو کچھ کیا وہ اللہ کے لئے کیا ،اب چودہ سو سال کے بعد ان کے ایک ایک جزوی اقدام کی ٹھیک ٹھیک حکمت و مصلحت معلوم کرنا ہمارے لئے نہ ممکن ہے نہ ضروری۔

کیا یزید نے اپنی مملکت میں غیر اسلامی دستور جاری کیا تھا؟

سوال (۱۲) : بتایا جاتا ہے کہ یزید قانون شریعت کو بدلنا چاہتا تھا ،حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنا چاہتا تھا ،کیا تاریخ و سوانح کے ذریعہ کہیں یہ نظر آتا ہے کہ اپنے خلاف ہونے والی جد و جہد کو کچلنے کے بعد اس نے اپنی مملکت میں غیر اسلامی دستور رائج کیا تھا؟ حالانکہ اسکے بعد اسے کسی قسم کی مزاحمت کی توقع نہ تھی۔

جواب: یزید کے بارے میں صحیح بات وہی ہے جو لکھ چکا ہوں قانون الٰہی کو بدلنے کا کوئی ثبوت کم از کم مجھے نہیں ملا۔

یزید کے خلاف جد و جہد میں دیگر صحابہ کرامؓ کیوں شریک نہیں ہوئے؟

سوال (۱۳) : یزید کے خلاف جد وجہد میں اس دور کے بقیہ صحابہؓ کی عدم شرکت کو کس بات پر محمول کیا جائے ،حالانکہ حضرت حسینؓ کے مقابلے میں کوئی آدمی، درجہ کا صحابی بھی نہیں، بلکہ ایک فاسق و فاجر حکمران تھا کیا آل علیؓ کے سوا کسی پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا تھا تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباسؓ اور دیگر صحابہؓ نے انہیں روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔

جواب: جیسا کہ میں اپنے مضمون میں عرض کر چکا ہوں یزید ایک سلطان متغلب تھا ،شرعاً اس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ پورا کنٹرول حاصل کر چکا ہو تو اس کے خلاف خروج نہ کیا جائے گا اور اگر اس کا غلبہ روکنا ممکن ہو تو روکنے کی کوشش کی جائے ،حضرت حسینؓ سمجھتے تھے کہ اس کا غلبہ روکنا ممکن ہے اس لئے وہ روانہ ہو گئے، اور دوسرے حضرات صحابہؓ کا خیال تھا کہ اب اس کے غلبہ کو روکنا استطاعت میں نہیں اور اس کو روکنے کی کوشش میں زیادہ خونریزی کا اندیشہ ہے اس لئے وہ خود بھی خاموش رہے ،اور حضرت حسینؓ کو بھی اپنے ارادے سے باز آنے کا مشورہ دیا۔

حضرت حسینؓ کی طرف سے جہاد اور مقابلے کے فیصلے کی وجہ

سوال (۱۴): مرثیہ خوان ذاکروں کی طرح سنی واعظ بھی لہک لہک کر اشعار پڑھتے ہیں کہ سردادونداددست درست یزید۔ اور بتاتے ہیں کہ حضرت حسینؓ کسی صورت میں یزید جیسے فاسق و فاجر کی خلافت کو اپنی زندگی میں برداشت کرنے کو تیار نہ تھے جان دیدی لیکن یزید کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا حالانکہ واقعات کے اعتبار سے نہ تو حضرت حسینؓ مکہ مکرمہ سے یزید کی بیعت کے خوف سے نکلے تھے نہ ان پر مکہ مکرمہ میں کسی نے جبر کیا تھا بلکہ کوفیوں کی خط و کتابت پر نکلے اورر راستہ میں جب معلوم ہوا کہ کوفی بد عہد ہو گئے ہیں تو لوٹنے کا ارادہ فرمایا لیکن مسلم کی شہادت پر مشتمل اعزہ اقارب کی ضد کی وجہ سے ارادہ کا ساتھ دیا اور آخر میں تین شرطیں تک پیش کر دیں پھر مقصد کیا تھا؟ سمجھ میں نہیں آتا۔

جواب: ’’سر داد و نداد دست دردست یزید‘‘ کوئی نقطہ ٔ نظر نہیں ہے، حضرت حسینؓ شروع میں یہ سمجھتے تھے کہ سلطان متغلب کا غلبہ روکنا ممکن ہے، اس لئے روانہ ہوئے اور اہل کوفہ پر اعتماد کیا، لیکن جب عبد اللہ بن زیاد کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو کوفیوں کی بدعہدی کا اندازہ ہوا اس وقت آپ کو یقین ہو گیا کہ اہل کوفہ نے بالکل غلط تصویر پیش کی تھی، حقیقت میں یزید کا غلبہ روکنا اب استطاعت میں نہیں ہے ،اس لئے انہوں نے یزید کے پاس جا کر بیعت تک کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ،مگر عبد اللہ بن زیاد نے انہیں غیر مشروط طور پر گرفتار کرنا چاہا اس میں انہیں مسلم بن عقیلؓ کی طرح اپنے بے بس ہو کر شہید ہونے کا اندیشہ تھا، اس لئے ان کے پاس مقابلہ کے سوا چارہ نہ رہا۔

تاریخ اسلام کو روایات کی تحقیق کے ساتھ از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت

سوال (۱۵) : آخر میں ایک اہم سوال پیش خدمت ہے ،اسلامی تاریخ قدیم کا ذخیرہ ایک عجوبہ سے کم نہیں، کہیں ایک فرشتہ ہے اور دوسری جگہ شیطان بن جاتا ہے ،بدقسمتی سے تراجم کے سلسلے میں بھی کوئی احتیاط نہیں کی گئی، علماء کرام نے اس طرف توجہ نہیں دی کہ قرآن و سنت اور آثار سلف کے ماہر علماء کا ایک بورڈ مقرر کر کے اختلاف روایات پر تحقیق کرتے اور کم از کم اہل سنت کو ابتدائی تاریخ ایسی ملتی جس میں اکابر صحابہؓ اور قرون خیر کی ایک اچھی اور متفق علیہ تصویر ہوتی اب بھی وقت گیا نہیں۔ کیا آپ اس سلسلے میں کچھ کر سکتے ہیں ورنہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ آنے والی نسلیں دوسرے مذاہب ہی نہیں بلکہ سیاسی و ملکی رہنماؤں کی تاریخوں کو بے عیب اور متفق علیہ پاکر اور خلاف اسلام مشنریز کے پروپیگنڈے میں آکر محمد عربی ﷺ کی ذات گرامی اور ان کے خلاف کھلم کھلا زبان درازی پر اتر آئیں ،اعوذ باللہ من شر ذلک

جواب: کوئی شک نہیں کہ تاریخ کو اس طرح چھان پھٹک کر مرتب کرنا بہت ضروری ہے ،لیکن آج ہم جس دور سے گذر رہے ہیں اس میں کام بے شمار ہیں آدمی کم، کوئی شخص کیا کیا کام انجام دے؟ آج کل ایک مفصل کتاب میرے زیر قلم ہے، کسی اور کام میں لگنا مشکل ہے تاہم کوشش کروں گا کہ احباب کو اس طرف متوجہ کروں، میں دوبارہ معذرت خواہ ہوں کہ آپ کے جواب میں بہت تاخیر ہوئی لیکن ہجوم مشاغل کا یہ عالم ہے کہ یہ خط بھی کئی روز میں مختلف نشستوں کے اندر پورا کیا ہے، خدا کرے کہ یہ باعث اطمینان ہو سکے۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے اصل عربی تواریخ میں مشاجرات صحابہؓ کے زمانے کے واقعات پڑھنے کا موقعہ ملا ہے ،اور شاید تاریخ کی کوئی کتاب جو آج کل ملتی ہے چُھوٹی نہیں ،لیکن بحمد اللہ میرا دل و دماغ صحابہؓ کی طرف سے بالکل مطمئن ہے ،پہلے میں اہل سنت کے عقائد کا تقلیداً اگر اتباع کرتا تھا اب بحمد اللہ تحقیقاً ان کا متبع ہوں ،اور تمام صحیح و سقیم روایات دیکھنے کے بعد بفضلہ تعالی اس عقیدے پر اور زیادہ شرح صدر ہوا ہے اس موضوع پر والد ماجد مولانا محمد شفیع صاحب مد ظلہم نے ایک مقالہ ’’مقام صحابہؓ‘‘ کے نام سے لکھا ہے جو ان شاء اللہ ایک دو ماہ میں منظر عام پر آجائے گا موقعہ ہو تو اس کا بھی مطالعہ فرمائیں۔

والسلام
محمد تقی عثمانی عفی عنہ
۱۹ ربیع الاول ۱۳۹۱ھ

حواشی: (۳) تاریخ طبری ج۳ ص۵۰۷و ۵۰۸ (مطبعۃ الاستقامۃ۔ قاہرہ)
(۴) التاریخ الکامل لابن اثیرؒ تحت ذکر مسیر علیؓ الی البصرۃ و الواقعۃ ۳/ ۹۲،۹۳۔
(۵) ذکر مسیر أمیر المؤمنین علی بن أبی طالبؓ من المدینۃ الی البصرۃ (طبع: مطبعۃ السعادۃ بجوار محافظۃ مصر)۔ نیز دیکھئے البدایۃ و النھایۃ (طبع دار الفکر بیروت) ۵ / ۳۳۴ ۔

3,869 Views

One thought on “بنو ہاشم و اُمیہ، جنگ جمل و صِفین، حضرت حسینؓ، حضرت معاویہؓ اور یزید سے متعلق چند سوال و جواب،از مفتی محمد تقی عثمانی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!