تاریخ اور حدیث میں فرق ، تاریخی روایات و جزئیات اور صحابہ کرامؓ پر تنقید ، از مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ
مختصر تعارف وپس منظر: پیش نظر مضمون محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ (بانی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی)نے تقریبا تریسٹھ برس قبل تحریر فرمایا تھا جواس وقت جامعہ کے ماہنامہ ’’بینات ‘‘میں شائع ہوا، اس مضمون کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ اس وقت صحابہ کرام کے متعلق ایک صاحب کی کتاب شائع ہوئی ،جس میں مختلف تاریخی روایات اورچند جزئیات کی بنیاد پر صحابہ کرام کے متعلق جمہور امت مسلمہ کے برعکس گمراہانہ نظریات کا شدومدسےاظہار کیا گیا ،چنانچہ حضرت بنوری رحمہ اللہ نے اس کتاب یا مؤلف کا نام لیے بغیر ’’حرمت صحابہ ‘‘کے نام سے یہ مضمون تحریر فرمایا ، اور اس گمراہانہ کتاب میں جن باتوں کو بنیاد بناکر صحابہ کرام پر تنقید کی گئی تھی ان کے متعلق جمہور کی طرف سے بہترین وضاحت اورترجمانی فرمائی، عام لوگوں کے ذہنوں میں صحابہ کرام سے متعلق جس زہر کو پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی ،حضرت بنوریؒ بطور تریاق اس مضمون کے ذریعہ اس غلط فہمی کو دور کیا۔
صحابہ کرام پر تنقید: باہمی نظریاتی اختلاف کے باوجوداہل باطل کا متفقہ مشن
دنیا کا ایک معروف قاعدہ ہے کہ اگر کسی خبر کو رد کرنا ہو تو اس کے راویوں کو جرح وقدح کا نشانہ بناؤ، ان کی سیرت وکردار کو ملوث کرو اور ان کی ثقاہت وعدالت کو مشکوک ثابت کرو، صحابہ کرامؓ چونکہ دین محمدی کے سب سے پہلے راوی ہیں، اس لیے چالاک فتنہ پردازوںنے جب دین اسلام کے خلاف سازش کی اور دین سے لوگوں کو بدظن کرنا چاہا تو ان کا سب سے پہلا ہدف صحابہ کرامؓ تھے، چنانچہ تمام فرقِ باطلہ اپنے نظریاتی اختلاف کے باوجود جماعتِ صحابہؓ کو ہدفِ تنقید بنانے میں متفق نظر آتے ہیں، ان کی سیرت وکردار کو داغدار بنانے اور ان کی شخصیت کو نہایت گھناؤنے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی، اُن کے اخلاق واعمال پر تنقیدیں کی گئیں، ان پر مال وجاہ کی حرص میں احکامِ خداوندی سے پہلو تہی کرنے کے الزامات دھرے گئے۔ ان پر خیانت، غصب اور کنبہ پروری ، اقربانوازی کی تہمتیں لگائی گئیں اور غلو وانتہا پسندی کی حد ہے کہ جن پاکیزہ ہستیوں کے ایمان کو حق تعالیٰ نے ’’معیار‘‘ قرار دے کر ان جیسا ایمان لانے کی لوگوں کو دعوت دی تھی: ’’ أٰمِنُوْا کَمَا أٰمَنَ النَّاسُ‘‘ انہی کے ایمان وکفر کا مسئلہ زیر بحث لایا گیا، اورتکفیر وتفسیق تک نوبت پہنچا دی گئی، جن جانبازوں نے دین اسلام کو اپنے خون سے سیراب کیا تھا، انہی کے بارے میں چیخ چیخ کر کہا جانے لگا کہ وہ اسلام کے اعلیٰ معیار پر قائم نہیں رہے تھے، جن مردانِ خدا کے صدق وامانت کی خداتعالیٰ نے گواہی دی تھی:
’’ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاھَدُوْا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیلْاً‘‘(الاحزاب:۲۳)۔
’’یہ وہ ’’مرد‘‘ ہیں جنہوںنے سچ کر دکھایا جو عہد انہوںنے اللہ سے باندھا، بعض نے تو جانِ عزیز تک اسی راستہ میں دے دی اور بعض (بے چینی سے) اس کے منتظر ہیں اور ان کے عزم واستقلال میں ذرا تبدیلی نہیں ہوئی‘‘۔
انہی کے حق میں بتایا جانے لگا کہ نہ وہ صدق وامانت سے موصوف تھے، نہ اخلاص وایمان کی دولت انہیں نصیب تھی، جن مخلصوں نے اپنے بیوی بچوں کو، اپنے گھر بار کو، اپنے عزیز واقارب کو، اپنے دوست احباب کو، اپنی ہر لذت وآسائش کو، اپنے جذبات وخواہشات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے،اس کے رسول ا پر قربان کر دیا تھا، انہی کو یہ طعنہ دیا گیا کہ وہ محض حرص وہوا کے غلام تھے اور اپنے مفاد کے مقابلے میں خدا اور رسول ﷺ کے احکام کی انہیں کوئی پروا نہیں تھی:
لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئاً إِدًّا
ظاہر ہے کہ اگر امت کا معدہ ان بے ہودہ نظریات کی مردہ مکھی کو قبول کر لیتا اور ایک بار بھی صحابہ کرامؓ امت کی عدالت میں مجروح قرار پاتے تو دین کی پوری عمارت گرجاتی،قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ سے امان اُٹھ جاتا اور یہ دین جو قیامت تک رہنے کے لیے آیا تھا، ایک قدم آگے نہ چل سکتا، مگر یہ سارے فتنے جو بعد میں پیدا ہونے والے تھے، علم الٰہی سے اوجھل نہیں تھے، اس کا اعلان تھا:
وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ(الصف:۸)۔
’’اور اللہ اپنا نور پورا کر کے رہے گا، خواہ کافروں کو کتنا ناگوار ہو‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ نے باربار مختلف پہلوؤں سے صحابہ کرامؓ کا تزکیہ فرمایا، ان کی توثیق وتعدیل فرمائی اور قیامت تک کے لیے یہ اعلان فرمادیا:
أُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْإِیْمَانَ وَأَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ(المجادلۃ:۲۲)۔
’’یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے لکھ دیا ان کے دل میں ایمان اور مدد دی ان کو اپنی خاص رحمت سے‘‘۔
صحابہ کرام کے فضائل: آپ ﷺ کے ارشادات
ادھر نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ کے بے شمار فضائل بیان فرمائے، بالخصوص خلفائے راشدینؓ: حضرت ابوبکر صدیق ؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ذو النورینؓ، حضرت علی مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل کی توانتہا کردی، جس کثر ت وشدت اور تواتروتسلسل کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب ، ان کے مزایا وخصوصیات اور ان کے اندرونی اوصاف وکمالات کو بیان فرمایا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی امت کے علم میں یہ بات لانا چاہتے تھے کہ انہیں عام افرادِ امت پر قیاس کرنے کی غلطی نہ کی جائے، ان حضرات کا تعلق چونکہ براہِ راست آنحضرت ﷺ کی ذاتِ گرامی سے ہے، اس لیے ان کی محبت عین محبتِ رسول ہے اور ان کے حق میں ادنیٰ لب کشائی ناقابلِ معافی جرم فرمایا:
أللّٰہ أللّٰہ فی أصحابی، أللّٰہ أللّٰہ فی أصحابی، لا تتخذوھم غرضًا من بعدی، فمن أحبھم فبحبی أحبھم، ومن أبغضھم فببغضی أبغضھم ، ومن أٰذاھم فقد أٰذانی، ومن أٰذانی فقد أٰذٰی اللّٰہ ومن أٰذٰی اللّٰہ فیوشک أن یأخذہٗ
اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے معاملہ میں، مکرر کہتا ہوں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے معاملہ میں، ان کو میرے بعد ہدفِ تنقید نہ بنانا، کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر اور جس نے ان سے بدظنی کی تومجھ سے بدظنی کی بنا پر، جس نے ان کو ایذا دی، اس نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذا دی، اس نے اللہ کو ایذادی اور جس نے اللہ کوایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑلے۔
امت کو اس بات سے بھی آگاہ فرمایا گیا کہ تم میں سے اعلیٰ سے اعلیٰ فرد کی بڑی سے بڑی نیکی ادنیٰ صحابیؓ کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اس لیے ان پر زبانِ تشنیع دراز کرنے کا حق امت کے کسی فرد کو حاصل نہیں، ارشاد ہے:
لا تسبوأصحابیؓ، فلوأن أحدکم أنفق مثل أحد ذھبًا مابلغ مُدّ أحدھم ولا نصیفہ‘‘۔ (بخاری ومسلم)۔
’’میرے صحابہؓ کو برابھلا نہ کہو (کیونکہ تمہارا وزن ان کے مقابلہ میں اتنا بھی نہیں جتنا پہاڑ کے مقابلہ میں ایک تنکے کا ہو سکتا ہے، چنانچہ) تم میں سے ایک شخص احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کردے تو ان کے ایک سیر جو کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس کے عشرِ عشیر کو۔‘‘
مقامِ صحابہؓ کی نزاکت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ امت کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ ان کی عیب جوئی کرنے والوں کو نہ صرف ملعون ومردود سمجھیں، بلکہ برملا اس کا ظہار کریں، فرمایا:
إذا رأیتم الذین یسبون أصحابیؓ فقولوا لعنۃ اللّٰہ علٰی شرکم‘‘۔
جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہؓکو برابھلا کہتے اور انہیں ہدفِ تنقید بناتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سے (یعنی صحابہؓ اور ناقدین صحابہؓ میں سے) جو برا ہے اس پر اللہ کی لعنت (ظاہر ہے کہ صحابہؓ کو برا بھلا کہنے والا ہی بدترہوگا)‘‘۔(۱)۔
صحابہ کرام پر تنقید ،قرآن کریم اورپیغمبرﷺپر اعتراض ہے
یہاں تمام احادیث کا استیعاب مقصود نہیں ،بلکہ کہنا یہ ہے کہ ان قرآنی ونبوی شہادتوں کے بعد بھی اگر کوئی شخص حضرات صحابہ کرام میں عیب نکالنے کی کوشش کرے تو اس بات سے قطع نظر کہ اس کا یہ طرزِ عمل قرآنِ کریم کی نصوصِ قطعیہ اور ارشاداتِ نبوت کے انکار کے متراد ف ہے، یہ لازم آئے گا کہ حق تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر جو فرائض بحیثیتِ منصب نبوت کے عائد کیے تھے اور جن میں اعلیٰ ترین منصب تزکیۂ نفوس کا تھا، گویا حضرت رسالتِ پناہ ﷺ اپنے فرضِ منصبی کی بجا آوری سے قاصر رہے اور تزکیہ نہ کرسکے اور یہ قرآن کریم کی صریح تکذیب ہے، حق تعالیٰ تو ان کے تزکیہ کی تعریف فرمائے اور ہم انہیں مجروح کرنے میں مصروف رہیں۔
اور جب نبی کریم ﷺ ان کے تزکیہ سے قاصر رہے تو گویا حق تعالیٰ نے آپ کا انتخاب صحیح نہیں فرمایاتھا، إنا للّٰہ۔ بات کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے انتخاب میں قصور نکلا تو اللہ تعالیٰ کا علم غلط ہوا، نعوذ باللّٰہ من الغوایۃ والسفاھۃ ،چنانچہ اہل ہوا کی بڑی جماعت کا دعویٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ’’ بدأ ‘‘ ہوتا ہے، یعنی اسے بہت سی چیزیں جو پہلے معلوم نہیں تھیں بعد میں معلوم ہوتی ہیں اور اس کا پہلا علم غلط ہوجاتا ہے، جن لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ تصور ہو، رسول اور نبی اور ان کے بعد صحابہ کرامؓ کا ان کے نزدیک کیا درجہ رہے گا…؟
صحابہ کرام حق اور باطل کے درمیان فرق کا معیار ہیں
الغرض صحابہ کرامؓ پر تنقید کرنے، ان کی غلطیوں کو اچھالنے اور انہیں موردِ الزام بنانے کا قصہ صرف ان ہی تک محدود نہیں رہتا، بلکہ خداورسول، کتاب وسنت اور پورا دین اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور دین کی ساری عمارت منہدم ہوجاتی ہے، بعید نہیں کہ آنحضر ت ﷺ نے اپنے اس ارشاد میں جو اوپر نقل کیا گیا ہے، اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا ہو:
من أٰذاھم فقد أٰذانی ومن أٰذانی فقد أٰذی اللّٰہ، ومن أٰذی اللّٰہ فیوشک أن یأخذہ
’’جس نے ان کو ایذادی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذادی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑلے‘‘۔
اوریہی وجہ ہے کہ تمام فرقِ باطلہ کے مقابلہ میں اہل حق کا امتیازی نشان صحابہ کرامؓ کی عظمت ومحبت رہا ہے، تمام اہل حق نے اپنے عقائد میں اس بات کو اجماعی طور پر شامل کیا ہے کہ:
ونکف عن ذکر الصحابۃؓ إلا بخیر
’’اور ہم صحابہؓکا ذکر بھلائی کے سوا کسی اور طرح کرنے سے زبان بند رکھیں گے‘‘۔
گویا اہل حق اور اہل باطل کے درمیان امتیاز کا معیار صحابہ کرامؓ کا ’’ذکر بالخیر‘‘ ہے۔ جو شخص ان حضرات کی غلطیاں چھانٹتا ہو، ان کو موردِ الزام قرار دیتا ہو، اور ان پر سنگین اتہامات کی فردِ جرم عائد کرتا ہو، وہ اہل حق میں شامل نہیں ہے۔
تاریخی روایات اورتجزیات کی بنیاد پر صحابہ کرام پرتنقید
جو حضرات اپنے خیال میں بڑی نیک نیتی، اخلاص اور بقول ان کے وقت کے اہم ترین تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قبائح صحابہؓ کو ایک مرتب فلسفہ کی شکل میں پیش کرتے ہیں اور اسے ’’تحقیق‘‘ کا نام دیتے ہیں، انہیں اس کا احساس ہو یا نہ ہو، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تسوید ِاوراق کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ جدید نسل کو دین کے نام پر دین سے بیزار کر دیا جائے اور ہر ایرے غیرے کو صحابہ کرامؓ پر تنقید کی کھلی چھٹی دے دی جائے، جنہیں نہ علم ہے نہ عقل، نہ فہم ہے نہ فراست۔ اور یہ نرا اندیشہ ہی اندیشہ نہیں، بلکہ کھلی آنکھوں اس کا مشاہدہ ہونے لگا ہے، الأمان والحفیظ۔
کہا جاتا ہے کہ: ’’ہم نے کوئی نئی بات نہیں کہی، بلکہ تاریخ کی کتابوں میں یہ سارا مواد موجود تھا۔ ہمارا قصور صرف یہ ہے کہ ہم نے اُسے جمع کردیا ہے۔‘‘ افسوس ہے کہ یہ عذرپیش کرتے ہوئے بہت سی اصولی اور بنیادی باتوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، ورنہ بادنیٰ تأمل واضح ہوجاتا کہ صرف اتنا عذر طعنِ صحابہؓ کی وعید سے بچنے کے لیے کافی نہیں، اور نہ وہ اتنی بات کہہ کر بری الذمہ ہوسکتے ہیں۔
تاریخ اور صحابہ کرام:تاریخ اور احادیث کے معیار میں بنیادی فرق
اولاً:قرآن کریم کی نصوصِ قطعیہ، احادیث ثابتہ اور اہل حق کا اجماع‘ صحابہؓ کی عیب چینی کی ممانعت پر متفق ہیں، ان قطعیات کے مقابلہ میں ان تاریخی قصہ کہانیوں کا سرے سے کوئی وزن ہی نہیں۔ تاریخ کا موضوع ہی ایسا ہے کہ اس میں تمام رطب ویابس اور صحیح وسقیم چیزیں جمع کی جاتی ہیں، صحت کا جو معیار ’’حدیث‘‘ میں قائم رکھا گیا ہے، تاریخ میں وہ معیار نہ قائم رہ سکتا تھا، نہ اُسے قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اس لیے حضراتِ محدثین نے ان کی صحت کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیا ہے ،حافظ عراقیؒ فرماتے ہیں:
ولیعلم الطالب أن السیر
یجمع ماقد صح وما قد أنکرا
’’یعنی علم تاریخ وسیر صحیح اور منکرسب کو جمع کر لیتا ہے‘‘۔
ا ب جو شخص کسی خاص مدعا کو ثابت کرنے کے لیے تاریخی مواد کو کھنگال کر تاریخی روایات سے استدلال کرنا چاہتا ہے، اُسے عقل وشرع کے تمام تقاضوں کو نظر اندا زکرتے ہوئے صرف یہ دیکھ لینا کافی نہیں ہے کہ یہ روایت فلاں فلاں تاریخ میں لکھی ہے، بلکہ جس طرح وہ یہ سوچتا ہے کہ یہ روایت اس کے مقصد ومدعا کے لیے مفید ہے یا نہیں؟ اسی طرح اسے اس پر بھی غور کرلینا چاہیے کہ کیا یہ روایت شریعت یا عقل سے متصادم تو نہیں؟ اس اصول کی وضاحت کے لیے یہاں صرف ایک مثال کا پیش کرنا کافی ہوگا۔
آپ’’خلیفہ راشد‘‘ اسے کہتے ہیں جو ٹھیک ٹھیک منہاجِ نبوت پر قائم ہو اور اس کا کوئی عمل اور کوئی فیصلہ منہاجِ نبوت کے اعلیٰ معیار سے ہٹا ہوا نہ ہو، اب آپ ایک صحابیؓ کوخلیفہ راشد تسلیم کرتے ہوئے اس پر یہ الزام عائد کرتے کہ انہوںنے بلا کسی استحقاق کے مالِ غنیمت کا پورا خمس (۵ لاکھ دینار) اپنے فلاں رشتہ دار کو بخش دیاتھا۔ سوال یہ ہے کہ ’’خلافت راشدہ‘‘ اور منہاجِ نبوت یہی ہے جس کی تصویر اس افسانے میں دکھائی گئی ہے؟ اور آج کے ماحول میں اس روایت کو من وعن تسلیم کرنے سے کیا یہ ذہن نہیں بنے گا کہ خلافتِ راشدہ کا معیار بھی آج کے جائر حکمرانوں سے کچھ زیادہ بلند نہیں ہوگا جو اپنے رشتہ داروں کو روٹ پر مٹ اور امپورٹ لائسنس مرحمت فرماتے ہیں؟ اسی پر ان دوسرے الزامات کو قیاس کرلیجئے جوبڑی شانِ تحقیق سے عائد کیے گئے ہیں۔
صحابہ کرام کے خلاف دنیا کی انوکھی عدالت :وکیل صفائی یا وکیل استغاثہ!
ثانیاً:یہ تاریخی روایات آج یکایک نہیں ابھرآئی ہیں، بلکہ اکابر اہلِ حق کے سامنے یہ سارا کچھ موجود رہا ہے اور وہ اس کی مناسب تاویل وتوجیہ کر چکے ہیں، جس سے معلوم ہوا کہ ان تاریخی واقعات کو بڑی آسانی سے کسی اچھے محمل پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ اب ایک شخص اٹھتا ہے اور ’’بے لاگ تحقیق‘‘ کے شوق میں ان کے ایسے محمل تلاش کرتا ہے جس سے صحابہ کرامؓ کی صریح تنقیص اور ان کی سیرت وکردار کی گراوٹ مفہوم ہوتی ہے، کیا اس کے بارے میں یہ حسن ظن رکھا جائے کہ صحابہ کرامؓ کے بارے میں وہ’’حسن ظن‘‘ رکھتا ہے؟
اور عجیب بات یہ کہ جب اس کے سامنے اکابر اہل حق کے طرزِ تحقیق کا حوالہ دیا جاتا ہے تو ان حضرات کو ’’وکیل صفائی‘‘ کہہ کر ان کی تحقیقات کو قابلِ التفات نہیں سمجھتا، غالباًیہ دنیا کی نرالی عدالت ہے جس میں ’’وکیل استغاثہ‘‘ کے بیان پر یک طرفہ فیصلہ دیا جائے اور ’’وکیل صفائی‘‘ کے بیانات کو اس جرم میں نظر انداز کر دیا جائے کہ وہ کسی مظلوم کی طرف سے صفائی کا وکیل بن کر کیوں کھڑا ہوگیا ہے؟۔ اوپر قرآن وسنت کی جن نصوص کا حوالہ دیا گیا اور اہل حق کے جس اجماعی فیصلہ کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوگا کہ صرف حافظ ابن تیمیہؒ اور شاہ عبدالعزیزؒ ہی نہیں، بلکہ خداورسول اور پوری امت کے اہل حق‘ صحابہ کرامؓ کے ’’وکیل صفائی‘‘ ہیں۔ اب یہ فیصلہ کرنا ہر شخص کی اپنی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ وکیل صفائی کی صف میں شامل ہونا پسند کرتا ہے یا وکیل استغاثہ کی صف میں۔
صحابہ کرام کے خلاف ’’تاریخ سازی ‘‘
ثالثاً: ان تاریخی روایات کے متفرق جزئی واقعات کو چن چن کر جمع کرنا، انہیں ایک مربوط فلسفہ بنا ڈالنا، جزئیات سے کلیات اخذ کرلینا اور ان پر ایسے جلی اور چبھتے ہوئے عنوانات جمانا، جنہیں آج کی چودھویں صدی کا فاسق سے فاسق بھی اپنی طرف منسوب کر نا پسند نہیں کرے گا، یہ نہ تو دین وملت کی کوئی خدمت ہے، نہ اسے اسلامی تاریخ کا صحیح مطالعہ کہا جاسکتا ہے، البتہ اسے ’’تاریخ سازی‘‘ کہنا بجا ہوگا۔ بقول سعدیؒ :’’ و لیکن قلم در کفِ دشمن است ‘‘۔
میں پوچھتا ہوں، کیا کوئی ادنیٰ مسلمان اپنے بارے میں یہ سننا پسند کرے گا کہ اس نے خدائی دستور کو بدل ڈالا؟ اس نے بیت المال کو گھرکی لونڈی بنالیا؟ اس نے مسلمانوں سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی آزادی سلب کر لی؟ اس نے عدل وانصاف کی مٹی پلید کر ڈالی؟ اس نے دیدہ ودانستہ نصوصِ قطعیہ سے سرتابی کی؟اس نے خدائی قانون کی بالادستی کا خاتمہ کر ڈالا؟اس نے اقرباپروری وخویش نوازی کے ذریعہ لوگوں کی حق تلفی کی؟
کیا کوئی معمولی قسم کا متقی اور پرہیزگار آدمی ان جگر پاش اتہامات کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرے گا؟اگر نہیں… اوریقینا نہیں…تو کیا صحابہ کرامؓ ہم نالائقوں سے بھی گئے گزرے ہوگئے؟ کہ ایک دو نہیں، بلکہ مثالب وقبائح اور اخلاقی گراوٹ کی ایک طویل فہرست ان کے نام جڑدی جائے، پھر بے لاگ تحقیق کے نام سے اسے اچھالا جائے اور روکنے اور ٹوکنے کے باوجود اس پر اصرار کیا جائے۔
کیا صحابہ کرامؓ کی عزت وحرمت یہی ہے؟ کیا اسی کا نام صحابہؓ کا ’’ذکر بالخیر‘‘ ہے ؟ کیا رسول اللہ ﷺ کے معزز صحابہؓ اسی احترام کے مستحق ہیں؟ کیا ایمانی غیرت کا یہی تقاضا ہے؟ کیا مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بھول جانا چاہیے؟
’’جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہؓ کو برابھلا کہتے ہیں تو ان کے جواب میں یہ کہو: تم میں سے (یعنی صحابہ کرامؓ اور ان کے ناقدین میں سے) جو برا ہو اس پر اللہ کی لعنت!‘‘ (ترمذی)۔
خلاصہ کلام
آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ بعد کی امت کے لیے حق وباطل کا معیار ہیں، اُنہیں معیتِ نبوی کا جو شرف حاصل ہوا، اس کے مقابلہ میں کوئی بڑی سے بڑی فضیلت ایک جَوکے برابر بھی نہیں، کسی بڑے سے بڑے ولی اور قطب کوان کی خاکِ پابننے کا شرف حاصل ہوجائے تو اس کے لیے مایۂ صد افتخار ہے، اس لیے امت کے کسی فرد کا… خواہ وہ اپنی جگہ مفکرِ دوران اور علامۂ زماں ہی کہلواتاہو… ان پر تنقید کرنا قلبی زیغ کی علامت ہے،ایاز! قدرِ خویش بشناس! یہ دنیا حق وباطل کی آماجگاہ ہے ،یہاں باطل حق کا لبادہ اوڑھ کر آتا ہے ، بسا اوقات ایک آدمی اپنے غلط نظریات کو صحیح سمجھ کر ان سے چمٹا رہتا ہے جس سے رفتہ رفتہ اس کے ذہن میں کجی آجاتی ہے اوربالآخر اس سے صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط سمجھنے کی استعداد ہی سلب ہوجاتی ہے اوریہ بڑی خطرناک بات ہے ، اہل حق وتحقیق کی یہ شان نہیں کہ وہ ’’میں یہ سمجھتا ہوں‘‘کی برخود غلط فہمی میں مبتلا ہوں اور جب انہیں اخلاص وخیر خواہی سے تنبیہ کی جائے تو تاویلات کا ’’ضمیمہ‘‘لگانے بیٹھ جائیں ، اہل حق کی شان تو یہ ہے کہ اگر ان کے قلم وزبان سے سے کوئی نامناسب لفظ نکل جائے تو تنبیہ کے بعد فورا حق کی طرف پلٹ آئیں ، حق تعالی جل ذکرہ ہمیں اور ہمارے تمام مسلمان بھائیوں کو ہر زیغ وضلال سے محفوظ فرمائے اوراتباع حق کی توفیق بخشے ۔
ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ ھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ إنک أنت الوھاب ، وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ صفوۃ البریۃ محمد وعلی الہ وأصحابہ وأتباعہ أجمعین ، آمین
حاشیہ(۱): اس اصول کے علاوہ جو مولانا محترم (حضرت بنوریؒ) مدفیضہم نے اس حدیث سے مستنبط کیا ہے، اس حدیث پاک کے مفہوم ومنطوق سے کئی اور اہم مسائل بھی مستنبط ہوتے ہیں، مختصراً ان کی طرف اشارہ کر دینا مفید ہوگا۔
۱:…حدیث میں ’’سَبَّ‘‘ سے بازاری گالیاں دینا مراد نہیں، بلکہ ہر ایسا تنقیدی کلمہ مرادہے جو ان حضرات کے استخفاف میں کہاجائے، اس سے معلوم ہوا کہ صحابہؓ پر تنقید اور نکتہ چینی جائز نہیں، بلکہ وہ قائل کے ملعون ومطرود ہونے کی دلیل ہے۔
۲:…آنحضرت ﷺ کے قلبِ اطہر کو اس سے ایذا ہوتی ہے (وقد صرح بہ بقولہ فمن أٰذاھم فقد أٰذانی) اور آپ ﷺ کے قلبِ اطہر کو ایذادینے میں حبطِ اعمال کا خطرہ ہے، لقولہ تعالٰی: ’’أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لَاتَشْعُرُوْنَ‘‘۔
۳:…صحابہ کرامؓ کی مدافعت کرنا اور ناقدین کو جواب دینا ملتِ اسلامیہ کا فرض ہے ’’فإن الأمرللوجوب‘‘۔
۴:…آنحضرت ﷺ نے یہ نہیںفرمایا کہ ناقدین صحابہؓ کو ایک ایک بات کا تفصیلی جواب دیا جائے، کیونکہ اس سے جواب اور جواب الجواب کا ایک غیر مختتم سلسلہ چل نکلے گا، بلکہ یہ تلقین فرمائی کہ انہیں بس اصولی اور فیصلہ کن جواب دیا جائے اور وہ ہے:’’ لعنۃ اللّٰہ علی شرکم‘‘۔
۵:…’’شرکم‘‘ اسم تفضیل کا صیغہ ہے جو مشاکلت کے طور پر استعمال ہوا ہے، اس میں آنحضرت ﷺ نے ناقدین صحابہؓ کے لیے ایسا کنا یہ استعمال فرمایا ہے کہ اگر وہ اس پر غور کریں تو ہمیشہ کے لیے تنقیدِ صحابہؓ کے روگ کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ خلاصہ اس کایہ ہے کہ اتنی بات تو بالکل کھلی ہے کہ صحابہؓ کیسے ہی ہوں، مگر تم سے تو اچھے ہی ہوں گے، تم ہوا پر اُڑلو، آسمان پر پہنچ جاؤ، سوبار مرکرجی لو، مگر تم سے صحابیؓ تو نہیں بنا جاسکے گا، تم آخر وہ آنکھ کہاں سے لاؤ گے جس نے جمالِ جہاں آرائے محمد(ﷺ) کا دیدار کیا؟ وہ کان کہاں سے لاؤ گے جو کلماتِ نبوت سے مشرف ہوئے ؟ ہاں وہ دل کہاں سے لاؤ گے جو انفاسِ مسیحائی محمدی سے زندہ ہوئے؟ وہ دماغ کہاں سے لاؤ گے جو انوارِ مقدس سے منور ہوئے؟ تم وہ ہاتھ کہاں سے لاؤ گے جو ایک بار بشرۂ محمدی سے مس ہوئے اور ساری عمراُن کی بوئے عنبریں نہیں گئی؟ تم وہ پاؤں کہاں سے لاؤ گے جو معیتِ محمدی میں آبلہ پا ہوئے؟ تم وہ زمان کہاں سے لاؤ گے جب آسمان زمین پر اترآیا تھا؟ تم وہ مکان کہاں سے لاؤ گے جہاں کو نین کی سیادت جلوہ آرا تھی؟ تم وہ محفل کہاں سے لاؤ گے جہاں سعادتِ دارین کی شرابِ طہور کے جام بھر بھردیتے جاتے اور تشنہ کا ’’مان محبت‘‘ ’’ہل من مزید‘‘ کا نعرہ مستانہ لگا رہے تھے؟تم وہ منظر کہاں سے لاؤ گے جو’’کأنی أری اللّٰہ عیاناً ‘‘کا کیف پیدا کرتا تھا؟ تم وہ مجلس کہاں سے لاؤگے جہاں’’ کأنما علی رؤسنا الطیر‘‘ کا سماں بندھ جاتاتھا؟ تم وہ صدرنشینِ تختِ رسالت کہاں سے لاؤ گے جس کی طرف ’’ھذا الأبیض المتکیٔ ‘‘سے اشارے کئے جاتے تھے؟ تم وہ شمیمِ عنبر کہاں سے لاؤ گے جو دیدارِ محبوب میں خوابِ نیم شبی کو حرام کردیتی تھی؟ تم وہ ایمان کہاں سے لاؤ گے جو ساری دنیا کو تج کر حاصل کیا جاتا تھا؟ تم وہ اعمال کہاں سے لاؤ گے جو پیمانۂ نبوت سے ناپ ناپ کر اداکیے جاتے تھے؟ تم وہ اخلاق کہاں سے لاؤ گے جو آئینۂ محمدی سامنے رکھ کر سنوارے جاتے تھے؟ تم وہ رنگ کہاں سے لاؤ گے جو ’’صبغۃ اللّٰہ‘‘ کی بھٹی میں دیا جاتاتھا؟تم وہ ادائیں کہاں سے لاؤ گے جو دیکھنے والوں کو نیم بسمل بنا دیتی تھیں؟ تم وہ نماز کہاں سے لاؤ گے جس کے امام نبیوں کے امام تھے؟ تم قدوسیوں کی وہ جماعت کیسے بن سکو گے جس کے سردار رسولوں کے سردار تھے؟
تم میرے صحابہؓ کو لاکھ برا کہو، مگر اپنے ضمیر کادامن جھنجھوڑ کر بتاؤ! اگر ان تمام سعادتوں کے بعد بھی میرے صحابہؓ برے ہیں تو کیا تم ان سے بدتر نہیں ہو؟ اگر وہ تنقید وملامت کے مستحق ہیں تو کیا تم لعنت وغضب کے مستحق نہیں ہو؟ اگر تم میرے صحابہؓ کو بدنام کرتے ہو تو کیا میرا خدا تمہیں سرِمحشر سب کے سامنے رسوا نہیں کرے گا؟ اگر تم میں انصاف وحیا کی کوئی رمق باقی ہے تو اپنے گریبان میں جھانکو اور میرے صحابہؓ کے بارے میں زبان بند کرو اور اگر تمہارا ضمیر بالکل مسخ ہوچکا ہے تو بھری دنیا یہ فیصلہ کرے گی کہ میرے صحابہؓ پر تنقید کا حق ان کپوتوں کو حاصل ہونا چاہیے؟
علامہ طیبیؒ نے اسی حدیث کی شرح میں حضرت حسانؓ کا ایک عجیب شعر نقل کیا ہے:
أتھجوہ ولست لہ‘ بکفوءفشرکما لخیرکما فداء
ترجمہ:’’کیا تو آپ (ﷺ) کی ہجو کرتاہے جب کہ تو آپ (ﷺ) کے برابر کانہیں ہے؟ پس تم دونوں میں بدتر تمہارے بہتر پرقربان‘‘۔
۶:…حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تنقیدِ صحابہؓ کا منشأناقد کا نفسیاتی شر اور خبث وتکبر ہے، آپ جب کسی شخص کے طرزِ عمل پر تنقید کرتے ہیں تو اس کا منشأیہ ہوتا ہے کہ کسی صفت میں وہ آپ کے نزدیک خود آپ کی اپنی ذات سے فروتراور گھٹیا ہے ، جب کوئی شخص کسی صحابیؓ کے بارے میں مثلاً یہ کہے گا کہ اس نے عدل وانصاف کے تقاضوں کو کما حقہٗ ادا نہیں کیا تھا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اگر اس صحابیؓ کی جگہ یہ صاحب ہوتے تو عدل وانصاف کے تقاضوں کو زیادہ بہتر ادا کرتے، گویا ان میں صحابیؓ سے بڑھ کر صفتِ عدل موجود ہے، یہ ہے تکبر کا وہ’’شر‘‘ اور نفس کا وہ ’’خبث‘‘ جو تنقید صحابہؓ پر ابھارتا ہے اور آنحضرت ﷺ اسی ’’شر‘‘ کی اصلاح اس حدیث میں فرمانا چاہتے ہیں۔
۷:…حدیث میں بحث ومجادلہ کا ادب بھی بتایاگیا ہے، یعنی خصم کو براہِ راست خطاب کرتے ہوئے یہ نہ کہا جائے کہ: تم پر لعنت! بلکہ یوں کہاجائے کہ تم دونوں میں جوبرا ہواس پر لعنت!ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسی منصفانہ بات ہے جس پر سب کو متفق ہونا چاہیے، اس میں کسی کے برہم ہونے کی گنجائش نہیں، اب رہا یہ قصہ کہ ’’تم دونوں میں برا‘‘ کا مصداق کون ہے؟خود ناقد؟یا جس پر وہ تنقید کرتا ہے؟ اس کا فیصلہ کوئی مشکل نہیں، دونوں کے مجموعی حالات سامنے رکھ کر ہر معمولی عقل کا آدمی یہ نتیجہ آسانی سے نکال سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا صحابیؓ برا ہوسکتا ہے یا اس کا خوش فہم ناقد؟
۸:…حدیث میں’’فقولوا‘‘ کاخطاب امت سے ہے، گویا ناقدین صحابہؓ کو آنحضرت ﷺاپنی امت نہیں سمجھتے، بلکہ انہیں امت کے مقابل فریق کی حیثیت سے کھڑا کرتے ہیں او ریہ ناقدین کے لیے شدید وعید ہے، جیسا کہ بعض دوسرے معاصی پر ’’فلیس منا‘‘ کی وعید سنائی گئی ہے۔
۹:…حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کو جس طرح ناموسِ شریعت کا اہتمام تھا، اسی طرح ناموسِ صحابہؓ کی حفاظت کا بھی اہتمام تھا، کیونکہ ان ہی پر سارے دین کامدار ہے۔
۱۰:…حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ناقدینِ صحابہؓکی جماعت بھی ان ’’مارقین‘‘ سے ہے جن سے جہاد باللسان کا حکم امت کو دیا گیا ہے، یہ مضمون کئی احادیث میں صراحۃً بھی آرہا ہے، واللہ اعلم بالصواب۔انتہیٰ (مدیر:مولانا محمد یوسف لدھیانوی)۔
یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
بہت اعلیٰ ماشاءاللہ