آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی: تاثرات مفتی محمد تقی عثمانی، ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، ڈاکٹر عبد الحلیم چشتی مدظلہم

تاثرات: حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرّزاق اسکندر صاحب زید مجدہ

(مہتمم جامعہ عُلوم اِسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی)
صدر وِفاق المدارس العربیّہ پاکستان،امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت

الحمد للہ وحدہ والصّلوٰۃ والسّلام علیٰ من لا نبی بعدہ ، أمّا بعد :

قرآن کریم اللہ تعالی کا معجز کلام ہے ،اس کے معانی ومطالب کے حقائق واسرار تک رسائی کا سفر ختم نہ ہونے والا سفر ہے ، روزِ اول سے تاحال یہ سفر جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا، اس راہ میں جتنی بھی کوششیں کی جائیں اسے حتمی کوشش نہیں کہا جاسکتا ، البتہ قرآنی حقائق واسرار کی تفہیم وتسہیل کے لیے بہترسے بہتر کی کوشش کرتے رہنا بھی خود قرآن کریم کا اعجاز ہے ، جس کا اردوزبان میں  بہترین مظہر حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی ’’بیان القرآن‘‘ اور علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی ’’تفسیر عثمانی‘‘ بھی ہیں ، جنہیں ندرت بیانی ، جامعیت اور اختصار میں انفرادی مقام حاصل ہے ۔

ان دونوں تفسیروں کا امتیازی مقام اس امرسے بھی واضح ہے کہ اردو زبان میں ہونے کے باوجود اردو زبان میں مخدوم تفسیریں چلی آرہی ہیں ، ان دونوں تفسیروں کی اردو زبان میں خدمت کی نئی کاوش ہماری جامعہ کے استاذ عزیزم مولانا محمد عمر انور بن مولانا محمد انور بدخشانی -سلّمہما -نے انجام دی ہے ، اس کام کا تعارف ابتدایے میں موجود ہے ، اہل علم کی توثیقی وتوصیفی تحریریں بھی سامنے ہیں ، میں دعا گوہوں کہ اللہ تعالی اس کاوش کو قبولیت تامہ اور مقبولیت عامہ نصیب فرمائے اور جامع ومرتب کو اس طرح کے علمی کاموں کے لیے توفیق مزید سے نوازے ، آمین ، وماذلک علی اللہ بعزیز۔

وصلی اللہ وسلم علی المرسلین وعلی آله وصحبه أجمعین

فقط والسلام
عبد الرزاق اسکندر
۲۲ربیع الاول ۱۴۴۱ھ

تاثرات: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہ

(نائب رئیس وشیخ الحدیث جامعہ دارالعلوم کراچی)

الحمد للہ رب العالمین ، والصلوۃ والسلام علی سیدنا ومولانا محمد خاتم النبیین ، وعلی آله و أصحابه اجمعین ، وعلی کل من تبعھم بإحسان إلی یوم الدین ، أمّا بعد :

اردو تفاسیر میں حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’بیان القرآن‘‘ اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’تفسیر عثمانی‘‘ کی افادیت محتاج بیان نہیں ، لیکن آج کل لوگوں کی اردو اور عالمانہ زبان کی استعداد اتنی پست ہوگئی ہے کہ ان تفسیروں سے استفادہ مشکل ہوگیا ہے ، یا ان کے علمی انداز بیان کی وجہ سے یا ان کی ترتیب کی بنا پر ۔

عزیز گرامی مولانا عمر انور بدخشانی (استاذ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن ) حفظہ اللہ نے بڑی محنت سے ان دونوں تفسیروں کو اس طرح جمع فرمایا ہے کہ آج کے عام آدمی کے لیے ان سے استفادہ آسان ہوگیا ہے ، ’’بیان القرآن میں جو دقیق علمی اصطلاحات تھیں ان کو آسان کرکے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،اور ’’تفسیر عثمانی‘‘ کو اس ترتیب کے ساتھ جمع کیا گیا ہے کہ اس سے مسلسل استفادہ آسان ہوگیا ہے ۔

بندہ نے اس کتاب کا جستہ جستہ مطالعہ کیا اورالحمد للہ مفید پایا، دل سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تبارک وتعالی اس کام کو اپنی بارگاہ میں شرف قبول عطا فرمائے اور خواص وعوام کے لیے نافع ثابت ہو، آمین۔

بندہ: محمد تقی عثمانی
۲۹صفر ۱۴۴۱ھ

تاثرات:حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی صاحب زید مجدہ

(شاگرد رشید:شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ)
رئیس شعبہ تخصص علوم حدیث : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

الحمد للہ رب العالمین ، والعاقبة للمتقین، أمّا بعد :

اللہ تبارک وتعالی اپنا خاص فضل جس پر فرماتے ہیں اسے قرآن وحدیث کی خدمت کے لیے چن لیتے ہیں ، قرآن کریم کی جس انداز سے بھی خدمت کی جائے بہت بڑی سعادت کی بات ہے ، حضرت شیخ الہندرحمہ اللہ آخری دور میں اس بات پر زور دیا کرتے تھے کہ جیل میں رہ کر یہ بات سمجھ میں آئی کہ مسلمانوں کے زوال کے اسباب میں سے ایک سبب قرآن سے دوری بھی ہے ، اسی فکر میں انہوںنے قرآن کریم کا ترجمہ کیا اوراپنے شاگردوں کو اس کی ترغیب بھی دی ۔

زیر نظر کتاب انہی کے ترجمہ قرآن کی خدمت ہے جس میں مرتب کتاب نے حضرت شیخ الہند ؒ کے ترجمہ قرآن ، مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر (بیان القرآن) اور حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کے فوائد تفسیریہ کی جمع وترتیب کی ہے ، البتہ تسہیل کا کام صرف ’’بیان القرآن ‘‘ سے متعلق ہے ، ’’بیان القرآن‘‘ چونکہ حضرت تھانویؒ نے خواص کے لیے لکھی تھی ، اس لحاظ سے انہوں نے اس کی تعبیرات بھی علمی اختیار کی تھیں ، چنانچہ ’’بیان القرآن‘‘ کا ایک حصہ تو وہ ہے جو خالص عربی زبان میں ہے ، جس سے فائدہ اہل علم تو اٹھا سکتے ہیں عام اردو خواں نہیں ، جب کہ دوسرا حصہ اردو زبان میں ہے ، البتہ اس کی تعبیر علمی ہے ، مرتب نے اس دوسرے حصے کی تسہیل کا کام سر انجام دیا ہے ، جبکہ پہلا حصہ انہوں نے حذف کردیا ہے ، البتہ تفسیر عثمانی کی تمام عبارات من وعن نقل کی ہیں ۔

مرتب کے مذکورہ منہج کا خلاصہ درج ذیل ہے :
۱-آیات قرآنیہ کے ذیل میں ترجمہ حضرت شیخ الہندؒ اوراس کے ذیل میں ’’خلاصہ تفسیر‘‘ کے عنوان سے تفسیر’’بیان القرآن ‘‘ کو ذکر کیا ہے ۔
۲-بیان القرآن کے بعدسرخ امتیازی لکیر ڈال کر ہر آیت کے ذیل میں حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے فوائد تفسیر کو ذکر کیا ہے ۔
۳-مؤلف کے اس طرز عمل سے تفسیر عثمانی اور تفسیر بیان القرآن یکجا ہوگئے ، گویا کہ مرتب نے علماء دیوبند میں سے دو بڑے علماء کے تفسیری نکات کو جمع کرکے دار العلوم دیوبند کی تفسیری خدمات کو اجاگر کیا ہے ۔
۴-نیز عام طور پر طلبہ کرام بیان القرآن یا تفسیر عثمانی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے اپنا مطالعہ اس ایک حد تک محدود کرتے ہیں ،مرتب کی اس کاوش سے اب طلبہ کے لیے دونوں تفسیروں کو بیک وقت پڑھنا آسان ہوگا۔

مرتب حفظہ اللہ ایک باذوق اور سلیقہ مند شخصیت ہیں اس لیے انہوں نے کتاب کی تسہیل میں بقدر وسعت خوب کوشش کی ہے ، تفسیر چونکہ خواص کے لیے ہے ،خصوصا طلبہ مدارس کے لیے ، اس لیے طلبہ کو اس کتاب سے استفادہ کرنا آسان ہوگا۔

اللہ تبارک وتعالی موصوف کی اس سعی کو قبول فرمائے ،اور ان کی کتاب کو طلبہ دین کے لیے نافع بنائے ، موصوف اور ان کے والدین کے لیے ذخیرہ آخرت بنائے اور ان کو مزید کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔

وصلی اللہ وسلم علی سید المرسلین وعلی آله وصحبه وأمته أجمعین

د-محمد عبد الحلیم چشتی
۷؍ربیع الثانی ۱۴۴۱ھ

تاثرات: حضرت مولانا محمد انوربدخشانی صاحب زید مجدہ

(شاگرد رشید محدث العصر حضرت بنوریؒ – اُستاذ حدیث جامعہ عُلوم اِسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی)

نحـمدہ ونُصلِّی ونُسـلِّم عـلیٰ رسـوله الکـریم ، أمّا بعد :

حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی تفسیر بیان القرآن اردو تفاسیر میں نمایاں اور امتیازی شان رکھتی ہے ، کلامی ، اصولی ، فروعی اورسلوکی مسائل اورجدید عصری شبہات جیسے بڑے مباحث کو لطافت اور ندرت کے ساتھ مختصر الفاظ میں جس انداز سے جمع کرنے کی حضرت نے کوشش فرمائی ہے ، یہ علمی اور معنوی گہرائی اردو کی کسی اور تفسیر میں شاید ہی ملے ، تفسیر قرآن کے دوران متعلقہ مباحث کی ہمہ گیری اور فنی وعلمی آراستگی کا امتیاز بھی حضرت ہی کا خاصہ ہے ، چنانچہ بعض اہل علم کا یہ تبصرہ ہے کہ بیان القرآن اردو زبان کی تفسیر جلالین ہے، اسی لیے بیان القرآن کو پختہ اورٹھوس علماء کے استفادے کی تفسیر قرار دیا جاتا ہے ، اسے سمجھنے اورسمجھانے کے لیے پختہ علم اور وسیع مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے،اس تفسیر پر کام کرنے کے لیے علامہ شبیر احمد عثمانی، مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع،حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی اور مولانا عبد الماجد دریاآبادی رحمہم اللہ جیسے لوگ سامنے آئے تھے اورانہوں نے اپنے ادوار اوراپنے انداز میں حضرت تھانویؒ کی بیان القرآن کی تفہیم ، تسہیل اور تعبیر نو کا کام کیا تھا جس میں سے ہر کام اپنی جگہ عظیم تر ہونے کے باوجود دوسرے سے مستغنی نہیں کرتا ، اس بنا پر بیان القرآن کی اس جلالت شان کو دیکھتے ہوئے مجھے ذاتی ، اصولی اور فنی لحاظ سے یہ تردد تھا کہ اس عظیم المرتبت تفسیری خدمت کے لیے فرزند عزیز مولوی عمر انور سلمہ کا کمر بستہ ہونا اوریہ کام انجام دینا شاید مشکل نہ ہو ، اسی وجہ سے تاثرات رقم کرنے کے لیے عزیزم کی فرمائش پوری کرنے میں بھی مجھے قدرے تامل رہا ، اس تامل سے خلاصی کے تین اسباب سامنے آئے جس کے نتیجے میں یہ سطور رقم کررہا ہوں :

۱-اللہ تعالی کے فضل وکرم سے قرآن کریم کی تفسیری خدمت میرا اپنا شغف اور شوق بھی ہے ، عزیزم کے اس کام سے ان کے قرآن کریم کے ساتھ شوق وشغف کا اندازہ ہوا جو کہ قابل تشجیع ہے ۔

۲-عزیزم موصوف نے تفسیر قرآن جیسے نازک موضوع پر عصری آزادانہ محنت کے بجائے اکابر واسلاف کی تفسیری کاوشوں سے اپنا رشتہ اور تعلق جوڑنے کا مظاہرہ کیا جسے تفسیر قرآن کے میدان میں اتباع سلف کا شوق اور التزام سمجھتا ہوں، عصرحاضر میں اتباع سلف کا یہ التزام یقینا باعث سعادت ہے ۔

۳-عزیزم مرتب کے کام اوریہ تاثرات رقم کرنے پر سب سے زیادہ جس چیز نے مجھے آمادہ کیا وہ یہ کہ موصوف نے تفسیری افادات کے جمع کرنے میں ابتداع کے بجائے نقل واتباع پر ہی اکتفا کیا ہے اور اس ترتیب نومیں بیان القرآن اورتفسیر عثمانی کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی ہے ، بحیثیت والد اور استاذ اگرچہ مجھے عزیزم مولوی عمر انور سلمہ کے فہم وذکاء پر کافی حد تک اطمینان ہے اور عزیز موصوف کے اساتذہ کرام بھی ان کے بارے میں حسن ظن اورحسن رائے رکھتے ہیں مگراس کے باوجود عزیزم کے کام میں علم تفسیر کی نزاکت کا کتنا لحاظ ہوپایا ہے ،مزید بہتری کی کتنی گنجائش ہے یہ موضوع اس میدان کے اہل علم کے سپرد کرتا ہوں ، والد ہونے کی حیثیت سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا ، البتہ اس مجموعہ تفسیر کے جائزے سے درجہ ذیل باتوں نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا :

۱- پہلی بات کہ یہ مجموعہ صرف تین جلدوں میں اردو زبان کی دو اہم اورمستند تفسیروں بیان القرآن اور تفسیر عثمانی پر مشتمل ہے ۔

۲-دوسری بات یہ کہ اس میں شیخ الہندحضرت مولانامحمود حسنؒ کا ترجمہ قرآن بھی مکمل شامل ہے ، اورخلاصہ تفسیر میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا ترجمہ قرآن بھی آگیا چنانچہ اب اس مجموعہ میں برصغیر کے دو مستند اوراہم ترجمہ وتفسیر شامل ہوگئے ۔

۳-تیسری اوراصل بات یہ کہ اس میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تفسیربیان القرآن کوآسان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے ، یہ کام وقت کی انتہائی اہم ضرورت تھی ، کیونکہ بیان القرآن جیسی گرانقدر علمی تفسیر سے کماحقہ استفادہ عوام تو عوام خواص  کے لیے بھی اب مشکل ہوتاجارہا ہے ، چنانچہ ہمارے مدارس کے فضلاء وطلبہ بھی اب اس تفسیرسے اجنبیت محسوس کرنے لگے ہیں ، تفسیر بیان القرآن ایک خاص حیثیت کی وجہ سےبھی اردو زبان کی دیگر تفسیروں میں نمایاں مقام رکھتی ہے کہ اس میں حضرت تھانوی ؒ نے تفسیر قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہوئے ذہن میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کو دور کرنے کا خاصا اہتمام کیا ہے ، اوران کا جواب اس قدرسلیس، مختصراورجامع دیتے ہیں کہ تمام شکوک کا بآسانی ازالہ ہوجاتاہے،اگرچہ اردو زبان کی دیگرتفسیروں میں اس موضوع پر کچھ موادتو ہے، مگراس کے باوجود عصرحاضر کے کلامی شبہات کے لیے وہ تفسیریں مکمل طور پر کفایت نہیں کرتی، اس لیے موجودہ علم کلام کے لیے حضرت تھانویؒ کی تفسیر بیان القرآن عظیم اہمیت کی حامل ہے جس میں اختصار وجامعیت کے ساتھ ساتھ مسلک سلف کی پوری پوری وکالت ہے اورکلام خداوندی قرآن مجید کے اوپر وارد شدہ شبہات کا تحقیقی جواب بھی دیا گیا ہے ۔

۴-چوتھی بات یہ کہ مرتب نے اس مجموعہ میں قرآن کریم کی دو تفسیروں کو ایک ساتھ جمع کردیا لیکن امتیاز وفصل کو بھی برقرار رکھا ، اور ساتھ ہی بیان القرآن کو آسان اردو میں ڈھالنے کی کوشش بھی فرمائی ہے،البتہ بیان القرآن اور تفسیر عثمانی کو یکجا شائع کرنے سے اگرچہ قارئین کو بہت سی جگہ تکرار محسوس ہوگا ،لیکن یہ تکرار بھی یقینا فائدہ سے خالی نہیں ،اوراسی وجہ سے اس مجموعہ کی افادیت مزید بڑھ گئی ،چنانچہ تفسیر قرآن کا مطالعہ کرنے والے قارئین کے لیے یہ سہولت اورآسانی ہوگئی کہ انہیں دو ترجمے اور دو تفسیریں مطالعہ میں ایک ساتھ مل جائیں گی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کی اس کو شش کو قبول فرمائے اور اس مجموعہ تفسیر کو قارئین کے لیے کلام الہی کے ساتھ ربط وتعلق ، عمل صالح اوراخروی نجات کا ذریعہ بنائے ، آمین۔

محمد انور بدخشانی
لیلۃ النصف من شعبان ۱۴۴۰ھ

تفسیر آسان بیان القرآن اردو زبان میں سننے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:

https://www.youtube.com/channel/UCjuGJYApb2zuFKO7U4lSlxQ

5,132 Views

One thought on “آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی: تاثرات مفتی محمد تقی عثمانی، ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، ڈاکٹر عبد الحلیم چشتی مدظلہم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!