شیخ اکبر ابن عربیؒ پر اِجراءِ نبوت کا اِلزام اور اس کا جواب (دوسری قسط) ، از مولانا محمد نافع رحمہ اللہ
شیخ اکبرابن عربی اور لا نبی بعدی کی تشریح
شیخ اکبرابن عربیؒ کی بعض عبارتیں موہم اور مجمل ہوتی ہیں ، ان کو مرزائی لے کر ساتھ کچھ حاشیہ آرائی کرکے اوراپنے مقصد کے موافق تشریح کرکے بڑے بڑے جلی عنوانوں سے اور موٹی سرخیوں سے پیش کرتے ہیں ، ان میں سے ایک حوالہ فتوحات مکیہ جلد دوم صفحہ ۳ ہے ، جس کو ’’الفضل‘‘ اوردوسرے صاحبان بھی مکرر سہ کرر پیش کررہے ہیں ، اس کی وضاحت مختصرا ضروری معلوم ہوتی ہے ۔
ھذا معنی قولہ ﷺ أن الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ، ولا نبی أی لا نبی بعدی یکون علی شرع یخالف شرعی بل إذا کان یکون تحت حکم شریعتی (فتوحات مکیہ ، ص۳، ج۲)۔
قادیانی کہتے ہیں اس حدیث کا ترجمہ وتشریح شیخ اکبر جو کررہے ہیں اس سے صاف مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے لانبی بعدی میں اس شریعت کے خلاف کوئی دوسری شریعت لانے والے نبی کی نفی کی ہے ، ہاں ایسا نبی جو اس شریعت کے تحت ہو وہ ہوسکتا ہے ، اور یہی اجرائے نبوت ہے اور کیا ہے ؟
ہم اس کے متعلق شیخ کی اس عبارت اور دوسری عبارات پر بھی نظر کرنے کے بعد پورے وثوق کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ شیخ نے یہ تشریح ہی نزول عیسی علیہ السلام کے پیش نظر کی ہے ، چونکہ شیخ آسمان سے نزول مسیح کے جمہور اہل اسلام کی طرح صحیح طور پر قائل ہیں ، اس وجہ سے حدیث :’’ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلارسول بعدی ولا نبی‘‘ کا مطلب ایسا بیان کررہے ہیں جس کی بنا پر قیامت سے قبل جو عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا اس کے متعلق کوئی اشتباہ کوئی اعتراض پیدا نہ کیا جاسکے ، مطلب یہ ہے کہ ’’لا رسول بعدی ولا نبی‘‘ کے ظاہری عموم سے یہ وہم ہوتا ہے کہ کسی قسم کا کوئی رسول نہیں آئے گا ، نہ نیا نہ پرانا، حالانکہ یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کے خلاف ہے ، تو اس وہم کو دور کیا گیا کہ جب وہ آئیں گے اس وقت کوئی اپنی شریعت پر الگ عمل درآمد نہیں کریں گے ،بلکہ اسی شریعت کی ترویج واشاعت کریں گے ۔
ناظرین کرام ! یاد رکھیں ہمارا یہ کہنا کہ شیخ بھی نزول مسیح کے جمہور کی طرح قائل ہیں اور مذکورہ حدیث کی تشریح بھی انہوں نے نزول مسیح کے پیش نظر ہی کی ہے ، کوئی دوسرا مطلب اس کا نہیں ہے ، اس کے متعلق شیخ اکبرؒ کی عبارت جو انہی صفحات پر درج ہے شاہد ہے ،عبارت ملاحظہ ہو:
وقد علمنا أن عیسی ینزل ولا بدمنہ مع کونہ رسولا ، ولکن لا یقول بشرع ،بل یحکم فینا بشرعنا ،فعلمنا أنہ أراد بانقطاع الرسالۃ و النبوۃ بقولہ لا رسول بعدی ولا نبی ای لا مشروع ولا شریعۃ(فتوحات مکیہ ، ص۳، ج۲بحوالہ ’’الفضل ‘‘ ۲۷ جوائی ۱۹۵۲ء)۔
رہا یہ سوال کہ اپنی شریعت جو نبی نہیں رکھتا ہے دوسرے نبی کا ماتحت ہوکر آتا ہے (جیسا کہ مرزائی بغیر شریعت کے نبی ہونے کے قائل ہیں) سو اس کے متعلق شیخ کی سابقہ عبارات میں جواب آچکا ہے کہ جب تک تمام اجزائے نبوت نہ پائے جائیں شیخ کے نزدیک نبوت متحقق ہی نہیں ہوسکتی اور تشریع (احکام شرعیہ دینیہ) نبوت کے اعظم جزوں میں سے ایک جز ہے ، حاصل یہ ہوا کہ جو صاحب تشریع اور صاحب شریعت نہیں ہے وہ نبی ہی نہیں ہے ، لہذا جس طریقہ سے مرزائی اپنا مطلب شیخ کی عبارت سے ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ شیخ کی ہی تصریحات کے پیش نظر ہر گز ثابت نہیں کرسکتے ۔
شیخ ابن عربی ؒ کی عبارات سے قادیانی استدلال کے متعدد جوابات ہیں جن میں سے پانچ پہلی قسط میں ذکر کیے جاچکے ہیں ،بقیہ جوابات درج ذیل ہیں :
شیخ ابن عربیؒ کی کتابوں میں اضافے
شیخ ابن عربیؒ کی کتابوں میں خفیہ طور پر اضافے کیے گئے ہیں ، بہت سے ایسے عقائد ان کی طرف منسوب کیے گئے ہیں جو کہ شیخ کے وہم وگمان میں بھی نہ تھے ، شیخ ابن عربیؒ کے ترجمان خاص شیخ عبد الوہاب شعرانیؒ نے اس دسیسہ کاری کا متعدد جگہ ذکر کیا ہے ،چند عبارات ملاحظہ فرمائیں :
وقدأخبرنی العارف باللہ تعالی أن الشیخ أبو طاھر المزنی الشاذلی رضی اللہ عنہ أن جمیع ما فی کتب الشیخ محی الدین مما یخالف ظاھر الشریعۃ مدسوس علیہ (الیواقیت والجواہرص۳)۔
ترجمہ: شیخ ابوطاہر مزنی شاذلیؒ نے مجھے بتایا کہ تمام وہ عبارات جو شیخ محی الدین (ابن عربی) کی کتابوں میں مخالف شریعت ہیں وہ الحاقی (بعد میں ڈالی گئی)ہیں۔
الیواقیت والجواہر کے صفحہ ۷ پر مذکورہ بات کا اعادہ کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں :
ثم أخرج لی نسخۃ الفتوحات التی قابلھا علی نسخۃ الشیخ التی بخطہ فی مدینۃ فلم أر شیئا مما کنت توقفت فیہ وحذفتہ حین اختصرت الفتوحات
ترجمہ:پھر شیخ ابو طاہر ؒ نے میرے لیے فتوحات مکیہ کا وہ نسخہ نکالا جس کا انہوں نے شیخ ابن عربیؒ کے نسخہ سے تقابل کیا تھا ،وہ نسخہ شیخ ابن عربی کے اپنے خط میں لکھا ہوا تھا ، وہ مسائل جن میں متردد تھا اس میں بالکل نہ پائے اورجب میں نے فتوحات کا اختصار کیا تو وہ مسائل حذف کردیے ۔
جعل سازوں نے صرف شیخ ابن عربیؒ کی کتابوں میں ہی اضافے نہیں کیے ،بلکہ امام غزالی ، امام احمد بن حنبل، قاضی عیاض اورشیخ عبد الوہاب شعرانی رحمہم اللہ کی کتابوں پر بھی ہاتھ صاف کیے اور ہر ایک کی بعض کتابوں میں الحاق عبارتیں داخل کیں (دیکھیے الیواقیت والجواہر ،ص۷)۔
علامہ شعرانیؒ کی اس تحقیق سے شیخ ابن عربیؒ کے متعلق تمام منقولہ حوالہ جات ناقابل اعتبار ٹھہرتے ہیں ، فتوحات مکیہ ودیگر کتب میں انکار ختم نبوت کا شبہ ڈالنے والی تمام عبارات شیخ ابن عربیؒ کی نہیں ہوسکتیں۔
کسی بھی ولی کو نبوت نہیں مل سکتی
شیخ ابن عربیؒ اس بات کے معترف ہیں کہ کسی ولی کو نبوت کا مقام حاصل نہیں ہوسکتا:
وقال الشیخ (أی محی الدین ابن العربی) اعلم أن مقام النبی ممنوع لنا دخولہ وغایۃ معرفتنا بہ من طریق الارث النظر إلیہ کما ینظر من ھو فی أسفل الجنۃ إلی من ھو فی أعلی علیین وکما ینظر أھل الأرض إلی کواکب السماء ، وقد بلغنا عن الشیخ ابی یزید أنہ فتح لہ من مقام النبوۃ قدر حزم ابرۃ تجلیا لا دخولا فکاد ان یحترق(الیواقیت والجواھر ، ص۷۲، ج۲)۔
ترجمہ :شیخ محی الدین ابن عربیؒ نے فرمایا خوب جان لو نبوت کے مقام میں داخل ہونا ہمارے لیے بالکل ممنوع ہے ، اوراس مقام کی انتہائی معرفت بطریق ارث کے یہ ہوسکتی ہے کہ ہم اس مقام کی طرف محض نظر کرسکتے ہیں ، اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے جنت کے تحتانی حصہ والا شخص اعلی علیین والوں کو دیکھتا ہے اورجیسا زمین والے آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہیں ،اورہمیں شیخ ابی یزید سے یہ تحقیقی بات پہنچی ہے کہ درحقیقت نبوت کا مقام سوئی کے ناکے کے برابر(محض) تجلی کی حد تک کھولاگیا ہے ، داخل ہونے کی حد تک نہیں (اس پر بھی) انسان جل جانے کے قریب ہوجاتا ہے ۔
وقال الشیخ(أی محی الدین ابن العربی) من قال ان اللہ تعالی امرہ بشیئ فلیس ذلک بصحیح انما ذالک تلبیس لأن الأمر من قسم الکلام وصیغتہ وذلک باب مسدود دون الناس۔۔۔۔۔فقد بان لک أن أبواب الأمر الإلھیۃ والنواھی قد سدت وکل من ادعاھا بعد محمد ﷺ فھو مدعی شریعۃ أوحی إلیہ سواء وافق شرعنا أو خالف ،فإن کان مکلفا ضربنا عنقہ وإلا ضربنا عنہ صفحا(الیواقیت ،ص۳۸، ج۲)۔
ترجمہ :شیخ اکبرؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اللہ تعالی نے مجھے فلاں چیز کا حکم کیا ہے ،یہ صحیح نہیں ، یہ سراسر تلبیس اور فریب ہے ،کیونکہ حکم دینا کلام کی ایک قسم ہے اور یہ دروازہ لوگوں پر بند ہوچکا ہے ، اس سے ظاہر ہوگیا کہ اوامر ونواہی خداوندی کے دروازے اب بند ہوچکے ہیں ،اب رسول اللہ ﷺ کے بعد جو شخص اس قسم کا دعوی کرے تو وہ ایک شریعت کا جو اس کے پاس وحی کے ذریعہ پہنچی دعوے دار ہے ،چاہے وہ ہماری شریعت کے بالکل موافق ہو یا مخالف ،اوراس قسم کا شخص اگر مکلف ہوگا تو ہم اس کی گردن ماردیں گے ورنہ ہم اس سے اعراض کریں گے اوراس کو پس پشت ڈال دیں گے ۔
شیخ اکبراپنے شیخ ابوالعباس کی دعا نقل کرتے ہیں :
اللھم إنک سددت باب النبوۃ والرسالۃ دوننا ولم تسدد باب الولایۃ(فتوحات ،ج۲، باب۷۲، ص۹۷)۔
ترجمہ: اے اللہ تو نے ہمارے لیے نبوت ورسالت کا دروازہ تو بند کردیا ہے مگر ولایت کا دروازہ بند نہیں کیا۔
انما انقطع الوحی الخاص بالرسول والنبی من نزول الملک علی اذنہ وقلبہ وتحجیر لفظ اسم النبی والرسول (فتوحات،ج۲،ص ۱۵۵،۲۵۳)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں شبہ نہیں کہ جو وحی انبیاء اوررسولوں پر آتی تھی وہ موقوف ہوگئی اور کسی کو نبی اور رسول کہنا ممنوع ہوگیا۔
واعلم أن لنا من اللہ الإلھام لا الوحی فإن سبیل الوحی قد انقطع بموت رسول اللہ ﷺ وقد کان الوحی قبلہ ،ولم یجیئ خبر الھی ان بعدہ (ﷺ) وحیا کما قال اللہ تعالی :ولقد اوحی إلیک وإلی الذین من قبلک، ولم یذکر وحیا بعدہ (فتوحات ، ج۳، باب ۳۵۳،ص۲۳۸)۔
اے مخاطب ! تو معلوم کرلے کہ امت محمدیہ کے لیے اللہ کی طرف سے الہام ہے ،وحی نہیں ہے ، وحی کا آنا رسول اللہ ﷺ کے انتقال کے بعد سے بند ہوگیا ، البتہ آپ سے پیشتر انبیاء کو وحی آتی تھی ، اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ پر آپ ﷺ سے پیشتر انبیاء علیہم السلام پر وحی آنے کی خبر دی ہے اورآپ ﷺ کے بعد کسی پر وحی آنے کا ذکر قرآن مجید میں نہیں آیا۔
زال اسم النبی بعد محمد ﷺ (فتوحات مکیہ ، ج۲، ص ۶۴)۔
آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد نبی کا نام اٹھایا گیا ہے ، یعنی اب کوئی شخص امت محمدیہ میں سے نبی نہیں کہلاسکتا۔
ختم نبوت کے متعلق ابن عربیؒ کی وضاحت
قدختم اللہ تعالی بشرع محمد ﷺ جمیع الشرائع فلا رسول بعدہ یشرع ولا نبی بعدہ یرسل الیہ بشرع یتعبد بہ فی نفسہ انما یتعبد الناس شریعتہ الی یوم القیامۃ(فتوحات مکیہ، باب ۴۶۲ بحوالہ الیواقیت والجواھر،ج۲، ص۳۷)
اللہ تعالی نے شریعت محمد پر تمام شرائع ختم کردی ہیں ، پس ان کے بعد کوئی صاحب شریعت رسول نہیں ،اور نہ ہی کوئی نبی ہے جس کی طرف شریعت بھیجی جائے کہ وہ اس کے مطابق بذات خود عبادت کرے ، تحقیق لوگ قیامت تک حضور علیہ السلام کی شریعت کے مطابق عبادت کرتے رہیں گے ۔
ھذا باب اغلق بموت محمد ﷺ فلا یفتح لاحد إلی یوم القیامۃ ولکن بقی الاولیاء وحی الإلھا م لا تشریع فیہ(ایضا بحوالہ بالا)۔
یہ دروازہ حضور علیہ السلام کے وصال کے ساتھ بند کردیا گیا ، پس وہ قیامت تک کسی کے لیے نہ کھولاجائے ،لیکن اولیاء کے لیے وحی الہام باقی ہے ، اس میں شریعت نہیں ہے ۔
شیخ اکبر ابن عربیؒ نے مختلف تعبیرکیوں اختیار کی؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بظاہر نظر حدیث ’’لا نبی بعدی‘‘ اور حدیث ’’لم یبق من النبوۃ إلا المبشرات‘‘ میں تضاد محسوس ہوتا ہے ،شیخ ابن عربیؒ نے اس حوالہ سے لکھا :
قالت عائشۃ أول مابدئ بہ رسول اللہ ﷺ من الوحی الرؤیا فکان لا یری الرؤیا الا خرجت مثل فلق الاصباح وھی التی ابقی اللہ علی المسلمین وھی من اجزاء النبوۃ لما ارتفعت النبوۃ بالکلیۃ ولھذا قلنا انما ارتفعت نبوۃ التشریع فھذ معنی لا نبی بعدہ (فتوحات مکیہ ، ج۲، باب ۷۳، سوال ۲۵)۔
حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کو وحی سے پہلے سچے خواب نظر آتے تھے جو چیز رات کو خواب میں دیکھتے تھے وہ خارج میں صبح روشن کی طرح ظہور پذیر ہوجاتی تھی اور یہ وہ چیز ہے جو مسلمانوں میں اللہ تعالی نے باقی رکھی ہے اور یہ سچا خواب نبوت کے اجزاء میں سے ہے ، پس اس اعتبار سے نبوت کلی طور پر بند نہیں ہوتی اوراس وجہ سے ہم نے کہا کہ لانبی بعدی کا معنی یہ ہے کہ حضور ﷺ کے بعد نبوت تشریعی باقی نہیں رہی ۔
شیخ ابن عربیؒ کی مذکورہ تحریر سے معلوم ہوا کہ :
۱-حضور علیہ السلام پر نبوت ختم ہوچکی ہے۔
۲- اجزائے نبوت وکمالات نبوت میں سے اچھے خوابوں کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔
۳-شیخ اکبر اولیاء اللہ کے الہامات ومبشرات کو اگرچہ اپنی مخصوص اصطلاح کے مطابق نبوت کا نام دیتے ہیں جو کہ لغوی اعتبار سے ہے ، لیکن وہ کسی ولی کو غیر تشریعی نبی اور مفترض الطاعۃ نہیں کہتے ، نہ ہی کسی ولی کے انکار کو کفر کہتے ہیں ،اولیاء کی نبوت ان کے ہاں بمعنی خبر ولایت ہے جس کا احکام امر ، نہی ، شریعت ورسالت سے کوئی تعلق نہیں ۔
۴-شیخ اولیاء اللہ کے لیے جس الہام واخبار من اللہ کو نبوت سے تعبیر کررہے ہیں وہ اس نبوت کو حیوانات میں بھی جاری مانتے ہیں :
وھذا النبوۃ جاریۃ وساریۃ فی الحیوان مثل قولہ تعالی واحی ربک الی النحل (فتوحات، ج۲، باب۱۵۵، ص ۲۵۴)۔
اور یہ نبوت حیوانات میں بھی جاری ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا :’’تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی‘‘۔
۵-اصطلاحی نبوت جس میں جبرائیل علیہ السلام انبیاء پر وحی لے کر آئے ہیں اسے وہ ختم سمجھتے ہیں ،فرماتے ہیں :
اسم النبی زال بعد رسول اللہ ﷺ فإنہ زال التشریع المنزل من عند اللہ بالوحی بعدہ(فتوحات،ج۲، ص۵۸، باب ۷۳، سوال ۲۵)۔
آنحضرت ﷺ کے بعد نبی کا لفظ کسی پر نہیں بولا جاسکتا اس لیے کہ آپ کے بعد وحی جو تشریعی صورت میں صرف نبی پر آتی ہے ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکی ہے ۔
خلاصہ بحث
حاصل کلام کے طور پر چند نکات قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں :
۱-حضور علیہ السلام پر نبوت ختم ہوچکی ہے ،البتہ بعض کمالات نبوت باقی ہیں ،جیسے مبشرات یعنی اچھے خواب ، نبوت کے بعض اجزاء باقی رہ جانے کی وجہ سے نبوت کے جاری ہونے پر استدلال کرنا ایسا ہی ہے جیسے جز کو کل ، ایک انگلی کو ہاتھ ،ایک بازو کو انسان کہہ دینا۔
۲-شیخ ابن عربیؒ کا ختم نبوت کے متعلق وہی نظریہ ہے جو جمہور امت کا ہے ، البتہ شیخ نے صرف تشریعی نبوت بند ہونے کی بات حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے پیش نظر لکھی ہے ۔
۳-شیخ اکبرؒ نے بعض جگہ اجزائے نبوت کو نبوت سے تعبیر کیا ہے ، اگر ایسی عبارات کی نسبت ان کی طرف صحیح تسلیم کرلی جائے تو جواب یہ ہے کہ شیخ اکبر کی مخصوص اصطلاح ہے ، ہمارے دعوی کی اس سے بھی تائید ہوتی ہے کہ امت میں سے الہامات ومبشرات کا درجہ پانے والوں کو شیخ نے کسی جگہ ایسا نبی نہیں قرار دیا جس پر جبرائیل علیہ السلام وحی لائے ہوں اور وہ واجب الاتباع ہو۔
۴-علامہ شعرانیؒ کے نزدیک یہ بات یقینی اور ناقابل تردید ہے کہ شیخ ابن عربیؒ کی کتب میں کافی رد وبدل کیا گیا ہے ، اس اعتبار سے بھی اجرائے نبوت کا شبہ پیدا کرنے والی عبارات ان کی طرف منسوب کرنا درست نہ ہوگا۔
۵-مرزا قادیانی نے شیخ ابن عربی ؒ کو ملحد اور زندیق قرار دیا ہے جبکہ مرزا کے ماننے والے اجرائے نبوت کے اثبات کے لیے ابن عربیؒ کا سہارا لیتے ہیں ،انہیں کچھ شرم نہیں آتی کہ وہ بقول مرزا ایک ملحد کی عبارات سے سہارا لے رہے ہیں ۔
۶-شیخ ابن عربیؒ اپنی مخصوص اصطلاحات کے باوجود متعدد مقامات پر واضح الفاظ میں ختم نبوت کا اعتراف کرتے ہیں اس کے حوالہ جات گزرچکے ہیں ۔
اس مضمون کی پہلی قسط نیچے دیے گئے لنک پر ملاحظہ کیجیے: