وحدۃ الوجود میں غلو سے بچیے ! از مولانا اشرف علی تھانویؒ

تسہیل وترتیب: مفتی عمر انور بدخشانی

توحید کے دو معنی اور ان کا ثبوت

حضرت شارع سے توحید کے دو معنی ثابت ہوئے ہیں:
۱-ایک ’’لا معبود إلا اللّٰہ‘‘۔
۲- دوسرا ’’لا مقصود إلا اللّٰہ‘‘ ۔

(توحید کے)پہلے معنی کا ثبوت تو اظہر من الشمس ہے،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ مَـا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِـہٖٓ اِلَّآ اَسْمَـآئً سَمَّیْتُمُوْہَـآ اَنْتُمْ وَاٰبَـآؤُکُمْ مَّـآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ

اے قید خانہ کے رفیقو متفرق معبود اچھے یا ایک معبود برحق جو سب سے زبردست ہے وہ اچھا (جواب اس کا ظاہر ہے) تم لوگ تو خدا کو چھوڑ کر صرف چند بےحقیقت ناموں کی عبادت کرتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادؤں نے (آپ ہی) ٹھیرا لیا ہے خدا تعالیٰ نے تو ان (کے معبود ہونے) کی کوئی دلیل (عقلی یا نقلی) بھیجی نہیں، ( اور) حکم (دینے کا اختیار صرف) خدا ہی کا ہے ( اور) اس نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے اور کسی کی عبادت مت کرو یہی توحید کا سیدھا طریقہ ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

وَ مَـآ اُمِرُوْآ اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَـہُ الدِّیْن حُنَفَآء

حالانکہ ان لوگوں کو (کتب سابقہ میں) یہی حکم ہوا تھا کہ اللہ کی اسی طرح عبادت کریں کہ عبادت اسی کے لیے خاص رکھیں (باطل ادیان اور شرک سے) یکسو ہو کر

اور تمام قرآنِ مجید اس سے بھرا پڑا ہے اور یہی ’’توحید ‘‘ہے جس کے اتلاف اور نقصان سے کافر اور مشرک ہوجاتا ہے اور جہنم میں ہمیشہ رہنا پڑتا ہے، یہ ہرگز معاف نہ ہوگا،کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَـا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآء

بیشک اللہ تعالیٰ (اس بات کو) نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے سوا اور جتنے گناہ ہیں جس کے لیے منظور ہوگا وہ گناہ بخش دیں گے ۔

(توحید کے)دوسرے معنی کا ثبوت اس طرح پر ہے کہ رسول اللہﷺ نے رِیا کو شرکِ اصغر فرمایا ہے، اور ظاہر ہے کہ رِیا میں غیر اللہ معبود نہیں ہوتا، البتہ مقصود ضرور ہوتا ہے، جب غیر اللہ کا مقصود ہونا شرک ٹھہرا تو توحید جو مقابلِ شرک ہے اس کی حقیقت یہ ٹھہرے گی کہ اللہ تعالیٰ ہی مقصود ہو، غیر اللہ بالکل مقصود نہ ہو، یہی معنی ہیں ’’لا مقصود إلا اللّٰہ‘‘۔

اب ہم وہ حدیث نقل کرتے ہیں جس میں رِیا کو شرک فرمایا گیا ہے:

محمود بن لبید سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’بڑی خوف ناک چیز جس سے تم پر اندیشہ کرتا ہوں، شرکِ اصغر ہے، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! شرکِ اصغر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: رِیا‘‘

(اس کے علاوہ)اور بھی بہت سی حدیثیں اس مطلب میں وارد ہیں،تفسیر مظہری میں سورۂ کہف کے ختم پر جمع کی گئی ہیں، اختصار کی وجہ سے یہاں نہیں لکھی گئیں، اس (دوسرے)معنی کے نہ ہونے سے اخلاص جاتا رہتا ہے، جس پر کسی قدر عقوبت (سزا)کا استحقاق ہوتا ہے لیکن خلود فی النار (جہنم میں ہمیشہ رہنا)نہ ہوگا۔

توحید کا تیسرا معنی :وحدۃ الوجود اوراس میں غلو

توحید کے تیسرے معنی اصطلاحِ صوفیہ میں ایک اور ہیں: ’’لا موجود إلا اللّٰہ‘‘ جس کو ’’وحدۃ الوجود‘‘ کہتے ہیں، اس معنی کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنا ۔ِنرا تکلف اورلا یعنی ہے، یہی غنیمت ہے کہ اس معنی کی اس طرح تقریر کی جائے کہ قرآن و حدیث سے خلاف نہ پڑے(قرآن وحدیث کے خلاف نہ ہو) آج کل اسی کی مشکل پڑ رہی ہے، چوںکہ مسئلہ نازک ہے اور اس کے ثبوت کا مدار محض ذوق اور کشف ہے، اس لیے اوّلاً تو اس تعبیر کے لیے کافی (شافی)عبارت ہی ملنا دشوار ہے، اور اس کے سمجھنے کے لیے جو کچھ قلیل و کثیر (کم یا زیادہ)تعبیر ممکن ہے(اس کےلیے)ذوق اور کشفی مناسبت کےعلاوہ علومِ عقلی و نقلی میں تبحر کی حاجت ہے، اس زمانے میں اکثر وحدۃ الوجود کے دعوے داروں کی حالت دیکھ کر سخت رنج ہوتا ہے کہ نہ ان کو علم، نہ ذوق، محض زبانی طاعات و شطحیات فرما دینے سے کام، نہ یہ پروا ہے کہ ان ملحدانہ کلمات سے جو بے سمجھے بوجھے زبان سے نکال رہے ہیں ایمان جاتا رہے گا، نہ اس کا کچھ خیال ہے کہ دوسرے عوام ہمیں محقق سمجھ کر مقلدانہ(تقلیدمیں) اس کا نہ صرف اعتقاد بلکہ دعویٰ کرنے لگیں گےاور ان کا ٹوٹا پھوٹا جو ایمان تھا وہ بھی رخصت ہوجائے گا۔ نماز روزہ الگ چھوڑ بیٹھیں گے کہ جب ہم خدا ہوگئے تو پھر نماز اور روزہ کس کا؟

حاشا و کلا ! وحدۃ الوجود کے ہرگز یہ معنی نہیں، حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک حالت ہے، جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے، نہ اس کو قصداً منہ سے نکالنا چاہیے، نہ دوسرے کی سمجھ میں آسکتی ہے، اس حالت کے غلبے میں یہ کیفیت ہوجاتی ہے:

بس کہ دَر جان فگار و چشم بیدارم توئی
ہرچہ پیدا می شود از درد پندرام توئی

سمایا ہے جب سے تو آنکھوں میں مری
جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے

کبھی یہ حالت دائمی ہوتی ہے، کبھی زائل ہوجاتی ہے، ان شاء اللہ بشرطِ خیریت کسی موقع پر اس مسئلے کی زیادہ تحقیق کی جائے گی، اس مقام پر صرف خیر خواہانہ یہ عرض کرکے بس کرتا ہوں کہ خدا کے واسطے اپنی جان پر اور اُمتِ محمدیہ پر رحم فرمایئے اور اس مسئلے میں غلو سے بچئے، بلکہ احتیاط یہ ہے کہ کشف کے بعد بھی اس کو قطعی نہ سمجھئے، کیوںکہ کشف میں، خصوصاً کشفِ الہٰیات میں بعض اوقات لغزش ہوجاتی ہے، اورجو اصل مقصود ہے، یعنی عبودیت اس میں لگے رہیے اور زبانی جمع خرچ کو الگ پھینکیے: کارکن کار، بگذر از گفتار

قدم باید اندر طریقت نہ دم
کہ اصلے ندارد دمے بے قدم

اللہ کی راہ میں ہمت چاہیے نہ کہ دعوی ، کیونکہ قدم اٹھائے بغیر نرا دعوی بے سود ہے ۔

ماخوذ از : فروع الایمان ، تصنیف حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ۔

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

5,125 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!