صوفیاء کرام کی تفسیریں، چند شرائط، از مفتی محمد تقی عثمانی

صوفیائے کرامؒ سے قرآن کریم کی آیات کے تحت کچھ ایسی باتیں منقول ہیں جو بظاہر تفسیر معلوم ہوتی ہیں ،مگر وہ آیت کے ظاہری اور ماثور معنی کے خلاف ہوتی ہیں ، مثلا قرآن کریم کا ارشاد ہے :

قاتلوا الذین یلونکم من الکفار

قتال کرو ان کافروں سے جو تم سے متصل ہیں۔

اس کے تحت بعض صوفیاء نے کہا کہ :

قاتلوا النفس فإنھا تلی الإنسان

یعنی نفس سے قتال کرو ،کیونکہ وہ انسان سے سب سے زیادہ متصل ہے ۔

اس قسم کے جملوں کو بعض حضرات نے قرآن کریم کی تفسیر سمجھ لیا ، حالانکہ درحقیقت وہ تفسیر نہیں ، صوفیاء کرام کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہوتا کہ قرآن کریم کی اصل مراد یہ ہے ، اور جو مفہوم ظاہری الفاظ سے سمجھ میں آرہا ہے وہ مراد نہیں ہے ، بلکہ وہ قرآن کریم کے ظاہری مفہوم پر جو اس کے اصل مآخذ سے ثابت ہو پوری طرح ایمان رکھتے ہیں ، اوراس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی تفسیر وہی ہے ، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنے ان وجدانی استنباطات کو بھی ذکر کردیتے ہیں جو اس آیت کی تلاوت کے وقت ان کے قلب پر وارد ہوئے ، چنانچہ مذکورہ بالا مثال میں صوفیاء کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اس آیت میں کفار کے مقابلے پر جہاد وقتال کا حکم مراد نہیں ،بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ کفار سے جہاد وقتال کا حکم تو اس آیت کا اصلی تقاضا ہی ہے ،لیکن اس آیت سے وجدانی طور پر انسان کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ سب سے قریبی نافرمان اس کا نفس ہے جو اسے برائیوں پر آمادہ کرتا رہتا ہے ، لہذا کفار سے جہاد کے ساتھ ساتھ اس سے بھی جہاد ضروری ہے ۔

صوفیاء کا منشاء

ماضی قریب کے معروف مفسر علامہ محمود آلوسی ؒ جن کی تفسیر میں صوفیاء کرام کے اس قسم کے وجدانی استنباطات بکثرت ملتے ہیں ، صوفیاء کے منشاء کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

’’قرآن کریم میں سادات صوفیاء سے جو کلام منقول ہے ، وہ درحقیقت ان دقیق امور کی طرف اشارے ہوتے ہیں جو ارباب سلوک پر منکشف ہوتے ہیں ،اوران اشارات میں اور قرآن کریم کے ظاہری مفہوم میں جو حقیقۃ مراد ہوتا ہے تطبیق ممکن ہے ، صوفیاء کا یہ اعتقاد نہیں ہوتا کہ ظاہری مفہوم مراد نہیں ،اور باطنی مفہوم مراد ہے ، اس لیے کہ یہ تو باطنی ملحدوں کا اعتقاد ہے جسے انہوں نے شریعت کی بالکلیہ نفی کا زینہ بنایا ہے ، ہمارے صوفیاء کرام کا اس اعتقاد سے کوئی واسطہ نہیں ،اور ہوبھی کیسے سکتا ہے ، جبکہ صوفیاء نے یہ تاکید کی ہے کہ قرآن کریم کی ظاہری تفسیر کو سب سے پہلے حاصل کیا جائے ‘‘(روح المعانی ، ص۷،ج۱، مقدمہ ،فائدہ ثانیہ ، یہی مضمون علامہ سیوطیؒ نے شیخ تاج الدین بن عطاء اللہ سے نقل فرمایا ہے ،الاتقان ،ص۱۸۵، ج۲)۔

صوفیاء کے اقوال میں چند شرائط

لیکن صوفیاء کے اس قسم کے اقوال کے بارے میں مندرجہ ذیل امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے :

۱-ان اقوال کو قرآن کریم کی تفسیر قرار نہ دیا جائے ،بلکہ یہ اعتقاد رکھا جائے کہ قرآن کریم کی اصل مراد وہی ہے جو تفسیرکے اصل مآخذ سے سمجھ میں آتی ہے ، اور یہ اقوال محض وجدانی استنباط کی حیثیت رکھتے ہیں ، لہذا اگر ان اقوال کو قرآن کریم کی تفسیر سمجھ لیا جائے تویہ گمراہی ہے ، چنانچہ امام ابو عبدالرحمن سلمیؒ نے ایک کتاب ’’حقائق التفسیر‘‘کے نام سے لکھی تھی جو اسی قسم کے اقوال پر مشتمل تھی ،اس کے بارے میں امام واحدیؒ نے فرمایا کہ :’’جوشخص یہ اعتقاد رکھے کہ یہ تفسیر ہے تو وہ کافر ہوجائے گا‘‘(الاتقان،ص ۱۸۴،ج۲)۔

۲-اس قسم کے اقوال میں بھی صرف ان اقوال کو درست سمجھا جاسکتا ہے جن سے قرآن کریم کی کسی آیت کے ظاہری مفہوم یا شریعت کے کسی مسلمہ اصول کی نفی نہ ہوتی ہو ،اوراگر ان وجدانیات کے پردے میں دین کے مسلم اصول وقواعد کی خلاف ورزی کی جانے لگے تو یہ صریح الحاد ہے ۔

۳-اس قسم کے وجدانیات صرف اس وقت معتبر ہوسکتے ہیں جب وہ قرآن کریم کی تحریف کی حد تک نہ پہنچتے ہوں ،اوراگر قرآن کریم کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر کوئی بات کہی جائے تو وہ بھی الحاد اورگمراہی ہے ، مثلا ایک شخص نے آیت قرآنی :’’من ذا الذی یشفع ‘‘ کے تحت یہ کہا کہ یہ اصل میں ’’من ذل دی یشف ع‘‘ہے ، ذی سے مراد ’’نفس‘‘ہے ، اورمطلب یہ ہے کہ’’ جو شخص نفس کو ذلیل کرے گا شفا پاجائے گا،اس بات کو یاد رکھو‘‘علامہ سراج الدین بلقینیؒ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ :’’ایسا کہنے والا ملحد ہے‘‘(الاتقان)۔

ملحدوں کا ایک فرقہ باطنیہ

۴-قدیم زمانے میں ملحدوں کا ایک فرقہ ’’باطنیہ‘‘ کے نام سے گذرا ہے جس کا دعوی یہ تھا کہ قرآن کریم سے ظاہری طور پر جو مطلب سمجھ میں آتا ہے ،حقیقت میں وہ اللہ تعالی کی مراد نہیں ہے ،بلکہ ہر لفظ سے ایک باطنی مفہوم کی طرف اشارہ ہے ،اوروہی قرآن کی اصل تفسیر ہے ، یہ اعتقاد باجماع امت کفر والحاد ہے ،لہذا صوفیاء کے کسی قول کے بارے میں اس قسم کا اعتقاد رکھا جائے تو وہ ’’باطنیت ‘‘ہوگا۔

ان چار امور کی رعایت کے ساتھ صوفیائے کرام کے اقوال کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے اوربلاشبہ بعض مخصوص واردات واحوال رکھنے والوں کو ان اقوال سے فائدہ بھی پہنچا ہے ،اسی وجہ سے علامہ آلوسی ؒ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں آیات کی مکمل تفسیر لکھنے کے بعد ایک مستقل عنوان ’’من باب الاشارۃ فی الآیات‘‘قائم کرتے ہیں اوراس میں اس قسم کے وجدانیات ذکر فرماتے ہیں۔

مذکورہ بالا گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ صوفیاء کرام نے قرآن کریم کے تحت اپنے جو وجدانیات ذکر فرمائے ہیں وہ قرآن وسنت کے خلاف نہیں ہیں ، اور بعض لوگوں نے ان پر ’’باطنیت‘‘ کا جو الزام عائد کیا ہے وہ درست نہیں ، اس کے باوجود ہم حافظ ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشاد کو نقل کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ :

ومع ذلک فیا لیتھم لم یتساھلوا بمثل ذلک لما فیہ من الإیھام والإلباس(الاتقان، ۱۸۴، ج۲)۔

’’اس کے باوجود اے کاش! کہ یہ حضرات اس قسم کے اقوال نقل کرنے میں اتنے تساہل سے کام نہ لیتے ،کیونکہ ان میں غلط فہمی اوراشتباہ کی بڑی گنجائش ہے ‘‘۔

ماخوذ از: علوم القرآن ،مفتی محمد تقی عثمانی، ص ۳۵۳ تا۳۵۶

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:

اسی موضوع پر مزید پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

4,474 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!