عاشوراء: دس محرم کا روزہ ، فضیلت کی وجہ اورچند غلط فہمیاں ، از مفتی محمد تقی عثمانی
ترتیب وعناوین: مفتی عمر انور بدخشانی
محرم کے مہینہ کی فضیلت
یوں تو سال کے بارہ مہینے اورہر مہینے کے تیس دن اللہ تعالی کے پیدا کیے ہوئے ہیں ،لیکن اللہ جل شانہ نے اپنے فضل وکرم سے پورے سال کے بعض ایام کو خصوصی فضیلت عطا فرمائی ہے اوران ایام میں کچھ خاص احکام مقرر فرمائے ہیں،یہ محرم کامہینہ بھی ایک ایسا مہینہ ہے جس کو قرآن کریم نے ’’حرمت ‘‘والا مہینہ قرار دیا ہے ۔
اورایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :
افضل الصیام بعد شھر رمضان شھر اللہ المحرم
یعنی ماہ رمضان کےروزوں کے بعد محرم کے روزے افضل ہیں ۔
عاشوراء کا مطلب اوراس دن روزہ کی فضیلت
محرم کی دسویں تاریخ جس کو عام طور پر ’’عاشوراء‘‘ کہا جاتا ہے، جس کے معنی ہیں دسواں دن،یہ دن اللہ تعالیٰ کی رحمت وبرکت کا خصوصی طور پر حامل ہے، جب تک رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے، اس وقت تک عاشوراء کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا تھا، بعد میں جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو اس وقت عاشوراء کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی، لیکن حضور اقدسﷺ نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا، ایک حدیث میں حضور اقدسﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھے اللہ جل شانہ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ جو شخص عاشوراء کے دن روزہ رکھے تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا، عاشوراء کے روزے کی اتنی بڑی فضیلت آپﷺ نے بیان فرمائی۔
ایک غلط فہمی!
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عاشوراء کے دن کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس دن میں نبی کریمﷺ کے مقدس نواسے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا، اس شہادت کے پیش آنے کی وجہ سے عاشوراء کادن مقدس اور حرمت والا بن گیا ہے، یہ بات صحیح نہیں، خود حضور اقدسﷺ کے عہد مبارک میں عاشوراء کا دن مقدس سمجھا جاتاتھا، اور آپﷺ نے اس کے بارے میں احکام بیان فرمائے تھے اور قرآن کریم نے بھی اس کی حرمت کا اعلان فرمایا تھا، جبکہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا واقعہ تو حضوراقدسﷺ کی وفات کے تقریباً ساٹھ سال بعد پیش آیا، لہٰذا یہ بات درست نہیں کہ عاشوراء کی حرمت اس واقعہ کی وجہ سے ہے، بلکہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا اس روز واقع ہونا یہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مزید فضیلت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شہادت کا مرتبہ اس دن میں عطا فرمایاجو پہلے ہی سے مقدس اور محترم چلا آرہا تھا، بہر حال یہ عاشوراء کادن ایک مقدس دن ہے۔
عاشوراء کے دن کی فضیلت کی وجہ اورچند بے بنیاد باتیں
اس دن کے مقدس ہونے کی وجہ کیا ہے ؟یہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتے ہیں ، اس دن کو اللہ تعالی نے دوسرے دنوں پر کیا فضیلت دی ہے ؟اوراس دن کا کیا مرتبہ رکھا ہے ؟اللہ تعالی ہی بہتر جانتے ہیں ،ہمیں تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں ،بعض لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں اترے تو وہ عاشوراء کا دن تھا ، جب نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان کے بعد خشکی میں اتری تو وہ عاشوراء کا دن تھا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا اور اس آگ کو اللہ تعالی نے ان کے لیے گلزار بنایا تو وہ عاشوراء کا دن تھا ،اورقیامت بھی عاشوراء کے دن قائم ہوگی ، یہ باتیں لوگوں میں مشہورہیں ،لیکن ان کی کوئی اصل اوربنیاد نہیں ، کوئی صحیح روایت ایسی نہیں جویہ بیان کرتی ہو کہ یہ واقعات عاشوراء کے دن پیش آئے تھے ۔
حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون سے نجات
صرف ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام کا مقابلہ فرعون سے ہوا اور پھر حضرت موسی علیہ السلام دریا کے کنارے پر پہنچ گئے اور پیچھے سے فرعون کا لشکر آگیا تو اللہ تعالی نے اس وقت حضرت موسی علیہ السلام کوحکم دیا کہ اپنی لاٹھی دریا کے پانی پر ماریں ،اس کے نتیجے میں دریا میں بارہ راستے بن گئے اوران راستوں کے ذریعہ حضرت موسی علیہ السلام کا لشکر دریا کے پار چلاگیا اورجب فرعون دریا کے پاس پہنچا اور اس نےدریا میں خشک راستے دیکھے تو وہ بھی دریا کے اندر چلا گیا ،لیکن جب فرعون کا پورا لشکر دریا کے بیچ میں پہنچا تو وہ پانی مل گیااور فرعون اور اس کا پورا لشکر غرق ہوگیا، یہ واقعہ عاشوراء کے دن پیش آیا،اس کے بارے میں ایک روایت موجود ہے جونسبتاً بہتر روایت ہے ،لیکن اس کے علاوہ جو دوسرے واقعات ہیں ان کے عاشوراء کے دن میں ہونے پر کوئی اصل اور بنیاد نہیں۔
فضیلت کے اسباب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں!
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ کس وجہ سے اللہ تعالی نے اس دن کو فضیلت بخشی ؟بلکہ یہ سب اللہ جل شانہ کے بنائے ہوئے ایام ہیں ، وہ جس دن کو چاہتے ہیں اپنی رحمتوں اور برکتوں کے نزول کے لیے منتخب فرمالیتے ہیں ،وہی اس کی حکمت اورمصلحت کو جاننے والے ہیں ،ہمارے اورآپ کے ادراک سے ماوراء بات ہے ، اس لیے اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔
عاشوراء کے دن سنت عمل: روزہ
البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ جب اللہ تعالی نے اس دن کو اپنی رحمت اور برکت کے نزول کے لیے منتخب کرلیا تو اس کا تقدس یہ ہے کہ اس دن کو اس کام میں استعمال کیا جائے جو کام نبی کریم ﷺ کی سنت سے ثابت ہو ، سنت کے طور پر اس دن کے لیے صرف ایک حکم دیا گیا ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے ، چنانچہ ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ اس دن میں روزہ رکھنا گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا،بس یہ ایک حکم سنت ہے ،اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی اس کی توفیق عطافرمائے ، آمین ۔
یہودیوں کی مشابہت سے بچیں!
اس میں ایک مسئلہ اور بھی ہے ، وہ یہ کہ حضور اقدس ﷺ کی حیات طیبہ میں جب بھی عاشوراء کا دن آتا تو آپ ﷺ روزہ رکھتے ، لیکن وفات سے پہلے جو عاشوراء کا دن آیا تو آپ ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھااورساتھ میں یہ ارشاد فرمایا کہ دس محرم کو ہم مسلمان بھی روزہ رکھتے ہیں اوریہودی بھی روزہ رکھتے ہیں ،اوریہودیوں کے روزہ رکھنے کی وجہ وہی تھی کہ اس دن میں چونکہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعہ فرعون سے نجات دی تھی ، اس کے شکرانے کے طور پریہودی اس دن روزہ رکھتے تھے ، بہرحال ! حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں ،اوریہودی بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ساتھ ہلکی سی مشابہت پیدا ہوجاتی ہے ، اس لیے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشوراء کا روزہ نہیں رکھوں گا،بلکہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملاؤں گا ، ۹محرم یا ۱۱؍محرم کا روزہ بھی رکھوں گاتاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے ۔
عاشوراء :ایک کے بجائے دو روزے
لیکن اگلے سال عاشوراء کا دن آنے سے پہلے حضور اقدس ﷺ کا وصال ہوگیا اور آپ ﷺ کو اس پر عمل کرنے کی نوبت نہیں ملی ، لیکن چونکہ حضور اقدس ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمادی تھی ،اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عاشوراء کے روزے میں اس بات کا اہتمام کیا اور ۹محرم یا ۱۱؍محرم کا ایک روزہ اورملاکر رکھا اوراس کو مستحب قرار دیا ،اورتنہا عاشوراء کے روزہ رکھنے کو حضور اقدس ﷺ کے اس ارشاد کی روشنی میں مکروہ تنزیہی اورخلاف اولی قرار دیا ،یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشوراء کا روزہ رکھ لے تو وہ گناہ گار نہیں ،بلکہ اس کو عاشوراء کے دن کا روزہ کا ثواب ملے گا ،لیکن چونکہ آپ ﷺ کی خواہش دوروزے رکھنے کی تھی اس لیے اس خواہش کی تکمیل میں بہتریہ ہے کہ ایک روزہ اور ملاکردو روزے رکھے جائیں ۔
عاشوراء کے دن گھر والوں پر وسعت کرنا
ہاں ! ایک ضعیف اور کمزور حدیث ، مضبوط حدیث نہیں ،اس حدیث میں حضور اقدس ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ جو شخص عاشوراء کے دن اپنے گھر والوں پر اور ان لوگوں پر جو اس کے عیال میں ہیں ، مثلا اس کے بیوی بچے ، گھر کے ملازم وغیرہ ان کو عام دنوں کے مقابلے میں عمدہ اور اچھا کھانا کھلائے اورکھانے میں وسعت اختیار کرے ، تو اللہ تعالی اس کی روزی میں برکت عطا فرمائیں گے ، یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے مضبوط نہیں ہے ، لیکن اگر کوئی شخص اس پر عمل کرتے تو کوئی مضائقہ نہیں ، بلکہ اللہ تعالی کی رحمت سے امید ہے کہ اس عمل پرجو فضیلت بیان کی گئی ہے وہ ان شاء اللہ حاصل ہوگی ،لہذا اس دن گھر والوں پر کھانے میں وسعت کرنی چاہیے ،اس کے آگے لوگوں نے جو چیزیں اپنی طرف سے گھڑ لی ہیں ، ان کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ۔
عاشوراء کے دن خاص کھانا پکانا اورتعزیہ وغیرہ میں شرکت
بہرحال ! اس مشابہت سے بچتے ہوئے عاشوراء کا روزہ رکھنا بڑی فضیلت کا کام ہے ، عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم تو برحق ہے ، لیکن روزے کے علاوہ عاشوراء کے دن لوگوں نے جو اوراعمال اختیار کررکھے ہیں ، ان کی قرآن کریم اور سنت میں کوئی بنیاد نہیں ، مثلا بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ عاشوراء کے دن کھچڑا پکنا ضروری ہے ، اگر کھچڑا نہیں پکایا تو عاشوراء کی فضیلت ہی حاصل نہیں ہوگی ، اس قسم کی کوئی بات نہ تو حضور اقدس ﷺ نے بیان فرمائی اور نہ ہی صحابہ کرام نے اورتابعین نے اور بزرگان دین نے اس پر عمل کیا ، صدیوں تک اس عمل کا کہیں وجود نہیں ملتا۔
شیعہ حضرات اس مہینے میں جو کچھ کرتے ہیں وہ اپنے مسلک کے مطابق کرتے ہیں ،لیکن بہت سے اہل سنت حضرات بھی ایسی مجلسوں میں اور تعزیوں میں اوران کے کاموں میں شریک ہوجاتے ہیں جو بدعت اورمنکر کی تعریف میں آجاتے ہیں ، قرآن کریم نے تو صاف حکم دے دیا کہ ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو،بلکہ ان اوقات کو اللہ تعالی کی عبادت میں اوراس کے ذکر میں اوراس کے لیے روزہ رکھنے میں اوراس کی طرف رجوع کرنے میں اوراس سے دعائیں کرنے میں صرف کرو،اوران فضولیات سے اپنے آپ کو بچاؤ،اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے اس مہینے کی حرمت اور عاشوراء کی حرمت اورعظت سے فائدہ اٹھانے کی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے اوراپنی رضا کے مطابق اس دن کوگزارنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔
عبادت میں بھی مشابہت نہ کریں!
رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے ہمیں ایک سبق اور ملتا ہے ،وہ یہ کہ غیر مسلموں کے ساتھ ادنی مشابہت بھی حضور اقدس ﷺ نے پسند نہیں فرمائی ،حالانکہ وہ مشابہت کسی برے اور ناجائز کام میں نہیں تھی ،بلکہ ایک عبادت میں مشابہت تھی کہ اس دن جو عبادت وہ کررہے ہیں ہم بھی اس دن وہی عبادت کررہے ہیں ،لیکن آپ ﷺ نے اس کو پسند نہیں فرمایا ،کیوں ؟اس لیے کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو جو دین عطا فرمایا ہے وہ سارے ادیان سے ممتاز ہے اوران پر فوقیت رکھتا ہے ، لہذا ایک مسلمان کا ظاہر وباطن بھی غیر مسلم سے ممتاز ہوناچاہیے ،اس کا طرز عمل ،اس کی چال ڈھال ، اس کی وضع قطع، اس کا سراپا، اس کے اعمال ، اس کے اخلاق ، اس کی عبادتیں وغیرہ ہرچیز غیر مسلموں سے ممتاز ہونی چاہیے ، چنانچہ احادیث میں یہ احکام جابجا ملیں گے جس میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ غیر مسلموں سے الگ طریقہ اختیار کرو،جب عبادت کے اندراوربندگی اورنیکی کے کام بھی نبی کریم ﷺ نے مشابہت پسند نہیں فرمائی تودوسرے کاموں میں اگر مسلمان ان کی مشابہت اختیار کریں تو یہ کتنی بری بات ہوگی ،اگریہ مشابہت جان بوجھ کر اس مقصد سے اختیار کی جائے تاکہ میں ان جیسا نظر آؤں تو یہ گناہ کبیرہ ہے ، افسوس ہے کہ آج مسلمانوں کواس حکم کا خیال اورپاس نہیں رہا ، اپنے طریقہ کار میں ، وضع قطع میں ،لباس پوشک میں ، اٹھنے بیٹھنے کے انداز میں ، کھانے پینے کے طریقوں میں ،زندگی کے ہر کام میں ہم نے غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت اختیار کرلی ہے ،ان کی طرح کا لباس پہن رہے ہیں ،ان کی زندگی کی طرح اپنی زندگی کا نظام بناتے ہیں ، ان کی طرح کھاتے پیتے ہیں ، ان کی طرح بیٹھتے ہیں ،زندگی کے ہر کام میں ان کی نقالی کو ہم نے فیشن بنالیاہے ، آپ اندازہ کریں کہ حضور اقدس ﷺ نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے میں یہودیوں کے ساتھ مشابہت کو پسند نہیں فرمایا ، اس سے سبق ملتا ہے کہ ہم نے زندگی کے دوسرے شعبوں میں غیر مسلموں کی جو نقالی اختیار کررکھی ہے ،خدا کے لیے اس کو چھوڑدیں اورجناب رسول اللہ ﷺ کے طریقوں کی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نقالی کریں ،ان لوگوں کی نقالی مت کریں جو روزانہ تمہاری پٹائی کرتے ہیں ، جنہوں نے تم پر ظلم اور استبداد کا شکنجہ کسا ہوا ہے ، جوتمہیں انسانی حقوق دینے کو تیار نہیں ، ان کی نقالی کرکے آخر تمہیں کیا حاصل ہوگا؟ہاں ! دنیا میں بھی ذلت ہوگی اور آخرت میں بھی رسوائی ہوگی ، اللہ تعالی ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے ،آمین۔
اصلاحی خطبات، جلد۱۴، ازحضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم
اس موضوع پر انگریزی میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں: