علم الاعتبار: صوفیاء کرام اور قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح، از مولانا اشرف علی تھانویؒ
تسہیل وترتیب: مفتی عمر انور بدخشانی
تمہید – تعارف
ہر علم وفن کے ماہر حضرات نے اپنے متعلقہ موضوع کے اعتبار سے قرآن وسنت کے علوم کی خدمت انجام دی،اسی طرح صوفیاء کرام نے بھی تزکیہ واحسان (تصوف ) کو موضوع بناکر قرآن وسنت کے علوم کی تشریح کا فریضہ انجام دیا ، صوفیاء کرام سے قرآن کریم کی آیات کے تحت کچھ ایسی باتیں بھی منقول نظر آتی ہیں جو بظاہر تفسیر معلوم ہوتی ہیں ،مگر وہ آیت کے ظاہری معنی کے خلاف ہوتی ہیں ،جس کی بناپر بعض ناواقف حضرات صوفیاء کرام کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں، واضح رہے کہ صوفیاء نے قرآن کریم کی تشریح کے بیان میں جس علم سے کام لیا اسے ’’علم الاعتبار ‘‘ کہا جاتا ہے،یہاں اس مضمون میں ’’علم الاعتبار ‘‘سے متعلق حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے چند متفرق نکات یکجا پیش کیے جارہے ہیں ،جس سے اس موضوع کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔
علم الاعتبار کی تعریف
باطنی معنی جو بیان کیے جاتے ہیں اس سے تفسیر یا مراد کی تعیین مقصود نہیں ہوتی، بلکہ ایک شے کی حالت کو دوسری شے کی حالت پر محض تمثیل ہوتا ہے ، اس کو علم اعتبار کہتے ہیں (شریعت وطریقت، ص۳۶۳)۔
سو علم اعتبار یہ ہے کہ دوسرے کےواقعہ اور قصہ کو اپنی حالت پر منطبق کرکے سبق حاصل کیا جائے، دو چیزوں میں مشابہت ہوتو ایک نظیر سے دوسری نظیر کا استحضار کیا جائے، اور یہی ’’عبرت ‘‘حاصل کرنے کے معنی ہیں کہ دوسرے کی حالت کو اپنے اوپر منطبق کیا جائے(بدائع ،ص۲۴۱)یعنی غیر مدلول قرآنی کو مدلول قرآنی پر کسی مناسبت ومشابہت کی وجہ سے قیاس کرلیا جائے،یہ لطائف، تاویلات اور نکات کے درجہ میں ہوتےہیں ،تفسیر نہیں ،اور ان کو علوم قرآنیہ نہیں کہہ سکتے(اشرف الجواب ،ج۲،ص۳۱۴)۔
اس سے معلوم ہوا کہ:
۱-علم اعتبار کے ذریعہ بیان کردہ بات کو قرآن کی تفسیر نہیں کہا جائے گا۔
۲-علم اعتبار آیات کا مدلول نہیں ہوتا۔
۳-علم اعتبارکسی مناسبت اور مشابہت کی وجہ سے آیت پر منطبق ہوتا ہے ۔
۴-علم الاعتبار سے مقصود دین ہوتا ہے ۔
علم اعتبار کی قرآن کریم سے مثال
اوران دونوں(استدلال واعتبار) کی اصل قرآن سے ثابت ہے ،اوردوسرے طریقہ کانام خود قرآن ہی میں ’’اعتبار ‘‘آیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے :
فَاعْتَبِرُوْا یا أوْلِیْ الاَبْصَار
اس سے اوپر بنی نضیر کے جلاوطن کئے جانے کا قصہ مذکور ہے ،جس کے بیان کرنے کے بعد یہ فرمایا ہے کہ اے بصیرت والو! اس سے عبرت حاصل کرو، یعنی اگر تم ایسی حرکت کروگے جوان لوگوں نے کی ہے تو اپنے واسطے بھی اس عذاب کو تیار سمجھو اور یہی تو’’ علم اعتبار‘‘ ہے کہ دو چیزوں میں مشابہت ہو تو ایک نظیر سے دوسری نظیر کا استحضار کیا جائے ،اور یہی عبرت حاصل کرنے کے معنی ہیں کہ دوسرے کی حالت کو اپنے اوپر منطبق کیا جائے کہ اگر ہم نے اس کے جیسے اعمال کئے تو ہمارا بھی وہی حال ہوگا جو ان کا ہوا ہے(بوادر النوادر، ج۲،ص۳۹۷،بدائع ،ص۲۴۰،الفصل الوصل، ص۱۸۲، ملحوظات ص۱۱۲، اشرف الجواب)۔
قرآن کریم سے علم اعتبار کی ایک اور مثال
۲-إذْ َہْب إلٰی فِرْعَونَ أنَّہٗ طَغٰی
کے تحت صوفیہ نے لکھا ہے:
إذْہَبْ یَا رُوْحُ إلَی الْنَّفْسِ وَجَاہِدْہَا أنَّہَا قَدْ طَغَتْ
کہ اے روح !نفس کی طرف جا اور اس سے جہاد کرکے اس کو مغلوب کرکہ وہ حد سے نکلا جا رہا ہے،یہاں صوفیاء کی مراد تفسیر کرنا نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ اے قرآن پڑھنے والے !تو قرآن کے قصوں کو محض قصہ سمجھ کر نہ پڑھ، بلکہ ان سے سبق حاصل کر ،کیونکہ قرآن کریم میں جو قصے ہیں وہ عبرت حاصل کرنے کے لئے بیا ن کئے گئے ہیں :
لقدْ کاَنَ فیْ قَصَصِہِمْ عِبرَۃٌُ لاولی الالباب
پس جب تو موسی علیہ السلام کے قصہ پر پہنچے تو اس سے یہ سبق حاصل کر کہ تیرے اندر بھی ایک چیز موسی کے اور ایک چیز فرعون کے مشابہ ہے ،یعنی روح اور نفس، ایک داعی الی الخیر ہے جو موسی علیہ السلام کے مشابہ ہے، دوسرا داعی الی الشر ہے جو فرعون ملعون کے مشابہ ہے ،پس تو بھی اپنے روح کو نفس پر غالب کر ،اور نافرمانیوں سے باز آجا، یہی علم اعتبار ہے کہ دوسرے کے قصہ کو اپنی حالت پر منطبق کرکے سبق حاصل کیا جائے(بدائع ، ص۲۴۰)۔
قرآن کریم سے علم اعتبار کی تیسری مثال
۳-حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آیت:
إعْلَمُوْا أنَّ اﷲَ یُحْیِیْ الأرْضَ بَعْدَ موْتِہَا
کی تفسیر میں فرمایا ہے:
لَیَّنَ الْقُلُوْبَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَإلاَّ فَقَدْ عُلِمَ اِحْیَاء الأرْضِ مشاَہدَۃً
یعنی یہاں ’’ارض ‘‘سے مراد ’’قلوب ‘‘ہیں ، یہ بھی علم اعتبار ہی ہے ،اور إلا فقد علم احیَائُ الأرْضِ سے مشہور تفسیر کی نفی کرنا مقصود نہیں ،بلکہ مراد یہ ہے کہ اے مخاطب! تجھ کو اس آیت میں ظاہری مدلول پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے ،کیونکہ وہ تو ظاہر ہی ہے ،بلکہ اس سے ’’قلوب ‘‘کی طرف انتقال کرنا چاہئے کہ دلوں کی بھی وہی حالت ہے جو زمین کی حالت ہے،یہ روایات میرے رسالہ مسائل السلوک میں مذکور ہیں ، ان آثار وغیرہ سے ثابت ہوگیا کہ علم اعتبار صوفیہ کی بدعت نہیں ،نصوص میں اس کی اصل موجود ہے ،پس جو لوگ علم اعتبار کی رعایت کرنے میں صوفیہ پر زندقہ اور الحاد کافتویٰ لگاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں (التبلیغ نمبر۱۲، غایۃ النجاح ،ص۲۲۸و۲۲۹)
علم اعتبارکے جائز ہونے کی شرائط اورحکم
اگر علم اعتبار کے ذریعہ کیا گیا کوئی دعوی تفسیر اور تاویل کے طور پر نہ ہو، بلکہ صرف علم اعتبار کے طور پر ہو تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ:
۱- وہ حکم اگر کسی اور نص سے ثابت ہو تو پھر یہ اعتبار شرعی حدود میں داخل ہے اور جائز ہے ۔
۲- اور اگر وہ حکم کسی اور نص سے ثابت نہ ہو تو وہ پھر تکلف ہے ۔
۳- اور اگر وہ حکم کسی اور شرعی حکم کے معارض اور مخالف ہو تو بالکل ناجائز ہے۔
صوفیاء اور علم الاعتبار
پس صوفیاء اس (علم الاعتبار) کی حدود سے نہیں نکلتے ، کیونکہ وہ منقولہ معانی کے نہ تو مدلول ہونے کے منکر ہیں اور نہ مقصود ہونے کے (وہ منقولہ معانی کو مدلول اور مقصود ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں) اور جاہل صوفیاء منقولہ معانی کے مدلول ہونے کے منکر ہیں ، اور جدید تعلیم یافتہ منقولہ معانی کے مدلول ہونے کے تو منکر نہیں مگر مقصود ہونے کے منکر ہیں ، بلکہ یہ تو سیاسی معانی ہی کو مقصود سمجھتے ہیں ، ان سب فرقوں کو خوب سمجھ لو (انفاس عیسی، ص ۳۱۷)۔
قیاس فقہی اور اعتبار میں فرق
غیر مدلول قرآنی کو مدلول قرآنی پر کسی مناسبت ومشابہت کی وجہ سے قیاس کرلیا جائے یہ حقیقی قیاس نہیں ،محض قیاس کی ایک صورت ہے ،اس لئے اس سے قیاس کے احکام ثابت نہیں ہوتے، یہ قیاس حجت شرعیہ نہیں ، چنانچہ اس قیاس سے اس حکم کو نص کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ،شرعی حجت صرف قیاس فقہی ہے(بوادر النوادر،ج۲، ص۳۹۴)۔
ایسے استنباطات کا درجہ فقہی قیاس سے بھی کم ہے، نہ وہ اشارات یقینی ہیں نہ ان سے تعبیر مقصود ہے ،خود یہ علم بھی قابل تحصیل نہیں ،بلکہ بلا تحصیل ہی جس کے ذہن کو ان مناسبتوں سے مناسبت ہوگی وہ ایسے استدلالات پرقادر ہوگا ،اگرچہ وہ علم وفضل میں کوئی معتدبہ درجہ نہ رکھتا ہو۔خلاصہ یہ ہے کہ فقہی قیاس میں تو غیر منصوص کو منصوص کے ساتھ لاحق کرکے اس پر حکم کرتے ہیں اور وہ بھی جہاں مستقل دلیل نہ ہو، یہ غیر منصوص بھی علت کے واسطے سے نص کا مدلول ہوتا ہے اور قیاس محض مظہر ہے،اورصوفیہ کا قیاس (علم اعتبار ) اگر دلیل سے ثابت نہ ہوں تو ان نصوص سے ثابت ہی نہیں ہوتے، یہ اعتبار محض ایک تشبیہ کا درجہ ہے جس میں وجہ تشبیہ حکم میں مؤثر نہیں ہوتی،’’استدلال ‘‘تو مفہوم لغوی سے ہوتا ہے ان طرق کے ساتھ جو اہل معانی واصول نے بیان کئے ہیں اور’’اعتبار‘‘ تشبہ واشارہ کے طور پر ہوتا ہے۔
استدلال واعتبار کی حقیقت اور ان دونوں میں فرق
’’استدلال ‘‘تو مفہوم لغوی سے ہوتا ہے اُن طرق کے ساتھ جو اہل معانی واصول نے بیان کئے ہیں ،اور’’ اعتبار ‘‘تشبہ واشارہ کے طور پر ہوتا ہے، اور ان دونوں کی اصل قرآن سے ثابت ہے، لیکن قرآن میں دلیل واستدلال کا لفظ صراحۃ نہیں آیا ،بلکہ اس کے مرادفات آئے ہیں چنانچہ ارشاد ہے:
قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ
اور ارشاد ہے :
قُلْ ہَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ عِلْمٍ
یہاں’’برہان ‘‘اور ’’علم ‘‘دلیل کے معنی میں ہے، اس لئے اس کا نام’’ استدلال ‘‘رکھنا صحیح ہوگیا جیسے :اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کے معنی میں یوں کہنا کہ حق تعالیٰ نے نماز کو فرض کیا ہے صحیح ہے حالانکہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ میں ’’اللہ ‘‘اور ’’فرض ‘‘کا لفظ صراحۃ نہیں مگر اس کا قائم مقام موجود ہے(حقوق الزوجین ،ص۵۱، غایۃ النجاح فی آیۃ النکاح)۔
فال ، اعتبار اورتعبیر
پھر آگے ان میں ایک تفصیل ہے جس سے دونوں کا درجہ جدا جدا ہوجاتا ہے ،وہ یہ کہ اگرغیر مدلول قرآنی سےدینی حکم مقصود ہے تو اس (صوری) قیاس کا درجہ ’’علم اعتبار ‘‘کاہے اور وہ امت کامعمول رہا ہے بشرطیکہ اس کو درجہ تفسیر تک نہ پہنچایا جائے، اوراگر غیر مدلول قرآنی سے دنیوی حکم مقصود ہے تو اس قیاس کا درجہ فال متعارف یا شاعری سے زیادہ نہیں ،اگرچہ مقیس صحیح ہی ہو، یا اتفاق سے صحیح ہوجائے ،چنانچہ شعراء بھی اپنے خیالی دعووں میں ایسے ہی قیاسات سے استدلال کیا کرتے ہیں ،اورکبھی وہ دعوے فی نفسہ صحیح بھی ہوتے ہیں، پس جو درجہ اس شاعری یا اس تفاول کا ہے یہی درجہ اس قیاس متکلم فیہ کا ہے۔
علم اعتبار اورعلم تعبیر رؤیا میں فرق
بلکہ ایک علم جو صلحاء کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے اس (فال وشاعری ) سے بھی اشرف ہے ،یعنی تعبیر رؤیا (خوابوں کی تعبیرکاعلم) اس کا مدار بھی ایسے ہی مناسبات پر ہے ،اس کو بھی نہ کوئی قابل تحصیل سمجھتا ہے اور نہ کسی درجہ میں اس کو حجت سمجھتا ہے،اورعلم اعتبار علم تعبیر سے بھی اشرف ہے اور اشرف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ’’تعبیر ‘‘سے تو فقط تکوینی احکام پر استدلال کیا جاتا ہے ،اور’’ علم اعتبار ‘‘سے خالص شرعی احکام پر استدلال کیا جاتا ہے ،سو اس حساب سے علم اعتبار ان قیاسات مبحوث عنہا سے دو درجہ اشرف ہوا(بوادرالنوادر، ج۲، ص۳۹۶)۔
مجاز اور اعتبار میں فرق
علم اعتبار کی حقیقت یہ ہے کہ ایک مشبہ کو دوسرے مشبہ بہ سے واضح کیا جائے، ثابت نہ کیا جائے ،بلکہ مشبہ دوسری دلیل سے ثابت ہے ۔
چنانچہ علم الاعتبار نہ مجاز میں داخل ہے، خواہ مجاز مرسل ہو خواہ استعارہ، کیونکہ مجاز میں معنی موضوع لہ کے مراد نہ ہونے پر قرینہ ہوتا ہے ،اس لئے معنی غیر موضوع لہ مراد ہوتا ہے ،یعنی جب کسی لفظ کو مجازا استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے حقیقی معنی مراد نہیں ہوتے جس کے لیے اس لفظ کو وضع کیا گیا ہوتا ہے ،بلکہ غیر موضوع لہ معنی مراد ہوتے ہیں،اور جبکہ علم الاعتبار میں نہ ہی معنی غیر موضوع لہ مراد لیے جاتے ہیں ،اور نہ ہی غیرموضوع لہ معنی مراد لینے کے لیے کوئی قرینہ موجود ہوتا ہے ۔
کنایہ اور اعتبار میں فرق
اسی طرح علم الاعتبار کنایہ میں بھی داخل نہیں ،کیونکہ کنایہ میں معنی موضوع لہ متروک نہیں ہوتے ،بلکہ کلام کا مدلول اصلی وہی معنی موضوع لہ ہوتاہے، مگر مقصوداس کا لازم یا ملزوم ہوتا ہے جیسے طَوِیْلُ النَّجاد کہ اس میں مدلول وضعی متروک نہیں ، مدلول کلام وہی ہے مگر مقصود طَوِیْلُ الْقَامَۃِ ہے، کیونکہ طویل النجاد کے لئے طویل القامۃ لازم ہے اور اعتبار میں وہ معنی نہ مقصود ہے نہ مدلول کلام ہے، پس یہ اعتبار گویا ’’قیاس تصرفی ‘‘ہے اور ’’قیاس فقہی ‘‘کےمشابہ ہے، مگر عین قیاس فقہی بھی نہیں ،کیونکہ قیاس فقہی میں علت جامعہ مقیس کے حکم میں مؤثر ہوتی ہے اس لیے وہ حکم قیاس کی طرف منسوب ہوتا ہے ،یہاں یہ بھی نہیں ، صرف مقیس مقیس علیہ میں تشابہ ہے اور مشابہت کا حکم میں کوئی اثر نہیں ، بلکہ وہ حکم خود مستقل دلیل سے ثابت ہے ،یہ حقیقت ہے علم اعتبار کی ۔
قرآن وسنت کی نصوص اور علم اعتبار
رہا یہ سوال کہ جس طرح صوفیاء نے’’ علم اعتبار ‘‘کا استعمال کیا ہے کیا نصوص میں بھی استعمال آیا ہے؟ تو میں کہتا ہوں کہ بحمد اللہ اس کی نظیر نصوص میں بھی موجود ہے اور میں یہ بات خود نہیں کہتا بلکہ شاہ ولی اللہ صاحب ؒکے قول سے میں اس کا ثبوت دیتا ہوں ۔اتنے بڑے محقق نے دو حدیثوں کے متعلق الفوز الکبیر میں یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ تقدیر کا مسئلہ ارشاد فرمایا:
مَامِنْکُمْ مِنْ أحَدٍ إلاَّ وَقَدْ کُتِبَ لَہُ مَقْعَدُۃٗ مِنَ النَّارِ وَمَقْعَدُہٗ مِن الْجَنَّۃِ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اﷲِ أفَلاَ نَتَّکِلُ عَلٰی کِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ؟
یعنی تم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں جس کا ٹھکانا جہنم یا جنت میں نہ لکھا جاچکا ہو، صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ! تو کیا ہم اپنی تقدیر پر بھروسہ کرلیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إعْمَلُوْا فَکُلٌّ مُیَسّرٌ لِمَا خَلَقَ لَہٗ اَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ اَہْلِ السَّعَادَۃِ فَسَیُیَسّر لِعَمَلِ السَّعَادَۃِ، الخ۔
عمل کرو کہ ہر شخص کے لیے ان اعمال کو آسان کردیا جاتا ہے جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ، جو شخص اہل سعادت میں سے ہوگا اسے اہل سعادت کے اعمال یعنی نیکیوں کی توفیق ہوگی اور جو بدبخت ہوگا اسے بدبختوں کے اعمال کی توفیق ہوگی ، اس کے بعد آپ ﷺنے یہ آیت پڑھی:
فَأمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی وَأمَّا مَنْ بَخِلَ واستغنی وکذب الحسنی فسنیسرہ للعسری
اب اس پر سوال ہوتا ہے کہ اس آیت میں ’’تقدیر ‘‘کا ذکر کہاں ہے؟ آیت کا مدلول تو یہ ہے کہ اِعطا وتقویٰ سے جنت آسان ہوجاتی ہے اور بخل واستغناء سے دوزخ آسان ہوجاتی ہے، اس کا جواب شاہ صاحبؒ نے دیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے بطور علم اعتبار کے اس آیت کے مضمون سے حدیث کے مضمون پر استشہاد فرمایا ہے ،اورمقصود تشبیہ دینا ہے کہ جیسے بعض اعمال کے واسطہ سے بعض کے لئے جنت ،اور بعض کے لئے دوزخ کو آسان کردیا ہے۔ اسی طرح تقدیر کے واسطہ سے بعض کے لئے اعمال صالحہ کو، بعض کے لئے معاصی کو آسان کردیا ہے اور یہ تشبیہ محض توضیح کے لئے ہے کہ تقدیر سے تیسیرویسی ہی ہوجاتی ہے جیسی اس آیت میں تیسیر اعمال سے مذکور ہے پس مقصود تشبیہ سے توضیح ہے، شاہ صاحبؒ نے حدیث کی شرح میں علم اعتبار کی اصل قرآن سے بتلائی ہے(بدائع ،ص۲۴۳)۔
احادیث میں رسول اللہﷺ نے علم اعتبار کا استعمال فرمایا ہے ،بڑے شخص کے سر رکھ کر میں یہ کہہ رہا ہوں ،خود اتنی بڑی بات نہیں کہتا، کیونکہ یہ بڑا دعوی ہے اور اگر کوئی شاہ صاحبؒ کے قول کو نہ مانے تو میں اس سے کہوں گا کہ پھر وہ ان حدیثوں کی شرح کردے، یقیناً ان حدیثوں میں کوئی علم وہبی ہے ،ربط کی وجہ بجز اس کے جو شاہ صاحبؒ نے فرمایا بیان نہ کرسکے گا(بدائع ،ص۲۴۶)۔
ماخوذ از: فقہ حنفی کے اصول وضوابط، مفتی محمد زید مظاہری
یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں: