اکبر شاہ خان نجیب آبادیؒ: حالات زندگی اور قادیانیت سے براءت

از: مفتی عمر انور بدخشانی

مؤرخ اسلام مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادیؒ
(۱۸۷۵ء-۱۹۳۸ء)

کتاب تاریخ اسلام – مختصر تعارف

اردو زبان میں تاریخ اسلام کی کتابوں کی فہرست میں ایک ممتاز اورنمایاں نام مولانااکبر شاہ خان نجیب آبادیؒ کا بھی نظر آئے گا ،آپ کی تحریر کردہ ’’تاریخ اسلام ‘‘تین جلدوں پر مشتمل ہے جوابتداء اسلام سے لے کر دسویں صدی ہجری تک کے حالات کا احاطہ کرتی ہے،مولانا نے اپنا علمی سرمایہ تیس کے قریب کتابوں میں محفوظ فرمایا ،آپ کی دیگر کتابیں بھی مختلف ادوار میں شائع ہوئیں ، لیکن آپ کی شہرت وتعارف کا سبب ’’تاریخ اسلام ‘‘ہی بنی ،یہ کتاب محرم ۱۳۴۳ھ میں مکمل ہوئی ۔

کتاب کے پہلے حصے میں ’’عہد جاہلیت ‘‘سے لے کر ’’خلافت راشدہ ‘‘تک کا بیان ہے ۔
دوسرا حصہ بنو امیہ اور بنو عباس پر مشتمل ہے ، اس میں مسلمانوں کے عہد کشور کشائی ، تمدن آفرینی اور قیادت علمی کے عروج کی مکمل تاریخ بھی ہے اور زوال واسباب زوال کی ایک عبرت ناک داستان بھی ۔
کتاب کے تیسرے حصے میں اندلس ، مراکش ، افریقہ ،مصر ، ایران ، شام وغیرہ کی اسلامی سلطنتوں کے حالات شرح وبسط سے بیان ہوئے ہیں ، اس میں بنو امیہ (اندلس) ، دولت صفاریہ ، سلجوقیہ ، عثمانیہ ،مغلان چنگیزی اور خوارزم شاہیہ کاتذکرہ بھی تفصیل سے ملتا ہے ، اس طرح مصنف نے مصر میں دولت مملوکیہ کے اختتام اور سلطان سلیم خان کی فتح مصر اور خلافت تک (۹۲۳ھ مطابق۱۵۱۸ء) کے حالات تفصیل سے لکھے ہیں ۔

’’تاریخ اسلام ‘‘کے علاوہ آپ کی دوکتابوں ”آئینہ حقیقت نما“اور ”قول حق “ نے خاطر خواہ شہرت حاصل کی ،یہ دونوں کتابیں بھی تاریخ کے موضوع پر ہیں۔

اکبر شاہ خان نجیب آبادیؒ کی کتاب ’’قول حق‘‘

”قول حق “ میں ملت اسلامیہ کے زوال کی مجمل تاریخ بیان کی گئی ہے کہ کن کن فرقوں نے ملت اسلامیہ کی بیخ کنی میں کیا کیا کردار ادا کیا ہے اور مسلمانوں کی قائم شدہ سلطنتوں اور حکومتوں کو مٹانے میں مجوسیوں اور عجمیوں نے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں ؟یہ الگ بات ہے کہ جگہ جگہ موٴلف مرحوم نے اسلاف سے محبت ، تقلید اور اکابرپرستی کو ملت اسلامیہ کے زوال میں اہم اسباب شمار کیا ہے،اور بات کارخ موضوع سے مناسبت کے بغیر اسی طرف موڑنے کی کوشش میں صرف کیا ہے کہ اگر ملت اسلامیہ میں مذکورہ بالا” مذموم عناصر“ نہ ہوتے تو آج تاریخ کچھ اورہوتی، اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۹۲۹ء میں نجیب آباد سے اور ۱۹۴۹ء میں دوسرا ایڈیشن نظامی پریس بدایوں سے شائع ہوا ، تیسرا ایڈیشن حافظ حیدر محمد اکیڈیمی کراچی کی طرف سے ڈاکٹر محمد ایوب قادری کے مقدمے کے ساتھ شائع ہوا ،اس کا ایک ایڈیشن پروگریسوبکس لاہور سے بھی شائع ہوا جس پر سن طباعت درج نہیں ،یہ طباعت پہلے ایڈیشن ہی کا عکس ہے ، پچھلے دنوں یہ کتاب ”دارالابلاغ“لاہور سے دوبارہ کمپوز ہو کرشائع کی گئی، ناشر نے از خود اس کتاب کا نام ”قول حق“ کے نام سے بدل کر ”امت محمدیہ زوال پذیرکیوں“ ؟ رکھ دیا ،اور کتاب کے سرورق پر یہ نشاندہی بھی ضروری نہیں سمجھی کہ اس کتاب کا مصنف کی طرف سے رکھاہوا صلی نام کیا ہے، بلکہ ناشر نے ”حرف تمنا“ کے عنوان کے تحت انتہائی غیر علمی انداز میں غیر محققانہ وجہ یہ ظاہرکی کہ :

”اب تک یہ کتاب نایاب تھی ،اگرچہ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے شائع ہوتی رہی ، جس میں ”قول حق“ کا نام بھی شامل ہے ، دارالابلاغ کے اسٹیج سے اسے کتاب میں بیان کردہ موضوع کی مطابقت کے حساب سے ”امت محمدیہ زوال پذیر کیوں ہوئی؟“کے نام سے شائع کیا جارہا ہے “۔

ناشر نے کتاب کا نام کیوں بدلا ؟کتاب میں بیان کردہ مضامین کیا ہیں ؟ اس کتا ب پر تفصیلی تجزیہ توآگے چل کر آئے گا اور اسی کی روشنی میں مولانا نجیب آبادی کے نظریات اور افکار کا تنقیدی جائزہ پیش کیا جائے گا ، اوردراصل یہی کتاب اس مضمون کا محرک اور باعث ہے ۔

اکبر شاہ خان نجیب آبادیؒ کی کتاب ’’آئینہ حقیقت نما‘‘

مولانا کی تیسری مشہور کتاب”آئینہ حقیقت نما“ہے ،یہ کتاب تاریخی حقیقت کا اعلی نمونہ ہے ، مسلمان بادشاہوں پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں اس کتاب میں ان کے محققانہ ومجتہدانہ جواب دیے گئے ہیں ،ڈاکٹر سید محمود سابق وزیر بھارت نے جیل میں اس کتاب کے کچھ حصے کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیاتھا،یہ کتاب اس قدر مقبول ہوئی کہ مولانا محمد علی جوہر نے یہ جزوی انگریزی ترجمہ گاندھی کو تحفۃ پیش کیا ، خواجہ حسن نظامی نے اسے پڑھنے کے بعد کہا کہ:

” اگر میں صاحب استطاعت ہوتا تو مولانا نجیب آبادی کو موتیوں میں تول دیتا“۔

”آئینہ حقیقت نما“ کا پہلا ایڈیشن ۲۸-۱۹۲۶ء میں شائع ہوا ، ۱۹۵۸ء میں نفیس اکیڈیمی کراچی نے اسے دوبارہ شائع کیا ۔

مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی – مختصر حالات زندگی

آگے بڑھنے سے پہلے مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادیؒ کا کچھ تعارف بھی ضروری ہے، اکبر شاہ خان مولوی نادر شاہ خان کے بیٹے تھے ، ۱۸۷۵ء میں قصبہ نجیب آباد کے محلہ پٹھان پورہ میں پیدا ہوائے ،نجیب آباد ضلع بجنور (صوبہ یوپی) کا مشہور قصبہ ہے ، اس قصبے کو نواب نجیب الدولہ نے آباد کیا تھا ،اسی نسبت سے آپ کے نام میں ’’نجیب آبادی ‘‘کا لاحقہ شامل ہے ،تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد مولانا اکبر شاہ خانؒ تقریبا ۹۸-۱۸۹۷ء میں تدریس سے منسلک ہوگئے ،پہلے آپ نجیب آباد کے مڈل اسکول میں ٹیچر رہے ، پھر ترقی پاکر ہائی اسکول میں فارسی کے استاذ مقرر ہوگئے ۔

قادیانیت کی طرف میلان

اس زمانے میں آپ کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا جوبظاہرانجام کار آپ کے قادیان جانے کا باعث بنا،تفصیل اس واقعے کی کچھ یوں ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں کے خلاف آریہ سماج تحریک زوروں پر تھی ، یہ مولانا اکبر شاہ خان کی نوجوانی کا دورتھا ،ایک آریہ سماج مبلغ نجیب آباد آگیا اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر فشانی شروع کردی ، مولانا اکبر شاہ خان کی حمیت ایمانی اور غیرت اسلامی جوش میں آئی ، انہوں نے آریہ مبلغ سے ٹکر لی ، مباحثہ ومناظرہ کا سلسلہ شروع ہوگیا ،اتفاق سے اسی دوران مولانا کو اس زیر بحث موضوع پر مرزائے قادیان کی کوئی کتاب ہاتھ لگ گئی، انہوں نے اس کتاب کے مطالعے کے ذریعے آریہ سماجی کو مناظرے میں شکست دے دی اور اسے راہ فرار پر مجبور کردیا،اگرچہ مولانا کو اس معرکے میں کامیابی ہوئی مگر مولانا خود قادیانیوں کے جال میں پھنس گئے ، اس زمانے میں قادیانی تحریک زوروں پر تھی ،ممکن ہے قادیانیوں کی کتابوں سے استفادے کے بعد ان سے ایک گونہ عقیدت بھی آپ کے دل میںآ گئی ہوگی ،اور ڈاکٹر محمدایوب قادری دہلویؒ کے بقول ”ممکن ہے کوئی مبلغ بھی محرک ہوا ہو “، بہرحال آپ مرزا غلام احمد قادیانی کے خلیفہ حکیم نور الدین قادیانی سے متأثر ہو کر اس کے گرویدہ ہوگئے ، ان حکیم صاحب نے کچھ ایسا جادو کیا کہ مولانا قادیان پہنچ گئے ، خود لکھتے ہیں :

”میں نے ایک سفر پنجاب کا اختیار کیا اور سیاحانہ قادیان بھی پہنچا ، وہاں جلسہ منعقد ہورہا تھا اور غالبا یہ ۱۹۰۶ء کا واقعہ ہے ، میں کئی روز وہاں رہا ، مجھ کو وہاں کوئی چیز پسند نہ آئی، لیکن مولانا نور الدین کا درس قرآن میرے لیے قیمتی چیز تھا“۔

ایک اورجگہ رقمطراز ہیں:
”اگلے سال قادیان پہنچ کر وہاں قیام اختیار کیا ،مولانا ممدوح (نورالدین) نے مجھ کو جاتے ہی دبوچ لیا اور میرے ساتھ ان کا برتاوٴ ایسی محبت وشفقت کا تھا جس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی “۔

لاہوری جماعت سے وابستگی

۱۹۰۶ء سے ۱۹۱۴ء تک وہ قادیان میں رہے ، تقریبا پانچ سال تک مدرسہ تعلیم الاسلام کے بورڈنگ سپرنٹنڈنٹ رہے ، مولانا اکبر شاہ خان اپنے فرائض منصبی انجام دینے کے بعد زیادہ وقت حکیم نور الدین کے درس یا مطب میں گزارتے تھے ،یا پھر طلبہ کو قرآن کریم کا درس دیتے تھے ،ادھر سارے ملک میں خبر پھیل گئی کہ اکبر شاہ نجیب آبادی قادیانی ہوگئے ، قدرتا دوستوں اور عزیزوں کی طرف سے شدید رد عمل ہوا،دوسری طرف حکیم نورالدین کے انتقال کے بعد مولاناکی آزاد اسلام پسندی کی وجہ سے بقول خود :”میرے لیے قادیان کی زمین تنگ ہوچکی تھی “، ایک طرف قادیانیوں کی جانب سے مولانا کو قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں ،دوسری طرف مسلمانوں کی جانب سے کفریہ فتوے دیے جارہے تھے ، چونکہ مولانا کی وابستگی بڑی حدتک حکیم نور الدین کی وجہ سے تھی لہذا حکیم صاحب کے فوت ہوجانے کے بعد ان کا قادیان میں رہنا مشکل ہوگیا ،اور وہ وہاں کے نظام سے مایوس ہوکر ”لاہوری جماعت“سے وابستہ ہوگئے ،انہوں نے قادیان کے ناخوشگوار ماحول اورمرزا غلام احمدقادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود قادیانی کے نامناسب رویے کا اظہار اپنے بعض خطوط میں کیا ہے ، قادیانی جماعت سے تعلق ختم کرکے مولانااکبر شاہ خان اپنے قصبے نجیب آباد چلے آئے ،مگر ”لاہوری جماعت “نے ان کو پھر بلالیا اور وہ ۱۹۱۵ء کے وسط تک لاہور میں رہے ،بعدازاں مولانا نجیب آبادی کا تعلق ”لاہوری جماعت “سے بھی ختم ہوگیا ، اورانہوں نے اپنے آبائی مذہب اہل سنت کی طرف رجوع کرلیا اور ان لوگوں سے کوئی رابطہ وتعلق نہ رکھا ، اور وہ بھی مولانا اکبرشاہ خان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھول گئے ۔

قادیانیت سے براءت

مولانا قادیانی ہوئے تھے یا نہیں؟یہ کوئی راز کی بات نہیں تاہم ان پر اس ناقص فلسفے کا اثر ضرورہوا تھا ، تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ مولانا بہت جلد اس دور ابتلا سے نکل گئے ، انہوں نے اپنے خط بنام محمود بریلوی میں لکھا ہے کہ :

”میرے اندر جو ایمان اور میری روح میں جو سوز وگداز اپنے گھر کی چہار دیواری کے اندر بچپن میں پیدا ہوچکا تھا وہی آج تک موجود ہے ، الحمد للہ رب العالمین ! میں نے نہ ایک منٹ کے لیے قادیان میں کتاب وسنت کے خلاف کوئی چیز کسی سے مرعوب ہوکر تسلیم وقبول کی ،اور نہ کسی دوسری جگہ ، ہاں ! یہ ضرور ہوا کہ بعض مسائل میں تحقیق وتفتیش کی کمی اور بے علمی وناواقفیت کے سبب میں نے کچھ کا کچھ سمجھ لیا ،لیکن صحیح بات معلوم ہونے پر اس کو فورا تسلیم کرلینے میں مجھے کبھی تامل نہیں تھا اور دل کی حالت الحمد للہ کبھی نہیں بگڑی“۔

اس سلسلے میں مولانا اکبر شاہ خان کا ایک مختصر سا بیان یکم نومبر ۱۹۳۵ء ”مدینہ“ بجنور میں شائع ہوا ہے جسے یہاں نقل کیا جاتا ہے :
”میرے ایک دوست کو حال ہی میں کسی قادیانی صاحب کی صحبت کا موقع ملا ، وہ قادیانی علم کلام اور قادیانی دلائل سے بہت کچھ متأثر اور قادیانی مخصوص عقائد کو غالباقبول کرچکے ہیں ، میرے پاس انہوں نے چند سوالات لکھ کر بھیجے ہیں ، جن کی زبان اور لہجے میں تعریضات بھی نشتر زن ہیں ، میں شاید ان کے نشتر کی نسبت اپنی تلوار کی نوک سے زیادہ سلیقے سے کام لے سکتا ہوں ، لیکن اس جراحی اور فصادی سے میرا جی متلاتا ہے ،صرف نفس مطلب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ، ان کے پہلے سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ ”تو قادیان میں کئی سال تک قادیانی بن کر رہا ، اب قادیانیت سے کیوں منحرف ہے ؟کیا یہ متلون مزاجی اور رائے کی کمزوری نہیں “، اس قسم کا سوال مجھ سے مولانا حکیم اللہ صاحب بجنوری مرحوم نے بھی کیا تھا ، میں نے ان کے پاس جواب میں یہ مشہور شعر لکھ کر بھیج دیا تھا:

زنقص تشنہ لبی داں بہ عقل خویش مناز
دلت فریب گر از جلوہ سراب نہ خورد

(میرے نقصان کی وجہ پیاس تھی ،لیکن تم اپنی عقل پر نازاں مت ہو جانا ،اورتمہارا دل کہیں سراب کی چمک سے دھوکہ نہ کھاجائے)۔

ماہنامہ ’’عبرت‘‘-علامہ اقبال اور اکبر شاہ خان نجیب آبادی

مولانا اکبر شاہ خان نے نجیب آباد سے ایک تاریخی ماہ نامہ ”عبرت“ بھی جنوری ۱۹۱۶ء میں جاری کیا تھا اور مارچ ۱۹۱۷ء تک یہ رسالہ نکلتا رہا ، اس میں علمی ، تحقیقی اور تاریخی مضامین شائع ہوتے تھے ،اس کے مضامین و مقالات اکثر مولانا کے قلم سے تحریر کردہ ہوتے تھے ،اس دور کے نامور اہل قلم مثلا مولانا عبد الحلیم شرر ، اسلم جے راج پوری ، مولوی ابو الحسن بدایونی ، آغارفیق بلند شہری ، پروفیسر جمیل الرحمن بھی ”عبرت “ میں لکھتے تھے ، کبھی کبھی علامہ اقبال بھی توجہ فرماتے تھے اور اپنا کلام اشاعت کے لیے بھیجتے تھے ، اقبال ”عبرت “ کو بالالتزام پڑھتے تھے ، اپنے ایک خط مورخہ ۱۷ /مئی ۱۹۲۲ء میں لکھتے ہیں :

”عبرت بڑا مفید کام کررہا ہے ، مسلمان بیدار ہورہے ہیں ، ان شا اللہ آپ کا پرچہ ضرور چمکے گا“۔

اقبال ایک اور خط مورخہ ۲۲/ستمبر ۱۹۲۲ءء میں لکھتے ہیں :
”امیرخان پر آپ نے خوب مضمون لکھا ، خداتعالی اس کے جانشینوں کو بھی ہدایت دے کہ مسلمانوں پرظلم کرنے سے دست کش ہوجائیں “۔

اسی ضمن میں علامہ اقبال کے مولانا سے خصوصی تعلق کا اس سے اندازہ لگایے کہ مولانا نے ۱۹۲۵ء میں ایک رسالہ ”حجة الاسلام“ لکھا ، اسے پڑھ کر علامہ اس قدر متأثر ہوئے کہ سو روپے اس کتاب کی تقسیم کے لیے اپنی جیب خاص سے عنایت فرمائے ۔

اخبار’’زمیندار‘‘ سے وابستگی

۱۹۱۷ءمیں مولانا اکبر شاہ خان پھر لاہور آگئے اور ۱۹۲۱ءء کے وسط تک وہاں ان کا قیام رہا ، اس دوران وہ دیال سنگھ کالج ، مسلم ہائی اسکول اور سینیئر لوکل کیمبرج کالج میں اردو اور فارسی کے استاذ رہے ، اسی زمانے میں وہ ایک اخبار”منصور “ لاہور کے مدیر بھی رہے ، ان دنوں مولانا ظفر علی خان گرفتار ہوگئے اور مولانا نجیب آبادی کو پیغام دے گئے کہ:
”میں پہلے بھی کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں اور اب بھی ایک قیدی کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ آپ دفتر ”زمیندار“ میں تشریف لے جائیں اور اس کام کو سنبھالیں“۔
یہ پیغام ملتے ہی مولانا نے کالج کی ملازمت سے استعفی دے دیا اور اخبار ”زمیندار“کو سنبھال لیا ، تقریبا ایک سال تک ”زمیندار“ سے وابستہ رہے ، ۱۹۲۱ء کے وسط میں وہ ”زمیندار “ کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو کر نجیب آباد آگئے اور رسالہ ”عبرت“ دوبارہ نومبر ۱۹۲۱ ء میں جاری کردیا جو دسمبر ۱۹۲۲ء تک چلتا رہا،رسالہ ”عبرت“ میں کتابوں اور رسالوں پر تبصرے توجہ اور محنت سے لکھے جاتے تھے ،”عبرت“ہر ماہ باقاعدگی سے شائع ہوتا تھا ، ملک بھر کے اہل علم کو اس کا انتظار رہتا تھا ، اس زمانے کے رسائل وجرائد نے ”عبرت“کا خیر مقدم کیا اور عمدہ تبصرے کیے یہاں تک کہ ”شنسودھک“ کے نام سے ”عبرت“کے گجراتی میں ترجمہ کرنے کی تحریک بھی ہوئی مگرافسوس کہ ”عبرت“زیادہ عرصے تک نہ چل پایا،مولانا نجیب آبادیؒ کی بہت ساری کتابیں بھی اسی طرح وجود میں آئیں کہ آپ نے جوعلمی وتحقیقی مضامین ”عبرت“ کے لیے لکھے تھے اپنی مقبولیت اور افادیت کی وجہ سے وہ بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوئے، آپ کی تالیفات میں سے ”تاریخ نجیب آباد“، ”جنگ انگورہ“،”نواب امیر خان“،”گائے اور اس کی تاریخی عظمت“،”وید اور اس کی قدامت“اور ”ہندومسلمانوں کا اتفاق“وغیرہ اسی قسم کے شاہکارہیں ۔

مولانا اکبر شاہ خان نے اردو زبان کے تاریخی وعلمی سرمائے میں گراں قدر اضافہ کیا ، موٴرخ اسلام ان کے نام کا جزء لاینفک ان کی زندگی میں ہی بن گیا تھا ، علامہ اقبال نے اپنے ایک مکتوب مورخہ ۲۳/اپریل ۱۹۳۵ء میں ”نظام سلطنت“ کی رسید دیتے ہوئے مولانا نجیب آبادی کی تصانیف پر مختصر مگر جامع تبصرہ یوں فرمایا ہے :

”بڑی مدت کے بعد آپ کی خیریت معلوم ہوئی اور کتاب بھی ملی ، بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں …… آپ کی کتاب کی ورق گردانی کی اور اسے مفید پایا،آپ کی تصانیف اردو لٹریچر میں قابل قدر اضافہ ہیں ، اس سے تمام پڑھنے والوں کی نقطہٴ نگاہ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور یہی اس ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے “۔

جون ۱۹۳۷ءء میں مولانا کی علالت کا سلسلہ شروع ہوگیا ، ضعف معدہ کی شکایت ہوئی ، جب علاج سے کوئی افاقہ نہ ہوا تو اپریل ۱۹۳۸ءء میں وہ تبدیلی آب ہوا کی غرض سے جوالا پور گئے ، مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا ،مقررہ وقت آچکا تھا ، چنانچہ ۱۰/مئی ۱۹۳۸ء کو مولانا اکبر شاہ خان کا سانحہٴ ارتحال پیش آیا ۔

’’آپ بیتی ‘‘لکھنے کی فرمائش پر جواب

مولانا اکبر شاہ خان ؒ سے گجراتی رسالہ ”شنسودھک“ (جس کا ذکر پیچھے آچکا ہے)کے ایڈیٹر امام شاہ لعل شاہ نے جب سوانح عمری لکھنے کی درخواست کی تو مولانا نے چند جملوں میں ہر انسان کی سوانح عمری کا حق ادا کردیا:

”مکمل سوانح عمری یہ ہے کہ مشت خاک یا قطرہٴ ناپاک سے پیدا ہوا ہوں ، مرنے کے بعد گل سڑ کر کھاد ، کیڑوں کی غذا ، خاک کے ذرات ، ہوا کا غبار بننے والا ہوں ، اب تک زندگی کا اکثر حصہ غفلت میں گزرا ، بقیہ ایام کی نسبت کچھ نہیں جانتا ، خاتمہ بخیر ہونے کی آرزو رکھتا ہوں ، اپنے گناہوں کو دیکھتا ہوں تو ڈرتا ہوں ، خدا تعالی کے رحم وفضل وکرم ومغفرت وستاری پر نظر کرتا ہوں تو امید وحسرت سے لبریز ہو کر بہشت بریں کو اپنی جاگیر یقین کرتا ہوں ، اگر خدا نخواستہ مجھ کو میری غفلتوں اور گناہوں کی سزادی گئی تو چوپائے اور حشرات الارض مجھ سے اچھے ہیں ،لیکن اگر مجھ سے عفو وعطا کا سلوک ہوا اور جنت مل گئی تو میں دنیا کے ہزارہا بادشاہوں سے زیادہ ذی عزت اور بلند مرتبہ ہوں ، میرے مورث اعلی کا نام آدم تھا ، جس کو فرشتے سجدہ کرتے تھے اور میرے روحانی باپ کا نام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو خیر البشر ، سید الرسل ، خاتم النبیین اور رحمة للعالمین ہیں ، باقی اس سے زیادہ تفصیل کے لیے گزارش ہے کہ :

ہیچم و ہیچ را نہ خرد ہیچ کس بہیچ
اے روزگار درگزر از چون و چندما

(میں معدوم ہوں اورکوئی شخص بھی معدوم کو کسی قیمت پر نہیں خرید سکتا، زمانے ہم سے سوال مت کہ کیسے ہو؟ اور کتناوقت گزارا؟)۔

اس مضمون کے لیے درج ذیل سے استفادہ کیا گیا:
۱-ماہنامہ معارف،دارالمصنفین، اعظم گڑھ ،اکتوبر ۱۹۹۷ء۔
۲-کاروان رفتہ ،ڈاکٹر محمد ایوب قادری، مکتبہ اسلوب کراچی ،۱۹۸۳ء۔
۳-تاریخ اسلام ، اکبر شاہ خان نجیب آبادی ، نفیس اکیڈیمی کراچی ،۱۹۸۶ء۔
۴-قول حق ، اکبر شاہ خان نجیب آبادی ، پروگریسو بکس ،لاہور۔
۵-امت محمدیہ زوال پذیر کیوں ، اکبر شاہ خان نجیب آبادی ، دارالابلاغ لاہور،۲۰۰۶۔
۶-سہ ماہی العلم ۱۹۵۸ءکراچی۔

بشکریہ ماہنامہ بینات ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی، شعبان ۱۴۲۷ھ مطابق ستمبر ۲۰۰۶ء

3,790 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!