لباس کی اسلامی ثقافت کے بارے میں 5 اعتراض اور ان کا جواب ، مفتی محمد تقی عثمانی
تمہید
اسلام کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہیں ، لہذا ان کا تعلق ہماری معاشرت اور رہن سہن کے ہر حصے سے ہے ، زندگی کا کوئی گوشہ اسلام کی تعلیمات سے خالی نہیں ، ’’لباس‘‘ بھی زندگی کے گوشوں میں سے اہم گوشہ ہے ، اس لیے قرآن وسنت نے اس کے بارے میں بھی تفصیلی ہدایات دی ہیں۔
۱-اعتراض:کیا لباس کا تعلق قوم اور ملک کے حالات سے ہے؟
آج کل ہمارے دور میں یہ پروپیگنڈہ بڑی کثرت سے کیا گیا ہے کہ لباس تو ایسی چیز ہے جس کا ہر قوم اور ہر وطن کے حالات سے تعلق ہوتا ہے، اس لئے آدمی اگر اپنی مرضی اور ماحول کے مطابق کوئی لباس اختیار کرلے تو اس کے بارے میں شریعت کو بیچ میں لانا اور شریعت کے احکام سنانا تنگ نظری کی بات ہے۔
اور یہ جملہ تو لوگوںسے بکثرت سننے میں آتا ہے کہان مولویوں نے اپنی طرف سے قیدیں شرطیں لگادی ہیں، ورنہ دین میں تو بڑی آسانی ہے، اللہ اوراللہ کے رسول ﷺ نے تو دین میں اتنی پابندیاں نہیں لگائی ہیں، مگر ا ن ملاؤں نے اپنی طرف سے گھڑ کر یہ پابندی عائد کررکھی ہیں، اور یہ ان ملاؤں کی تنگ نظری کی دلیل ہے، اور اس تنگ نظری کی نتیجے میں انہوںنے خود بھی بہت سی باتوں کو چھوڑ رکھا ہے اور دوسروں سے بھی چھڑا رکھا ہے۔
ہرلباس اپنا اثر رکھتا ہے
خوب سجھ لیجئے! لباس کا معاملہ اتنا سادہ اور اتنا آسان نہیں ہے کہ آدمی جو چاہے لباس پہنتارہے اور اس لباس کی وجہ سے اس کے دین پر اور اس کے اخلاق پر، اس کی زندگی پر، اس کے طرز عمل پر کوئی اثر واقع نہ ہو، یہ ایک مسلم حقیقت ہے، جس کو شریعت نے تو ہمیشہ بیان فرمایا، اور اب نفسیات اور سائنس کے ماہرین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ انسان کے لباس کا اس کی زندگی پر، اس کے اخلاق پر،اس کے کردار پر بڑا اثر واقع ہوتا ہے، لباس محض ایک کپڑا نہیں ہے، جو انسان نے اٹھا کر پہن لیا، بلکہ یہ لباس انسان کی طرز فکر پر اس کی سوچ پر اس کی ذہنت پر اثرانداز ہوتا ہے، اس لئے اس لباس کو معمولی نہیں سمجھناچاہئے۔(اصلاحی خطبات،ج۵، ص ۲۶۰)
۲-اعتراض: ’’ظاہری لباس میں کیا رکھا ہے؟بس دل صاف ہونا چاہئے!‘‘
آج کل یہ جملہ بھی بہت کثرت سے سننے میں آتا ہے کہ صاحب!اس ظاہری لباس میں کیا رکھا ہے، دل صاف ہونا چاہئے، اور ہمارا دل صاف ہے، ہماری نیت اچھی ہے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق قائم ہے، سارے کام تو ہم ٹھیک کررہے ہیں، اب اگر ذرا سا لباس بدل دیا تو اس میں کیا حرج ہے؟ اس لئے دین ظاہر کا نام نہیں، باطن کا نام ہے، دین جسم کا نام نہیں، روح کا نام ہے، شریعت کی روح دیکھنی چاہئے، دین کی روح کو سمجھنا چاہئے، آج کل اس قسم کے جملے بہت کثرت سے پھیلے ہوئے ہیں اور پھیلا جارہے ہیں اور فیشن بن گئے ہیں۔
شریعت میں ظاہر اور باطن دونوں مطلوب ہیں
خوب یاد رکھئے! دین کے احکام روح پر بھی ہیں، جسم پر بھی ہیں، باطن پر بھی ہیں اور ظاہر پر بھی ہیں،قرآن کریم کا ارشاد ہے:
وذروا طاہر الا ثم وباطنہ(سورۃ الانعام: ۱۲۰)۔
یعنی ظاہر کے گناہ بھی چھوڑو اور باطن کے گناہ بھی چھوڑو، صرف یہ نہیں کہ باطن کے گناہ چھوڑو، خوب یاد رکھئے! جب تک ظاہر خراب ہے تو پھر یہ شیطان کا دھوکہ ہے کہ باطن ٹھیک ہے، اس لئے کہ ظاہر اسی وقت خراب ہوتا ہے جب اندرسے باطن خراب ہوتا ہے، اگر باطن خراب نہ ہو تو ظاہر بھی خراب نہیں ہوگا۔
ہمارے ایک بزرگ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ جب کوئی پھل اندر سے سڑجاتا ہے تو اس کے سڑنے کے آثار چھلکے پر داغ کی شکل میں نظر آنے لگتے ہیں اور اگر اندر سے وہ پھل سڑا ہوا نہیں ہے تو چھلکے پر خرابی نظر نہیں آئے گی، چھلکے پر اسی وقت خرابی ظاہر ہوتی ہے جب اندر سے خراب ہو، اسی طرح جس شخص کا ظاہر خراب ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ باطن میں بھی کچھ نہ کچھ خرابی ضرورہے، ورنہ ظاہر خراب ہوتا ہی نہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ ہمارا ظاہر اگر خراب ہے تو کیا ہوا؟ باطن ٹھیک ہے، یاد رکھئے! اس صورت میں باطن کبھی ٹھیک ہوہی نہیں سکتا۔
دنیاوی کاموں میں ظاہر بھی مطلوب ہے
دنیا کے سارے کاموں میں تو ظاہر بھی مطلوب ہے اور باطن کو مطلوب ہے، ایک بے چارہ دین ہی ایسا رہ گیا ہے جس کی بارے میں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ہمیں اس کا باطن چاہئے، ظاہر نہیں چاہئے، مثلاًدنیا کے اندر جب آپ مکان بناتے ہیں تو مکان کا باطن تو یہ ہے کہ چار دیوار کھڑی کر کے اوپر سے چھت ڈال دی تو باطن حاصل ہوگیا، اب اس پر پلاستر کی کیا ضرورت ہے؟ اور رنگ وروغن کی کیا ضرورت ہے؟ اس لئے کہ مکان کی ر وح تو حاصل ہوگئی ہے، وہ مکان رہنے کے قابل ہوگیا، مگر مکان کے اندر تویہ فکر ہے کہ صرف چار دیواری اور چھت کافی نہیں، بلکہ پلاستر بھی ہو، رنگ وروغن بھی ہو، اس میں زیب وزینت کا سارا سامان موجود ہو،یہاں کبھی صرف باطن ٹھیک لر لینے کا فلسفہ نہیں چلتا، یا مثلاً گاڑی ہے، ایک اس کا باطن ہے اور ایک ظاہر ہے، گاڑی کا باطن یہ ہے کہ ایک ڈھانچہ لے کر اس میں انجن (اور ٹائر) لگا لو، تو اب باطن حاصل ہے، اس لئے کہ انجن لگا ہوا ہے، وہ سواری کرنے کے قابل ہے، لہٰذا اب نہ باڈی کی ضرورت ہے، نہ رنگ وروغن کی ضرورت ہے، وہاں تو کسی شخص نے آج تک یہ نہیں کہا کہ مجھے گاڑی کا باطن حاصل ہے، اب ظاہر کی ضرورت نہیں، بلکہ وہاں تو ظاہربھی مطلوب ہے اورباطن بھی مطلوب ہے، ایک بے چارہ دین ہی ایسا مسکین رہ گیا کہ اس میں صرف باطن مطلوب ہے، ظاہر مطلوب نہیں۔
یاد رکھئے! یہ شیطان کا دھوکہ اور فریب ہے، لہذاظاہر بھی درست کرنا ضروری ہے او رباطن بھی درست کرنا ضروری ہے، چاہے لباس ہو، یا کھانا ہو، یا آداب معاشرت ہوں، اگرچہ ان سب کا تعلق ظاہرسے ہے، لیکن ان سب کا گہرا اثر باطن پر واقع ہوتا ہے، اس لئے لباس کو معمولی سمجھ کرنظر انداز نہیں کرنا چاہئے، جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں ان کو دین کا حقیقی فہم حاصل نہیں، اگر یہ بات نہ ہوتی تو حضور نبی کریمﷺ لباس کے بارے میں کوئی ہدایت نہ فرماتے، کوئی تعلیم نہ دیتے، لیکن آپ نے لباس کے بارے میں ہدایات دیں، آپ کی تعلیمات اسی جگہ پر آتی ہیں جہاں لوگوں کے بہک جانے اور غلطی میں پڑجانے کا خطرہ ہوتا ہے، اس لئے ان اصولوں کو اور ان تعلمات کو اہتمام کے ساتھ سننے کی ضرورت ہے۔(اصلاحی خطبات، ج۵، ص ۲۶۲)
۳-اعتراض:کیا لباس کے بارے میں علماء تنگ نظر ہیں؟
لوگ ہمیں یہ کہتے ہیں کہ آپ جو اس قسم کا لباس پہننے سے منع کرتے ہیں، یہ تنگ نظری کی بات ہے، اور ایسی بات کہنے والوں کو تنگ نظر کہا جاتا ہے، حالانکہ جس قوم کا لباس تم اختیار کررہے ہو، اس کی تنگ نظری او را س کی مسلمان دشمنی کا عالم یہ ہے کہ جب اس نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو ہمارے مغل مسلمان بادشاہوں کا جو لباس تھا، یعنی عمامہ اور خاص شلوار قمیص، اس نے وہ لباس اپنے خانساموں کو پہنایا، اپنے بیروں کو پہنایا، اپنے چوکیداروں کو پہنایا، اور اس نے ان کو یہ لباس پہننے پر مجبور کیا، ایسا کیوں کیا؟ صرف مسلمانوں کو ذلیل کرنے کے لئے اور یہ دکھانے کے لئے کہ دیکھو! ہم نے تمہارے بادشاہوں کا لباس اپنے نوکروں کو، اپنے خانساموں کو او ربیروں کو پہنایا، اس قوم کی تنگ نظری کا تو یہ عالم ہے اور ماشاء اللہ ہماری فراخی قلب کا یہ عالم ہے کہ ہم ان کالباس بڑے فخر سے اور بڑے ذوق شوق سے پہننے کے لئے تیار ہیں، اب اگر ان سے کوئی کہے کہ یہ لباس پہننا غیرت کے خلاف ہے توا س کو کہا جاتا ہے کہ تم تنگ نظر ہو:
خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
تم اپنا سب کچھ بدل ڈالولیکن !!!
یہ بات بھی خوب سمجھ لو کہ تم کتنا ہی ان کا لباس پہنا لو اور کتنا ہی ان کا طریقہ اختیار کر لو، مگرتم پھر بھی ان کی نگاہ میں عزت نہیں پاسکتے، قرآن کریم نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ:
ولن ترضی عنک الیھود ولا النصاری حتی تتبع ملتہم (سورۃ البقرۃ: ۱۲۰)۔
یہ یہود اور نصاری تم سے کبھی بھی راضی نہیں ہوں گے، جب تک کہ تم ان کی ملت کو اختیار نہیں کر لوگے، ان کے نظریات، ان کے ایمان، ان کے دین کو اختیار نہیں کرلو گے، اس وقت وہ تم سے راضی نہیں ہوں گے، لہٰذا اب تم اپنا لباس بدل لو، پوشاک بدل لو، سراپا بدل لو، جسم بدل لو، جو چاہو بدل لو، لیکن وہ تم سے راضی ہونے کو تیار نہیں، چنانچہ تم نے تجربہ کر لیا اور سب کچھ کر کے دیکھا لیا، سب کچھ ان کی نقالی پر فنا کر کے دیکھ لیا، سرے سے لے کر پاؤں تک تم نے اپنے آپ کو بدل لیا، کیا تم سے وہ لوگ خوش ہوگئے؟کا تم سے راضی ہوگئے؟ کیا تمہارے ساتھ انہوںنے ہمدردی کا بر تاؤ شروع کردیا ؟ بلکہ آج بھی ان کی دشمنی کا وہی عالم ہے، اور اس لباس کی وجہ سے ان کے دل میں تمہاری عزت کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔(اصلاحی خطبات، ج۵، ص ۲۹۴)۔
۴-اعتراض:’’حضورﷺکے زمانے میں جو لباس رائج تھا اسے زبردستی دین بنا دیا گیا‘‘
آج کل ایک پروپیگنڈہ بہت پھیلا جارہا ہے اور بہت سے لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ درحقیقت حضور اقدسﷺ نے وہ طریقے اختیار کر لئے جو آپﷺ کے زمانے میںرائج تھے اور جیسا لباس قریش میں رائج تھا، جیسی وضع قطع رائج تھی اسی کو اختیار کر لیا، اب اگر آج ہم اپنے دور کے رائج شدہ طریقے اختیار کر لیں تو اس میں کیا حرج ہے؟
خوب سمجھ لیجئے کہ حضور اقدسﷺ نے کبھی بھی اپنے زمانے میں رائج طریقوں کو اختیار نہیں فرمایا،بلکہ ان میں تبدیلی پیدا کی،اور ان کو ناجائز قرار دیا، آج لوگ نہ صرف یہ کہ غلط کاری میں مبتلا ہیں، بلکہ بعض اوقات بحث کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں کہ اگر ازارٹخنوں سے ذرا نیچے ہوگیا تو اس میں کیاحرج ہے؟ ارے! حرج یہ ہے کہ یہ حضہ جہنم میں جائے گا اور یہ عمل اللہ تعالیٰ کے غضب کا موجب ہے۔(اصلاحی خطبات، ج۵، ص ۳۰۰)۔
ہمارے بزرگ تھے حضرت مولانا احتشام الحق صاحب تھانویؒ، وہ ایک تقریر میں فرمانے لگے کہ اب ہمارایہ حال ہوگیا ہے کہ جب حضور اقدسﷺ نے فرمایا کہ ٹخنے کھول دو اور ٹخنے ڈھکنا جائز نہیں تو اس وقت ہم لوگ ٹخنے کھولنے کو تیار نہیں تھے اور جب انگریز نے کہا کہ گھٹنا کھول دو اور نیکر پہن لو، تو اب گھٹنا کھولنے کو تیار ہوگئے، تو انگریز کے حکم پر گھٹنا بھی کھول دیا اور نیکر پہن لی، اور حضورﷺ کے حکم پر ٹخنے کھولنے پر تیار نہیں، یہ کتنی بے غیرتی کی بات ہے، ارے! حضور اقدس ﷺ سے محبت کے بھی کچھ تقاضے ہیں، لہٰذا جب آپﷺ نے اس عمل کو ناپسند فرمایا تو ایک مسلمان کو کس طرح یہ گوارا ہوسکتا ہے کہ وہ اس کے خلاف کرے۔(اصلاحی خطبات،ج۵، ص۳۰۰)۔
۵-اعتراض:’’اسلام نے لباس کے بارے میں کوئی اصول بیان نہیں کیے ‘‘
شریعت نے لباس کے بارے میں بڑی معتدل تعلیمات عطا فرمائی ہیں، چنانچہ شریعت نے کوئی خاص لباس مقرر کر کے اور اس کی ہیئت بنا کر یہ نہیں کہا کہ ہر آدمی کے لئے ایسا لباس پہننا ضروری ہے ،لہٰذا جو شخص اس ہیئت سے ہٹ کر لباس پہنے گا وہ مسلمانی کے خلاف ہے، ایسا اس لئے نہیں کیا کہ اسلام دین فطرت ہے، اور حالات کے لحاظ سے، مختلف ممالک کے لحاظ سے، وہاں کے موسموں کے لحاظ سے، وہاں کی ضروریات کے لحاظ سے لباس مختلف ہوسکتا ہے، کہیں باریک، کہیںموٹا، کہیں کسی وضع کا، کہیں کسی ہیئت کا لباس اختیار کیا جاسکتا ہے، لیکن اسلام نے لباس کے بارے میں کچھ بنیادی اصول عطا فرمادیئے، ان اصولوں کی ہر حالت میں رعایت رکھنی ضروری ہے، ان کو سمجھ لینا چاہئے۔
لباس کے متعلق اسلام کے بنیادی اصول
اس آیت میں اللہ تعالی نے لباس کے بنیادی اصول بتادیے ہیں فرمایا کہ :
يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ
اے بنی آدم ! ہم نے تمہارے لیے ایسا لباس اتارا جو تمہاری پوشیدہ اور شرم کی چیزوں کو چھپاتا ہے اور جو تمہارے لیے زینت کا سبب بنتا ہے ،اورتقوی کا لباس تمہارے لیے سب سے بہتر ہے ۔
یہ تین جملے ارشاد فرمائے ،اوران تین جملوں میں اللہ تعالی نے معانی کی کائنات بھردی ہے ۔
لباس سے متعلق شرعی اصولوں کا خلاصہ: بہرحال! لباس کے یہ چار اصول ہیں
(۱)پہلا اصول یہ ہے کہ وہ ساتر(ستر چھپانے والا)ہونا چاہئے۔
(۲)دوسرا صول یہ ہے کہ حدود شریعت میں رہتے ہوئے اس کے ذریعہ زینت بھی حاصل کرنی چاہئے۔
(۳)تیسرااصول یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نمائش اور دکھاوا مقصود نہ ہو۔
(۴) چوتھا اصول یہ ہے کہ اس کے پہننے سے دل میں تکبر پید انہ ہو۔
لباس کے تین عیب
لباس کے بنیادی مقصد کو پور انہ کرنے کی تین صورتیں ہوتی ہیں:
(۱)ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ لباس اتنا چھوٹا ہے کہ لباس پہننے کے باوجود ستر کا کچھ حصہ کھلا رہ گیا، اس لباس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ اس لباس سے اس کا بنیادی مقصد حاصل نہ ہوا، اور کشف عورت ہوگیا۔
(۲)دوسری صور ت یہ ہے کہ اس لباس سے ستر کو چھپا تو لیا، لیکن وہ لباس اتنا باریک ہے کہ اس سے اندر کا بدن جھلکتا ہے۔
(۳)تیسری صورت یہ ہے کہ لباس اتنا چست ہے کہ لباس پہننے کے باوجود جسم کی بناوٹ اور جسم کا ابھارنظر آرہا ہے، یہ بھی ستر کے خلاف ہے۔
اس لئے مرد کے لئے ناف سے لے کر گھٹنوں تک کا حصہ ایسے کپڑے سے چھپانا ضروری ہے جو اتنا موٹاہو کہ اندر سے جسم نہ جھلکے اور وہ اتنا ڈھیلا ڈھالا کہ اندر کے اعضا کو نمایاں نہ کرے، اور اتنا مکمل ہو کہ جسم کاکوئی حصہ کھلا نہ رہ جائے، اور یہی تین چیزیں عورت کے لباس میں بھی ضروری ہیں۔(اصلاحی خطبات، ج۵، ص ۲۶۵)۔
ماخوذ از: اسلام اور دور حاضر کے شبہات ومغالطے، مفتی محمد تقی عثمانی
یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں: