لباس کے بارے میں اسلام کیا رہنمائی کرتا ہے؟ از مفتی محمد تقی عثمانی

اسلام کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہیں ، لہذا ان کا تعلق ہماری معاشرت اور رہن سہن کے ہر حصے سے ہے ، زندگی کا کوئی گوشہ اسلام کی تعلیمات سے خالی نہیں ، ’’لباس‘‘ بھی زندگی کے گوشوں میں سے اہم گوشہ ہے ، اس لیے قرآن وسنت نے اس کے بارے میں بھی تفصیلی ہدایات دی ہیں۔
شریعت نے لباس کے بارے میں بڑی معتدل تعلیمات عطا فرمائی ہیں، چنانچہ شریعت نے کوئی خاص لباس مقرر کر کے اور اس کی ہیئت بنا کر یہ نہیں کہا کہ ہر آدمی کے لئے ایسا لباس پہننا ضروری ہے ،لہٰذا جو شخص اس ہیئت سے ہٹ کر لباس پہنے گا وہ مسلمانی کے خلاف ہے، ایسا اس لئے نہیں کیا کہ اسلام دین فطرت ہے، اور حالات کے لحاظ سے، مختلف ممالک کے لحاظ سے، وہاں کے موسموں کے لحاظ سے، وہاں کی ضروریات کے لحاظ سے لباس مختلف ہوسکتا ہے، کہیں باریک، کہیںموٹا، کہیں کسی وضع کا، کہیں کسی ہیئت کا لباس اختیار کیا جاسکتا ہے، لیکن اسلام نے لباس کے بارے میں کچھ بنیادی اصول عطا فرمادیئے، ان اصولوں کی ہر حالت میں رعایت رکھنی ضروری ہے، ان کو سمجھ لینا چاہئے۔

لباس کے متعلق اسلام کے بنیادی اصول

لباس کے چار بنیادی اصول ومقاصد قرآن وحدیث کی روشنی میں
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے لباس کے بنیادی اصول بتادیئے ہیں فرمایا کہ :
یبنیٰ آدم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سوأتکم وریشا ولباس التقویٰ ذلک خیر(سورۃ الا ٔ عراب:۲۶)
اے بنی آدم! ہم نے تمہارے لیے ایسا لباس اتارا جو تمہاری پوشیدہ اور شرم کی چیزوں کو چھپاتا ہے، اور جو تمہارے لئے زینت کا سبب بنتا ہے، اور تقویٰ کا لباس تمہارے لئے سب سے بہتر ہے۔
یہ تین جملے ارشاد فرمائے اور ان تین جملوں میں اللہ تعالیٰ نے معانی کی کائنات بھردی ہے۔

(۱)لباس کا پہلا اصول سترِ عورت

اس آیت میں لباس کا پہلا مقصد یہ بیان فرمایا کہ وہ تمہاری پوشیدہ اور شرم کی چیزوں کو چھپا سکے، ’’سوآۃ‘‘ کے معنی وہ چیز کے ذکر کرنے سے یا جس کے ظاہر ہونے سے انسان شرم محسوس کرے،یعنی ’’ستر عورت‘‘ مراد ہے، تو گویا کے لباس کا سب سے بنیادی مقصد ’’ستر عورت‘‘ ہے، اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے جسم کے کچھ حصوں کو ’’عورت‘‘ قرار دیا، یعنی وہ چھپانے کی چیز ہے، وہ ستر عورت مردوں میں اور ہے، عورتوں میں اور ہے،مردوں میں ستر کا حصہ جس کو چھپانا ہر حال میں ضروری ہے وہ ناف سے لے کر گھٹنوںتک کاحصہ ہے،اس حصے کو کھولنا بلا ضرورت جائز نہیں، علاج وغیرہ کی مجبوری میں تو جائز ہے، لیکن عام حالالت میں اس کو چھپانا ضروری ہے، عورت کا سارا، جسم، سوائے چہرے اور گٹوں تک ہاتھ کے سب کا سب ’’عورت‘‘ ہے اور ’’ستر‘‘ ہے، جس کا چھپانا ضروری ہے اور کھولناجائز نہیں، لہٰذا لباس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ شریعت کے مقرر کئے ہوئے ستر کے حصوں کو چھپالے، جو لباس اس مقصد کو پورا نہ کرے، شریعت کی نگاہ میں وہ لباس ہی نہیں، وہ لباس کہلانے کے لائق ہی نہیں، کیونکہ وہ لباس اپنا بنیادی مقصد پور انہیں کررہا ہے جس کے لئے وہ بنایا گیا ہے۔
موجودہ دور کے فیشن نے لباس کے اصل مقصد ہی کو مجروح کردیا ہے ،اس لیے کہ آج کل مردوں اور عورتوں میں ایسے لباس رائج ہوگئے ہیں جن میں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ جسم کا کونسا حصہ کھل رہا ہے اور کونسا حصہ ڈھکا ہوا ہے ، حالانکہ شریعت کی نگاہ میں وہ لباس لباس ہی نہیں ۔

(۲)لباس کا دوسرا مقصد زینت اور خوبصورتی

لباس کا دوسرا مقصد اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ ’’ریشا‘‘ یعنی ہم نے اس لباس کو تمہارے لئے زینت کی چیز اور خوبصورتی کی چیز بنائی، ایک انسان کی خوبصورتی لباس میں ہے، لہٰذا لباس ایسا ہونا چاہئے کہ جسے دیکھ کر انسان کو فرحت ہو، بدہیئت اور بے ڈھنگانہ ہو، جس کو دیکھ کر دوسروں کو نفرت اور کراہت ہو، بلکہ ایسا ہونا چاہئے جس کو دیکھ کرزینت کا فائدہ حاصل ہوسکے۔

کیا قیمتی لباس اسراف میں داخل ہے ؟

بعض اوقات دل میں یہ اشتباہ رہتا ہے کہ کیسا لباس پہنیں ؟اگر بہت قیمتی لباس پہن لیا تو یہ خیال رہتا ہے کہ کہیں اسراف میں داخل نہ ہوجائے ؟اگر معمولی لباس پہنیں تو کس درجے کا پہنیں؟

حضرت تھانویؒ نے لباس کے بارے میں فرمایا کہ لباس ایسا ہونا چاہیے جو ساتر ہو اورساتر ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے تھوڑا سا آسائش کا مقصد بھی حاصل ہو ، یعنی اس لباس کے ذریعے جسم کو راحت بھی حاصل ہو ، آرام بھی حاصل ہو، ایسا لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں ، مثلا پتلا لباس پہن لیا اس خیال سے کہ جسم کو آرام ملے گا ، اس میں کوئی حرج نہیں ، شرعا جائز ہے ، شریعت نے اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی، اسی طرح اپنے دل کو خوش کرنے کے لیے زیبائش کا لباس پہنے تو یہ بھی جائز ہے ، مثلا ایک کپڑا دس روپے گز ہے ،اور دوسرا کپڑا پندرہ روپے گز مل رہا ہے ، اب اگر ایک شخص پندرہ روپے گز والا کپڑا اس لیے خریدے کہ اس کے ذریعے میرے جسم کو آرام ملے گا یا اس وجہ سے کہ یہ کپڑا مجھے زیادہ اچھا لگتا ہے ، اس کو پہننے سے میرا دل خوش ہوگا ،اور اللہ تعالی نے مجھے اتنی وسعت دی ہے کہ میں دس روپے کے بجائے پندرہ روپے گز والا کپڑا پہن سکتا ہوں ،تو یہ اسراف میں داخل نہیں ہے ، اورگناہ بھی نہیں ہے ،بلکہ شرعا یہ بھی جائز ہے ،اس لیے کہ اللہ تعالی نے تمہیں وسعت بھی دی ہے اور تم اپنا دل خوش کرنے کے لیے ایسا کپڑا پہن رہے ہو اس لیے جائز ہے ۔

صاحب حیثیت کو اچھے کپڑے پہننا چاہیے

بلکہ جس شخص کی آمدنی اچھی ہو ،اس کے لیے خراب قسم کا کپڑا اوربہت گھٹیا قسم کا لباس پہننا کوئی پسندیدہ بات نہیں،چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ ایک صاحب حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،آپ ﷺ نے دیکھا کہ وہ صاحب بہت بدہیئت قسم کا پرانا لباس پہنے ہوئے ، حضور اقدس ﷺ نے ان صاحب سے پوچھا :

ألک مال ؟ قال نعم ، قال : من ای المال؟قال: قد اتانی اللہ من الابل والغنم والخیل والرقیق ، قال :فإذا أتاک اللہ مالا فلیر اثر نعمۃ اللہ علیک وکرامتہ (ابوداود ، کتاب اللباس)۔

حضور ﷺ نے اس سے پوچھا تمہارے پاس مال ہے؟اس نے کہا ہاں ! آپ ﷺ نے پوچھا کہ تیرے پاس کس قسم کا مال ہے ؟اس نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! اللہ تعالی نے مجھے ہر قسم کا مال عطا فرمایا ہے ، یعنی اونٹ ، بکریاں ،گھوڑے اور غلام سب ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالی نے تمہیں مال دیا ہے تو اس کے انعامات کا کچھ اثر تمہارے لباس سے بھی ظاہر ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالی نے تو سب کچھ دے رکھا ہے ،لیکن فقیر اور گداگر کی طرح پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہیں ، یہ تو ایک طرح سے اللہ تعالی کی نعمت کی ناشکری ہے ، لہذا اللہ تعالی کی نعمت کا اثرظاہر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آرام کی خاطر اور اپنی آسائش یا زیبائش کی خاطر کوئی شخص اچھا اور قیمتی لباس پہن لے تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں ، جائز ہے ۔

نمائش اور دکھاوا جائز نہیں

لیکن اگر لباس پہننے سے نہ تو آسائش مقصود ہے او رنہ آرائش مقصود ہے بلکہ نمائش ادر دکھاوا مقصود ہے، تاکہ لوگ دیکھیں کہ ہم نے اتنا شاندار کپڑا پہنا ہوا ہے، اور اتنا اعلیٰ درجے کا لباس پہنا ہوا ہے اور یہ دکھانا مقصود ہے کہ ہم بڑی دولت والے بڑے پیسے والے ہیں، اوردوسروں پر بڑائی جتانا اور د وسروں پر رعب جمانا مقصود ہے، یہ سب باتیں نمائش میں داخل ہیں اورحرام ہیں، اس لئے کہ نمائش کی خاطر جو بھی لباس پہنا جائے وہ حرام ہے۔(اصلاحی خطبات، ج۵، ص ۲۷۶)

(۳)لباس کاتیسرا اُصول تشبہ سے بچنا

لباس کے بارے میں شریعت نے جو تیسرا اصول بیان فرمایا، وہ ہے ’’تشبہ‘‘ سے بچنا، یعنی ایسا لباس پہننا، جس کو پہن کر انسان کسی قوم کافردنظر آئے اور اس مقصد سے وہ لباس پہنے تاکہ میں ان جیسا ہوجاؤ، اس کو شریعت میں ’’تشبہ‘‘ کہتے ہیں، دوسرے لفظو میں یوں کہا جائے کہ کسی غیر مسلم قوم کی نقالی کی نیت سے کوئی لباس پہننا، اس سے قطع نظر کہ وہ چیز ہمیں پسند ہے یا نہیں؟ وہ اچھی ہے یا بری ہے؟ لیکن چونکہ فلاں قوم کی نقالی کرنی ہے، بس ان کی نقالی کے پیش نظر اس لباس کو اختیار کیا جارہا ہے، اس کو ’’تشبہ‘‘ کہا جاتا ہے، اس نقالی پر حضور اقدسﷺ نے بڑی سخت وعید ارشاد فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ :

’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘ (أبوداؤد، کتاب اللباس، باب فی لباس الشہرۃ)۔

یعنی جو شخص کسی قوم کے ساتھ تشبہ اختیار کرے، اسی کی نقالی کرے اور ان جیسا بننے کی کوشش کرے تووہ انہیں میں سے ہے، گویا کہ وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے، اسی قوم کا ایک فرد ہے، اس لئے کہ یہ شخص انہی کو پسند کررہا ہے، انہی سے محبت رکھتا ہے، انہی جیسا بننا چاہتا ہے، تو اب تیرا حشر بھی انہی کے ساتھ ہوگا،اللہ تعالیٰ محفوظ فرمائے، آمین۔

تشبہ کی حقیقت

’’تشبہ‘‘ کے بارے میں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہ تشبہ کب پیدا ہوتی ہے؟ ور کب اس کی ممانعت آتی ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی ایسے کام میں دوسری قوم کی نقالی کرنا جو فی نفسہ براکام ہے اور شریعت کے اصول کے خلاف ہے، ایسے کام میں نقالی تو حرام ہی ہے، دوسرے یہ کہ وہ کام اگرچہ فی نفسہ برا تو نہیں ہے،بلکہ مباح ہے، لیکن یہ شخص اس غرض سے وہ کام کررہا ہے کہ میں ان جیسا نظر آؤں اور دیکھنے میں ان جیسا لگوں اور اہتمام کرکے ان جیسا بننے کی کوشش کررہا ہے، اس صورت میں وہ مباح کام بھی حرام اور ناجائز ہوجاتا ہے۔

مشابہت اورتشبہ میں فرق

وہ یہ کہ دو چیزیں الگ الگ ہیں، ایک تشبہ اور ایک ہے مشابہت، دونوں میںفرق ہے، تشبہ کے معنی تو یہ ہیںکہ آدمی ارادہ کر کے نقالی کرے، اور ارادہ کرکے ان جیسا بننے کی کوشس کرے، یہ تو بالکل ہی ناجائز ہے، دوسری چیز ہے ’’مشابہت‘‘، یعنی اس جیسا بننے کا ارادہ تو نہیں کیا تھا، لیکن اس عمل سے ان کے ساتھ مشابہت خود بخود پیدا ہوگئی، تو یہ مشابہت جو خود بخود پیدا ہوجائے تو یہ حرام تو نہیں، لیکن حضور اقدس ﷺنے بلا ضرورت مشابہت پیدا ہونے سے بھی بچنے کی تاکید فرمائی ہے، فرمایا کہ اس کی کوشش کرو کہ ان سے امتیاز رہے مسلمان قوم اور مسلمان ملت کا ایک امتیاز ہونا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ دیکھ کر پتہ نہ چلے کہ یہ آدمی مسلمان ہے یا نہیں؟ سر سے لے کر پاؤں تک اپنا حلیہ ایسا بنا کر رکھا ہے کہ دیکھ کر یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ مسلمان ہے کہ نہیں؟ اس کوسلام کریں یا نہ کریں؟ مباحات کے ذریعہ بھی ایسا حلیہ بنا ناپسندیدہ نہیں۔

تشبہ اور مشابہت دونوں سے احتیاط

بہر حال! فتوے کی بات تو وہ ہے جو میں نے پہلے عرض کی کہ تشبہ تو ناجائز، حرام اور گناہ ہے،اور تشبہ کا مطلب یہ ہے کہ ارادہ کرکے ان جیسا بننے کی کوشش کرنا، اور مشابہت کے معنی یہ ہیں کہ ان جیسا بننے کا ارادہ تو نہیں تھا لیکن کچھ مشابہت پیدا ہوگئی، یہ گنا اور حرام تو نہیں ہے، البتہ کراہت سے خالی نہیں، اور غیرت کی تو بالکل خلاف ہے، اس لئے ان دونوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔(اصلاحی خطبات، ج۵، ص ۲۸۷ تا ۲۹۸)

(۴)لباس کاچوتھا اصول تکبر اور بڑائی سے اجتناب

لباس کے بارے میں چوتھا اصول یہ ہے کہ ایسا لباس پہننا حرام ہے جس کو پہن کر دل میں تکبر اور بڑائی پیدا ہوجائے، چاہے وہ لباس ٹاٹ ہی کا کیوں نہ ہو، مثلاً اگر کوئی ایک شخص ٹاٹ کا لباس پہنے اور مقصد یہ ہو کہ یہ پہن کر میں لوگوں کی نظروں میں بڑا درویش اور صوفی نظر آؤں، اور بڑا متقی اور پرہیز گار بن جاؤں، اور پھر اس کی وجہ سے دوسروں پر اپنی بڑائی کا خیال دل میں آجائے، اور دوسروں کی تحقیر پیدا ہوجائے تو ایسی صورت میں وہ ٹاٹ کا لباس بھی تکبر کا ذریعہ اور سبب ہے، اس لئے حرام ہے، حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ تکبر کپڑے پہننے سے نہیں ہوتا، بلکہ دوسروں کی حقارت دل میں لانے سے ہوتا ہے، اس لئے بعض اوقات ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں بڑا تواضع والا لباس پہن رہا ہوں، حقیقت میں اس کے اندرتکبر براہوتا ہے۔(اصلاحی خطبات، ج۵، ص ۲۹۸)

لباس سے متعلق شرعی اصولوں کا خلاصہ

بہرحال! لباس کے یہ چار اصول ہیں:
(۱)پہلا اصول یہ ہے کہ وہ ساترہونا چاہئے۔
(۲)دوسرا صول یہ ہے کہ حدود شریعت میں رہتے ہوئے اس کے ذریعہ زینت بھی حاصل کرنی چاہئے۔
(۳)تیسرااصول یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نمائش اور دکھاوا مقصود نہ ہو۔
(۴) چوتھا اصول یہ ہے کہ اس کے پہننے سے دل میں تکبر پید انہ ہو۔

لباس کے تین عیب

لباس کے بنیادی مقصد کو پور انہ کرنے کی تین صورتیں ہوتی ہیں:
(۱)ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ لباس اتنا چھوٹا ہے کہ لباس پہننے کے باوجود ستر کا کچھ حصہ کھلا رہ گیا، اس لباس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ اس لباس سے اس کا بنیادی مصقد حاصل نہ ہوا، اور کشف عورت ہوگیا۔
(۲)دوسری صور ت یہ ہے کہ اس لباس سے ستر کو چھپا تو لیا، لیکن وہ لباس اتنا باریک ہے کہ اس سے اندر کا بدن جھلکتا ہے۔
(۳)تیسری صورت یہ ہے کہ لباس اتنا چست ہے کہ لباس پہننے کے باوجود جسم کی بناوٹ اور جسم کا ابھارنظر آرہا ہے، یہ بھی ستر کے خلاف ہے۔
اس لئے مرد کے لئے ناف سے لے کر گھٹنوں تک کا حصہ ایسے کپڑے سے چھپانا ضروری ہے جو اتنا موٹاہو کہ اندر سے جسم نہ جھلکے اور وہ اتنا ڈھیلا ڈھالا کہ اندر کے اعضا کو نمایاں نہ کرے، اور اتنا مکمل ہو کہ جسم کاکوئی حصہ کھلا نہ رہ جائے، اور یہی تین چیزیں عورت کے لباس میں بھی ضروری ہیں۔(اصلاحی خطبات، ج۵، ص ۲۶۵)۔

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

9,065 Views

2 thoughts on “لباس کے بارے میں اسلام کیا رہنمائی کرتا ہے؟ از مفتی محمد تقی عثمانی

  1. مفتی صاحب السلام علیکم ورحمۃاللہ یہمضمون پڑھ کر یوں لگتا ھے کہ لباس میں تنعم اور ادراف جئز ھے .آج کل شادیوں میں دلہنوں کا لباس لاکھں روپوؤں میں بنتا ھے .اسلام تعلیمات کی روشنی میں راھنمائی فرمائیں.
    جزاک اللہ خیر
    محمد شفیو.

  2. تنعم اور اسراف.
    دلھنوں کا لباس لاکھوں میں بنتا ھے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!