واقعہ قرطاس کی حقیقت: کیا حضرت ابن عباسؓ اس مجلس میں موجود تھے؟ از علامہ انور شاہ کشمیریؒ

مرتب: حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیریؒ

میں واقعہ قرطاس پر کچھ گفتگو کرتا ہوں ، میری یہ گفتگو تمہید میں چند چیزوں پر مشتمل ہوگی۔

۱-رسول اللہ ﷺ اظہار حق کے لیے مامور ہیں۔

۲-آپ ﷺ نے اس فریضہ کی ادائیگی مکمل طور پر فرمائی ، واقعات شاہد ہیں کہ آپ ﷺ سے بعض اوقات کافر حلقے نے وحی متلو میں ترمیم کی درخواست کی جو ناقابل قبول ٹھہری، کبھی آپ ﷺ کو منصبی فریضہ کی ادائیگی سے روکنے کے لیے دنیاوی مال ومنال کی طمع دی گئی ، کبھی خوف زدہ کیا گیا ، توگاہ اس وقت کا عظیم عہدہ پیش کیا گیا،لیکن آپ ﷺ نے حقارت سے ٹھکرادیا ،آپ ﷺ کی ان ہی خصوصیات کا اظہار حضرت عائشہؓ کے اس بیان میں ہے کہ تم سے جو شخص تین باتیں کہے ،اس پر ہرگز اعتماد نہ کرنا ، ان تین میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وحی میں کچھ کاٹ چھانٹ کردی ہے ، اسے ہرگز تسلیم نہ کرنا ،اسے قرآن کریم نے بھی اپنے اسلوب میں بیان کیا ہے :

وما ھو علی الغیب بضنین

۳-آپ ﷺ کی غیر معمولی شجاعت ، وہ موقع یاد کیجیے کہ جب حضرت عمرؓ ایک خاص انداز میں ’’دارارقم‘‘ پہنچے ہیں اوراندر سے جھانکنے والے کے اس بیان پر کہ عمرؓ ہیں،شمشیر بدست ، آنکھیں شعلہ بار وغیرہ تو عام حاضرین پر یہ سر کر سراسیمگی طاری ہوگئی ، اس وقت میں آپ کے قلبی ودماغی اطمینان کا مظہر یہ ارشاد کہ ’’آنے دو، اگر خیر کے ارادے سے آئے ہیں تو پذیرائی ہوگی ،اوراگر کسی برے ارادے سے آئے ہیں تو بخدا ان ہی کی تلوار سے ان کی گردن کاٹ کر ان کے سینہ پر رکھ دوں گا‘‘، آپ کی غیر معمولی شجاعت کا آئینہ دار ہے ۔

۴-ایک عمرؓ نہیں ، اربوں کھربوں عمرؓ بھی آپ ﷺ کو اظہار حق سے نہیں روک سکتے ، خود عمرؓ کی مزاحمت کے واقعات ہیں جیسا کہ رئیس المنافقین کی نماز جنازہ وغیرہ کہ عمرؓ کی بہ شدت رکاوٹ کے باوجود آپ ﷺ جنازہ کی نماز سے نہیں رکے ، اگرچہ آپ ﷺ یہاں نماز جنازہ پڑھانے کے من جانب اللہ مکلف نہیں تھے ، تاہم بتانا یہ ہے کہ آپ ﷺ نے عمرؓ کی مزاحمت سے اپنا ارادہ نہیں بدلا۔

۵-عمرؓ نے بعض مواقع پر بعض چیزیں چاہیں ، مثلا پردے کا اہتمام ، پابندش شراب وغیرہ ، آپ ﷺ نے عمرؓ سے یہی فرمایا کہ مجھے ابھی اس کا حکم نہیں ملا۔

۶-تمام کفار مکہ اوراسلام خلاف طاقتوں کا اجتماع آپ ﷺ کو متاثر نہ کرسکا، آپ ﷺ کا عدم تاثر آپ ﷺ کی تاریخ ساز شجاعت ، بلند حوصلگی ،اعلی تدبیر وتدبر کا مظاہرہ ہے ۔

۷-اسی مرض الوفات میں غلط تشخیص وتجویز پر جو آپ ﷺ کو دوا استعمال کرائی گئی قدرے افاقہ پر آپ ﷺ کا اس پر رد عمل ، اگر قرطاس کے واقعہ میں آپ ﷺ عمر کے اقدام کو غلط سمجھتے تو بعد میں اس کی تلافی ضرور فرماتے ، دراں حالیکہ آپ ﷺ بعد میں حیات رہے ہیں ، حالانکہ آپ ﷺ کی مشہورعالم شجاعت یقین دلاتی ہے کہ اگر آپ ﷺ اس تحریر پر من جانب اللہ مامورتھے تو عمرؓ کی رکاوٹ ہرگز کامیاب نہ ہوتی۔

۸-یہ کہاں سے سمجھ لیا گیا کہ خلافت سے متعلق ہی کچھ لکھوانا چاہتے تھے ، مزید یہ کہ علیؓ کے حق میں خلافت کی تحریر پیش نظر تھی ، کہا جاسکتا ہے کہ اگر آپ ﷺ کا منشا مبارک یہی تھا تو آپ ابوبکرؓ کے حق میں لکھواتے ، جس کے قرائن بہت ہیں ، ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا تھا کہ تم اپنے بھائی اور والد کو بلالو تو میں کچھ لکھوادوں ،تاکہ بعد میں کوئی آرزومند غلط کوشش نہ کرے ، یہ روایت صحیحین میں ہے ، اس سے واضح ہے کہ آپ تحریر خلافت ابوبکرؓ ہی کے حق میں لکھنا چاہتے تھے۔

۹-مریض کو مرض کی حالت میں اس کی سہولت وراحت کا اہتمام کرنے والا مخلص قرار دیا جائے گا نہ کہ منافق۔

اب سنیے کہ اس تحریر کے واقعہ پر شیعوں نے سب سے زیادہ ہنگامہ اٹھایا، وہ جس انداز میں اسے پیش کرتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ انجام کار رسول اللہ ﷺ کی معروف شجاعت، اظہار حق کی جرأت اورفریضہ نبوت کی ادائیگی میں کسی سے متاثر نہ ہونے کی مشہور روایت مشتبہ ہوتی ہے ، اس لیے یہ واقعہ تحریر گوناگوں وجوہ کی بنا پر ناقابل قبول ہے ۔

رسول اللہ ﷺ جب کہ اس واقعہ کے بعد چند دن حیات رہے ہیں ،کیسے ممکن ہے کہ اگر تحریر خلافت برائے علیؓ پر آپ من جانب اللہ مامورتھے تواسے نہ لکھواتے ؟

میں کہتا ہوں کہ میں نے خود شیعہ لٹریچر سے اس واقعہ کی تردید میں کم از کم سو ایسی روایتیں حاصل کی ہیں جو شیعوں کے اس ہنگامہ بازی کی شافی تردید کرتی ہیں ۔

شاہ ولی اللہ ؒ کا یہ افادہ بھی -جو آپ نے ’’ازالۃ الخفاء‘‘ اور’’عروۃ العینین‘‘میں قلم بندکیا ہے -پیش نظر رہے کہ چاروں خلفاء کی خلافت قطعی اور شیخین کی خلافت جلی ہونے کے ساتھ ساتھ قطعی بھی ہے ،اور دو دامادوں یعنی عثمان ؓ وعلیؓ کی خلافت قطعی تو ہے ،لیکن اتنی جلی نہیں جیسا کہ شیخین کی ہے ۔

شاہ عبدالعزیزؒنے اس فرقہ ضالہ کی تردید میں تحفہ اثناعشریہ تصنیف فرمائی ،جس کا قاطع جواب مخالفین سے آج تک نہ بن پایا،ملا کابلی کی الصواعق بھی اسی پایہ کی کتاب ہے۔

’’فخرج ابن عباس یقول :ان الرزیۃ کل الرزیۃ‘‘ :

(مذکورہ الفاظ سے)بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباسؓ آں حضور ﷺ کی مجلس سے نکلے اورپھراپنے ان خیالات کا اظہار کیا ، حالانکہ یہ غلط ہے ، حفاظ احادیث نے صراحت کی ہے کہ واقعہ قرطاس کی مجلس میں ابن عباسؓ نہیں تھے ، ابن عباس ؓ سے روایت کرنے والے عبید اللہ کی موجودگی کا تو کوئی سوال ہی نہیں ، یہ صاحب تو طبقہ ثانیہ کے تابعی ہیں ۔

بات یہ ہے کہ عبید اللہ اپنے دور کی بات کررہے ہیں کہ ابن عباسؓ یہ واقعہ سنا کر جب اپنے مکان سے نکلے تو ان کی زبان پر یہ الفاظ تھے ،یہ حدیث بخاری میں کتاب الجہاد ، ص ۴۲۹ ،اورباب الجزیہ ص۴۴۹ پر موجود ہے ، اس میں خروج اورابن عباسؓ کے ان کلمات کا ذکر تک نہیں ،اورمغازی ص ۶۳۸ ، باب قول المریض ،ص ۸۶۴،کتاب الاعتصام ،ص ۱۰۹۵میں یہ وضاحت ہے کہ ابن عباسؓ اس واقعہ کو سنانے کے بعد عموما یہ کلمات فرماتے تھے ،ابن تیمیہؒ نے رسالہ رد روافض میں پورے جزم کے ساتھ لکھا ہے کہ یہ کلمات ابن عباسؓ تفصیل سناکر فرماتے ۔

ابن حجرؒ اس واقعہ کی تفصیلات سے رسول اکرم ﷺ کی موجودگی میں اجتہاد کا جواز بتاتے ہیں ،کیونکہ عمرؓ اورآپ کے ہم خیال حضرات کی ایک رائے تھی ، جبکہ دوسرے شریک مجلس طبقہ کی دوسری رائے تھی ۔

عینیؒ لکھتے ہیں کہ آں حضور ﷺ کا بروقت کتابت پر اصرار نہ کرنا دوسروں کے لیے اجتہاد کی اباحت ہے ۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ عمرؓجب ایک اجتہاد کررہے ہیں تو ان کا یہ طریق دوسرے طبقے کے مقابل بہت اونچا ہوگا، عمرؓ کے علم وفضل ، ان کی فراست اوران کی معروف احتیاط کی بنا پر ان سے منسوب اجتہاد دوسروں کے اجتہاد پر فائق رہے گا، جس کی دلیل یہ بھی ہے کہ بہت سے مواقع پر قرآن کریم نے حضرت عمرؓ کی رائے کی تائید کی ہے ،عموما ان کی تعبیر ’’موافقات عمر‘‘ سے کی جاتی ہے ، تو کیا یہ ممکن نہیں کہ رسول اکرم ﷺ کو وحی کے ذریعہ حضرت عمرؓ کی رائے کی اصابت القاء کی گئی ہو ، یا قرآن مجید کی اصولی ہدایات اور آں حضور ﷺ کے سابق ارشادات پر جو ایسے معاملات میں آپ ﷺ محتاط رہنے کی تنبیہ فرماتے ہیں ان پر اعتماد کرتے ہوئے آپ ﷺ نے مزید لکھوانے کی ضرورت نہ سمجھی ہو۔

بہرحال اسے واضح کرچکا ہوں کہ اگر تحریر کے لیے آپ ﷺ خدا تعالی کی طرف سے مامور ہوتے تو کوئی طاقت آپ ﷺ کو اس سے روک نہیں سکتی تھی ، آپ ﷺ کی حیات طیبہ ، آپ ﷺ کی بے نظیر جرأت اوراظہار حق کے لیے بے مثال حوصلہ اس پر شاہد ہے ۔

بعض علما کی رائے کہ آپ ﷺ اختلافی احکام کے بارے میں کچھ لکھوانا چاہتے تھے تاکہ بعد میں اختلاف نہ ہو ، پھر سمجھا کہ امت کی مستمر ہدایت کے لیے تو سب کچھ ہوچکا، اب مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ، چانچہ خود ارشاد فرمایا کہ تمہیں ایسے روشن طریق پر چھوڑے جاتا ہوں جہاں رات اور دن برابر ہیں ، یعنی اجالا ہی اجالا ہے ، کوئی اندھیرا نہیں ، سب جانتے ہیں کہ صحابہ ؓ کی آپ نے ایسی جاندار تربیت فرمائی تھی ،اور ان کو ایسے سانچوںمیں ڈھالا تھا کہ ان کا سارا کاروبار ،باہمی جھگڑے ، اختلاف رائے سب کچھ دین کے لیے تھا ، اپنے مقصد وغرض کے لیے یہاں کوئی چیز نہ تھی ، اگر کوئی دوسری بات کہی جائے تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ وہ رسول اکرم ﷺ کی تربیت ومحنت کو ناقص سمجھ رہا ہے ،اور کہہ رہا ہے والعیاذ باللہ۔آگے بڑھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کی تکذیب پر تل گیا ، چونکہ قرآن نے آپ ﷺ کی تربیت کی خوبی کی بحق حضرات صحابہ یہ کہہ کر شہادت دی کہ :

محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم

اس میں حضرات کا دینی تصلب بھی آگیا ، کفرکے حق میں شدت بھی آگئی ، اہل ایمان کے لیے رحمت ولطافت کا بھی ذکر ، اوران کے شغف عبادت سے بھی بحث ہوگئی، آثار عبادت کی بھی تفصیل اور حاصل زندگی یعنی رضاء خدا کی طلب وتلاش کا بھی ذکر ، پھر کیا باقی رہا ؟!!جو امت سازی کا بلند وبالا فریضہ سپرد کیا گیا تھا وہ باحسن وجہ آپ ﷺ نے انجام دے دیا ،لیکن مقدرات کو کون ٹال سکتا ہے ، بعد میں کچھ مشاجرات ضرورہوئے ، اختلافات بھی ابھرے ،لیکن اس مقدس طائفہ کے حسن نیت کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔

بہرحال ’’فخرج ابن عباس‘‘ کے الفاظ اس طرح ذکر کیے گئے ،جس سے یہ وہم ہوتا ہے کہ ابن عباسؓ نے اس مجلس کے اختتام پر باہرنکل کر یہ الفاظ فرمائے ، واضح کرچکا ہوں کہ وہم وہم ہے ،ابن عباسؓ تو اس مجلس میں موجود بھی نہیں تھے ، خدا تعالی ہم سب کو صراط مستقیم عطا فرمائے ،آمین۔

ماخوذ از: ماہنامہ محدث عصر ، نومبر ۲۰۱۵ ۔

4,126 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!