قرآن وحدیث میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے فارمولے کیوں نہیں؟ از مفتی محمد تقی عثمانی

جمع وترتیب: مفتی عمر انور بدخشانی

تفسیر میں گمراہی کا ایک سبب قرآن کریم کے موضوع کو غلط سمجھنا

علم تفسیر جہاں ایک انتہائی شرف وسعادت کی چیز ہے ، وہاں اس نازک وادی میں قدم رکھنا بے حد خطرناک بھی ہے ، کیونکہ اگر انسان کسی آیت کی غلط تشریح کر بیٹھے تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف ایک ایسی بات منسوب کررہا ہے جو اللہ تعالی نے نہیں کہی ، اورظاہر ہے کہ اس سے بڑی گمراہی کیا ہوسکتی ہے ؟جن لوگوں نے ضروری شرائط پوری کیے بغیر قرآن کریم کی تفسیر میں دخل اندازی کی ہے وہ کافی محنت خرچ کرنے کے باوجود اس بدترین گمراہی میں مبتلاہوگئے ہیں ، اس لیے یہاں ایک نظر ان اسباب پر بھی ڈل لینی ضروری ہے جو انسان کو تفسیر قرآن کے معاملہ میں گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں۔

تفسیر قرآن کے بارے میں ایک گمراہی یہ ہے کہ بعض لوگ قرآن کریم کے موضوع کو ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھتے، اور اس میں وہ باتیں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس کے موضوع سے خارج ہیں، مثلاً بعض حضرات اس جستجو میں رہتے ہیں کہ قرآن کریم سے کائنات کے تمام سائنسی اور طبعی حقائق مستنبط کئے جائیں، اور سائنس کے مسلمات کو قرآن سے ثابت کیا جائے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر قرآن سے سائنس کے یہ مسائل ثابت نہ ہوسکے، تو معاذ اللہ یہ قرآن کریم کا نقص ہوگا، چنانچہ وہ پورے خلوص کے ساتھ قرآنی آیات سے سائنسی مسلمات ثابت کرنے کی فکر میں رہتے ہیں، اور بعض اوقات اس غرض کےلیے قرآنی الفاظ کو غلط معنی پہنا دیتے ہیں، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا اصل موضوع سائنس نہیں ہے، اس میں اگر کہیں کا ئناتی حقائق کا ذکر آیا ہے، توضمنی طور سے آیا ہے، لہٰذا اگر اس میں کہیں کوئی سائنٹفک حقیقت واضح طور سے مل جائے تو اس پر بلاشبہ ایمان رکھنا چاہئے، لیکن سائنس کا کوئی مسئلہ پہلے سے ذہن میں رکھ کر قرآن کریم سے اسے زبردستی نکالنے کی کوشش ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص طب کی کتاب میں قانون کے مسائل تلاش کرنے لگے،قران کریم نے اپنا موضوع اور مقصد نزول مبہم نہیں چھوڑا، بلکہ بیسیوں آیات میں یہ واضح کر دیا ہے کہ اسے کیوں نازل کیا گیا ہے؟ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل آیات پر غور فرمایئے:

قد جاء کم من اللہ نور وکتاب مبین یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام ویخرجہم من الظلمت الی النور باذنہ ویھدیہم الیٰ صراط مستقیم(المائدۃ: ۱۵۱۶)۔

ترجمہ:تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے، اور کتاب واضح کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو رضائے حق کے طالب ہوں، سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں، اور ان کو اپنی توفیق سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آتے ہیں، اور ان کو صراط مستقیم کی ہدایت کرتے ہیں۔

یا اہل الکتب قد جاء کم رسولنا یبین لکم علیٰ فترۃ من الرسل ان تقولوا ما جآء نا من بشیر ولا نذیر فقد جاء کم بشیر ونذیر (المائدۃ: ۱۹)۔

ترجمہ:اے اہل کتاب تمہارے پاس یہ ہمارے رسول آپہنچے ہیں جو تم کو صاف صاف بتلاتے ہیں، ایسے وقت میں کہ رسولوں کا سلسلہ (عرصہ سے) موقوف تھا، تاکہ تم یوں نہ کہنے لگو کہ ہمارے پاس کوئی خوشخبری دینے والا نہ آیا، نہ ہی ڈرانے والا، تو (اب) تمہارے پاس خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والاآگیا ہے۔

وانزلنا الیک الکتب بالحق مصدقاً لما بین یدیہ من الکتب ومھیمناً علیہ فاحکم بینہم بما انزل اللہ ولا یتبع اھواء ہم عما جارک من الحق لکل جعلنا منکم شرعۃً ومنھا جاً ولو شآء اللہ الجعلکم امۃ واحدۃ ولکن لیبلو کم فی ما اتاکم فاستبقوا الخیرات الی اللہ مرجعکم جمیعاً فینبئکم بما کنتم فیہ تختلفون(المائدۃ: ۴۸).

ترجمہ:ہم نے یہ کتاب آپ کے پاس بھیجی ہے، جو خود بھی صدق کے ساتھ موصوف ہے، اور اس سے پہلے جو (آسمانی) کتابیں ہیں، ان کو بھی تصدیق کرتی ہے، اور ان کتابوں کی محافظ ہے، تو ان کے باہمی معاملات میں اس بھیجی ہوئی کتاب کے موافق فیصلہ فرما یا کیجئے، اور یہ جو سچی کتاب آپ کو ملی ہے، اس سے دور ہو کر ان کی خواہشوں پر عمل در آمد نہ کیجئے تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے خاص شریعت اور خاص طریقہ تجویز کیا تھا، اور اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو تم سب کو ایک ہی امت میں کر دیتے، لیکن ایسا نہیں کیا، تاکہ جو دین تم کو دیا ہے اس میں تم سب کا امتحان فرما دیں، تو نیکیوں کی طرف دوڑو، تم سب کو خدا ہی کے پاس جانا ہے، پھر وہ تم سب کو جتلادے گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔

یہ محض چند مثالیں ہیں، اور اگر صرف انہی پر غور کر لیا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم کا اصل مقصد انسان کو آخرت کی تیاری پر آمادہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی تعلیم وترغیب ہے، اور جتنی باتیں اس میں تاریخی واقعات یا کائنات وآفاق سے متعلق آئی ہیں وہ سب اسی بنیادی موضوع کی تائید وتقویت کے لئے آئی ہیں، لہٰذا اگر اس میں سائنس کا کوئی مشہور مسئلہ موجود نہ ہو نہ یہ کوئی عیب کی بات ہے نہ تعجب کی، کیونکہ یہ اس کا موضوع ہی نہیں ہے، اسی طرح اگر ماضی یا مستقبل کا کوئی واقعہ قرآن مجید میں نہ ملے، تو یہ بھی کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے، کیونکہ وہ تاریخ کی کتاب نہیں، بلکہ اس میں جستہ جستہ واقعات عبرت اور موعظت کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔(علوم القرآن، ص ۳۸۶ تا ۳۹۲)

سائنس اورٹیکنالوجی جس کے ذریعہ مغربی ممالک نے ترقی کی ان کے بارے میں قرآن نے کچھ کیوں نہیں بتایا؟

اس سے بعض ان غیر مسلموں کا اعتراض بھی دور ہوجاتا ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ مغربی ممالک نے جن علوم وفنون کے ذریعے مادی ترقی کی ہے ان کے بارے میں قرآن نے کچھ کیوں نہیں بتایا؟اور ان لوگوں کی غلط فہمی بھی دور ہوجاتی ہے، جو ان اعتراضات سے متاثر ہو کر اس فکر میں رہتے ہیں کہ قرآن کریم سے سائنس وغیرہ کا کوئی نہ کوئی مسئلہ کسی نہ کسی طرح ثابت کیا جائے، کیونکہ اس کوشش کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص قانون کی کسی کتاب پر یہ اعتراض کرنے لگے کہ اس میں ایٹم بم بنانے کا طریقہ کیوں مذکور نہیں؟ تو اس کے جواب میں کوئی دوسرا شخص قانونی الفاظ کو توڑ موڑ کر اس سے ایٹم کی تھیوری نکالنے کی کوشش کرنے لگے، ظاہر ہے کہ یہ اس اعتراض کا جواب نہیں، بلکہ ایک مذاق ہوا، اسی طرح جو شخص قرآن کریم میں سائنس اور انجینئرنگ کے مسائل نہ ہونے پر معترض ہو، ا س کا صحیح جواب یہ نہیں ہے کہ قرآنی الفاظ کو توڑ موڑ کر اس سے سائنس کے مسائل زبردستی نکالے جائیں، بلکہ اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نہ سائنس یا انجینئرنگ کی کتاب ہے اور نہ مادی ترقی حاصل کرنے کے طریقے اس کا موضوع ہیں، چونکہ یہ ساری باتیں انسان اپنی عقل وفکر اور تجربات ومشاہدات کے ذریعے معلوم کرسکتا تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو انسان کی اپنی محنت اور کاوش اور تحقیق وجستجو پر چھوڑ دیا، اور ان باتوں کو قرآن کریم کا موضوع بنایا جو محض انسانی عقل سے معلوم نہیں ہوسکتیں، بلکہ ا س کے ادراک کے لئے وحی الٰہی کی رہنمائی ناگزیر ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں عقل وفکر اور تجربات ومشاہدات کے ذریعہ موجود ہ مقام تک پہنچ گیا، لیکن ایمان ویقین کی دولت، قلب وروح کی پاکیزگی، اعمال واخلاق کی تطہیر، اللہ کے ساتھ بندگی کا تعلق اور اخروی زندگی سنوار نے کا جذبہ جو وحی الہی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتاتھا،اور جسے قران کریم نے اپنا موضوع بنایا ہے وہ عقل وفکر کی اس حیرت انگیزتگ وتاز کے بعد بھی انسان کونہ حاصل ہوسکا ہے، اور نہ اس وقت تک حاصل ہوسکتا ہے جب تک اس معاملے میں سچے دل سے قرآن کی رہنمائی حاصل نہ کی جائے۔

اس معاملہ میں چند غلطیوں سے پرہیز!

ہماری اس گزارش کا منشا یہ ہرگز نہیں ہے کہ قرآن کریم سےسائنس کا کوئی مسئلہ اخذ کرنا علی الا طلاق جرم ہے ،ہمیں یہ تسلیم ہے کہ قران کریم میں ضمنی طور سے سائنس کے بہت سے حقائق کا بیان آیا ہے، چنانچہ جہاں اس کی کسی آیت سے کوئی واضح سائنٹفک بات معلوم ہورہی ہو اسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس معاملے میں مندرجہ ذیل غلطیوں سے پرہیز لازمی ہے:

(۱)سائنس کی جو بات قرآن کریم میں مذکور ہے وہ ضمناً مذکور ہے، اس کا اصل مقصد ان حقائق کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ کا ستحضار اور اس کے ذریعے ایمان میں پختگی پیدا کرنا ہے، لہٰذا اس بنیاد پر قرآن کریم کو سائنس کی کتاب سمجھنا یا بار آور کرنا بالکل غلط ہے۔

(۲) جہاں سائنس کے کسی مسئلہ کی مکمل وضاحت موجود نہ ہو، وہاں خواہ مخواہ الفاظ اور سیاق وسباق کو توڑ موڑ کر سائنس کی کسی دریافت پر چسپاں کرنے کی کوشش کسی طرح درست نہیں، یہ بات ایک مثال سے واضح ہوگی:

زمین ساکن ہے یا متحرک؟قرآن کی روشنی میں

جس وقت سائنس کی دنیا میں یہ نظریہ مشہور ہوا کہ زمین اپنی جگہ ساکن ہے اور دوسرے سیارے اس کے گرد حرکت کرتے ہیں تو بعض لوگوں نے اس نظریہ کو قرآن کریم سے ثابت کرنے کی کوشش کی اور قرآن کریم کی اس آیت سے استدلال کیا گیا:

امن جعل الا رض قراراً

ترجمہ:یا وہ ذات لائق عبادت ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا۔

ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ’’جائے قرار‘‘ کا لفظ یہ بتا رہا ہے کہ زمین اپنی جگہ ساکن ہے ،حالانکہ قرآن کریم کا مقصد تو یہ بیان کرنا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑاا نعام ہے کہ تم زمین پر ڈانو ڈول رہنے کے بجائے اطمینان کے ساتھ رہتے ہو اور اس میں لیٹنے، بیٹھنے اور قرار حاصل کرنے کے لئے تمہیں کوئی تکلیف برداشت کرنی نہیں پڑتی، اب ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا زمین کی حرکت وسکون سے کوئی تعلق نہیں ،بلکہ زمین متحرک ہو یا ساکن ،یہ نعمت ہر صورت میں انسان کو حاصل ہے، اس لئے اس آیت سے زمین کو ساکن ثابت کرنا ایک خواہ مخواہ کی زبردستی ہے۔

پھر جب سائنس نے زمین کے ساکن ہونے کے بجائے متحرک ہونے کا نظریہ پیش کیا تو بعض حضرات کو یہ نظریہ بھی قرآن سے ثابت کرنے کی فکر لائق ہوئی،اور مندجہ ذیل آیت کو حرکت زمین کی تائید میں پیش کر دیا :

وتری الجبال تحسبھا جامدۃ وھی تمر مرالحساب

ترجمہ:اور تم پہاڑوں کو دیکھ کر یہ گمان کرتے ہو کہ یہ جامد ہیں، اور ی بادل کی طرح چل رہ ے ہوں گے۔

ان حضرات نے یہاں ’’تمر‘‘ کا ترجمہ ’’چل رہے ہوں گے‘‘ کے بجائے ’’چل رہی ہیں‘‘ کرکے یہ دعویٰ کیا کہ اس آیت میں زمین کی حرکت کا بیان ہے، کیونکہ پہاڑوں کے چلنے کا مطلب یہ ہے کہ زمین چل رہی ہے ،حالانکہ آیت کا سیاق وسباق (Context) صاف بتارہا ہے کہ یہ قیامت کے حالات کا بیان ہے، اور آیت کا مقصد یہ ہے کہ قیامت کے دن یہ سارے پہاڑ جنہیں تم اپنی جگہ اٹل سمجھتے ہو فضا میں بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے، لیکن قرآن کریم سے سائنس کے مسائل مستنبط کرنے کے شوق نے سیاق وسباق پر غو ر کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔

واقعہ یہ ہے کہ زمین کی حرکت اور سکون کے بارے میں قرآن کریم خاموش ہے اور پورے قرآن میں کہیں اس مسئلہ کا بیان نہیں ہے، اس لئے کہ یہ بات اس کے موضوع سے خارج ہے، نہ قران سے زمین کی حرکت ثابت ہوتی ہے نہ سکون، لہٰذا سائنس کے دلائل کے لحاظ سے اس میں سے جو نظریہ بھی اختیار کیا جائے قرآن اس میں مزاحم نہیں ہوتا، او رنہ اس سے دین وایمان کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

یہاں یہ واضح کردینا مناسب ہوگا کہ قران سے سائنٹفک مسائل مستنبط کرنے کی کوششیں بسا اوقات بڑے خلوص کے ساتھ کی جاتی ہیں، اور اس کا منشا غیر مسلموں کو یہ بتانا ہوتاہے کہ دیکھو! جو بات تم نے صدیوں کی محنت کے بعد معلوم کی ہے، وہ ہمارے قرآن میں پہلے موجود ہے، لیکن درحقیقت اگر یہ استنباط اصول تفسیر کو توڑ کر کیا گیا ہے تو یہ قران کے ساتھ نادان دوستی کے سوا کچھ نہیں، جس وقت لوگ قرآن سے زمین کا ساکن ہونا ثابت کرنا چاہ رہے تھے و، وہ بزعم خود اسے قران کی خدمت تصور کرتے تھے، لیکن اگر ان کی یہ کوشش کامیاب ہوجاتی اور عالم گیر طور پر یہ مان لیا جاتا کہ قرآن زمین کے ساکن ہونے کاقائل ہے تو آج جب کہ زمین کو ساکن سمجھنا سائنس کےنقطہ نظر سے کلمہ کفر کے مرادف ہوگیا ہے ، قرآن کے ساتھ یہ نادان دوستی کیا نتائج پیدا کرتی ہے ؟لہذا سائنس کے بارے میں جو باتیں قطعی طور سے قرآن کریم میں موجود ہیں، انہیں تو قرآن کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے،لیکن جن باتوں کی قطعی وضاحت قرآن نے نہیں کی، ان کو خواہ مخواہ اس کی طرف منسوب کرنا کل بھی غلط تھا آج بھی غلط ہے۔(علوم القرآن، ص ۳۹۲)۔

قرآن وحدیث نےخلا یا چاند پر جانے اور ایٹم بنانے کا فارمولا کیوں نہیں بتایا؟

یہی سے ایک اور سوال کا جواب بھی ہوگیا جو اکثر ہمارے پڑھے لکھے طبقے کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ صاحب !آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا دو رہے، ساری دنیا سائنس اور ٹیکنا لوجی میں ترقی کررہی ہے، لیکن ہمارا قرآن اور ہماری حدیث سائنس اور ٹیکنا لوجی کے بارے میں کوئی فارمولا ہمیں نہیںبتاتا کہ کس طرح ایٹم بم بنائیں؟ اس کا کوئی فارمولانہ تو قرآن کریم میں ملتا ہے اور نہ حدیث رسول اللہﷺ میں ملتا ہے، اس کی وجہ سے بعض لوگ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں کہ صاحب! دنیا چاند اور مریخ پر پہنچ رہی ہے اور ہمارا قران ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں بتاتا کہ چاند پر کیسے پہنچیں؟

سائنس اور ٹیکنالوجی عقل اور تجربہ کا دائرہ ہے

اس کا جوب یہ ہے کہ ہمارا قرآن ہمیں یہ باتیں اس لئے نہیں بتاتاکہ وہ دائرہ عقل کا ہے، وہ تجربہ کا دائرہ ہے، وہ ذاتی محنت اور کوشش کا دائرہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو انسان کے ذاتی تجربے، عقل اور کوشش پر چھوڑا ہے کہ جو شخص جتنی کوشش کرے گا اور عقل کواستعمال کرے گا، تجربہ کو استعمال کرے گا، اس میں آگے بڑھتا چلا جائے گا، قرآن آیا ہی اس جگہ پر ہے جہاں عقل کا دائرہ ختم ہورہا تھا، عقل اس کا پوری طرح ادراک نہیں کرسکتی، ان چیزوں کا ہمیں قرآن کریم نے سبق پڑھایا ہے، ان چیزوں کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کی ہیں، لہٰذا اسلامائیزیشن آف لاز کا سارا فلسفہ یہ ہے کہ ہم اپنی پوری زندگی کو اس کے تابع بنائیں۔(اصلاحی خطبات، ج۱ ص۳۸)۔

اور یہیں سے ایک اور بات کا جواب مل جاتا ہے، جو آج کل بڑی کثرت سے لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے چاند پر جانے کا کوئی طریقہ نہیں بتایا، خلا کو فتح کرنے کا کوئی فارمولا محمد رسول اللہﷺ نے نہیں بتایا، یہ سب قومیں اس قسم کے فارمولے حاصل کرکے کہاں سے کہاں پہنچ گئیں اور ہم قرآن بغل میں رکھنے کے باوجود پیچھے رہ گئے، تو قرآن اور سنت نے ہمیں یہ فارمولے کیوں نہیں بتلائے؟

جواب اس کا یہی ہے کہ اس لئے نہیں بتایا کہ وہ چیز عقل کے دائرے کی تھی، اپنی عقل سے اور اپنے تجربے اور اپنی محنت سے جتنا آگے بڑھو گے، اس کے اندر تمہیں انکشافات ہوتے چلے جائیں گے، وہ تمہارے عقل کے دائرے کی چیزہے،عقل اس کا ادراک کرسکتی تھی، اس واسطے اس کے لئے نبی بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی، ا س لئے رسول بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی، اس کے لئے کتاب نازل کرنے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن کتاب اور رسول کی ضرورت وہاں تھی جہاں تمہاری عقل عاجز تھی، جیسے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل والے آدمی کی عقل عاجز تھی کہ بنیادی حقوق اور آزادی تحریر وتقریر کے اوپر کیا پابندیاں ہونی چاہئیںاور کیا نہیں ہونی چاہئیں، اس معاملے میں انسان کی عقل عاجز تھی، اس کے لئے محمد رسول اللہﷺ تشریف لائے۔

ماخوذ از: اسلام اور دور حاضر کے شبہات ومغالطے، از مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہ

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:

4,133 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!