کیا صنعتی انقلاب کے بعد اسلام کے احکام میں ترمیم ہونی چاہیے ؟! مفتی محمد تقی عثمانی

اسلام اور صنعتی انقلاب

یوں تو زندگی ہر دم ’’رواں، پیہم دواں‘‘ ہے، ہر نیا زمانہ اپنے ساتھ نئے حالات اور نئے مسائل لے کر آتا ہے، لیکن خاص طور سے مشین کی ایجاد کے بعد دنیا میں جو عظیم انقلاب رونما ہوا ہے، اس سے زندگی کا کوئی گوشہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس انقلاب نے ہر علم و فن میں تحقیق و نظر کے نئے میدان کھولے ہیں اور زندگی کے ہرشعبہ میں کچھ نئے مسائل پیدا کردیے ہیں۔ اسلام کے سوا دوسرے مذاہب کی اصل تعلیمات پر نظر ڈالیے تو ان میں اس عظیم انقلاب کو اپنے میں جذب کرلینے کی کوئی صلاحیت آپ کو دکھائی نہیں دے گی، ان تعلیمات کا اصل سرچشمہ وحی خداوندی کے بجائے بشری ذہن تھا، اس لیے نہ تو ا س میں انسانی فطرت کا پورا لحاظ تھا، نہ زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کی کماحقہ رعایت تھی اور نہ مستقبل کے امکانات پر حکیمانہ نگاہ، اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ان مذاہب کی بیشتر اصلی تعلیمات آج مشین کے بوجھ تلے دب کر دم توڑ چکی ہیں۔ ان مذہب کے ماننے والوں کے سامنے اب دو ہی راستے رہ گئے ہیں، اگر وہ زمانے کے ساتھ قدم ملا کر چلنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے مذہب کو خیرباد کہنا پڑتا ہے اور اگر مذہب زیادہ عزیز ہے تو ان کے لیے فکر و شعور کی ہر روشنی سے منہ موڑ کر یہ سمجھنا لازمی ہے کہ وہ بیسویں صدی کے انسان نہیں ہیں، البتہ کچھ ہوشیار ذہنوں نے ایک درمیانی راہ یہ نکالی ہے کہ اپنے مذہب میں بڑی محنت کے ساتھ کتربیونت شروع کردی ہے اور اسے چیرپھاڑ کر اس قابل بنادیا ہے کہ وہ موجودہ زمانے کے لیے قابل عمل بن جائے۔ لیکن درحقیقت اس عمل جراحی کے بعد اس مذہب کو ان کا اصل مذہب سمجھنا دل بہلانے کا ایک خیال ہے، اس سے زائد کچھ نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کا اصل مذہب مٹ چکا ہے۔ اب ان کے پاس اس نام کے ظاہری ڈھانچے کے سوا کچھ نہیں، جس میں ایک نئے مذہب کی روح بھری ہوئی ہے۔

لیکن اسلام کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ اس دنیا میں تنہا وہ ایک سادہ دین ہے جس کی تعلیمات سدا بہار ہیں۔ زمانے میں کیسے ہی انقلاب رونما ہوجائیں، حالات کتنے ہی پلٹے کھالیں، وہ پرانا نہیں ہوتا۔ وہ آج بھی تازہ ہے اور جب تک یہ دنیا کروٹیں بدلتی رہے گی وہ تازہ رہے گا اور اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے، اس کے اصول و ضوابط کسی بشری ذہن نے مرتب نہیں کیے، جو آنے والے حالات سے بے خبر ہو، اس کی تعلیمات کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے۔ جس ذات نے اسے انسان کا نظام حیات قرار دیا ہے وہی انسان کی اور اس تمام کائنات کی خالق ہے۔ اسے انسان کی فطرت کا پورا علم ہے وہ اس کی ضرورتوں کو خوب جانتی ہے۔ وہ تمام بدلتے ہوئے حالات سے پوری طر ح باخبر ہے اور اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ کب کیا ہونے والا ہے؟

یہ اسی کے کلام کا اعجاز ہے کہ اس نے اسلام کے جو اصول و قواعد قرآن کریم میں بیان فرمائے اور جن کی تلقین اس کے آخری پیغمبر ﷺ نے کی، وہ قیام قیامت تک پیدا ہونے والے تمام مسائل پر حاوی ہیں۔ یہ دنیا لاکھ کروٹیں بدل لے، ان تعلیمات کو بدلنے کی ضرورت کبھی پیش نہیں آسکتی، اسلام کے اصول و قواعد ہر دور اور ہر زمانے میں انسانیت کی رہنمائی کرنے کے لیے بالکل کافی ہیں۔

تجدد پسندوں کی اسلام میں ترمیم وتحریف

لیکن افسوس ہے کہ عالم اسلام کاایک طبقہ جسے’’ اہل تجدد ‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس حقیقت تک پہنچنے سے قاصر رہا ہے، اس لیے اس نے دوسرے مذاہب کی دیکھا دیکھی اسلام میں بھی ترمیم و تحریف کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور صنعتی انقلاب کے ہر غلط یا صحیح مظہر کو اسلام کے مطابق ثابت کرنا اس نے اپنا فریضہ منصبی سمجھ رکھا ہے۔ یہ طبقہ اپنی ہر ترمیم و تحریف کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ پیش کیا کرتا ہے کہ صنعتی انقلاب کے بعد سے دنیا بہت بدل گئی ہے اور حالات میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، اس لیے لازماً اسلام کے احکام کو بھی بدلنا چاہیے۔

صنعتی انقلاب کے بعد رونما ہونے والی تبدیلیاں

اس سلسلہ میں ہمیں یہ عرض کرنا ہے کہ یورپ کے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں زندگی کے ہر گوشے میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، وہ دو قسم کی ہیں:

صنعتی انقلاب کا قابل تعریف پہلو

۱- کچھ تبدیلیاں تو وہ ہیں جو موجودہ ترقیات کے لیے ناگزیر اور ضروری تھیں اور ان کے بغیر سائنس اور ٹیکنالوجی کاموجودہ معیار تک پہنچنا ممکن نہ تھا، انہی کی بدولت دنیا نئی نئی ایجادات سے آشنا ہوئی۔ بڑے بڑے کارخانے بنے، پل تعمیر ہوئے، بند باندھے گئے اور انسانی معلومات میں مفید اضافہ ہوا۔ صنعتی انقلاب کا یہ پہلو بلاشبہ قابل تعریف ہے۔ عالم اسلام کے لیے اس میدان میں آگے بڑھنا ضروری ہے اور اسلام نہ صرف یہ کہ اس راہ میں کوئی رکاوٹ عائد نہیں کرتا بلکہ اس ’’اعداد قوت‘‘ کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

صنعتی انقلاب کا مہلک پہلو

۲-لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ تبدیلیاں وہ ہیں جو صنعتی اور مادی ترقیات کے لیے ہرگز ضروری نہیں تھیں۔ مغرب نے انہیں خواہ مخواہ صنعتی انقلاب کے سر منڈھ دیا تھا، چنانچہ آج وہ بھی اپنی اس خامکاری پر نوحے پڑھ رہا ہے۔ فحاشی و عریانی، مخلوط اجتماعات رقص و موسیقی، سود اور ضبط ولادت وغیرہ یہ تمام وہ چیزیں ہیں جن کا مادی صنعتی ترقیات سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں تھا، بلکہ تجربے نے تو یہ ثابت کیا ہے کہ یہ چیزیں ترقیات کی راہ میں رکاوٹ تو بنی ہیں مگر انہوں نے اس کام میں کوئی مدد کبھی نہیں پہنچائی،یہی وہ چیز ہے جس سے عالم اسلام کو پوری احتیاط سے بچنا ہے۔ عالم اسلام میں صنعتی انقلاب ضرور لانا چاہیے، لیکن ایسا صنعتی انقلاب جو مغربی تہذیب کی ان لعنتوں سے محفوظ و پاک ہو، جنہوں نے مغرب کو تباہی کے کنارے پر پہنچادیا ہے۔

صنعتی انقلاب کے بعد تجددپسندوں کا گمراہانہ طرز عمل

افسوس ہے کہ ہمارا تجدد پسند طبقہ یہ چاہتا ہے کہ ہم مغرب کے صنعتی انقلاب کو تل بدلے بغیر جوں کا توں قبول کرلیں اور جب ہمارے معاشرے میں مشین کا عمل دخل ہو تو اس کے ساتھ بلکہ اس سے بھی پہلے، ہم ان تمام فکری اور عملی گمراہیوں میں سرتاپا ڈوب چکے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو ترقی دینے سے زیادہ اپنی توانائیاں اس پر صرف کررہا ہے کہ کسی طرح اسلام کو کھینچ تان کر مغربی تہذیب کے مطابق بنادیا جائے۔ ادارہ تحقیقات اسلامی کا ترجمان ماہنامہ ’’فکر و نظر‘‘ اپنے طرز عمل کی دلیل پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’چوتھے پنج سالہ منصوبے کی تکمیل پر پاکستان کی پوری زندگی بدلی ہوئی ہوگی، یہاں مشین کا دور دورہ ہوگااور اس کی وجہ سے خاندانی زندگی بدلے گی، معیشت اور معاشرت بدلے گی، عورت اورمرد کے تعلقات میں تبدیلیاں آئیں گی اور ظاہر ہے اس سے انفرادی و قومی ذہن بھی تاثر ہوگا اور لوگ اور ڈھنگ سے سوچیں گے‘‘ (فکر و نظر، ص ۷۳۳ ج ۲ شمارہ ۱۲)۔

اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حضرات عالم اسلام کے صنعتی انقلاب اور مغرب کے صنعتی انقلاب میں کوئی فرق نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہماری گزارش یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ’’مشین کا دور دورہ‘‘ کوئی بری بات نہیں، لیکن ’’اس کی وجہ سے‘‘ خاندانی زندگی، معیشت اور معاشرت، عورت اورمرد کے تعلقات اور لوگوں کے طرز فکر میں جن ’’تبدیلیوں‘‘ کی نشان دہی آپ فرما رہے ہیں، انہیں ہم عالم اسلام کے لیے زہر سمجھتے ہیں۔ یہ ’’تبدیلیاں‘‘ اسلامی مزاج سے میل کھانے والی نہیں ہیں اور خود مغرب کے صنعتی انقلاب کا مطالعہ ہمیں اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ اگر ہم مشین کے عمل دخل کے باوجود پرسکون زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان ’’تبدیلیوں‘‘ سے پرہیز کرنا ہوگا،اقبال مرحوم نے مغرب کے حالات کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد کہا تھا کہ:

افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے ہے سیہ پوش

اور

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہ ہوگا کہ انہیں ’’مشینوں‘‘ اور ’’آلات‘‘ سے کوئی چڑ تھی اور وہ ٹیکنالوجی کی ترقیات کے مخالف تھے بلکہ درحقیقت ان کا مقصد یہ تھا کہ مغرب نے مشین کے ساتھ جن آفتوںکو اپنے اوپر خواہ مخواہ مسلط کرلیا ہے وہ قابل نفرت اور لائق احتراز ہیں۔

مسلمانوں کے لیے راہ عمل !

لہٰذا موجودہ حالات میں ہمارے لیے صحیح راہ عمل یہی ہے کہ ہم صنعتی انقلاب کے شوق میں آنکھیں بند کرکے ان راستوں پر نہ چلیں جنہوں نے مغرب کو تباہی کے غار تک پہنچادیاہے، بلکہ پوری بصیرت اور بیدار مغزی کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کو اس طرح جذب کریں کہ اس سے ہماری ملی اقدار مجروح نہ ہوں۔ صنعتی انقلاب اپنے جلو میں جو نئے مسائل لے کر آئے گااسلام میں ان کا وہ حل موجود ہے جو مغربی تہذیب کی خامیوں سے محفوظ اور پاک ہے۔ محققین اسلام کو یہی حل ان اصولوں کے مطابق تلاش کرنا ہے جو استنباط احکام کے لیے اسلام نے مقرر کیے ہیں۔

اس کے برخلاف اگر اسلام کو کھینچ تان کر مغربی تہذیب کے مقتضیات پر فٹ کرنے کے لیے خود اسلام میں ترمیم و تحریف کی گئی اور اس کے بعد اس کو جوں توں کرکے عصر حاضر کی ضروریات کے مطابق بنادیا گیا، تو آپ ہی بتلائیے کہ اس میں ’’اسلام‘‘ کا کیا کمال ہوا؟ اس طرح توڑ مروڑ کر ہر مذہب کو عصر حاضر کے مطابق بنایا جاسکتا ہے اور بہت سے مذاہب کے ’’فنکاروں‘‘ نے بنایا ہے، ہماری نظر میں اس طرح کسی مذہب کو عصر حاضر کے مطابق بنادینا ان ’’فنکاروں‘‘ کا کمال ہو تو ہو، اس مذہب کا کمال ہرگز نہیں ہے۔ ہم پوری دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کو دوسرے مذاہب پر قیاس کرکے اس کے ساتھ ایسا سلوک کرنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے اور اس قسم کی ہر کوشش ’’تحریف دین‘‘ اور مستحق مذمت ہے۔

زمانہ اور حالات کی وجہ سے اسلامی احکام میں تبدیلی

بلاشبہ اسلام کے بہت سے احکام و مسائل میں یہ لچک موجود ہے کہ زمانے اور حالات کے تغیر سے وہ بھی تغیر پذیر ہوجاتے ہیں، لیکن اس تغیر کے کچھ اصول ہیں اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام کے ہرحکم کو اس خراد پر گھس دیا جائے۔ اصل یہ ہے کہ قرآن و سنت اور اجماع امت کے جو احکام منصوص اور متعین ہیں وہ ناقابل تغیر ہیں اور انہیں کسی زمانے میں بھی بدلا نہیں جاسکتا، البتہ جن معاملات پر زمانے کی تبدیلی کا اثر پڑسکتا ہے ان میں خود قرآن و سنت نے معین احکام دینے کے بجائے کچھ اصول بتادیے ہیں، جن کی روشنی میں ہر زمانے میں احکام مستنبط کرلیے جائیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر قرآن سنت کا منشاء یہ ہوتا کہ ہر زمانے کے مسلمان اپنے حالات کے مطابق اور سابقہ امت کے اجماعی فیصلوں کے خلاف خود احکام وضع کرکے انہیں ’’اسلامی احکام‘‘ قرار دے سکتے ہیں تو قرآن و سنت کو زندگی کے ہر گوشے میں اس قدر تفصیلی احکام دینے کی کیا ضرورت تھی؟ بس اتناکہہ دیا جاتا کہ ہر زمانے میں اپنے ماحول کے پیش نظر قوانین بنالیا کرو، اس کے برخلاف قرآن، سنت اور اجماع امت کے جو احکام معین طور سے بتلادیے ہیں ان کا واضح مطلب ہی یہ ہے کہ وہ قیامت تک کے لیے نافذ ہوں گے، اور کسی زمانے میں انہیں تبدیل نہیں کیا جاسکے گا، لہٰذا زمانے کی تبدیلی کا بہانہ لے کر ان احکام کو ہرگز نہیں بدلا جاسکتا اور قیام قیامت تک کے لیے نہ صرف واجب العمل ہیں بلکہ انہی میں مسلمانوں کی مادی ترقی کا راز بھی مضمر ہے۔

ہاں !جن احکام کوخود قرآن و سنت نے زمانے کے حوالے کردیا ہے، وہ بلاشبہ قابل تغیرہیں، اور ہر زمانے کے حالات کے پیش نظر ان میں تبدیلی کی جاسکے گی اورکی جاتی رہی ہے، لیکن ہمارے تجدد پسند حضرات اس زمانے کی تبدیلی کی آڑ لے کر نہ صرف ان اجماعی احکام کو بدلنا چاہتے ہیں جو چودہ سو سال سے مسلم چلے آرہے ہیں بلکہ وہ بہت سے عقائد میں بھی ایسی ترمیمات کرنا چاہتے ہیں جو قرآن و سنت کی واضح نصوص کے خلاف ہیں اور جنہیں آج تک امت کے کسی ایک قابل ذکر فرد نے بھی تسلیم نہیں کیا۔

اگر ان کی یہ ترمیمات حق بجانب ہیں تو پھر اس معاملے پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جس دین کے بنیادی عقائد تک کو چودہ سو سال کی مدت میں کوئی شخص صحیح طریقے سے نہ سمجھ سکا ہو تو کیا وہ دین اس لائق ہے کہ کوئی معقول آدمی اسے حق سمجھ کر اس کی پیروی کرے؟

تجددپسندوں کا تضاد

پھر لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے تجدد پسند حضرات کو زمانہ صرف اس موقع پر بدلا نظر آتا ہے جب اس تبدیلی سے کوئی اباحت نکالنا یا مغرب کے کسی نظریئے کو اسلام کے مطابق ثابت کرنا پیش نظر ہو، اور جہاں زمانے کا نتیجہ کسی مشقت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہو وہاں زمانے کی تبدیلی کا کسی کو خیال بھی نہیں آتا۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ یہ بات تو اہل تجدد کی طرف سے بہت سنی گئی کہ زمانہ بدل گیا ہے، اس لیے سود کو حلال ہونا چاہیے، لیکن آج تک ہم نے کسی بھی تجدد پسند کی زبان سے یہ کبھی نہ سنا کہ زمانہ بدل گیا ہے، اس لیے نماز میں قصر کی اجازت اب ختم ہوجانی چاہیے اور یہ اجازت اس وقت کے لیے مخصوص تھی جب سفرمیں بے انتہا مشقت اٹھانی پڑتی تھی، لہٰذا جو لوگ ہوائی جہازوں اور ائیرکنڈیشنڈ کاروں میں سفر کرتے ہیں ان کے لیے روزہ چھوڑنے اور نمازکومختصر کرے کی اجازت نہیں ہے۔

طرز عمل کے اس تفاوت سے آپ تجدد کی اباحیت پسندانہ ذہنیت کا صحیح اندازہ لگاسکتے ہیں کہ درحقیقت اس کی تمام تر دلیلیں اپنے پہلے سے قائم کیے ہوئے نظریات کے لیے باقاعدہ بنائی جاتی ہیں۔ پیش نظر چونکہ یہ ہے کہ مغرب کے نظریات کو اسلام میں داخل کیا جائے، لہٰذا جس جگہ یہ مقصد پورا ہوتا ہے وہاں گری پڑی بات دلیل بن جاتی اور جس جگہ وہی دلیل اپنے مقاصد کے خلاف پڑتی ہو، وہ قابل التفات نہیں رہتی۔

کاش! کہ ہمارے تجدد پسند حضرات ان گذارشات پر سنجیدگی کے ساتھ اور حقیقت پسندی کے ساتھ غور فرما سکیں اور ان کی فکری صلاحیتیں ’’تحریف و ترمیم‘‘کے بجائے کسی ’’تعمیری خدمت ‘‘میں صرف ہونے لگیں۔

ماخوذ از: اسلام اور جدت پسندی، از مفتی محمد تقی عثمانی

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

2,524 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!