رجم کی سزا ، قرآن وسنت کی روشنی میں ، از مولانا مفتی محمد شفیعؒ

ترتیب وعنوانات: مفتی عمر انور بدخشانی

رجم کا لغوی مطلب اور قرآن میں استعمال

قرآن کریم میں یہ لفظ متعدد معنوں میں استعمال ہوا ہے :

۱- پتھر مارنے ،جیسے:

ولولا رھطک لرجمنٰک (۱۱:۹۱) ، لارجمنّک (۱۹:۴۶)، یرجموکم(۱۸:۲۰)۔

مزید دیکھیے : ۳۶:۱۸،و ۴۴:۲۰،و۶۷:۵،و۲۶:۱۱۶۔

۲-لعنت کرنا ، دھتکارنا (دیکھیے:۱۵:۲۴،و۸۱:۲۵، و۳:۳۶)۔

۳-اٹکل پچوں تخمینہ لگانا (دیکھیے :۱۸:۲۳)۔

۴-تہمت لگانا(دیکھیے:۱۹:۴۶)۔

رجم :اصطلاحی تعریف

فقہی اصطلاح میں ’’رجم‘‘ اس حد(شرعی سزا) کو کہا جاتا ہے جو مُحصَن (تشریح آگے آئے گی) زانی کے لیے مقرر کی گئی ہے ،اور جس میں مجرم کو پتھر مار مار کر ہلاک کردیا جاتا ہے ، ذیل میں اسی سزا کے مختلف پہلوؤں سے بحث کی جائے گی ۔

رجم : شریعت موسوی میں

شرعی سزا کے طور پر ’’رجم‘‘ کا تذکرہ سب سے پہلے حضرت موسی علیہ السلام کی شریعت میں ملتا ہے ، موجودہ بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ موسوی شریعت میں ’’رجم‘‘ یعنی سنگسار کرکے ہلاک کردینا متعدد جرائم کی سزا تھی ۔

۱-زنا کی (احبار ۲۰:۱۰،واستثنا۲۲:۲۱تا ۲۷)۔
۲-شرک اور بت پرستی کی دعوت دینے کی (استثنا۱۳:۱۰،و ۱۷:۶)۔
۳-بتوں کے نام پر نذر کرنے کی (احبار ۲۰:۲)۔
۴-ماں باپ کی نافرمانی کرنے کی (استثنا ۲۱:۲۱)۔
۵-خدا کے نام پر لعنت کرنے کی (احبار ۲۴:۱۶، ۱-سلاطین ، باب ۲۱)۔
۶-حضرت یوشع علیہ السلام جو حضرت موسی علیہ السلام کے نائب تھے کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو مال غنیمت میں خیانت کرنے کی بنا پر بھی سنگسار کیا تھا (یشوع ۷:۱۶تا ۲۶)۔

رجم: شریعت اسلامیہ میں

حضرت رسول اکرم ﷺ کی شریعت میں ’’رجم‘‘ کی سزا صرف اس زنا کاری کے لیے مخصوص کردی گئی جو شادی شدہ ہو ،اور جس میں’’ محصَن ‘‘کی وہ شرائط پائی جاتی ہوں جن کا بیان آگے آرہا ہے ،اور اس سزا کا اصل ثبوت ان احادیث سے ہوا ہے جو معنی متواتر ہیں (الآلوسی ، روح المعانی ، ۱۸:۷۹، ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ ،مصر)۔

قرآن کریم اوراحادیث نبویہ میں رجم کا ذکر

قرآن مجید میں صراحۃ اس سزا کا ذکر نہیں ہے ، البتہ سورہ مائدہ کی آیات :

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ تا وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ(۵:۴۱تا ۴۴)۔

میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ،کیونکہ ان آیات کے مستند شان نزول کے مطابق ان آیات میں ’’حکم اللہ ‘‘ اور ما انزل اللہ‘‘ سے مراد زانی کو رجم کی سزا دینے کا حکم ہے ۔

صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یہ آیات ایک ایسے یہودی کے بارے میں نازل ہوئی تھیں جس نے زنا کرلیا تھا اوریہودی اس کا فیصلہ اس خیال سے آنحضرت ﷺ کے پاس لائے تھے کہ اگر آپ نے رجم کے علاوہ کوئی اور فیصلہ کرلیا تو اسے مان لیں گے ،اوراگر رجم کا فیصلہ کیا تو اس سے انکار کردیں گے ،آیات مذکورہ میں :

إِنْ أُوتِيتُمْ هَٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا

سے یہی مراد ہے ،پھر آپ نے رجم کا فیصلہ فرمایا ،اوران پر یہ بھی ثابت کردیا کہ خود تورات میں بھی رجم ہی کا حکم مذکور ہے ، اس موقع پر علمائے یہود نے یہ اعتراف بھی کیا کہ تورات میں زنا کی اصل سزا رجم ہی تھی ، پھر جب یہودی شرفاء میں زنا کا رواج عام ہوا تو ہم نے شرفاء کو اس سزا سے مستثنی کرناشروع کردیا ، بعد میں اس تفریق کو ختم کرنے کے لیے ہم نے رجم کی سزا کو بالکل ہی موقوف کردیا ،اوراس کی جگہ منہ کالا کرنے اور کوڑے مارنے کی سزا مقرر کردی (دیکھیے :صحیح مسلم ، کتاب الحدود ، ۲:۷۰، مطبوعہ کراچی، وتفسیر ابن کثیر ، ۲:۵۷تا ۶۰، مطبعہ مصطفی محمد ، مصر ۱۳۵۶ھ)۔

لہذا صاف بات یہ ہے کہ رجم کا ثبوت ان احادیث سے ہوا ہے جو معنی متواتر ہیں اور قرآن مجید میں اس حکم کا مذکور نہ ہونا اس کے عدم ثبوت کی دلیل نہیں ، جس طرح نمازوں کے اوقات اوران کی رکعات کی تعداد قرآن مجیدمیں موجود نہیں ، لیکن متواتر احادیث اور مسلسل تعامل کی وجہ سے ان کا ثبوت ناقابل انکار ہے ،اسی طرح رجم کا ثبوت بھی متواتر احادیث اور اجماعی تعامل کی بنا پر ہوا ہے اوراس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔

رجم کے متعلق حضرت عمرؓ وحضرت علیؓ کا فرمان

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں :

’’مجھے ڈر ہے کہ لوگوں پر زمانہ دراز گزر جاے تو کوئی کہنے والا یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کا حکم اللہ کی کتاب میں نہیں پاتے ، پھر کہیں لوگ ایسے فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ نہ ہوجائیں جو اللہ نے نازل کیا تھا ، خوب سن لو کہ رجم کا حکم اس شخص کے لیے حق ہے جو محصن ہونے کی حالت میں زنا کرے جبکہ اس پر گواہیاں قائم ہوجائیں ، یا حمل ثابت ہوجائے یا ملزم خود اعتراف کرلے (صحیح بخاری ، ۲:۱۰۰۷، اصح المطابع دہلی ۱۳۵۷ھ)۔

حضرت علی ؓ سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے ایک عورت کو رجم کرنے کے بعد فرمایا : ’’میں نے اسے رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق رجم کیا ‘‘(صحیح بخاری ، ۲:۱۰۰۶، باب رجم المحصن)۔

وہ صحابہ کرام جن سے رجم کی احادیث وروایات مروی ہیں

جن صحابہ کرامؓ نے آنحضرت ﷺ سے زانی محصن کو رجم کرنے کا حکم یا عمل روایت کیا ہے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
۱-حضرت عمر ؓبن الخطاب،۲-حضرت علیؓ بن ابی طالب،۳-عبداللہؓ بن اوفی، ۴-جابرؓبن عبد اللہ، ۵-ابوہریرہؓ ،۶-عائشہ صدیقہؓ،۷-عبداللہ بن عمرؓ،۸-عبد اللہ بن عباسؓ، ۹-زید بن خالدؓ(ان سب کی روایات صحیح بخاری ۲:۱۰۰۶ تا۱۰۱۱میں موجود ہیں)۔

۱۰-عبادہؓ بن صامت، ۱۱-سلمہ ؓبن المحبق،۱۲-ابوبرزہؓ،۱۳-ہزالؓ، ۱۴-جابرؓ بن سمرہ،۱۵-لجلاجؓ،۱۶-ابوبکر صدیقؓ، ۱۷-بریدہؓ،۱۸-ابوذر غفاریؓ،۱۹-نصرؓبن دہر اسلمی،۲۰-عمرانؓ بن حصین، ۲۱-ابوبکرۃؓ،۲۲-ابوسعید خدریؓ،۲۳-نعمانؓ بن بشیر، ۲۴-براءؓ بن عازب(ان سب کی روایات مسند احمد میںمروی ہیں ، دیکھیے : الفتح الربانی ، ۱۶:۸۱تا ۱۰۵، مصر ۱۳۷۱ھ)

۲۵-ابیؓ بن کعب،۲۶-زیدؓ بن ثابت ،۲۷-عبد اللہ ؓ بن مسعود (بیہقی:السنن الکبری، ۸: ۲۱۱ و ۲۱۳، دائرۃ المعارف ،دکن ۱۳۵۴ھ)۔

۲۸-قبیصہؓ بن حریث، ۲۹-انسؓ بن مالک، ۳۰-عجماء،۳۱-سہل ؓ بن سعد، ۳۲-عبد اللہ بن الحارث بن الجزء( ہیثمی:مجمع الزوائد،۶: ۲۶۴و۲۶۵و۲۶۸و۲۷۱، دار الکتاب ،بیروت ۱۹۶۷ء)۔

۳۳-وائلؓ بن حجر (محمد بن محمد:جمع الفوائد ، ۱:۷۵۲، المدینۃ المنورۃ۱۳۸۱ھ)۔

۳۴-عثمانؓ بن عفان، اور۳۵-ابو امامہؓ بن سہل بن حنیف(مشکوۃ المصابیح ، ص۳۰۱، اصح المطابع کراچی) رضی اللہ عنہم اجمعین۔

حضور ﷺ کے زمانے میں رجم کے واقعات

آنحضرت ﷺ کے زمانے میں شادی شدہ زنا کرنے والوں پر رجم کی سزا عائد کرنے کے متعدد واقعات پیش آئے جن میں زیادہ مشہور واقعات چار ہیں:
۱-ایک حضرت ماعزؓ بن مالک اسلمی کا۔
۲-دوسرے بنو غامد کی ایک عورت کا۔
۳-تیسرے ایک اعرابی کی بیوی کا جس کے رجم کے لیے آپ ﷺ نے حضرت اُنیس اسلمیؓ کو بھیجا تھا۔
۴-اورچوتھے دو یہودیوں کا جس کا ذکر اوپر آچکا ہے ۔

یہ تمام واقعات صحیح بخاری میں موجود ہیں، پہلے تینوں واقعات میں مجرموں نے خود زنا کا واضح اعتراف کیا تھا ، گواہوں کے ذریعے رجم کا کوئی واقعہ عہد رسالت میں مسلمانوں کے درمیان پیش نہیں آیا ، البتہ یہودیوں کا رجم گواہوں کی بنا پر ہوا تھا (سنن ابو داود، ۲:۷۶۱۲، اصح المطابع ،کراچی)۔

آیت زنا کے نازل ہونے کے بعد رجم پر عمل ہوا

قرآن مجید کی آیت :

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ (النور ، ۲۴:۲)۔

(یعنی زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ)میں جو حکم مذکور ہے وہ مذکورہ احادیث متواترہ کی بنا پر باجماع صرف غیر شادی شدہ زانی کاحکم ہے ، اوریہ خیال درست نہیں ہے کہ رجم کے واقعات اس آیت کے نزول سے پہلے کے ہیں ،اوراس آیت نے رجم کے حکم کو منسوخ کرکے ہر قسم کے زانی کے لیے کوڑوں کی سزا مقرر کردی ہے ، اس لیے کہ مضبوط دلائل سے یہ ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس آیت کے نزول کے بعد رجم پر عمل فرمایاہے ، یہ آیت سورۃ النور کی ہے جو واقعہ افک (۴ھ ،یا ۵ھ، یا ۶ھ) میں نازل ہوئی تھی ، لہذا اس کا نزول زیادہ سے زیادہ ۶ھ میں ہوا ہے (فتح الباری ، ابن حجر، ۱۲:۱۰۰،مصر ۱۳۴۸ھ)اوررجم کے تقریبا تمام واقعات ۶ھ کے بعد کے ہیں ، اس لیے کہ متعدد ایسے صحابہ نے رجم کے واقعات کا مشاہدہ کیا ہے جو ۶ھ کے بعد اسلام لائے تھے ، مثلا حضرت ابوہریرہؓ ،صحیح بخاری میں تصریح ہے کہ عسیف والے واقعہ میں وہ خود موجود تھے ، چنانچہ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے وہ خود فرماتے ہیں :

کنا عند النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (صحیح بخاری ، باب الاعتراف بالزنا ، ۲:۱۰۰۸، اصح المطابع ، دہلی ۱۳۵۷ھ)۔

حالانکہ حضرت ابوہریرہؓ خیبر کے موقعہ پر (۷ھ) میں اسلام لائے ہیں ، اسی طرح البزار ؒ اور الطبرانیؒ کی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن الحارث بن جزء یہودیوں کے رجم میں شریک تھے ، فرماتے ہیں:

فکنت فی من رجمھما (مجمع الزوائد ، الہیثمی ، ۶:۲۷۱، دارالکتاب بیروت، ۱۹۶۷ء)۔

اور وہ اپنے والد کے ساتھ فتح مکہ (۸ھ) کے بعد اسلام لائے تھے (دیکھیے :فتح الباری ۱۲:۱۴۴، باب احکام اہل الذمۃ واحصانہم اذا زنوا ، المطبعۃ البہیۃ ، مصر ۱۳۴۸ھ)ادھر مسند احمد اور معجم الطبرانی میں حضرت ابن عباسؓ انہیں یہودیوں کا واقعہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

فکان مما صنع اللہ لرسولہ ﷺ فی تحقیق الزنا منھما(مجمع الزوائد ۶:۲۷۱)۔

یعنی اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے لیے زنا کے حکم کی تحقیق ان یہودیوں کے ذریعہ کرائی ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کا واقعہ رجم کا سب سے پہلا واقعہ تھا ، باقی تمام واقعات اس کے بعد ہوئے ، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رجم کے تمام واقعات فتح مکہ کے بعد ہوئے ہیں ، یعنی سورۃ النور نازل ہونے کے کم از کم دو سال بعد ، لہذا اگر سورۃ النور کا حکم ہر قسم کے زانی کے لیے ہوتا تو آپ ﷺ اس کے نزول کے بعد کسی کو رجم نہ فرماتے ، اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ کا رجم فرمانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سورۃ النور کاحکم صرف غیر محصَن زانی کی شرعی سزا ، رجم کرنے کا حکم مسلمانوں میں اجماعی اور غیر مختلف فیہ رہا ہے ۔

رجم پر صحابہ کرام ، ائمہ اربعہ اورائمہ مسلمین کا اجماع ہے

علامہ الآلوسی لکھتے ہیں:

’’صحابہ کرام، اسلاف، علمائے امت اور ائمہ مسلمین کا اس پر اجماع ہے کہ زانی محض کو سنگسار کیا جائے اور خوارج کا رجم سے انکار کرنا باطل ہے‘‘ (روح المعانی ۱۸: ۷۸، ۷۹، ادارۃ الطباعۃ المنیریہ مصر)۔

علامہ کمال الدین ابن الہمام لکھتے ہیں:

’’رجم پر صحابہ ؓ اور تمام پچھلے علمائے اسلام کا اجماع ہے اور خوارج کا رجم سے انکار کرنا باطل ہے، اس لیے کہ اگر وہ اجماع صحابہ کی حجیت کا انکار کریں تو یہ جہل مرکب ہے اور اگر وہ خبر واحد کی حجیت سے انکار کرتے ہوئے یہ کہیں کہ رجم آنحضرت ﷺ سے ثابت نہیں تو، علاوہ اس کے کہ خبر واحد کی حجیت سے انکاردلائل کی رو سے باطل ہے۔ یہ مسئلہ خبر واحد سے متعلق ہی نہیں، کیونکہ آنحضرت ﷺ سے رجم کا ثبوت معنی ً ایسا ہی متواتر ہے جیسے حضرت علی ؓ کی شجاعت اور حاتم طلائی کی سخاوت۔ رہیں اخبار آحاد۔ سو وہ صرف رجم کی صورتوں اور خصوصیات کی تفصیل سے متعلق ہیں۔ جہاں تک رجم کے اصل حکم کا تعلق ہے، اس کے ثبوت میں کوئی شک نہیں۔۔۔۔۔ اور خوارج بھی عام مسلمانوں کی طرح متواتر معنوی پر عمل کو ضروری قرار دیتے ہیں، لیکن چونکہ وہ صحابہ کرامؓ اور عام مسلمانوں سے الگ تھلگ رہے اور مسلمان اہل علم اور راویوں سے انہوں نے تعلق نہیں رکھا، اس لیے وہ بہت سے جہالتوں میں مبتلا ہوگئے، یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے سامنے رجم پر یہ اعتراض کیا کہ اس کا ذکرکتاب اللہ میں نہیں ہے تو حضرت عمر ؒ نے ان سے کہا کہ پھر رکعات نماز کی تعداد اور زکوٰۃ کی مقداریں کہاں سے ثابت ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ حضور اور مسلمانوں کے عمل سے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا: ’’رجم بھی اسی طرح ثابت ہوا ہے‘‘ (ابن الہمام: فتح القدیر ۴:۱۲۱ و ۱۲۲،بولاق ۱۳۱۶ھ)۔

ائمہ اربعہ کے نزدیک رجم کی سزا کے لیے احصان کی شرائط

پھر اس بات پر تو تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ رجم کی سزا صرف اس زانی کے لیے ہے جس میں احصان کی شرائط پائی جاتی ہوں، لیکن ان شرائط کی تفصیل میں تھوڑا سا اختلاف ہے:

امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک رجم کے حکم میں محصَن اس شخص کو کہیں گے جو مسلمان ہو، آزاد ہو، عاقل و بالغ ہو اور کسی مسلمان، عاقل، بالغ اور آزاد عورت کے ساتھ نکاح صحیح کے ذریعے تعلقات زنا شوئی قائم کرچکا ہو۔ ان میں سے ایک شرط بھی مفقود ہوگئی تو اسے محصن نہیں کہا جائے گا ،اور اگر وہ زنا کرلے تو اس کی سزا رجم کے بجائے سو کوڑے ہوگی( ابن لجیم: البحر الرائق ۵:۱۱، المطبعۃ العلمیہ، مصر)

امام مالکؒ کے نزدیک بھی احصان کی یہی شرائط ہیں، البتہ ان کے نزدیک اور ایک شرط اور ہے اور وہ یہ کہ اس نے اپنی منکوحہ سے خلوت صحیحہ کی ہو، لہٰذا حیض یا روزے کی حالت میں خلوت سے احصان متحقق نہیں ہوگا۔ (ابن رشد: بدایۃ المجتہد، ۱۲: ۴۷، المطبعۃ الازھریہ، مصر ۱۳۸۹ھ)

امام شافعی ؒ کے نزدیک احصان کے لیے نہ مجرم کامسلمان ہونا شرط ہے اور نہ اس کی منکوحہ کا مسلمان یا آزاد ہونا (الشافعی: کتاب الام ۶:۱۵۴، المطبعۃ الازھریہ، مصر ۱۳۸۹ھ) ۔

امام احمدؒ کے نزدیک مسلمان ہونا تو شرط نہیں، لیکن اس کی منکوحہ کا آزاد ہونا ضروری ہے (ابن قدمہ، المقنع۳:۴۵۲ و ۴۵۳، المطبعۃ السلفیہ الروضہ ۱۳۸۲ھ)۔

یہ بھی اجماعی مسئلہ ہے کہ ایسے محصَن شخص کا صرف وہی زنا رجم کا مستوجب ہے جس میں حلال ہونے کا کوئی شبہ نہ ہو، لہٰذا جہاں نکاح شبہ بھی پایا جاتا ہو وہاں رجم نہیں ہوگا(ابن رشد: بدایۃ المجتہد ۲: ۴۶۷) ۔

زنا کس طرح ثابت ہوگا؟

اس پر اتفاق ہے کہ زنا کا ثبوت دو طریقوں سے ہوسکتا ہے:

۱- ایک مجرم کے اعتراف و اقرار سے۔
۲- دوسرے گواہوں سے۔

جہاں تک اعتراف کا تعلق ہے امام ابوحنیفہؒ کے مسلک میں یہ ضروری ہے کہ یہ اقرار چار مرتبہ ہو، اور اقرار کرنے والا ہر مرتبہ اپنی جگہ بدل کر اقرار کرے۔
امام احمدؒ کے نزدیک چار مرتبہ ہونا تو ضروری ہے مگر جگہ بدلنا ضروری نہیں (ابن الہمام: فتح القدیر ۴: ۱۱۷) ۔
امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک صرف ایک مرتبہ اعتراف کرلینا بھی کافی ہے (بدایۃالمجتہد: ۲:۴۷۳) ۔

گواہوں کے بارے میں اس پر اتفاق ہے کہ کم از کم چار گواہ ہونے ضروری ہیں جنہوں نے اپنی آنکھ سے مجرم کو زنا کرتے ہوئے دیکھا ہو اور صریح الفاظ میں بغیر کسی کنایہ کے اس کی گواہی دی ہو (حوالہ سابق) اس کے بعد ضروری ہے کہ قاضی ان پر جرح کرے اور ان کی عدالت و صداقت کی مکمل تحقیق ہوجانے پر رجم کا حکم دے (فتح القدیر ۴:۱۱۵ و ۱۱۶)۔

رجم کا طریقہ کار

رجم کا طریقہ یہ ہےکہ مجرم کو کسی کھلی جگہ میں لے جایا جائے جہاں عام لوگ بھی موجود ہوں۔ اگر مجرم عورت ہو تو اس کے لیے گڑھا کھود کر اس کو اس میں کھڑا کردینا مناسب ہے، پھر اگر زنا کا ثبوت گواہوں سے ہوا ہے تو پتھر مارنے کی ابتداء گواہ کریں گے ،اور اگر اعتراف سے ہوا ہے تو ابتداء امام المسلین کرے گا، پھر تمام حاضرین رجم میں حصہ لیں گے یہاں تک مجرم کی موت واقع ہوجائے (فتح القدیر ۴:۱۲۳ و ۱۲۴)۔

رجم کی سزا:اسلام کی اصل منشا

اسلام کا اصل منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ رجم کی سزا کم سے کم جاری ہو، لیکن جب جاری ہو تو سالہا سال کے لیے سامان عبرت بن جائے اور اس کی دہشت جرم کی لذت پر غالب آجائے، چنانچہ اول تو معاشرہ میں عفت و عصمت عام کرنے کے لیے ایسے حکام وضع کیے گئے ہیں جن کی موجودگی میں زنا کا صدور مشکل سے مشکل تر ہوجائے، پھر قابل رجم زنا کے ثبوت کے لیے شرائط انتہائی سخت رکھی گئی ہیں، چار قابل اعتماد گواہوں کا بغیر کسی کنایہ کے صریح الفاظ میں چشم دید واقعہ کی گواہی دینا اسی وقت ممکن ہے جب کہ مجرم نے جرم کا ارتکاب کھلم کھلا کیا ہے، پھر اگر سزا جاری ہونے سے پہلے ان میں سے کوئی ایک گواہ بھی رجوع کرلے یا گواہی دیتے وقت ان میں کوئی معمولی اختلاف ہوجائے یا اقرار کی صورت میں مجرم کسی بھی وقت، یہاں تک کہ سزا جاری ہونے کے دوران میں بھی اپنے اقرار سے منحرف ہوجائے تو سزا ساقط ہوجاتی ہے (فتح القدیر، حوالہ سابق) ۔

اس کے علاوہ دوسرے معمولی معمولی شبہات کی بنا پر سزا کو ساقط کردیا گیا ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔

تہمت کی صورت میں اسی (۸۰) کوڑوں کی سزا

دوسری طرف اگر کسی پر زنا کا الزام لگانے کے بعد کوئی شخص قانونی شرائط کے مطابق اسے ثابت نہ کرسکے تو اس کے لیے اسی (۸۰) کوڑوں کی سخت سزا مقرر کی گئی ہے۔ ان کڑی شرائط کے باوجود اگر کسی شخص سے قابل رجم زنا کا صدور ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کا یہ عضو سڑچکاہے جسے کاٹے بغیر جسم کی اصلاح ممکن نہیں، پھر اس عضو پر رحم کرنا پورے جسم پر ظلم کے مترادف ہے۔

استاذ عبدالقادر عووہ ؒ لکھتے ہیں:

’’بعض لوگ آج زانی محض کے لیے جرم کی سزا کو بہت زیادہ سمجھتے ہیں لیکن یہ محض ان کے منہ سے نکلی ہوئی بات ہے جس پر خود ان کے دلوں کو یقین نہیں (اگران میں سے کسی شخص کو اپنے بہت قریبی حلقوں میں یہ واقعہ پیش آجائے تو اس کا ردعمل شاید اس سے بھی سخت ہوگا) اسلامی شریعت نے اس مسئلہ میں بھی اپنے دوسرے احکام کی طرح باریک بینی اورانصاف کی روش اختیار کی ہے۔۔۔۔۔ جو لوگ زانی کو قتل کرنے کے تصور سے گھبرا اُٹھتے ہیں، اگر وہ واقعات کی دنیا کو دیکھیں تو ان پر حقیقت واضح ہوجائے اور انہیں پتہ چل جائے کہ اسلام نے زانی محصن کو سنگسار کرنے کا حکم دے کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جس سے انسانی طبیعت مانوس نہ ہو، آج کے مروجہ قانون ہی کو دیکھ لیجئے، اگر زنا کے مجرموں میں سے کوئی ایک شادی شدہ ہو تو اس قانون کی رو سے اس کی سزا صرف قید ہے، اور اگر کوئی شادی شدہ نہ ہو تو جب تک جبر و اکراہ نہ ہو، کوئی سزا نہیں، یہ موجودہ قانون کا فیصلہ ہے، لیکن کیا لوگ قانون کے اس فیصلے پر راضی ہوگئے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ لوگ نہ اس پر راضی ہوئے ہیں، اور نہ کبھی ہوسکتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ مروجہ قانون کو توڑتے ہیں اور زانی کو قتل کرکے اس سے انتقام لے کر رہتے ہیں اور بعض مرتبہ یہ انتقامی قتل رجم سے بھی زیادہ شدید طریقوں سے کیے جاتے ہیں، سمندر میں ڈبو دینا، آگ میں جلادینا، عضوعضو کاٹ ڈالنا اور ہڈیاں توڑ دینا (بعض اوقات یہ سلسلہ قتل نسلوں تک جاری رہتا ہے)۔ اس قسم کے واقعات روزمرہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ جب واقعہ یہ ہے تو ہم رجم کی سزا سے کیوں ڈریں؟ اس سزا کو اختیار کرنا ایک حقیقت کو تسلیم کرنا ہے اور حقیقت کو تسلیم کرنا شجاعت اور فضیلت کی بات ہے (عبدالقادر عودہ: التشریع الجنائی الاسلامی ۱:۶۴۱ و ۶۴۲، مکتبۃ دارالعروبہ، قاہرہ ۱۳۷۸ھ)۔

مآخذومصادر

(۱) القرآن المجید (۴، النسا: ۱۵)، (۵، المائدہ: ۴۲تا ۴۴)،(۲۴، النور: ۲) اور آیات کے تحت تمام تفاسیر، خصوصا: (۲)ابن کثیر: تفسیر، المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ ۱۳۵۶ھ (۳)محمود الآلوسی: روحانی المعانی، ادارۃ الطباعۃ النیریہ، مصر (۴) القرطبی: الجامع الاحکام القرآن، دارالکاتب العربی ۱۳۸۷ھ) (۵) قاضی ثناء اللہ پانی پتی: تفسیرمظہری، ندوۃ المصنفین، دہلی (۶) نیز اردو تفاسیر بالخصوص امیر علی: مواہب الرحمن بذیل آیات متعلقہ) نیز قرآن مجید میں رجم کا ذکر نہ ہونے پر لطیف و دقیق بحث کے لیے (۷)علامہ انور شاہ کشمیری: مشکلات القرآن، ص ۲۱۳ مطبوعہ مجلس علمی، دہلی ۱۳۵۷ھ، رجم سے متعلق احادیث کا بڑا ذخیرہ صحاح ستہ کے علاوہ (الفتح الربانی، تبویب مسند احمد، جلد ۱۶مطبوعہ مصر ۱۳۷۱ (۹) البیہقی: السنن الکبریٰ، جلد ۸ دائرۃ المعارف، دکن ۱۳۵۴ھ (۱۰) الہیثمی، مجمع الزوائد، جلد ۶، دارالکتاب، بیروت ۱۹۶۷ھ، احادیث رحم کی مفصل تشریح کے لیے (۱۱) ابن حجر: فتح الباری، جلد ۱۲ مطبوعہ المطبعیۃ البہیہ مصر بہترین ہے۔ (۱۲) السیوطی: الاتقان ۲:۲۶، المطبعۃ الازہریہ مصر ۱۳۱۸ھ (۱۳) ابن امیرالحجاج: التقریر والتعبیر ۲:۶۶ بولاق ۱۳۱۷ھ، نیز اصول فقہ اور علوم القرآن کی کتب میں نسخ کی بحث دیکھئے، رجم کی فقہی تفصیلات کے لیے (۱۴) ابن رشد: بدایۃ المجتہد، جلد ۲، المطبعۃ الازہریۃ، مصر ۱۳۸۹ھ (۱۵) ابن نجیم: البحرالرائق، جلد ۵، المطبعۃ العلمیۃ مصر (۱۶) ابن الہمام: فتح القدیر، جلد ۴، بولاق، ۱۳۱۶ھ ناگزیر ہیں۔ زنا کی مختلف صورتوں، ان کے احکام اور ان کی عقلی حکمتوں کے لیے دیکھئے۔ (۱۷) عبدالقادر عودہ: التشریع الجنائی الاسلامی، جلد اول، مکتبۃدارالعروبۃ، قاہرہ ۱۳۷۸ھ (۱۸) عبدالعزیز عامر: التعزیر فی التشریعہ الاسلامیہ، مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، مصر ۱۳۷۷ھ (۱۹) احمد فتحی بہنی: الجرائم فی الفقہ الاسلامی، مطبوعہ الشرکۃ العربیہ للطباعۃ والنشر، قاہرہ ۱۹۵۹ء)۔

ماخوزاز: رجم کی شرعی حیثیت ، مکتبہ بینات ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی ،بشکریہ دائرۃ المعارف الاسلامیہ ،جامعہ پنجاب،لاہور،مقالہ ’’رجم‘‘۔

5,036 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!