صحابہ کرام کا مقام تاریخ سے نہیں پہچانا جاسکتا ، از مولانا مفتی محمد شفیعؒ
مقام صحابہ
زیر نظر مقالے کا نام ’’مقام صحابہؓ‘‘ رکھا ہے تاکہ پہلے ہی یہ معلوم ہوجائے کہ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل و مناقب کی کتاب نہیں، اس موضوع پر سینکڑوں کتابیں بحمدللہ ہر زبان میں موجود ہیں اور تمام کتب حدیث میں اس کی ایک نہیں بہت سے ابواب موجود ہیں۔ صحابہ کرام ؓ کا تو مقام بہت بلند ہے، عام صلحاءو ا ولیائے امت کے فضائل و مناقب اور ان کی حکایات انسان کو راہِ راست دکھانے اور اس میں دینی انقلاب پیداکرنے کے لیے نسخۂ اکسیر ہیں، مگر وہ اس رسالے کا موضوع نہیں۔ اسی طرح اس عنوان سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ کوئی تاریخ کی کتاب بھی نہیں، جس میں افراد ورجال کے اچھے برے حالات درج ہوتے ہیں اور ان میں احوال کی کثرت و قلت کے تناسب سے کسی کو بزرگ صالح اور دلی کہا جاتا ہے، کسی کو فاسق و ظالم۔
صالح اور ولی ہونے کے لیے مدارکار
کیونکہ انبیاء علیہم السلام کے بعد دنیا کو کوئی اچھے سے اچھا انسان ایسا نہیں جس سے کوئی لغزش اور غلطی نہ ہوئی ہو، اسی طرح کوئی برے سے برا انسان بھی ایسا نہیں جس سے کوئی اچھا کام نہ ہوا۔ بس مدارِکار اس پر رہتاہے کہ جس شخص کی زندگی اچھے اخلاق و اعمال میں گزری ہے اس کا صدق و اخلاص بھی اس کے عمل سے پہچانا گیا ہے۔ اس سے کوئی گناہ یا غلطی بھی ہوگئی تو بھی اس کو صلحائے امت ہی کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جو شخص اپنی عام زندگی میں دین کی حدود و قیود کا پابند، احکام شرعیہ کا تابع نہیں ہے، اس سے دوچار اچھے یا بہت اچھے کام بھی ہوجائیں تو بھی اس کو صلحاء و اولیاء کی فہرست میں شمار نہیں کیا جاتا۔
فن تاریخ اورفقہ التاریخ میں فرق
فن تاریخ کا کام اتناہے کہ واقعات کو دیانت داری سے ٹھیک ٹھیک بیان کردے، اس سے نتائج کیا نکلتے ہیں اور کسی فرد یا جماعت کا دینی یادنیاوی مقام ان واقعات کی روشنی میں کیا ٹھہرتا ہے؟ یہ فن تاریخ کے موضوع سے الگ ایک چیز ہے، جس کو ’’فقہ التاریخ‘‘ تو کہہ سکتے ہیں ’’تاریخ‘‘ نہیں۔
پھر عام دنیا کے افراد و رجال اور جماعتوں کے بارے میں یہ فقہ التاریخ انہیں تاریخی واقعات پر مبنی ہوتا ہے اور فن تاریخ کا ہر واقف و ماہر ایسے نتائج اپنی اپنی فکر و نظر کے مطابق نکال سکتا ہے۔
صحابہ نری تاریخ سے نہیں پہچانے جاسکتے
’’مقام صحابہ‘‘ میں مجھے یہ دکھلانا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس معاملے میں عام دنیا کے افراد و رجال کی طرح نہیں کہ ان کے مقام کا فیصلہ نری تاریخ اور ان کے بیان کردہ حالات کے تابع کیا جائے ،بلکہ صحابہ کرام ؓ ایک ایسے مقدس گروہ کا نام ہے جو رسول اللہ ﷺ اور عام امت کے درمیان اللہ تعالیٰ کا عطا کیاہوا ایک واسطہ ہے، اس واسطے کے بغیر نہ امت کو قرآن ہاتھ آسکتا ہے نہ قرآن کے وہ مضامین جن کو قرآن نے رسول اللہ ﷺ کے بیان پر چھوڑا ہے’’لتبین للناس مانزل الیھم‘‘ نہ رسالت اور اس کی تعلیمات کا کسی کو اس واسطے کے بغیر علم ہوسکتا ہے۔
یہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے ساتھی، آپ کی تعلیمات کو تمام دنیا اور اپنے زن و فرزند اور اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھنے وا،لے آپ کے پیغام کو اپنی جانیں قربان کرکے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلانے والے ہیں۔ ان کی سیرت رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا ایک جز ہے۔ یہ عام دنیا کی طرح صرف کتب تاریخ سے نہیں پہچانے جاتے ،بلکہ نصوص قرآن و حدیث اور سیرت رسول اللہ ﷺ سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا اسلام اور شریعت اسلام میں ایک خاص مقام ہے۔ میں اس مقالے میں اسی مقام کو ’’مقام صحابہ‘‘ کے عنوان سے پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اس کی ضرورت واہمیت توبہت زمانے سے پیش نظر تھی مگر اس کے لکھنے کا ایک ایسا قوعی داعیہ جو دوسرے کاموں کو مؤخر کرکے اس میں لگادے اس وقت پیدا ہوا جبکہ یہ ناکارہ اپنی عمر کی چھترویں (۷۶) منزل سے گزر رہا ہے۔ قویٰ جواب دے چکے ہیں، مختلف قسم کے امراض کا غیر منقطع سلسلہ ہے۔ علم و عمل پہلے کیا تھا، اب جو کچھ تھا وہ بھی رخصت ہورہا ہے۔
صحابہ کرام کے متعلق اہل السنۃ والجماعۃ کا طرز عمل
ان حالات میں یہ داعیہ قوی ہونے کا سبب موجودہ زمانے کے کچھ حوادث ہیں، یہ تو سب کو معلوم ہے کہ امت کے گمراہ فرقوں میں سے ایک فرقہ جو عہد صحابہ ؓ ہی میں پیداہوگیا تھا، صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی سے پیش آتا ہے، اور اسی بناء پر عام امت محمدیہ اس سے منقطع ہے، مگر امت کے عام فرقے خصوصاً جمہور امت جن کو’’ اہل السنۃ والجماعۃ‘‘ کے لقب سے ذکر کیا جاتا ہے، وہ سب کے سب صحابہ کرام ؓ کے خاص مقام اور ادب و احترام پر متفق اور ان کی عظیم شخصیتوں کو اپنی تنقیدات کا نشانہ بنانے سے گریز کرتے رہے اور اس کو بڑی بے ادبی سمجھتے رہے۔ مسائل میں اختلاف صحابہ ؓ کے وقت دو متصاد چیزوں پر ظاہر ہے کہ عمل نہیں ہوسکتا، ان میں سے ایک کو اجتہاد شرعی کے ساتھ اختیار کرنا اور بات ہے، وہ کسی شخصیت کو ہدف تنقید بنانے سے بالکل مختلف چیز ہے۔
’’تحقیق‘‘ کی وبا
لیکن اس زمانے میں یورپ سے جو چھی بری چیزیں اسلامی ملکوں میں درآمد کرلی گئی ہیں ان میں ہر چیز کی تحقیق و تنقید (ریسرچ) بھی ہے۔ تحقیق و تنقید فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں، خود قرآن کریم نے اس کی طرف دعوت دی ہے۔ سورہ فرقان میں ’’عبادالرحمٰن‘‘ کے عنوان سے اللہ تعالیٰ کے صالح اور نیک بندوں کی جو صفات بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
والذین اذا ذکروا بایت ربھم لم یخرو علیھا صما و عمیانا
یعنی اللہ کے یہ صالح اور نیک بندے آیات الٰہیہ پر اندھے بہروں کی طرح نہیں گر پڑتے کہ بے تحقیق جس طرح اور جو چاہیں عمل کرنے لگیں، بلکہ خوب سمجھ بوجھ کر بصیرت کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔‘‘
لیکن اسلام نے ہر چیز اور ہر کام کی کچھ حدود مقرر کی ہیں، ان کے دائرے میں رہ کر جو کام کیا جائے وہ مقبول و مفید سمجھا جاتا ہے۔ حدود و اصول کو توڑ کر جو کا کیا جائے وہ فساد قرار دیا جاتا ہے۔
کون سی تحقیق مستحسن ہے؟
تحقیق و تنقید میں سب سے پہلی بات تو اسلامی اصول میں یہ پیش نظر رکھنی ہے کہ اپنی توانائی اور وقت اس چیز کی تحقیق پر صَرف نہ کی جائے جس کاکوئی نفع دین یا دنیا میں متوقع نہ ہو۔ خالی تحقیق برائے تحقیق اسلام میں ایک عبث اور فضول عمل ہے، جس سے پرہیز کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے بڑی تاید فرمائی ہے۔ خصوصاً جبکہ کوئی ایسی تحقیق و تنقید ہو جس سے دنیا میں فتنہ اورجھگڑے پیدا ہوں۔ یہ ایسی ہی تنقید ہوگی جیسے کوئی ’’لائق‘‘ بیٹا اس کی تحقیق اور ریسرچ میں لگ جائے کہ جس باپ کا بیٹاکہلاتا ہوں کیا واقعی میں اسی کا بیٹا ہوں؟ اور اس کے لیے والدہ محترمہ کی زندگی کے گوشوں پر ریسرچ و تحقیق کا زور خرچ کرے۔
دوسرے شخصیتوں پر جرم و تنقید کے لیے اسلام نے کچھ عادلانہ، حکیمانہ اصول اور حدود مقرر کیے ہیں اور ان سے آزاد ہوکر جس کا جی چاہے، جو جی چاہے اور جس کے خلاف جی چاہے بولا یا لکھا کرے، اس کی اجازت نہیں دی۔ یہاں اس کی تفصیلات بیان کرنے کا موقع نہیں۔ حدیث کی جرح و تعدیل کی کتابوں کے ساتھ اس پر بحث کی گئی ہے۔
لیکن یورپ سے درآمد کی ہوئی ’’ریسرچ و تحقیق‘‘ نام ہی بے قید اور آزاد تنقید کا ہے۔ ادب اور احترام اور حدود کی رعایت اس میں ایک بے معنی چیز ہے،افسوس ہے کہ اس زمانے کے بہت سے اہل قلم بھی اس نئے طرز تنقید سے متاثر ہوگئے،بغیر کسی دینی و دنیاوی ضرورت کے بڑی بڑی شخصیتوں کو آزاد جرح و تنقید کا ہدف بنالینا ایک علمی خدمت اور محقق ہونے کی علامت سمجھی جانے لگی۔
اسلاف امت اور ائمہ دین پر تو یہ مشق ستم بہت زمانے سے جاری تھی، اب بڑھتے بڑھتے صحابہ کرام ؓ تک بھی پہنچ گئی۔ اپنے آ پ کو اہل السنۃ والجماعۃ کہنے والے بہت سے اہل قلم نے اپنی ریسرچ و تحقیق اور علمی توانائی کا بہترین مصرف اسی کو قرار دے لیا کہ صحابہ کرام ؓ کی عظیم شخصیتوں پر جرح و تنقید کی مشق کی جائے۔
صحابہ کرام کے متعلق افراط وتفریط اوراس کا نتیجہ
بعض حضرات نے ایک طرف حضرت معاویہؓ اور ان کے بیٹے یزید کی تائید و حمایت کا نام لے کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور ان کی اولاد بلکہ پورے بنی ہاشم کو ہدف تنقید بناڈالا ،اور اس میں صحابہ کرام ؓ کے ادب و احترام تو کیا اسلام کے عادلانہ اور حکیمانہ ضابطۂ تنقید کی بھی ساری حدود و قیود کو توڑ ڈالا، اس کے بالمقابل دوسرے بعض حضرات نے قلم اٹھایا تو حضرت معاویہؓ اور حضرت عثمان ؓ اور ان کے ساتھیوں پر اسی طرح کی جرح و تنقید سے کا م لیا۔
نئی تعلیم پانے والے نوجوان جو علوم دین اور آدابِ دین سے ناواقف یورپ سے درآمد کی ہوئی نئی تہذیب کے دلدادہ ہیں، وہ ان دونوں سے متاثر ہوئے اور ان کے حلقوں میں صحابہ کرام ؓ پر زبان طعن دراز ہونے لگی اور صحابہ کرام ؓ جو رسول اللہ ﷺ اور امت مسلمہ کے درمیانی واسطہ ہیں، ان کو دنیاکے عام سیاسی لیڈروں کی صف میں دکھایا جانے لگا جو اقتدار کی جنگ کرتے ہیں اور اپنے اپنے اقتدار کے لیے قوموں کو گمراہ اورتباہ کرتے ہیں۔ صحابہ کرام ؓ پر تبراً کرنے والا گمراہ فرقہ تو ایک خاص فرقے کی حیثیت سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ عام مسلمان ان کی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ نفرت کرتے ہیں، مگر اب یہ فتنہ خود اہل سنت والجماعت کہلانے والے مسلمانوں میں پھوٹ پڑا ہے۔
اور ظاہر ہے کہ خدانخواستہ اگر مسلمان صحابہ کرا مؓ ہی کے اعتماد کو کھو بیٹھے تو پھر نہ قرآن پر اعتمادرہتا ہے، نہ حدیث پر، نہ دین اسلام کے کسی اصول پر، اس کا نتیجہ کھلی بے دینی کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟یہ سبب ہوا جس نے ان حالات میں اس موضوع پر قلم اٹھانے کے لیے مجبور کردیا۔ واللہ المستعان وعلیہ التکلان۔
ماخوذ از: مقام صحابہ ، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ