دارالعلوم دیوبند کی یادیں اور وہاں کے اکابر، از مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی
تعارف: شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے شاگرد مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی (نگران شعبہ تخصص علوم حدیث جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی) نے یہ منفرد مضمون مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’ہزار سال پہلے‘‘ کی طبع جدید کے لیے لکھا تھا ، اس مضمون میں مولانا گیلانی کا تذکرہ تو تھا ہی ، لیکن ساتھ ہی دارالعلوم دیوبند اور وہاں کے اکابر علماء سے متعلق ڈاکٹر عبد الحلیم چشتی صاحب نے اپنی کچھ یادیں بھی سپرد قلم کردیں ، دار العلوم دیوبند سے متعلق محقق وقت کا یہ مضمون انتہائی قیمتی اور نایاب معلومات پر مشتمل ہے ۔
تمہید
میں جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے کتب خانہ میں ایک کتاب دیکھنے پہنچا ، اتفاقا ہمارے یہاں کے استاد حدیث محترم مولانا محمد انور بدخشانی کے فرزند مولوی محمد عمر انور سلمہ اللہ تعالی آئے اور فرمانے لگے مولانا مناظر احسن گیلانی(۱۸۹۲ء-۱۹۶۷ء) کی کتاب ’’ہزار سال پہلے‘‘ زیور طبع سے آراستہ کرنی ہے، میرے منہ سے بیساختہ نکل گیا کہ مولانا گیلانیؒ نے اپنے منصب کا کام نہیں کیا ،ایسے کام اور اہل علم کرتے ، پھر کیا تھا چہرے کا رنگ بدل گیا ، میں طلبہ اور اہل علم سے اس قسم کی بات کرجاتاہوں اور خود بلامیں گرفتار ہوتا ہوں ، یہی یہاں ہوا، میں نے عرض کیا انہیں مولانا محمد قاسم نانوتوی (۱۲۴۸ھ-۱۲۹۷ھ)کی کتابوں پر لکھنا تھا ، یہ کام یہی کرسکتے تھے جو افسوس ہے کہ نہ ہوسکا، بس حکم دیا کہ اس پر آپ کچھ لکھیں ، میں نے عرض کیا یہی باتیں لکھوں گا ، وہ اس پر راضی ہوگئے ، مجھ پر کام کا بوجھ رہتا ہے ’’ضغث علی ابالہ ‘‘ بوجھ پر اور بوجھ سہی ، قہر درویش بر جان درویش ، چار پانچ دن کا وعدہ کیا لیکن میرے بیٹے ڈاکٹر حافظ محمد ثانی سلمہ کی شادی کا زمانہ تھا وعدہ پورا نہ کر سکا ، ارادہ تھا صفحے دو صفحے لکھ کر جان چھوٹ جائے گی ، لیکن میرے لیے قضا وقدر کے فیصلے کچھ اور ہوتے ہیں ۔
مادر علمی کی صدا
میں نے مولانا گیلانی ؒ پر لکھنے کے لیے قلم پکڑا تو میری مادر علمی یوں گویا ہوئی ، مولانا گیلانیؒ میرے سپوت تھے ، انہوں نے شروع سے میرا خیال رکھا ، آخر عمر میں سوانح قاسمی لکھ کر میرا حق ادا کیا ، تو ان پر لکھنے بیٹھا مجھے بھول گیا ، ذرا میری طرف دیکھ !تو نے عمر کاٹی مجھے مڑ کر بھی نہ دیکھا ، تو جے پور (راجستان ہندوستان) سے یہاں آنے والا پہلا طالب علم تھا ، جب داخلہ کے لیے یہاں پہنچا میں نے تجھے مہمان خانے میں ٹھہرایا ، سترہ دن تیری مہمان نوازی کی ، تجھے احاطہ مولسری کمرہ نمبر ۲۶ میں جگہ دی ، پانچ برس یہاں رہا ، مولسری کے کنوئیں سے تجھے ٹھنڈا پانی پلاتی رہی ، تیرے عزم وحوصلہ کو بڑھاتی رہی ، تونے شرح ملا جامی سے دورہ تک یہاں پڑھا ، میں نے تجھے حضرت مدنیؒ (۱۲۹۶ھ-۱۳۷۷ھ) کا پکا پھل کھلایا ، تجھے اس لائق بنایا کہ تو نے پاکستانی یونیورسٹیوں میں جامعہ کراچی میں ’’اسلامی کتب خانے عہد عباسی میں ‘‘ لکھ کر اس جامعہ سے علم کتب خانہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا دروازہ کھولا، اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۳ء میں ختم ہوگیا،لیاقت نیشنل لائبریری ، جامعہ کراچی اور بیرو یونیورسٹی کانو ، پھر نائجیریا میں تو نے عمر بسرکی، آخر میں تجھے جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری (۱۳۲۶ھ-۱۳۹۸ھ) ٹاؤن کراچی جو پاکستان میں چوٹی کے علماء کا مرکز ہے اس کے بانی بھی میرے سپوت تھے ، ۱۴۰۸ھ میں مفتی ولی حسن ٹونکی(۱۹۲۳ء-۱۹۹۵ء) کے ساتھ کہ وہ بھی میرے ساختہ پرداختہ تھے شعبۂ تخصص فی الفقہ الاسلامی میں تحقیقاتی مقالات کا مشرف بنوایا ، پھر تخصص فی علوم الحدیث کے منصب پر تقرر کرایا ،میں نے عرض کیا میں آپ کی نسبت وتعلق کو کہیں فراموش نہیں کرسکا ، آپ پر بہت کچھ لکھا گیاہے میں ۱۹۵۷ء سے ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ وغیرہ علمی رسالوں میں آپ کی نسبت سے لکھتا رہا ہوں ، وہ کہتی رہی تو نے ابتک مجھ پر لکھنے میں دیر کیوں کی میرے یہاں تاخیر بھی جرم ہے ، بات سچ تھی ،تاخیر پر معافی مانگی ، پھر حکم ہوا لکھ ! آخر لکھنا شروع کیا :
عدو کے سامنے آزماتے ہیں وفا میری
قضا کا سامنا ہے آبرو رکھ لے خدا میری
دارالعلوم دیوبند کے بنیادی ماخذ
۱-دارالعلوم دیوبند پر سب سے پہلے سید محبوب رضوی (المتوفی ۱۹۷۹ء) نے تاریخ دیوبند لکھی، جو ۱۹۵۲ء -۱۳۷۲ھ میں ادارۂ تاریخ دیوبند سے شائع کی گئی تھی ، یہ نہایت مختصر کتاب ہے ، اب سنا ہے یہ دو جلدوں میں شائع کی گئی ہے ۔
۲- اس کے بعد ہمارے استاد قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند (۱۳۱۵ھ- ۱۴۰۳ھ) نے دارالعلوم دیوبند لکھی جو ۱۳۸۵ھ -۱۹۶۵ء میں دفتر دارالعلوم دیوبند کی طرف سے شائع کی گئی تھی ۔
یہ دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ زندگی ، اس کی تاسیس ، وجہ تاسیس ، تعلیمی ، تبلیغی ، انتظامی اور عام افادی کوائف واحوال کا مختصر مگر جامع مرقع ہے ۔
۳- مکمل تاریخ دارالعلوم دیوبند کتب خانہ مرکز علم وادب آرام باغ کراچی سے شائع کی گئی ہے جس میں مذکورہ ٔبالا دونوں کتابیں اور بعض وہ کتابیں جو صد سالہ جوبلی کے موقع پر شائع کی گئی تھیں اس میں یکجا کی گئی ہیں ۔
۴-محمد عبدالرشید ارشد نے ماہنامہ الرشید کا دارالعلوم دیوبند نمبر (جلد ۴، شمارہ ۲ ، ۳ ) ۱۳۹۶ھ میں شائع کیا، جو گو نا گوں معلومات سے آراستہ ہے ۔
۵- انوار قاسمی ، یہ انوارالحسن شیرکوٹی(۱۹۰۶ء-۱۹۶۹ء) کی تالیف ہے جو ۱۳۹۲ھ میں شائع کی گئی تھی۔
۶- اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، دانشگاہ پنجاب لاہور ۹/۶۱۰ (دیوبند – دیوبندی ) ۔
۷- جامعۃ دیوبند الاسلامیۃ فی ضوء المقالات البنوریۃ ، عربی میں مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار(۱۹۹۷ء) نے جامعۃ العلوم الاسلامیۃ کراچی سے ۱۴۰۰ھ -۱۹۸۰ء میں شائع کیا تھا۔
لیکن دارالعلوم دیوبند کی تاریخ اور اس کی خدمات اور کارناموں کے متعلق علمی وتحقیقی کتاب مرتب نہیں ہوسکی، جس کی خدمات کا دائرہ اور اس کے عالمگیر اثرات کا علمی وتحقیقی جائزہ قاسمیوں پر قرض ہے ، ممکن ہے ہندوستان میں اس پر کام ہورہا ہو یہاں وہ کتابیں آتی نہیں ہیں اس لیے اس کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے ۔
دارالعلوم دیوبند اور اکابر دیوبند
دیوبند میں جن ارباب صدق وصفا نے پندرہ محرم الحرام ۱۲۸۳ھ ،۳۰ مئی ۱۸۶۷ء کو مدرسہ دارالعلوم کی بنیاد رکھی تھی ان کی فطرت میں گلے از گلزارے صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم اجمعین کی پانچ خوبیاں ودیعت کی گئی تھیں ، ان کی زندگی صحابہ وتابعین ؓ کے نقش قدم کا نمونہ تھی ، چنانچہ فقیہ و امام شام ابو عمرو اوزاعی (۸۸ھ -۱۵۷ھ) نے ان پانچ خوبیوں کو بحسب ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’خمسـۃ کان علـیھا الصحـابۃ والـتابعـون ،لـزوم الجماعـۃ ، واتباع السـنۃ ، وعـمارۃ المـساجد، والـتلاوۃ والجـھاد‘‘[تاریخ دیوبند ، محبوب رضوی صفحہ ۷۵، ادارہ تاریخ دیوبند۱۹۵۲ء]۔
ترجمہ :صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم جن پانچ باتوں کی پابندی کرتے تھے وہ ہیں :(۱) نماز باجماعت (کا اہتمام )۔ (۲) اتباع سنت ۔ (۳) مسجد کو نماز اور تعلیم سے آباد رکھنا۔ (۴) قرآن پڑھنا (پڑھانا)۔ (۵) جہاد کرنا ۔
۱-ان ارباب مہر ووفا کی زندگی انہی پانچ باتوں کی پابندگی میں گزری ہے ، اس کے آثار یہاں کے پڑھنے پڑھانے والوں میں بھی میری طالب علمی کے زمانے تک نمایاں نظر آتے تھے ، یہاں کے نامور شیوخ حدیث اور استادوں کا انہی پانچ باتوں پر عمل زندگی کا طرۂ امتیاز تھا اور ان کی دنیوی شہرت وناموری ، علمی وتحقیقی کامیابی وکامرانی اور روحانی ترقی کا یہی راز ہے ۔
۲- اسی طرح ان کی سرشت میں صحابہ وتابعین ؓ کے علوم کی ترویج واشاعت بھی ودیعت کی گئی تھی ، چنانچہ انہوں نے زندگی بھر یہی خدمت سر انجام دی ، ایک ایسی جابر وظالم حکومت کے زیر نگیں رہ کر جس کی حدود سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا ، صحابہ وتابعین ؓ کے علوم کی ایسی ترویج واشاعت کی جس کی نظیر کہیں مشکل سے ہی ملے گی ، صحابہ وتابعین کے علوم کی تفصیل مؤرخ اسلام علامہ شمس الدین ذہبی ؒ (۶۷۳ھ-۷۴۸ھ) کی زبانی سنئے ، وہ فرماتے ہیں :
’’فما ظنک بعلم المنطق والجدل وحکمۃ الأوائل التی تسلب الایمان وترث الشکوک والحیرۃ التی لم تکن واللہ من علم الصحابۃ ، ولا التابعین ، ولا من علم الأوزاعی ، والثوری ، ومالک ، وأبی حنیفۃ ، وابن ابی ذئب ، وشعبۃ ، بل کانت علومہم القرآن والحدیث والفقہ والنحو وشبہ ذلک۔
ترجمہ :تمہارا کیا خیال ہے علم منطق ، جدل اور حکمت اوائل فلسفہ وغیرہ کے متعلق جو ایمان کو برباد کرتے ، شکوک وشبہات پیدا کرتے اور حیرت میں ڈالتے ہیں ، واللہ یہ صحابہ وتابعین کے علوم نہ تھے اور نہ امام اوزاعی ، امام ثوری ، امام مالک ، امام ابو حنیفہ ، امام ابن ابی ذئب اور امام شعبہ کے علم سے ان کا کوئی لگاؤ اور تعلق ہے ، بلکہ ان کے علوم (۱) قرآن (۲) حدیث (۳) فقہ (۴) اور نحو اور اسی جیسے ادبی علوم تھے ۔
شیوخ واساتذہ ٔ دیوبند کے بنیادی علوم بھی یہی تھے۔
دارالعلوم دیوبند میں منطق وفلسفہ پڑھایا جاتا تھا مگر اس کی حیثیت ثانوی تھی ، انہوں نے اصل میں صحابہ وتابعینؓ کے علوم کی آبیاری کی اور انہیں از سر نو زندہ کیا ، ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء ، اور ان علوم میں وہ جوہر دکھائے جس کی نظیر ہندوستان میں کم ہی کہیں ملے گی ، اور خوبی یہ ہے کہ سید انور شاہ (۱۲۹۲ھ -۱۳۵۲ھ) کے علاوہ دیگر اکابر شیوخ حدیث کو کتابیں کہاں میسر تھیں ، انہیں اصلاح وارشاد ، یاد الہی ، مہمان نوازی اور تعلیم وتدریس اور دیگر ملکی امور سے فرصت کہاں تھی پھر بھی وہ حدیث کی جو توجیہ کرتے ہیں وہ کتابوں میں کہا ں نظر آتی ہیں ؟ حضرت گنگوہی ؒ (۱۲۴۴ھ-۱۳۲۳ھ) اور شیخ الہند (۱۲۶۸ھ -۱۳۳۹ھ) کی درسی امالی اس امر کی شاہد عدل ہیں ، حضرت تھانوی (۱۲۸۰ھ – ۱۳۶۲ھ)کی بیشتر نکتہ رسی بھی ایسی ہی ہے جو کتابوں کی مرہون منت نہیں ۔
۳-صحابہ وتابعین ؓ کی ان باتوں کے خلاف جب کہیں کوئی تحریک اٹھی اس کے خلاف سب سے پہلے علماء دیوبند سر بکف میدان میں اترے ، قدیم وجدید تمام فتنوں کی جڑ انہی پانچ باتوں کے خلاف سرگرمیوں میں پنہاں وپوشیدہ ہیں ، عقائد کا اختلاف ، بدعات ، اخلاقی بے راہ روی ، اسلامی قوانین کی خلاف ورزیاں ، ان کا مذاق اڑانا ، نصابی کتابوں اوراسلامی اقدار میں رنگ آمیزی کرنا اور جہاد کے نام سے بیزاری سب کی بنیاد اور جڑ انہی پانچ باتوں کی خلاف ورزی کا پرتو ہیں ، جب تک قوم ان باتوں پر عمل پیرا نہیں ہوتی وہ اقوام عالم میں اپنی شناخت برقرار نہیں رکھ سکتی ، نہ سربلندی و سرفرازی حاصل کرسکتی ہے، چاہے وہ ایٹم بم بنائے ، چاہے آسمان پر کمندیں ڈالے ، اس لیے کہ اس کے دل میں وہ ایمان نہیں جو آخرت کی جواب دہی کے لیے بے چین رکھے ، وہ ریت کی ایک دیوار ہے :
خلاف پیمبر کسے رہ گزید
ہر گز بمنزل نخواہد رسید
ان ارباب صدق وصفا کی صحابہ وتابعین ؓ کے نقش قدم کی پیروی و پابندی ان کے علوم سے وابستگی و شیفتگی کے باوجود انہوں نے نہایت جانفشانی اور اخلاص سے تدریسی خدمات انجام دیں ، اللہ تعالی نے ان میں ایسی روشنی اور کشش پیدا کی کہ ہندوستان کے صدیوں سے آباد مرکز علم بھی ماند پڑگئے ، ایشیاء ہی نہیں بلکہ افریقہ ، یورپ اور امریکہ اور بہت سے ممالک سے طلبہ اس مدرسہ کا رخ کرنے لگے تھے ، اب بھی آتے ہیں باوجودیکہ اب وہاں دیوبندیوں نے اپنے مدرسے کھول رکھے ہیں ، ہندوستان میں نہیں جاتے تو پاکستان آتے ہیں ۔
یہ بات نہ تھی کہ اکابر دیوبند اور دارالعلوم کے مسند نشین منطق ، فلسفہ وحکمت سے بے بہرہ تھے ، انہیں ان علوم میں بھی مہارت حاصل تھی اور وہ جس خوبصورتی سے منطق کے فقرے اور جملے اپنے درس میں استعمال کرتے تھے شاید ہی کوئی کرتا ہو۔
شیخ الہندؒ کے درس بخاری میں صلوۃ الکسوف کی بحث میں جو حدیثیں آتی ہیں ان میں آتا ہے کہ نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلاف معمول تلاوت لمبی کی ، رکوع وسجدے بھی بہت لمبے کیے ، اتنے لمبے کہ صحابہؓ نے بار بار رکوع سے کھڑے ہوکر آپ کو دیکھا اور آپ کو رکوع میں پایا ۔
یہ روایتیں صحیح سند سے آئی ہیں ، ان سے ثابت ہوتاہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی رکوع کیے ہیں ، سید انور شاہؒ نے دوران سبق پوچھا اس سے تو تعدد رکوع ثابت ہیں، حضرت شیخ الہندؒ نے یہ اعتراض سنتے ہی برجستہ فرمایا :’’تم اجلی البدیہیات ‘‘ کو نظری بنانا چاہتے ہو ؟ ہر نماز میں ایک رکوع ہے یہاں بھی ایک ہوگا‘‘۔ پھر انور شاہ نے سبق میں کوئی سوال نہیں کیا۔
دارالعلوم دیوبند کاکتب خانہ
میری طالب علمی کا زمانہ ایسا تھا جب دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے میں کتابیں مقفل میں رکھی جاتی تھیں ، اس سے پہلے بھی یہی دستور تھا ، یعنی طلبہ کو نصابی کتاب کے علاوہ کتب خانہ کی کسی اور کتاب کے استعمال کی اجازت تھی نہ کتب خانے میں آنے کی ، بلکہ کتب خانہ کے دروازے پر ایک لمبی تپائی پڑی رہتی تھی ، اس کا مطلب یہ تھاکہ آپ درسی کتاب آغاز سال میں ایک مرتبہ لے جائیں ، اور اختتام سال امتحان کے بعد اس تپائی پر واپس کرکے گھر چلے جائیں ، کتب خانہ میں داخل نہ ہوں ، کتابیں صرف استادوں کے استعمال میں رہتی تھی ،کسی حاشیہ اور شرح سے استفادہ کی اجازت طالب علم کو نہ پہلے تھی ، نہ میرے زمانے میںاٹھی تھی ، میں جب تک وہاں رہا اس عرصہ میں کسی مہمان کو کتب خانہ دکھانے لے جاتے تو پھر کہیں کتابوں پر نظر پڑتی ۔
میں اپنے وطن جے پور (راجستان ) سے چھٹیاں گزار کر شوال میں جاتا ،مجھے درسی کتابوں کے ایسے نسخے ملتے تھے جس میں چو رخی حاشیہ ہوتے تھے ، وہ کتابیں اپنی عمر کے دن گن رہی ہوتی تھیں ، انہی کو پڑھتا رہتا تھا، میرے ہم سبق ،مولانا فیض علی شاہ ؒ ، زکی کیفی ؒ ،مولانا سید حامد میاںؒ (بانی جامعہ مدنیہ لاہور) ،مولانا محمد سالم (مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند ) وغیرہ تھے، ان کے پاس کتابوں کے اچھے نسخے ہوتے تھے ، یہ شروع دنوں میں کتابیں لیتے تھے ۔
کتب خانے میں مطالعہ پر پابندی
طلبہ کو کتب خانہ میں کتابوں کے استعمال پر پابندی کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں :
(۱) جگہ کی کمی ۔ (۲) عملہ کی کمی ۔ (۳) طلبہ کی کثرت ۔
(۴) مطالعہ کی اجازت کی صورت میں اسباق سے غفلت۔
(۵) غیر موضوع کی کتابوں میں وقت کی بربادی ۔
(۶) کتابوں کے استعمال میں بے احتیاطی ۔
بہرحال جو بھی توجیہ کی جائے وہ دل کو نہیں لگتی ، طلبہ جب کتابوں کے نام اور مصنفین کے مراتب اوران کے طبقات سے بے بہرہ رہیں گے انہیں علم کی ہوا کہاں سے لگے گی ؟ ذہین زکی طلبہ آئندہ پڑھانے کی خاطر درسی کتاب شوق سے یاد کرتے تھے، اس سے ان کی معلومات کتاب کی حد تک محدود ہو کر رہ جاتی تھی، انہیں لکھنے کا کوئی موقع نہ ملتا تھا اس لیے کہ لکھنے کے لیے کتابیں ہونی چاہئیں انہیں یہ سہولت میسر نہ تھی ،یہی وجہ ہے کہ دیوبند سے اہل قلم خال خال ہی نکلے ہیں مدرسین کی ہر جگہ کثرت ہے ۔
علمی تربیت کی ہر شعبہ میں بہت کمی ہے ، ذہین زکی طلبہ کو درسی کتابیں زبانی یاد ہوتی تھیں ، لیکن فن پر نظر نہ ہوتی تھی نہ آئندہ اس کی کوئی راہ نظر آتی تھی ،اس لیے کہ اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ ذاتی کتابیں خریدیں ، اکثر کے پاس صحاح ستہ تک نہیں ہوتی تھی۔
استادوں کی درسی امالی میں نقائص کی بنیادی وجہ کتب خانوں سے کتابوں کے استعمال پر پابندی ایک اہم عنصر تھا اورہے،دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے سے استفادہ کی اجازت نہ تھی ، اس لیے طلبہ مشکوۃ المصابیح اور دورۂ حدیث کے سبق میں شیخ الحدیث اور اساتذہ ٔ حدیث کی درسی تقریریں لکھتے رہتے تھے ، یہی وہ مطالعہ میں رکھتے اور کام نکالتے تھے۔
اکابر دیوبند کی درسی تقریریں
یہی وجہ ہے کہ حضرت گنگوہیؒ(۱۲۴۴ھ-۱۳۲۳ھ) اور شیخ الہند ؒ (۱۲۶۸ھ – ۱۳۳۰ھ) کی درسی امالی میں بہت سی توجیہیں نہایت مختصر اور الہامی ہوتی تھیں ،ذہین فطین طلبہ سمجھ کر لکھتے تھے ان سے صحاح ستہ حل ہوجاتی ہے ، چنانچہ مولانا یحي کاندھلوی ؒ (۱۲۸۸ھ-۱۳۳۴ھ) نے حضرت گنگوہیؒ کی درسی تقریریں سمجھ کر لکھی تھی ، ان میں کتابوں کے حوالے نہیں تھے ، وہ طبع زاد تھیں باسانی قید تحریر میں آگئی تھیں وہ درست ہیں ۔
درسی امالی لکھنے میں خرابی یہ ہے کہ ذرا بھی ذہن ادھر ادھر ہوا مطلب تک رسائی ممکن نہیں رہتی ، شیخ الہندؒ کی درسی تقریروں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے، دو چار زود نویس اور نہایت ذہین ومستعد طلبہ کی درسی کاپیاں سامنے رکھی جائیں تو غور کرنے سے مطلب تک رسائی ہوجاتی ہے ورنہ مطلب کی ترجمانی ایک دو کاپیوں سے پوری نہیں ہوتی ، شیخ الہندؒ کی اردو درسی تقریروں کا مجموعہ شائع کیا گیا تھا ، ایک مجموعہ راقم سطور کے کتب خانے میں بھی موجود ہے ، اس سے زیادہ صاف اور بہتر نسخہ قاری سید شریف احمد تھانوی زید مجدہ کے پاس موجود ہے، ایڈٹ کرکے شائع کرنے کی ضرورت ہے۔
ان درسی تقریروں میں بنیادی خرابی یہ ہے کہ طلبہ کی یہ املائی کاپیاں استاد کی نظر سے نہیں گزرتی ہیں ، اس لیے ان میں بہت سی خامیاں رہ جاتی ہیں اورعقیدت مند ایسے ہی انہیں شائع کرتے ہیں ، نووارد طلبہ انہیں خریدتے اورکام چلانے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ کاپیاں قابل اعتماد نہیں ہیں ۔
مولانا محمد چراغ ؒ(۱۳۱۴ھ-۱۴۰۹ھ) نے سید انور شاہ ؒ کی ترمذی کی تقریر لکھی اور اس کا ایک نسخہ حضرت شاہ صاحب ؒ کو پیش کیا گیا ،معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موصوف کو دیکھنے کا وقت نہ ملااس لیے تقریظ بھی نہیں لکھی ایسی صورت میں وہ قابل اعتماد ومستند کیونکر قرار پاسکتی ہے۔
بخاری کی درسی تقریر ’’فیض الباری ‘‘ چونکہ سید انور شاہؒ کی نظر سے نہیں گزری اس میں نقائص موجود ہیں ، ضرورت ہے کہ اس پر بالغ نظر ارباب فکر ونظر کی ایک جماعت غور کرے اور اس کے مراجع دیکھے ، پھر اسے شائع کیا جائے ، بلاشبہ اس پر علامہ شیخ محمد زاہد الکوثریؒ (۱۲۹۶ھ-۱۳۷۱ھ) نے نظر ڈالی ہے ، وہ علامہ کی طائرانہ نظر ہے ، موصوف نے بہت سی غلطیاں دور کی ہیں ، پھر بھی اس پر کام کی ضرورت ہے ، آپ نے دیکھا طلبہ پر کتب خانہ میں کتابوں کے دیکھنے پر بندی نے کیا گل کھلائے ہیں ؟
مولانا گیلانیؒ نے سید محمد انور شاہؒ سے جب صحیح مسلم پڑھی درسی تقریر بھی لکھی، انہیں اس امر کا اعتراف ہے کہ یہ اچھی طرح نہیں لکھی جاسکی ، اس لیے کہ ان کی درسی تقریر لکھنا مشکل ترین کام تھا ، ان کی درسی تقریر کو ضبط تحریر میں لانا طالب علم کے بس کی بات نہ تھی ، پھر بھی علمی جواہر پاروں سے مرصع تھی ، وہ انہیں جان سے زیادہ عزیز تھی ، مولانا گیلانیؒ کی یہ درسی تقریر کسی طالب علم نے اڑالی ، مولانا گیلانیؒ نے بہت واویلا کیا لیکن فائدہ نہ ہوا ، انہیں عمر بھر اس کا قلق رہا ، یہ دکھ بھری کہانی جب یاد آتی تو فارسی کا یہ شعر بڑی حسرت سے پڑھتے تھے :
آنچہ از من گم شدہ، گر از سلیماں گم شدے
ہم سلیماں ، ہم پری ، ہم اہرمن بگریستے
امالی صحیح مسلم کا یہ مجموعہ کسی طرح علامہ شبیر احمد عثمانیؒ (۱۳۰۵ھ-۱۳۶۹ھ) کے ہاتھ آگیا تھا ، موصوف نے فتح الملہم شرح صحیح مسلم میں اس سے استفادہ کیا اور امالی کا حوالہ بھی دیا ہے ، ہمیں مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے توسط سے یہ مجموعہ علامہ شبیر احمد عثمانی کے چھوٹے بھائی فضل احمد عثمانی سے دیکھنے کے لیے ملا تھا ، گو یہ مجموعہ زیادہ ضخیم نہیں مگر علامہ سید انور شاہ ؒ کے علوم کا آئینہ دار اور بہت سے علمی فوائد سے آراستہ ہے ۔
آج کل کتابوں کی بھر مار ہے ، کسی درسی امالی کو کیونکر سندی حیثیت حاصل ہوسکتی ؟جب کوئی اعتراض کیا جاتا ہے شیخ الحدیث اور استاد حدیث یہ کہہ کر چھوٹ جاتا ہے کہ یہ طالب علم نے لکھا ہے ، میں نے نہیں لکھا ، جہاں استاد یہ کہیں غور فرمائیں ! ان کاپیوں کی بھلا کیا حیثیت ہے ؟ پھر یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ ایسے استادوں کی کاپیاں جنہوں نے عمر بھر کبھی کوئی تحقیقی کتاب نہیں لکھی کوئی تحقیقی مقالہ پیش نہیں کیا اسے کبھی سند کا درجہ حاصل ہوسکتا ہے ؟اس زمانے میں بعض درسی تقریروں میں اہل علم کی تحقیقات بغیر حوالہ درج کی جانے لگی ہیں ، اس سے لائق شاگردوں کی نظر میں استاد کا وقار مجروح ہوتا ہے ۔
اکابر دیوبند کی زندگی
دیوبند کے ان خاصان خدا کی زندگیاں بھی صحابہ وتابعین ؓکی سادگی ، بے تکلفی ، تواضع وانکساری ، ایثار وقربانی ، ہمدردی اور اخلاص ورضائے الہی میں ایک گونہ نسبت رکھتی تھیں ، ان کے گھر میں نہ کوئی خادم ہوتا تھا نہ کوئی طالب علم رہتا تھا ، بس ایسے اللہ والے تھے کہ گھر کا کام کاج بھی خودکرتے تھے ، نیا آنے والا انجان مکان پر آتا ان کا برتاؤ اور رہن سہن دیکھتا وہ ان نفوس قدسیہ کو گھر کا خادم سمجھ بیٹھتا تھا، چنانچہ مولانا معین الدین اجمیری ؒ ( ۱۲۹۹ھ-۱۳۵۹ھ) جو مولانا برکات احمد ٹونکی (۱۲۸۰ھ-۱۳۴۷ھ) کے نامور شاگرد اور معقولات کے زبردست عالم تھے ، دلی آئے ، شیخ الہندؒ سے ملاقات کے لیے دیوبند پہنچے ان کے مکان پر آئے اور دستک دی ، اس کی داستان اپنے شاگرد مولانا منتخب الحق پروفیسر وصدر شعبہ اسلامیات جامعہ کراچی کی زبانی سنئے ،جو موصوف نے اپنے شاگرد مولانا ڈاکٹر محمد مظہر بقا کو سنائی تھی ، فرماتے ہیں :مجھ سے میرے استاد مولانا منتخب الحق صاحب نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ مولانا معین الدین صاحب اجمیریؒ دلی آئے تو حضرت شیخ الہند کی زیارت کے لیے دیوبند بھی پہنچے ، گھر پہنچ کر زنجیر کھٹکھٹائی توا یک صاحب باہر آئے ان سے مولانا معین الدین مرحوم نے کہا کہ حضرت شیخ الہند سے کہہ دو کہ اجمیر سے معین الدین آیا ہے ، ان صاحب نے مولانا معین الدین کو اندر بلا کر دیوڑھی میں پڑے ہوئے پلنگ پر بٹھایا ، پھر اندر سے گڑ اور پانی لائے ، اور ان کے پاس بیٹھ کر ان کی تواضع کرنے لگے ، تھوڑی دیر ہوئی تو مولانا معین الدین نے کہا میاں ! ہم نے تم سے کہا کہ حضرت شیخ الہند کو ہماری آمد کی اطلاع کردو اور تم اب تک ہمارے پاس بیٹھے ہو ، ان صاحب نے جواب دیا اگر شیخ الہند سے آپ کی مراد محمود الحسن ہے تو یہ نام تو اس خاکسار کا ہے ۔
مولانا محمود حسن کے یہاں دعوت
مولانا سید عبد الحئی لکھنوی اکابر دیوبند کے برتاؤ ، حسن اخلاق ، تواضع وانکساری کے متعلق ’’دہلی اور اس کے اطراف ‘‘ میں لکھتے ہیں :مولانا ذوالفقار علی صاحب اور اکثر بزرگان دیوبند بیٹھے ہوئے تھے ، مولانا ذوالفقار علی صاحب نے نہایت فراخدلی سے ہم لوگوں کا خیر مقدم کیا ، اور مل کر صدر مقام میں باوجود ہم لوگوں کی معذرت کے بٹھایا ، اس کے بعد فرمایا کہ جس وقت میں نے سنا کہ رائے بریلی سے کوئی صاحب آئے ہیں تو میں سمجھ گیا تھا کہ صاحبزادے ہونگے کیونکہ علم سے ان لوگوں کو ہمیشہ سے مناسبت ہے ، پھر انہوں نے ایسی باتیں شروع کیں جس کو سن سن کر شرم و ندامت سے ہمارے سر جھکے جاتے تھے ، اور جتنے وہاں بیٹھے تھے انہوں نے ایسا اظہار عقیدت کیا کہ ہم کو ان بزرگوں کے حسن ظن پر حیرت ہے ، ہم لوگوں کی مخدومیت اور اپنی خادمیت کا اظہار ہر ہر بات پر فرماتے تھے ۔
سب سے زیادہ شکایت اس بات کی تھی کہ آپ سرائے میں کیوں ٹھہرے ؟ کیا آپ ہم کو اپنا خادم نہیں سمجھتے ، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ سرائے میں رہیں ، مولوی محمود حسن صاحب نے کہا کہ کل میں نے بہت اصرار کیا لیکن انہوں نے مانا نہیں ، مولانا ذوالفقار علی صاحب نے کہا کہ آپ نے ان کے انکار کو تسلیم ہی کیوں کیا ؟ آخر کو آدمی سرائے بھیجا گیا اور اسباب اٹھوا منگایا۔
اس عرصہ میں کھانا آیا، نہایت اہتمام کے ساتھ کھانا پکوایا گیا تھا ، کھانے کے بعد مولوی ذوالفقار علی صاحب نے اپنے ہاتھ سے اور مولوی محمود حسن صاحب نے بستر بچھا کر کہا کہ آپ قیلولہ فرمائیں ، ارادہ اسی وقت روانگی کا تھا ، مگر حافظ احمد صاحب خلف الرشید مولانا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمۃ نے نہایت اصرار کے ساتھ شب کی دعوت کی نسبت فرمایا ، ان کی استدعا ایسی تواضع وانکسار کے ساتھ تھی کہ مجبورا فسخ عزیمت کرنی پڑی ۔
اکابر دیوبند کی تواضع
ان سب بزرگوں نے نہایت افسوس کے ساتھ ذکر کیا کہ آپ دو دن سے آئے ہوئے ہیں ، بارش کی وجہ سے ہم لوگوں کو اطلاع نہیں ہوئی ، ورنہ سرائے میں حاضر ہوتے اور آپ نے باوجود اس بات کے جاننے کے کہ دیوبند میں سب ہمارے خادم ہیں یہاں فروکش ہونے سے گریز کیا ، وہ یہ باتیں کررہے تھے اور ہم شرم وغیرت کے مارے عرق عرق ہوئے جاتے تھے ، اے اللہ ! ان بزرگوں کا یہ حسن ظن اور ہماری یہ حالت ! ان کی یہ حسن عقیدت اور ہماری یہ شامت اعمال ! ان میں وہ مسکنت اور غربت ہم میں یہ خود داری اور نخوت ! ان میں وہ سادگی اور بے تکلفی ہم میں یہ تکلف اور سیہ مستی !
این الثری میں الثریا ، نعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا۔
راقم الحروف کی کراچی آمد
ستمبر ۱۹۴۷ء میں کراچی آیا تو ایک سال یہاں گزرا ، ۱۹۴۸ء میں جب میں کراچی سے دیوبند اپنی تعلیم پوری کرنے گیا تو شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے ملنے مظاہر العلوم سہارنپور گیا ، ظہر کی نماز میں ملاقات ہوئی ، بھائی صاحب مولانا محمد عبد الرشید نعمانی کا سلام پیش کیا ، فرمایا واپس کب جاؤگے ؟ میں نے عرض کیا کل جاؤں گا ، فورا ایک صاحب سے کہا ان کے کھانے کا انتظام کرنا یہ کل جائیں گے ، اور مجھ سے فرمایا تم مغرب کے بعد میرے پاس اوپر حجرے میں آنا ، میں ظہر کے بعد ان کے یہاں سنن ابو داود کے سبق میں جا بیٹھا ، مغرب بعد حجرے میں حاضرہوا ، یہ میری ان کے حجرے میں پہلی اور آخری ملاقات تھی ، شیخ الحدیث قدآور خوبصورت اور فربہ تھے ، ڈاڑھی سفید ہوگئی تھی ، تہ بند اور کرتا زیب تن تھا ، حجرے میں داخل ہوا ایک لکڑی کا سادہ اسٹول جس پر پالش بھی نہ تھی رکھا تھا ، اس پر چند کتابیں رکھی تھیں ، ایک مشکوۃ کا نسخہ تھا ، ایک چارپائی جس کا بان اتنا ڈھیلا اور نیچا تھا کہ اس کے اور حجرے کے فرش کے درمیان ایک بالشت سے کم فاصلہ رہ گیا تھا ، چارپائی پر ایک دری پڑی تھی ، شیخ اس پر بیٹھتے مطالعہ کرتے اور سوتے تھے ، یہ شان تھی سہارنپور کے شیخ الحدیث کے حجرے کی ، تکلف ونمائش کا یہاں نام نہ تھا ، ان آنکھوں نے ایسے بزرگوں کو دیکھا ہے ، میری طالب علمی کے زمانے میں ایسے پاک نفوس تھے شہرت اور ہر دلعزیزی جن کے قدم چومتی تھی ، ذرا صحابہ وتابعینؓ کی زندگی پڑھئے !کیا تھی اور وہ کیا کرگئے انہیں دیکھئے ! کیا ذخیرہ علمی چھوڑا لوگوں کی کیسی زندگی سنواری ، شیخ الحدیث کی ’’آپ بیتی‘‘ اس کی منہ بولتی تصویر ہے ۔
اکابردیوبند اور جہاد آزادی
صحابہ وتابعین خلق خدا کو اسلام کی نعمتوں سے مالا مال کرنے اور دین الہی کا بول بالا کرنے کے لیے جہاد کرتے تھے ، اکابر دیوبند نے مسلمانوں کی سلطنت کو بحال کرنے اور انگریزوں کو یہاں سے نکالنے کے لیے شاملی میں جہاد کیا ، ان میں سے بعض مجاہدین نے میدان کار زار میں گولیاں کھائیں اور جام شہادت نوش کیا ، بعض کو دنیا میں بھی جام شہادت کے منھ سے چھو جانے کی چاشنی عمر بھر چاہتے رہے تھے ، ان میں ایک مولانا مظہر نانوتویؒ (۱۲۳۲ھ-۱۳۰۲ھ) بھی تھے ، چنانچہ ’’علمائے مظاہر علوم سہارنپور اور ان کی علمی ودینی خدمات ‘‘ میں موصوف کے متعلق منقول ہے :مولانا الحاج مفتی محمود الحسن صاحب گنگوہی (۱۳۲۲ھ – ۱۴۱۷ھ)سرپرست مدرسہ عالیہ مظاہر علوم ومفتی اعظم دارالعلوم دیوبند بیان کرتے ہیں کہ :
’’مجھ سے ہر دوئی میں ایک شخص نے بیان کیا کہ حضرت مولانا محمد مظہر صاحب زبان بہت کثرت کے ساتھ اپنے ہونٹوں پر پھیرتے رہتے تھے ، کسی کے اصرار کے ساتھ دریافت کرنے پر فرمایا کہ ۱۸۵۷ء میں میں بھی جہاد میں شریک تھا ، میرے گولی لگی ، میں گر گیا ، اسی حال میں دیکھا کہ حوریں شربت کے گلاس لیے ہوئے آئیں اور شہداء کو پلانا شروع کردیا ، ایک گلاس میرے سامنے بھی لایا گیا ، میں نے جس وقت اس کو منھ سے لگایا اور میرا لب تر ہوا تو دوسری نے یہ کہہ کر وہ گلاس ہٹالیا کہ ابھی اس کی حیات باقی ، یہ ان میں سے نہیں ہے ، وہ لذت ہونٹوں پر اب تک باقی ہے جو مجھے چین نہیں لینے دیتی ‘‘۔
اکابر دیوبند کی تجارت وحسن معاملہ
صحابہ وتابعین ؓ کی تجارت بھی عبادت تھی ، ان کا لین دین نہایت صاف ہوتاتھا ، دھوکا اور فریب ان کے یہاں نہ تھا وہ چیز کی اچھائی برائی پہلے بتاتے پھر بیچتے تھے ، اس لیے ان کی تجارت میں برکت خوب تھی ، معاشرہ بھی ترقی کی راہ پر گامزن تھا ، انسان کی آزمائش کا ذریعہ اس کی تجارت اور لین دین ہے ، اس میں اگر وہ سچا رہا تو قابل اعتبار اور لائق اعتماد ہے ورنہ کچھ نہیں ۔
اکابر دیوبند کا طرز معاشرت ان کے بتائے ہوئے اصول پر قائم تھا ، یہ حسن معاملہ کا بہت خیال رکھتے تھے ، ان کی تجارت دیانتداری وانصاف پر مبنی تھی ، یہ خریدار کو چیز کی اصل حقیقت سے پہلے آگاہ کرتے تھے ، اس امر کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سید محمد انور شاہؒ کا رسالہ ’’فاتحہ خلف الامام ‘‘ دیوبند سے شائع کیا گیا ، اس میں دقیق علمی بحثیں آگئی تھیں ، ہر پڑھا لکھا مولوی ان کے سمجھنے سے قاصر تھا ، اس لیے کتاب کے آخر میں اشتہار دیا گیا جو اس رسالے سے فائدہ اٹھانے کا اہل ہو وہی اسے خریدے،وہ اشتہار مولانا سید اصغرحسین یوبندیؒ (۱۲۹۴ھ-۱۳۶۴ھ) نے ’’کلیات شیخ الہند‘‘ کے سرورق کی پشت پر دیا تھا ، ہدیۂ ناظرین ہے :
’’فصل الخطاب ‘‘ فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ میں محدثانہ تحقیقات اور عالمانہ مضامین کا فی الحقیقت بے مثل رسالہ جو اکابر محدثین کی تحقیقات کا سچا نمونہ ہے ، دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس حضرت مولانا انور شاہ صاحب نے عربی زبان میں بکمال انصاف تحریرفرمایا ہے ،بڑے بڑے علماء بھی مشکل سے سمجھتے ہیں ، کم سواد مولوی طلب نہ فرمائیں ‘‘[کلیات شیخ الہند ، مطبع قاسمی دیوبند۱۳۴۰ھ]۔
کتابی دنیا میں مذکورہ ٔ بالا اشتہار اس قسم کا پہلا اورآخری اشتہار ہے جس کی نظیر کہیں ملنا مشکل ہے ۔
انہیں مذکورۂ بالا خصوصیات کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند اور اکابر دیوبند کو قبول عام وتام حاصل ہوا ہے اور اس کی برکات سے براعظموں میں ہر ایک بر اعظم ایشیا ، افریقہ ، یورپ ، امریکہ سب ہی برابر فیض پاتے رہے ہیں :
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی علمی خدمات
مولانا گیلانی کی علمی تحقیقی ، تصنیفی اور تبلیغی مخلصانہ خدمات نے انہیں عوام وخواص کے ہر طبقہ میں ہر دلعزیز بنا دیا تھا ، اردو میں انہوں نے خود بھی اپنے متعلق بہت کچھ لکھا ، ’’مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں ‘‘ ، ’’احاطۂ دارالعلوم دیوبند میں بیتے ہوئے دن ‘‘ اور ’’مکاتیب گیلانی‘‘ میں ان کی زندگی کے بہت سے پہلو اجاگر ہوتے ہیں ،ان کے ہم عصروں ادیبوں میں مولانا عبد الماجد دریا آبادی (۱۸۹۱ء -۱۹۷۷ء) ، مولانا علی میاں ؒ (۱۹۱۴ء-۱۹۹۹ء) ، سید صباح الدین عبد الرحمن مدیر ’’معارف‘‘ (متوفی ۱۹۸۷ء)، سید محمد ازہر شاہ قیصر ؒ ، مولانا عبد الباری ندویؒ نے اور ان کے شاگردوں میں مولانا غلام محمد نے بہت کچھ لکھا ہے ، اور مفتی دارالعلوم دیوبند مولانا ظہیر الدین مفتاحی نے ’’حیات مولانا گیلانی ‘‘ لکھی ۔
مولانا گیلانی کی مطالعہ میں عادت شریفہ یہ تھی کہ وہ جب کسی کتاب کا مطالعہ کرتے قلم اور رجسٹر ساتھ رکھتے تھے ، جہاں کوئی کام کی بات نظر آتی فورا اسے لکھتے ،پھرآگے مطالعہ کرتے تھے، بعد میں گونا گوںمعلومات کو عنوان اور موضوع کی مناسبت سے علیحدہ کر کے رکھتے ،اور جب مواد اتنا ہوجاتا کہ کتاب یا مقالہ اور مضمون لکھ سکیں انہیں معلومات کو یک جا کرکے مضمون یا مقالہ تیار کرتے تھے ، چنانچہ بلا تکلف کہہ جاتے ہیں کہ یہ کتاب میں نے اتنے دن میں اور وہ کتاب اتنی مدت میں لکھی ہے ، کتاب ناشر چھاپتا اور کماتا تھا خود کبھی کسی سے اس کا کوئی معاوضہ نہیں لیا۔
مولانا گیلانی کے ترجمہ اسفار اربعہ پر کسی نے روشنی نہیں ڈالی ، یہاں اس کا ذکر کیا جاتا ہے ، علامہ صدر الدین شیرازی ؒ (۱۰۵۹ھ-۱۶۴۹ھ) کی ’’الاسفار الاربعـۃ فـی الحـکمۃ ‘‘ جلد وجلد ثانی جو متوسط تقطیع کے ۱۷۵۷ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے ، اس کے سرورق پر صدر شعبہ دینیات جامعہ عثمانیہ سرکار عالی لکھا ہوا ہے ، اس کا ایک نسخہ میرے ذاتی کتب خانے میں موجود ہے ، یہ ترجمہ دارالعلوم جامعہ عثمانیہ سرکار والی حیدرآباد دکن سے ۱۹۴۱ء میں شائع کیا گیا تھا ، اس کا حصہ اول جلد دوم کا ترجمہ جو ۶۸۷ سے ۱۷۵۷ صفحات پر پھیلا ہوا ہے ۱۳۵۹ھ میں ختم ہوا تھا اور ۱۹۴۲ء میں شائع کیا گیا تھا ، مذکورہ بالا عبارت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مولانا گیلانی نے یہ ترجمہ اس زمانہ میں کیا جب وہ صدر شعبہ تھے ، مولانا نے ابتداء میں آغاز ترجمہ کی تاریخ نہیں لکھی ، اس لیے ترجمہ کتنے عرصہ میں کیا گیا اس کا پتہ نہیں لگتا ، موصوف کے سوانح نگاروں نے بھی اس سے اعتناء نہیں کیا ، موضوع کے متعلق صدر شیرازی ؒ کے دیباچہ کے ترجمہ کو کافی سمجھا گیا ، ترجمہ کی نسبت بھی کچھ نہیں کہا گیا ، بظاہر وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس کا تعلق علوم اوائل منطق وفلسفہ سے ہے ، اب کسے دلچسپی ہے ، یہ صحابہ وتابعین کے علوم میں داخل نہیں ، مولانا گیلانی نے بھی اس سے تعرض نہیں کیا ۔
مولانا عبد الحئی فرنگی محلی (۱۲۶۴ھ-۱۳۰۴ھ) نے منطق وفلسفہ کی کتابوں پر جتنی تعلیقات وحواشی لکھے شاید ہی ہندوستان کے کسی عالم نے اتنے حواشی وتعلیقات لکھی ہوں ، لیکن کسی محقق نے انہیں موضوع بحث نہیں بنایا ، حالانکہ ہمارے ذہین ترین طبقہ کا یہ بڑا علمی سرمایہ ہے ، مولانا عبد الحئی فرنگی محلی کا بہت قیمتی وقت ان تعلیقات میں خرچ ہوا، ان کے سوانح نگاروں نے ان سے اعتناء نہیں کیا اور نہ وہ ان کی شہرت میں چار چاند لگا سکے ،انہیں جو شہرت ملی وہ فقہ وفتاوی ، اصول حدیث ، اصول فقہ ، علم رجال ، موطا امام محمد کی شرح التعلیق الممجد اور الحصن الحصین کے حواشی سے ملی ہے ۔
ادارۃ القرآن نے بھی مولانا عبدالحئی کے عربی رسائل شائع کیے ہیں جن کا تعلق فقہ وحدیث سے ہے ، شیخ عبد الفتاح ابو غدہ ؒ (۱۳۳۶ھ-۱۴۱۷ھ) نے مولانا عبد الحئی فرنگی محل کے انہی رسالوں اور کتابوں پر تعلیقات لکھی ہیں جن کا تعلق علوم حدیث و علم رجال سے ہے اور انہی تحقیقات وتعلیقات نے انہیں اسلامی ممالک میں متعارف کرایا ہے ،مولانا عبد الحئی فرنگی محلی کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے ہندوستان میں مقدمہ ابن الصلاح مطبع یوسفی لکھنو سے ، کتاب الآثار امام ابو حنیفہؒ اور فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث محمد تیغ بہادر کے مطبع انوار محمدی لکھنو سے شائع کرائی ،اس مطبع کی فتح المغیث کا نسخہ جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن میں موجود ہے ، اور کتاب الآثار بار دوم کا ایک نسخہ راقم سطور کے کتب خانے میں محفوظ ہے ،موصوف نے سید شریف کے رسالہ اصول حدیث کی شرح ’’ظفر الامانی فی مختصر الجرجانی ‘‘ لکھی جو پہلی بار لکھنو میں خادم حسین المعروف بنادر حسین نے لکھنو سے ۱۳۰۴ھ میں شائع کی تھی ، دسویں صدی ہجری میں شمس الدین محمد الحنفی التبریزی نے اس کی شرح ’’الدیباج المذہب فی مصطلح الحدیث‘‘ کے نام سے لکھی تھی وہ۱۳۵۰ھ میں شائع کی گئی تھی ،پھر المصطفی البابی نے ۱۹۵۲ء میں مصر سے دوبارہ شائع کی تھی ،اب شرح تقی الدین ندوی کی تحقیقات سے دوبارہ شائع کی گئی ہے ۔
دفتر معجم المصنفین سے ہمارا تعلق
۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۱ء تک میں بھی دفتر معجم المصنفین (دارالشفاء اور عثمان شاہی حیدر آباد دکن) میں اپنے والد منشی عبد الرحیم خاطر کے ساتھ رہا ہوں ، یہاں کے دو سالہ قیام نے مجھے علم کا جویا بنایا ، معجم المصنفین مولانا محمود حسن خان ٹونکی (۱۲۷۸ھ-۱۳۶۲ھ) نے جو مفتی ولی حسن ٹونکی کے دادا اور مولانا حیدر حسن خان شیخ الحدیث ندوۃ العلماء کے بڑے بھائی تھے عالم اسلامی کے پچاس ہزار مصنفوں کا تنہا تذکرہ مرتب کیا تھا، صدریار جنگ نواب حبیب الرحمن خان شیروانی کو جب کسی عالم کے تذکرہ کی جستجو ہوئی کہیں نہ ملا ان کے پاس ملا تو انہیں کتاب کی اہمیت وافادیت کا اندازہ ہوا ، انہوں نے اس کی اشاعت کے لیے میر عثمان علی خان والی حیدر آباد دکن کو آمادہ کیا ، اس پر نظر ثانی اور اضافہ کے لیے جو عملہ رکھا گیا وہ چار فضلاء پر مشتمل تھا ، مولانا عبد الرحمن چشتی بہاری ، مولانا محمد عبد الرشید نعمانی ، محمد کامل فاضل مدرسہ نظامیہ حیدر آباد دکن اور مولانا سید عبد القدوس ہاشمی نگران تھے ، مسودہ صاف کرنے کے لیے دو کاتب ان میں ایک میرے والد منشی محمد عبد الرحیم خاطر اور دوسرے رضوان علی کا تقررہواتھا ، علی میاں کے والد حکیم سید عبد الحئی لکھنوی نے کہا تھا (جیسا کہ مولانا نعمانی نے مجھ سے بیان کیا تھا ) کہ ہندوستانی مصنفین کا تذکرہ میں لکھوں گا ، چنانچہ معجم المصنفین میں ان کا ذکرنہ کریں، انہوں نے ہندوستان کے مصنفین کو معجم المصنفین میں ذکر نہ کیا ، سید عبد الحئی لکھنوی نے نزہۃ الخواطر میں ان کا تذکرہ لکھا ہے ، افسوس ہے معجم المصنفین کی ابتدائی چار جلدیں بیروت سے شائع ہوسکیں تھیں ، تقسیم ہند سے یہ سلسلہ بند ہوگیا ، معلوم نہیں وہ مسودہ بھی محفوظ ہے یا ضائع ہوگیا ۔
معجم المصنفین کے دفتر میں حیدر آباد دکن کے پروفیسر ، علماء ، فضلاء، شاعر اور ادیب سب کی آمد ورفت رہتی تھی ، یہاں مولانا گیلانی آتے اور چلے جاتے ، پھر ان کا ذکر رہتا تھا ، یہاں ان کی زیارت یا د نہیں ، لیکن مجلس شوری دارالعلوم سے نکلتے ہوئے مولانا گیلانی کی بارہا زیارت ہوئی ہے ، مولانا گیلانی نے جب ’’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت ‘‘ لکھی تو آٹھویں صدی ہجری کے علماء صوفیہ اور دانشمندوں اور دانشوروں کے حالات کی جستجو ہوئی اور نزہۃ الخواطر مخطوطہ منگا کر دیکھا تو مصنف کی محنت وکاوش اور کتاب کی اہمیت وافادیت نے انہیں اپنا گرویدہ بنایا ، مولانا گیلانی نے مولانا شیروانی سے کہہ کر اس کو دائرۃ المعارف العثمانیہ سے شائع کرنے کی کوشش کی ، چنانچہ سب سے پہلے یہی حصہ شائع ہوا اور یہ نسخہ میرے کتب خانے میں موجود ہے ، اس کی اشاعت کی بدولت عالم اسلامی ہندوستان کے نامور ارباب علم و اہل کمال سے واقف ہوسکا ، یہ کارنامہ بھی مولانا گیلانی کے حسنات میں سے ہے ، شیخ الہند کے ایک جملے نے کہ آپ ’’القاسم ‘‘ میں لکھا کریں انہیں لکھنے کا ایسا گرویدہ بنایا کہ وہ اردو زبان میں نت نئے موضوعات مفید معلومات کا ایسا قیمتی علمی سرمایہ چھوڑگئے ہیں جو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ، اور اس باب میں ان کی وسعت معلومات دقت نظر نے ان کی منفردانہ شان کو ہمیشہ قائم رکھا ، علمی ادبی اور دینی حلقے آئندہ بھی ان کی یاد کو زندہ رکھے گی ، مولانا مجمع البحرین تھے ، وہ خانوادہ خیر آبادی اور دیوبندی دونوں کے جامع تھے ، وہ خانقاہی سلسلے میں قادریہ اور سہروردیہ دونوں میں مجاز تھے ، دیوبندی رہ کر ’’معارف ‘‘ جیسے علمی رسالے میں لکھتے تھے ، حالانکہ ان کا انداز نگارش دارالمصنفین کے ارباب قلم سے یکسر مختلف تھا ، اس لحاظ سے وہ ہر میدان میں اپنی شناخت جداگانہ رکھتے تھے ، اور دونوں پر تنقید کرنے میں چوکتے نہ تھے ،مولانا گیلانی کا رواں دواں قلم حدود وموضوع کی قید سے آزاد ہو کر اور بھی بحثیں کرگذرتا ہے ، وہ موضوع سے سر مو انحراف کا قائل نہیں ہے ، اس باب میں وہ امام ابن تیمیہ (۶۶۱ھ- ۷۲۸ھ) کا قلم ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی کتاب سینکڑوں صفحات گھیر لیتی ہے ، خوبی یہ ہے کہ لکھنے اور بات کہنے کا ڈھنگ ایسا ہی نرالا اور دلچسپ ہے کہ کتاب چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا ۔
مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ مولانا گیلانی ؒ کی دقت نظر ، نکتہ رسی اور ان کی تصنیفات کے متعلق ’’میری علمی اور مطالعاتی زندگی ‘‘ میں رقمطراز ہیں :
’’مولانا سید مناظر احسن گیلانی کی کتابوں میں بڑی معلومات اور مواد ہے ، بہت سے لوگوں کا ان کے مخصوص طرز تحریر ، اور بات سے بات نکالنے کی وجہ سے جی نہیں لگتا ، لیکن میرا ہمیشہ ان کی کتابوں میں جی لگا ، اور اپنے علم میں اضافہ ہوا ، خاص طور پر ان کی کتاب ’’النبی الخاتم ‘‘ سیرت پر بڑی البیلی کتاب ہے ، اس طرح ان کی دوسری کتاب’’ [ہندوستان میں مسلمانوں کا] نظام تعلیم وتربیت ‘‘ بڑی پر از معلومات اور موثر کتاب ہے ، تیسری کتاب ’’تدوین حدیث ‘‘ بڑی مبصرانہ اور نکتہ ورانہ تصنیف ہے ، ان کا مضمون ’’ مجدد الف ثانی کا تجدیدی کارنامہ ‘‘ بھی بڑی بصیرت و معلومات کا ذریعہ بنا ، اور اس سے ان کے دوسرے مقالے جو ’’الفرقان ‘‘ شاہ ولی اللہ نمبر میں شائع ہوئے تھے تاریخ ہند کے نئے نئے گوشے سامنے آئے ۔
مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی کتاب ’’ہزار سال پہلے‘‘ نیچے دیے گئے لنک سے ڈاؤن لوڈ کیجیے: