ٹی وی چینل اور میڈیا کا رنگین اسلام

نوٹ: 14 چودہ سال قبل لکھا گیا ایک مضمون جو اس وقت ماہنامہ بینات جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں شائع ہوا، میڈیا اور اسلام کے حوالے سے اُس وقت جو خدشات اور احساسات تھے آج کئی سال بعد اس سے بھی زیادہ بد تر حال سب کے سامنے ہے

میڈیا اور پروپیگنڈہ

کسی مفکر کا کہنا ہے کہ ”پروپیگنڈا ذہین لوگوں پر احمقانہ تأثرات ڈالنے کا نام ہے“، بہ الفاظ دیگر پروپیگنڈا محض جھوٹ اور فریب ہے جو کہ عصرحاضر میں سب سے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال ہورہا ہے، پروپیگنڈے کا اصول یہی ہے کہ بات اس طرح کہی جائے کہ پروپیگنڈا،پروپیگنڈا محسوس نہ ہو،ذرائع ابلاغ میں اس ہتھیار کا استعمال دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر ہوا جب برطانوی فوج نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا تھا تو امریکی ذرائع ابلاغ نے فتح کا سہرا برطانوی فوج کے سر باندھنے کے بجائے امریکی افواج کے سر باندھااوریہ پروپیگنڈا کیا کہ انہی کی بدولت یورپ نازیوں سے محفوظ رہ سکا ہے ، یہ پروپیگنڈا اتنا موٴثر ثابت ہوا کہ یورپی عوام کو یہ یقین ہوگیا کہ امریکہ ان کے لیے کسی مسیحا سے کم نہیں ،اس وقت سے لے کر آج تک ذرائع ابلاغ اس موٴثر ہتھیار کو کسی نہ کسی شکل میں مستقل استعمال کرتے چلے آرہے ہیں،عالمی ذرائع ابلاغ خالص یہودی میڈیا ہے جو ارب پتی یہودی تاجروں کے زیر اثر ہے اور یہودی کمیونٹی کا سب سے بڑا ہتھیارسمجھا جاتا ہے حتی کہ عالمی حالات پر اس کی اتنی گہری چھاپ ہے کہ ہر مشہور لیڈر یہودی میڈیا کی خوشامد کرتا نظر آتا ہے ،در اصل اس کے ذریعے یہودیوں نے اپنے دانشوروں کے ”پروٹوکولز“ کو عملی جامہ پہنایا ہے ، ”یہودی پروٹوکولز“ کے بارہویں باب میں درج ہے کہ ”ہماری منظوری کے بغیر کوئی ادنی سے ادنی خبر کسی سماج تک نہیں پہنچ سکتی ، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہم یہودیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ خبر رساں ایجنسیاں قائم کریں جن کا بنیادی کام ساری دنیا کے گوشے گوشے سے خبروں کا جمع کرنا ہو ،اس صورت میں ہم اس بات کی ضمانت حاصل کرسکتے ہیں کہ ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی خبر شائع نہ ہو“۔

میڈیا کی اہمیت اورنقصانات

آج کے ترقی یافتہ دور میں ذرائع ابلاغ کا جو اہم کردار ہے وہ کسی ذی شعور سے مخفی نہیں ،اگرغور کریں تو دور حاضر کی بظاہرتمام تر قی وخوشحالی ، سائنسی ایجادات اور تحقیقات کا ادراک انہی ذرائع سے حاصل ہوتا ہے ، سیٹلائٹ کی ایجاد نے پوری دنیا کو سمیٹ کر ایک محلے کی طرح کردیا ہے ،دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والے تمام واقعات ٹیلی وژن سکرین پر دیکھے جاسکتے ہیں ،ذرائع ابلاغ نے معلومات اور آگہی میں بے پناہ اضافہ کیا ہے ، اسی کے ذریعے کثرت معلومات کافتنہ تیزی سے پھلتا پھولتا جارہا ہے ،عالمی آگہی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں کوئی واقعہ یا حادثہ رونما ہوتا ہے تو ہر شخص اس سے واقف ہوتا ہے ،یہ ذرائع ابلاغ کا کمال ہے کہ اب کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی ۔

ذرائع ابلاغ کی افادیت مسلم ہے لیکن اس کے منفی پہلو بھی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور وہ مخصوص مفادات کے حصول کے لیے ان کا استعمال نیز تشہیر کے لیے جو اشتہار دیے جاتے ہیں وہ اکثر مبالغے پر مبنی ہوتے ہیں اور مارکیٹنگ کے لیے جو نفسیاتی حربے استعمال کیے جاتے ہیں وہ مخصوص گروہوں کے مفادات کے لیے ہوتے ہیں اور عام آدمی کو اس سے نقصان پہنچتا ہے ، پھر قومی وبین الاقوامی ایجنسیاں انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں ، حکومتیں اور بین الاقوامی طاقتیں اپنی عوام کو مطیع رکھنے کے لیے گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے ایک خاص نقطہ نظر پروان چڑھاتی ہیں اور رائے عامہ کو متأثر کرنے یازیادہ دکھانے کے لیے ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جاتا ہے ، عوام کی برین واشنگ کے لیے میڈیا ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہورہا ہے،نائن الیون کے حادثے کے بعد عالمی ذرائع ابلاغ نے اسلام اورمسلمانوں کے خلاف جس قدر غلیظ مہم چلائی ہے اس سے مسلمانوں کے تشخص کو بڑا نقصان پہنچا ہے ، پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ذرائع ابلاغ کو فحاشی ،عریانی اور بداخلاقی پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جارہاہے جو معاشرے کی عمومی اخلاقی فضا کو تباہ کرنے کا ایک مہلک طریقہ ہے،دنیا کی طاقتور لابیاں اپنے مقاصد کے لیے ذرائع ابلاغ کو ڈھٹائی سے استعمال کررہی ہیں اور اپنے اہداف ومقاصد کے حصول میں کامیاب ہیں، خلاصہ یہ کہ آج میڈیا اس پوزیشن میں ہے کہ وہ پوری دنیا کو جس نہج پر اور جس سمت میں لے جانا چاہے لے جاسکتا ہے ،لوگ غیر ارادی اور غیر شعوری طور پر میڈیا کے ذریعے پھیلائی ہوئی باتوں کو بسروچشم قبول کرلیتے ہیں،گویا میڈیا واضح الفاظ میں دن کو رات ، سفید کو سیاہ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی خدمات انجام دے رہا ہے ۔

ٹی وی چینل اور اسلام کی خدمت

ذرائع ابلاغ کی اس اہمیت کو دیکھتے ہوئے اکثر لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ علماء کو میڈیا خصوصا ٹی وی چینل پر آجانا چاہیے اور اسلام کے متعلق جو شکوک و شبہات اور پروپیگنڈے کیے جارہے ہیں اس کا دفاع ٹی وی چینل پہ آکر کرنااز حد ضروری ہے اور اس طرح صحیح اسلامی عقائد ،نظریات اور افکار کی تبلیغ بھی خود بخود ہوجائے گی ،اس ضمن میں وہ یہ دلیل دیتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں کہ ”شدت پسند علماء “ ابھی نہیں تو کچھ عرصے بعد ضرور مان جائیں گے جس طرح لاوٴڈ اسپیکر کے مسئلے میں علماء نے شروع میں اختلاف کیا اور نہ مانا لیکن پھر کچھ عرصے بعد خود ہی زور وشور سے اس کا استعمال شروع فرمادیا ،لیکن یہ کہنے والے ٹی وی کی خرابیوں ،مفسدات اورمہلکات سے شاید اپنی نظریں چرالیتے ہیں ، میڈیا خصوصا ٹی وی چینل پہ آکر اسلام کی خدمت کسی طور ممکن نہیں ،ہاں! البتہ اسلام اور مسلمانوں کی توہین وتضحیک ضرور ممکن ہے ۔

میڈیا اور فکری فتنہ وانتشار

میڈیا اسلام اور مسلمانوں کا خیر خواہ کبھی نہیں ہوسکتا ،ایک چینل کے تئیس گھنٹے توعریانی ،فحاشی وگمراہی کے لیے مخصوص ہو اور ایک گھنٹہ ”اسلام“ کے لیے، میڈیا کے ذریعے جو حضرات اسلام کی تبلیغ وترویج چاہتے ہیں اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ کسی کچرے کے ڈھیر پر عنبر وعودجیسی خوشبو رکھ دی جائیں اوروہاں سے گذرنے والوں کے بارے میں امید کی جائے کہ وہ اس کچرے کنڈی میں رکھی خوشبو سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے ، ٹی وی چینل کا ”رنگین اسلام“ اس وقت مسلمان اورخاص طور پر غیر مسلموں میں اسلام کے متعلق تشویش کا باعث بن رہا ہے، اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک مسئلہ کسی چینل پر فرض بتایا جاتا ہے ، دوسرے چینل پر اس کو بدعت کہتے ہیں اور تیسرا چینل اس کو سنت ثابت کررہا ہوتا ہے ،ذرا سوچیے ! ٹی وی دیکھنے والا ایک سادہ لوح آدمی اس سے اسلام کے متعلق کیا انتشار کا شکار نہیں ہوگا ؟!

اسلام کے متعلق شکوک وشبہات کی ترویج

پھر ٹی وی پر اسلام کے متعلق مذاکروں میں ہر خاص وعام کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ آکر جس طرح چاہیں اسلام کو تختہٴ مشق بنائیں اور ان نام نہاد ”اسلامی اسکالرز“ میں عالم غیر عالم کی کوئی تمیز نہیں کی جاتی اور اس کے ذریعے لوگوں کو لاشعوری طور پر یہ پیغام دینا بھی مقصود ہوتا ہے کہ ہر راہ چلتا پھرتا شخص اپنے تفہیم دین کے پر چارکا ”فطری حق “رکھتا ہے اور یہ نازک اور اہم دینی مسائل پرگفتگو کرنا صرف ”ملاوٴں “ ہی کی ٹھیکیداری نہیں ہے ۔

اور اگر کسی ٹی وی چینل کے مذاکرے میں کسی صحیح اور مستند عالم دین کو بلا بھی لیا جائے تو اس کے بلانے سے دین کی صحیح رہنمائی مقصود نہیں ہوتی بلکہ اس کو بلاکر دیگر لادین اور ملحد شرکاء کے اسلام کے متعلق ایسے فتنہ پرور سوالات و اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جنہیں سن کر کان ہی پکڑے جاسکتے ہیں،فارسی ادب کی سدا بہار کتاب ”گلستان “ کے چوتھے باب میں شیخ سعدی نے ایک حکایت بیان کی ہے کہ ایک عالم کا ایک ملحد کے ساتھ مناظرہ ہوگیاعالم نے اس بے دین کے سامنے ہار مان لی اور پیچھے ہٹ گیا ، کسی نے اس عالم سے پوچھا کہ جناب باوجود آپ علم وفضل رکھنے کے ایک ملحد سے مناظرے میں ہار گئے اور اس پردلائل کے ذریعے قابو نہ پاسکے ؟عالم نے جواب دیا کہ میرا علم تو قرآن ، حدیث اور فقہاء ومشائخ کے اقوال ہیں وہ ملحد ان سے عقیدت ہی نہیں رکھتا تو مجھے اس کا کفر سننا کس کام آئیگا؟بس اسی لیے میں نے ہار ماننے میں ہی عافیت جانی:

آنکس کہ بقرآن و خبر زو نرہی
آنست جوابش کہ جوابش ندہی

چنانچہ بارہا یہ بھی دیکھا گیا کہ مستند علماء سے ایسے سوالات کیے جاتے ہیں جن سے مقصد اس سوال میں پوشیدہ فتنہ کی نشر واشاعت ہو جس کے نتیجے میں دیکھنے والی عوام اس عالم کے جواب کی طرف تو غورنہیں کرتی اور اس فتنہ پرور سوال پر خود ان کے دل ودماغ میں اسلام کے متعلق شکوک وشبہات پیدا ہوجاتے ہیں اور ہوتے ہوتے اس سوال کی بازگشت زبان زد عام ہوجاتی ہے۔

ایک اوراہم چیز جو محسوس کی گئی کہ ان مواصلاتی اسلامی مذاکروں کے شروع ہوجانے سے عام آدمی بھی بلا سوچے سمجھے اسلام کے نازک اور دقیق مباحث کے بارے میں اپنی فہم اور سوچ کے بیان کرنے میں جری ہوگیا ہے جبکہ اس سے قبل عام لوگ اس قسم کے مسائل میں دخل اندازی نہیں کرسکتے تھے ،اور ان پروگراموں کی ”قابل قدر خدمت“ یہ ہے کہ دین کے مسلمہ اورمتفقہ مسائل کو موضوع بحث بناکر اس کو اختلافی بنایاجائے، مکالمہ یا تقریب بین المذاہب کے نام پر وحدت ادیان کو فروغ دیا جائے ، فکری اور نظریاتی گمراہیوں کو عقلی بنیادوں پر پھیلایاجائے ، اسلام کی تشریح وتعبیر عرب جاہلیت کے دور اورزمانے کے ساتھ مخصوص کی جائے۔

ٹی وی چینل کے ذریعہ اسلام کی خدمت

جو حضرات کہتے ہیں کہ میڈیا کے ذریعے اسلام کی صحیح خدمت یا کم از کم دفاعی خدمت ممکن ہے تویہ بات بھی غور کی محتاج ہے کہ نائن الیون کے بعد سے عالمی میڈیا نے اسلام کی بنیادوں پر جو رکیک حملے کیے ان کا اب تک کتنا دفاع ہوسکا ؟ پھر آج سے پندرہ سال پیچھے لوٹ کر دیکھیے جب کیبل ،ڈش اور چینلز کی بھرمار نہ تھی تب ہمارے معاشرے کے حالات کیسے تھے اور آج جب کہ میڈیا کا ہر چینل بزعم خود اسلام کی خدمت انجام دے رہا ہے تو اخلاقی گراوٹ ، فحاشی وعریانی کا ایک سیلاب ہے جو امنڈتا چلا آرہا ہے ،اور جب سمجھ دار اور باشعور عوام یا علماء کی طرف سے اس فحاشی وعریانی کے خلاف احتجاج کیا جائے تو ان کا یہ رد عمل پہلے سے موجود خانوں میں ”فٹ“ کردیا جاتا ہے کہ مذہبی عناصر ہمیشہ یہی رونا روتے رہتے ہیں حالانکہ اب عریانی وفحاشی کوئی ایسا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ عالمگیریت (گلوبلائزیشن )کا اہم جز ہے اورابلاغ کے تمام ذرائع بالخصوص ٹیلی وژن اب معاشرے کی تشکیل نو کے لیے استعمال ہورہے ہیں ، پھر یہ بات بھی قابل ملاحظہ ہے کہ اب توعریانی وفحاشی زندگی کا معمول بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔

تفریح کے نام پر گمراہی

ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت نے اس فتنے کو گھر گھر پھیلانے کے لیے کیبل سسٹم شروع کردیا ، پہلے ڈش ہوا کرتا تھا ، لینے والا آدمی ڈرتا تھا کہ گھر کی چھت پر اس منحوس چھتری کو کیوں رکھا جائے ؟ یاکسی کی جیب گنجائش نہیں دیتی تھی کہ وہ ڈش خریدے ، حکومت نے آسانی کردی کہ گھر گھر ، بستی بستی کیبل سسٹم پھیلا دیا کہ صرف چند روپوں میں مہینے بھر کی عیاشی کوآسان بنادیااور دیکھا جائے تو یہ وہ واحد عیاشی ہے جس میں امیر وغریب برابر کے شریک ہیں ،اور تو اور بعض چینلز پر ہم جنس پرستی کے جواز اور نفاذ سے متعلق پروگرام پیش کیے جارہے ہیں اور اس کے لیے جو دلائل پیش کیے گئے وہ خالص کفر والحاد پر مبنی جن کو نقل کرنے کی راقم یہاں سکت نہیں رکھتا ،علماء سے عقیدت ومحبت رکھنے والی سادہ لوح عوام اس دھوکے میں آکرکہ فلاں عالم ومفتی کافلاں چینل پر دینی پروگرام آتا ہے یا حالات حاضرہ سے واقفیت کو اپنی اشد ضرورت سمجھتے ہوئے وہ بھی اپنے گھر میں ٹیلی ویژن لے آتا ہے اور پھر اس مختصر سے دورانیے کے ”دینی پروگرام“ کو ”عبادت“ سمجھتے ہوئے دیکھتا ہے، اوربقیہ تمام مشاہد ومناظرکو”ذہنی تفریح“ کے نام سے موسوم کردیتا ہے۔

میڈیا وار

بہت سارے مسلمان بھائیوں کو یہ غلط فہمی بھی ہوچلی ہے کہ اب عالم اسلام اور عالم کفر کے درمیان میڈیا وار (ذرائع ابلاغ کی جنگ) ہے ، اگر غور سے دیکھا جائے تو واقعی یہ مسلمانوں کو ”میڈیا(ذرائع ابلاغ)“ کے جال میں پھانسنے کی جنگ ہے اور مغرب اس سازش میں بدستوراور بآسانی کامیابیاں سمیٹتا جارہا ہے اور مسلمان دن بدن میڈیا کے شکنجے میں کستے چلے جارہے ہیں، اس پس منظر میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کیمرہ کی تصاویر کو بعض حضرات کے نزدیک اب تصویر کے حکم میں نہیں مانا جارہا ہے ، حالانکہ یہ سائنسی ترقی کا زمانہ ہے ، کل تک تصویر ہاتھوں سے نقش ونگار کے ذریعے بنائی جاتی تھی ، پھر اس کی ترقی یافتہ صورت کیمرہ فلم اور ریل پرنٹ کی شکل میں نمودار ہوئی وہ بھی تصویر کہلائی جاتی تھی اور علماء کے نزدیک وہ بھی بالاتفاق تصویر ہی کے حکم میں تھی ، اب اکیسویں صدی کے اس فیصلہ کن موڑ پر تصویر کی نئی ترقی یافتہ شکل ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہے بلکہ اب تو موبائل سے لے کر ٹیلی ویژن اسکرین تک تمام تصاویر اور ویڈیو ڈیجیٹل ہوچکی ہیں کیا یہ بھی تصویر کے حکم میں شامل نہیں ہیں؟ پھر اس کے بعدتصویر کی جو شکل سائنس دانوں نے مستقبل میں پیش کی ہے وہ لیزر ٹیکنالوجی ہے کہ تمام تصاویر ، فلم اور ٹیلی ویژن فضا میں دکھائی دیں گے جن کو ہاتھ سے محسوس نہیں کیا جا سکے گا اور جن کا کوئی جسمانی وجود بظاہرنہ ہوگا ، یہ تصویر کا محض سائنسی ارتقاء ہے جس سے اس کے شرعی حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔

متبادل کیا ہے ؟

مندرجہ بالا”شدت پسندانہ“ حقائق کے جواب میں فوری طور پر یہ کہاجاتا ہے کہ پھر اس کا متبادل کیا ہے ؟ اس کا سادہ اور آسان سا جواب یہی ہے کہ ان ”فتنوں“ کے متبادل راستے تلاش کرنے کے بجائے اسلاف اور اکابر کے راستوں کو اختیار کیا جائے ، دین اسلام کی حفاظ ت اور دفاع کو ان ”رنگینیوں“ کامحتاج نہ سمجھا جائے اور نہ ہی دین کی حفاظت اور دفاع کی آڑ میں ”اباحیت پسندی“ کے فلسفے کو اپنایا جائے،اگر امت کا ایک بڑا طبقہ کسی حرام میں صریح مبتلا ہو تو اس کا خیر خواہانہ حل یہ نہیں کہ اس حرام کا کوئی متبادل تلاش کیا جائے ،بلکہ عوام کو اس حرام سے بچانے کی صورت یہ ہے کہ عوام کو اس کبیرہ گناہ سے بچایا جائے ،ان کی اصلاح کی جائے ،کیونکہ متبادل کے اس اجتہادانہ استنباط کی صورت میں عوام حرام کو بھی حلال سمجھ بیٹھتی ہے، علماء کی شان ، وقار اور بہتری اسی میں ہے کہ وہ میڈیا خصوصا ٹی وی چینل کے اس گندے تالاب سے اپنے آپ کو دور رکھیں جہاں دین کی ہر خدمت سراب ہے ،جہاں ہر کھرے کو کھوٹے کے ساتھ تولا جارہا ہے جہاں حق کو باطل کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

دوسری قسط

اسلام کی آفاقی تعلیمات

زیر نظرمضمون گزشتہ ماہ کے ”بینات “میں ”ٹی وی چینلوں کا رنگین اسلام“کے عنوان سے چھپنے والے مضمون ہی کا تسلسل ہے ، ”روشن خیال“اور”دینی توازن واعتدال کی سمجھ“ رکھنے والے حضرات اسے شاید راقم کی”شدت پسندی“یا ”دور حاضرکے تقاضوں سے نا واقفیت“سے ہی تعبیر کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور اسلامی تعلیمات حاضر وغائب ،ماضی ومستقبل کی تمام قیود سے آزاد ہیں۔ مسلمہ محرمات شرعیہ کو حاضر وغائب کی تفریق سے نہیں بدلا جاسکتا،اور نہ ہی اپنے نفس کی سہولت کے لیے محرّمات میں کسی قسم کی کوئی گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے ، رہی بات اس قول کی جس میں فرمایا گیا ہے کہ:

”من لم یعرف عصرأو أھل زمانہ فہو جاہل “

تو اس سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ حرام یا مشتبہ اشیاء میں ”عصر حاضرکے تقاضوں“یا”عوام الناس کے ابتلاء“کا لاحقہ لگا کرلچک اور ڈھیل والا رویہ اختیار کیا جائے ،بلکہ ہر زمانے کے مسائل کا جاننا صرف اس لیے ضروری ہے تاکہ اس کی کوکھ سے جنم لینے والے نت نئے فتنوں کا انسداد کیا جاسکے۔

بعض ساتھیوں نے کہا کہ اگرصحیح مستند علماء اور دین کا درد رکھنے والے حضرات ٹی وی پر آکر صحیح دینی نقطہٴ نظر پیش نہیں کریں گے تولازمی بات ہے کہ” غامدی صفت“ جیسے حضرات ہی دین کے عنوان سے رونما ہوں گے ،لیکن یہ بات میری ناقص بلکہ ”جذباتی فہم“ سے بالا تر ہے کہ ایک چیز جس کا مقصد تخلیق ہی شرکے لیے ہوا ہو اس سے خیر کی نشر واشاعت کی امید کیسے رکھی جاسکتی ہے ؟شر کی آگ کے اس سمند ر میں خیر کے موتی کی جستجو کے لیے غوطہ زن ہونا اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے سے زیادہ کچھ نہیں، مشہور منطقی اصول ہے کہ نتیجہ ہمیشہ اخس وارذل کے تابع ہوتا ہے ،یعنی شر کی اس کثرت میں خیر سے بھی شر ہی پھوٹنے کے امکانات ہیں،اس موقع پراپنے اساتذہٴ کرام سے سنا ہوامحدث العصر حضرت بنوریؒ کا وہ تاریخی جملہ یاد آرہا ہے کہ ”یوسف بنوری حرام اور غیر شرعی چیزوں سے دین پھیلانے کا مکلف نہیں“ ۔

چند اضطراری استثناء

جہاں تک علماء کرام کے ٹی وی پرتشریف نہ لانے کی بات ہے تو اس سے راقم کی مراد مطلقا یہ نہیں کہ ٹی وی پر بالکل بھی”جلوہ افروز“ نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ حدود آرڈیننس ، لال مسجد اور جامعہ حفصہ جیسے حساس اور سنگین معاملات اس سے مستثنی ہیں ،ان جیسے نازک حالات میں اپنے موقف کی صحیح وضاحت اور پروپیگنڈے کے خاتمے کے لیے ٹی وی پر اضطراری طور پربدرجہ مجبوری آیا جاسکتا ہے ،لیکن جو چیز سب سے زیادہ خطرناک اور بظاہر بڑی خوش نما دکھائی دے رہی ہے، وہ اسلام اور مذہب سے متعلق وہ مکالمے اور مباحثے یا سوال وجواب کے وہ پروگرام ہیں جس کی منظر کشی اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک طرف ”مجبورو لاچار“ عالم دین ان ”غنڈے نما لا دین مجتہدوں“کے ہاتھوں بے بس نظر آتا ہے، جن کے پاس دلائل کی میز پر اپنی کھوٹی عقل پر اعتماد کے علاوہ اور کوئی دلیل نہیں ہوتی،جن کے نزدیک قرآن وسنت اور اجماع وقیاس کی حیثیت تاریخی ڈھکوسلوں سے زیادہ نہیں،جن لوگوں نے آزادی اظہار رائے کے نام پر دین کو تختہٴ مشق بنا لیا ہے ۔

اظہار رائے کی آزادی

آزادی اظہار رائے کی مغربی اصطلاح سے یہی مراد ہے کہ ہر فرد و بشر کو آزادی ہے کہ وہ دین کے معاملات، عبادات، عقائداور فقہ پر گفتگو کرسکے۔ خواہ وہ اس کی اہلیت، قابلیت اور علمیت کا حامل ہو یا نہ ہو، سوچنے کی بات ہے کہ کیا ٹی وی والے سائنس، معاشیات، عالمی حالات کے کسی پروگرام میں کسی اداکار یا اداکارہ یا فن سے غیر متعلق آدمی کوکبھی شریک کرتے ہیں؟! صرف مذہبی ودینی پروگرام میں مذہب سے لاتعلق غیر ماہرین کی شرکت کا مطلب مذہب کو مذاق بنانے کے سوااور کیا ہے؟ وہ لوگ جو آج کے عام معاشرے میں بھی ناپسندیدہ، حقیر اور بے توقیر سمجھے جاتے ہیں، ان کو ٹی وی پر دینی مباحثوں اور مذاکروں میں مدعو کیا جاتا ہے ، مکالمہ اور آزادی اظہار رائے کا یہ بھی مقصد نظر آتا ہے کہ ہر ایرا غیرا جو دین اور فقہ اسلامی کی الف بے نہیں جانتا دین پر اعتراضات اٹھا ئے اور علماء کرام ان کے جواب دیتے رہیں،مثال کے طور پر جب مخلوط میراتھن دوڑ کا مسئلہ در پیش ہوا تو اسی قسم کے مباحثوں میں بار بار یہ سوال دہرایا گیا کہ آخر میراتھن دوڑ میں کیا حرج ہے؟ آخر حج و عمرے کے موقع پر طواف کعبہ کے وقت بھی تو عورتیں دوڑتی ہیں، حضرت ہاجرہ بھی تو پانی کی تلاش میں دوڑ رہی تھیں، پستیٴ فکر کی انتہا یہ ہے کہ یونان سے نکلنے والی میراتھن دوڑ کو حج و عمرہ کی مقدس ترین عبادات کے مناسک سے جوڑ دیا گیا ۔

اعتراض اور استفسار میں فرق

آزادی اظہار رائے اور مکالمے کی مغربی اصطلاح کا صرف اور صرف یہی مطلب ہے کہ دین کو حقیر ٹھہرایا جائے اور اظہاررائے کی آزادی کے نام پرسوال اور استفسار کی صورت میں ہر ایک کو اعتراض کا موقع دیا جائے، حالانکہ اعتراض اور استفسار میں فرق ہے،استفسار لاعلمی سے علم کا سفر ہے، استفسار کا مقصد الجھن کو حل کرناہے، اسلام میں الجھن دور کرنے کے لیے استفسار کی اجازت ہے لیکن اعتراض کرنے کی نہیں، اعتراض کا مقصد اپنے علم پر غرور اور دین کو غلط سمجھنا ہے، ہمارا دینی طبقہ ان مواصلاتی مباحث کی ماہیت و حقیقت سے بے خبر ہے، سادہ لوح دین دار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم دین کی خدمت کرہے ہیں ،گمراہ لوگوں کو سمجھارہے ہیں ،ٹی وی کے ذریعے دین کی نشرو اشاعت کررہے ہیں ، لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس ٹی وی نے دین کو ہنسی مذاق بنا دیا ہے اور اس سے زیادہ مضحکہ خیز صورت حال یہ ہے کہ علماء کرام دینی فریضہ سمجھتے ہوئے ٹی وی چینلوں پر اپنے وجود کا احساس دلا رہے ہیں، جہاں سے ان کا اٹھ جانا ضروری ہے ،علماء کا مذاکرہ اور مباحثہ علماء سے ہو تو کوئی حرج نہیں ،لیکن علماء کے مذاکرے اور مکالمے جدیدیت پسند مفکرین ،کسی شوبزنس کی شخصیت، سیکولر دانشوروں اور ادھر ادھر سے بلائے گئے نام نہاد شخصیات سے کرائے جارہے ہیں جوضروریات دین کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے اور اسلام کے مسلمہ عقائد وافکار کے منکر ہیں ،مکالمہ برابر کی سطح پر ہوتا ہے ،بازار کے لوگوں سے نہیں،مکالمہ اپنی سطح کے فرد سے ہوتا ہے، تاریخ ایسی حماقت کبھی برداشت نہیں کرسکتی کہ دین ومذہب جیسے حساس موضوع سے لاتعلق فرد کو اس موضوع پر گفتگو کے لیے بٹھا دیا جائے۔

ٹی وی اور میڈیا کے ذریعہ اسلام کی دعوت وتبلیغ
حضرت لدھیانوی شہیدؒ کا جواب

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آخر میں ”آپ کے مسائل اور ان کے حل “کی ساتویں جلد سے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدرحمہ اللہ کے میڈیا اور ٹی وی کے ذریعے دین اسلام کی دعوت وتبلیغ سے متعلق چند مختصر مگر پر اثر جوابات نقل کردیے جائیں جو مختلف مواقع پر آپ نے سائلین کو دیے ،یہ جوابات روزنامہ جنگ کے مشہور سلسلے ”آپ کے مسائل اور ان کا حل “ میں شائع ہوئے اور ”خیر الکلام ما قلّ ودلّ “ کا بہترین مصداق ہیں۔ چنانچہ حضرت شہیدؒ لکھتے ہیں:

۱-”جو آلات لہو ولعب کے لیے موضوع ہیں انہیں دینی مقاصد کے لیے استعمال کرنا دین کی بے حرمتی ہے “۔

۲-”شریعت میں تصویر مطلقاً حرام ہے ،خواہ دقیانوسی زمانے کے لوگوں نے ہاتھ سے بنائی ہو یا جدید سائنسی ترقی نے اسے ایجاد کیا ہو“۔

۳-”ہماری شریعت میں جاندار کی تصویر حرام ہے اور آنحضرت ا نے اس پر لعنت فرمائی ہے ، ٹیلی ویژن اور ویڈیوفلموں میں تصویر ہوتی ہے جس چیز کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حرام اور ملعون فرمارہے ہوں اس کے جواز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان چیزوں کو اچھے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ، یہ خیال بالکل لغو ہے ، اگر کوئی ام الخبائث (شراب) کے بارے میں کہے کہ اس کو نیک مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے تو قطعا لغو بات ہوگی ، ہمارے دور میں ٹی وی اور ویڈیو ”ام الخبائث “ کا درجہ رکھتے ہیں اور یہ سینکڑوں خبائث کا سرچشمہ ہیں“۔

۴-”جو نکات آپ نے پیش فرمائے ہیں اکثر وبیشتر پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں ، ٹی وی اور ویڈیو فلم کا کیمرہ جوتصویریں لیتا ہے وہ اگرچہ غیر مرئی ہیں لیکن تصویر بہر حال محفوظ ہے اور اس کو ٹی وی پر دیکھا اور دکھا یاجاتا ہے ،اس کو تصویر کے حکم سے خارج نہیں کیا جاسکتا ، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہاتھ سے تصویر بنانے کے فرسودہ نظام کی بجائے سائنسی ترقی میں تصویر سازی کا ایک دقیق طریقہ ایجاد کرلیا گیا ہے ، لیکن جب شارع نے تصویر کو حرام قرار دیا ہے تو تصویر سازی کا طریقہ خواہ کیسا ہی ایجاد کر لیا جائے تصویر تو حرام ہی رہے گی ، اور میرے ناقص خیال میں ہاتھ سے تصویر سازی میں وہ قباحتیں نہیں تھیں جو ویڈیو فلم اور ٹی وی نے پیدا کر دی ہیں “۔

۵-”یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ویڈیو فلم اور ٹی وی سے تبلیغ اسلام کا کام لیا جاتا ہے ، ہمارے یہاں ٹی وی پر دینی پروگرام بھی آتے ہیں لیکن کیا میں بڑے ادب سے پوچھ سکتا ہوں کہ ان دینی پروگراموں کو دیکھ کر کتنے غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ؟کتنے بے نمازیوں نے نماز شروع کردی؟کتنے گناہ گاروں نے گناہوں سے توبہ کر لی؟لہذا یہ محض دھوکا ہے ، فواحش کا یہ آلہ جو سر تا سر نجس العین ہے اور ملعون ہے اور جس کے بنانے والے دنیا وآخرت میں ملعوں ہیں وہ تبلیغ اسلام میں کیا کام دے گا ؟بلکہ ٹی وی کے یہ دینی پروگرام گمراہی پھیلانے کا ایک مستقل ذریعہ ہیں ، شیعہ ، مرزائی ، ملحد ، کمیونسٹ اور ناپختہ علم لوگ ان دینی پروگراموں کے لیے ٹی وی پر جاتے ہیں اور اناپ شناپ جو ان کے منہ میں آتا ہے کہتے ہیں، کوئی ان پر پابندی لگانے والا نہیں اور کوئی صحیح وغلط کے درمیان تمیز کرنے والا نہیں ، اب فرمایا جائے کہ یہ اسلام کی تبلیغ واشاعت ہورہی ہے یا اسلام کے حسین چہرے کو مسخ کیا جارہا ہے ؟؟!!رہا یہ سوال کہ فلاں یہ کہتے ہیں اور یہ کرتے ہیں ،یہ ہمارے لیے جواز کی دلیل نہیں“۔

۶-”یہ اصول ذہن میں رکھیے کہ گناہ ہر حال میں گناہ ہے ، خواہ (خدا نخواستہ) ساری دنیا اس میں ملوث ہوجائے ، دوسرا اصول یہ بھی ملحوظ رکھیے کہ جب کوئی برائی عام ہوجائے تو اگرچہ اس کی نحوست بھی عام ہوگی مگر آدمی مکلف اپنے فعل کا ہے ، پہلے اصول کے مطابق کچھ علماء کا ٹیلی ویژن پر آنا اس کے جواز کی دلیل نہیں ، نہ امام حرام کا تراویح پڑھانا ہی اس کے جواز کی دلیل ہے ، اگر طبیب کسی بیماری میں مبتلا ہوجائیں تو بیماری ”بیماری“ ہی رہے گی، اس کو ”صحت “ کا نام نہیں دیا جاسکتا “۔

بشکریہ : ماہنامہ بینات ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی ، شمارہ اگست و ستمبر 2007 ، رجب و شعبان 1428ھ

2,681 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!