تین طلاق کے بعد بیوی حرام کیوں؟ حلالہ کیا ہے ؟ حلالہ عورت پر ظلم یا شوہر کے لیے سزا؟

از: حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
تسہیل وترتیب: مفتی عمر انور بدخشانی

یہ سوال حضرت ابن قیم ؒ پر وارد ہوا تھا،اس پر جو جواب انہوںنے اپنی کتاب ’’إعلام الموقعین عن رب العالمین‘‘ میں درج فرمایا ہے، ہم اس کا ترجمہ مختصر طور پر یہاں لکھ دیتے ہیں:

تین طلاق کے بعد مرد پر عورت کے حرام ہونے اور دوسرے نکاح کے بعد پھر پہلے مرد پر جائز ہونے کی حکمت کو وہی جانتا ہے جس کو اسرارِ شریعت اور خدا تعالی کی عام مصلحتوں سے واقفیت ہو۔

تورات اور انجیل کی شریعت میں طلاق کے بعد حکم

واضح ہو کہ اس معاملہ میں شریعتیں مصالح کے اعتبار سےہر زمانہ اور ہر اُمت کے لیے مختلف رہی ہیں، تورات کی شریعت نے طلاق کے بعد جب تک عورت دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے پہلے مرد کا رجوع اس کے ساتھ جائز رکھا تھا ،اور جب عورت دوسرے شخص سے نکاح کرلیتی تو پہلے شخص کو اس عورت سے کسی صورت میں رجوع جائز نہ تھا۔ اس حکم میں جو حکمت و مصلحتِ الٰہی ہے ظاہر ہے، کیونکہ جب مرد جانے گا کہ اگر میں نے عورت کو طلاق دے دی تو عورت کو پھر اپنا اختیار ہوجائے گا اور عورت کے لیے دوسرا نکاح کرنا بھی جائز ہو جائے گا، اور پھر جب اس نے دوسرا نکاح کرلیا تو مجھ پر ہمیشہ کے لیے یہ عورت حرام ہوجائے گی، تو ان خاص اُمور کے تصور سے مرد کا عورت سے تعلق و تمسک (روکے رکھنا)پختہ ہوتا تھا اور عورت کی جدائی کو ناگوار سمجھتاتھا،تورات کی شریعت امت موسوی کے مزاج وحال کے اعتبار سے نازل ہوئی تھی، کیوںکہ تشدد (سختی)اور غصہ اور اس پر اصرار کرنا ان میں بہت تھا۔

پھر انجیل کی شریعت آئی تو اس نے نکاح کے بعد طلاق کا دروازہ بالکل بند کردیا، یعنی جب مرد کسی عورت سے نکاح کرلیتا تھا تو اس کے لیے عورت کو طلاق دینا ہرگز جائز نہ تھا۔

طلاق اورشریعت محمدیہ واسلام

پھر شریعتِ محمدیہ نازل ہوئی جو کہ سب شریعتوں سے اکمل افضل و اعلیٰ اور پختہ تر ہے اور انسانوں کے مصالحِ معاش و معاد (دنیا وآخرت کی زندگی) کے زیادہ مناسب اور عقل کے زیادہ موافق ہے۔ خدا تعالیٰ نے اس اُمت کا دین کامل اور ان پر اپنی نعمت پوری کی، اور طیبات (پاکیزہ چیزوں ) میں سے اس اُمت کے لیے بعض وہ چیزیں حلال ٹھہرائی ہیں جو کسی اُمت کے لیے حلال نہیں ہوئی تھیں، چنانچہ مرد کے لیے جائز ہوا کہ بحسبِ ضرورت بیک وقت چار عورتوں سے نکاح کرسکے۔ پھر اگر مرد و عورت میں نہ بنے تو مرد کو اجازت دی کہ اس کو طلاق دے کر دوسری عورت سے نکاح کرلے، کیونکہ جب کہ پہلی عورت طبیعت ومزاج کے موافق نہ ہو ،یا اس سے کوئی فساد واقع ہو اورعورت اس سے باز نہ آئے تو شریعتِ اسلامیہ نے ایسی عورت کو مرد کے ہاتھ اور پاؤں اور گردن کی زنجیر بنا کر اس میں جکڑنا اور اس کی کمر توڑنے والا بوجھ بنانا تجویز نہیں کیا، اور نہ اس دنیا میں مرد کے ساتھ ایسی عورت کورکھ کر اس کاگھر دوزخ بنانا چاہا ہے:

زنِ بد در سایۂ مردِ نکو
ہمدریں عالم است دوزخ او

طلاق دینے کا صحیح طریقہ

لہٰذا خدا تعالیٰ نے ایسی عورت کی جدائی مشروع (جائز ) فرمائی ،اور وہ جدائی بھی اس طرح مشروع (جائز) فرمائی کہ مرد عورت کو ایک طلاق دے، پھر عورت تین حیض یا تین ماہ تک اس مرد کے رجوع کا انتظار کرے، تاکہ اگر عورت سدھر جائے اور شرارت سے باز آجائے اور مرد کو اس عورت کی خواہش ہوجائے، یعنی خدائے مصرف القلوب مرد کے دل کوعورت کی طرف راغب کردے تو مرد کو عورت کی طرف رجوع ممکن ہوسکے اور مرد کے لیے رجوع کرنے کا دروازہ کھلا رہے، تاکہ مرد عورت سے رجوع کرسکے ،اور جس معاملہ کو شیطانی جوش اورغصہ نے اس کے ہاتھ سے نکال دیا تھا وہ شوہر کو مل سکے۔

چونکہ ایک طلاق کے بعد پھر بھی جانبین (میاں بیوی)کی طبعی غلبات (طبیعتوں کے غلبہ سے غصہ )اور شیطانی چھیڑ چھاڑ کا اعادہ ممکن تھا، اس لیے دوسری طلاق مذکورہ مدت کے اندر مشروع (جائز)ہوئی، تاکہ عورت بار بار کی طلاق کی تلخی کا ذائقہ چکھ کر اورگھر کی خرابی کو دیکھ کر قبیحہ (برائی)کا اعادہ نہ کرے، جس سے اس کے شوہر کو غصہ آئے اور عورت کے لیے جدائی کا باعث ہو۔ اور مرد بھی عورت کی جدائی محسوس کرکے عورت کو طلاق نہ دے۔

تین طلاق دینے کے بعد ؟

جب اسی طرح تیسری طلاق کی نوبت آ پہنچے تو اب یہ وہ طلاق ہے کہ جس کے بعد خدا کا یہ حکم ہے کہ اس مرد کا رجوع اس تین طلاق دی ہوئی عورت (مطلقہ ثلاثہ) سے نہیں ہوسکتا، اس لیے جانبین (میاں بیوی) کو کہا جاتا ہے کہ پہلی اور دوسری طلاق تک توتمہارا رجوع آپس میں ممکن تھا، اب تیسری طلاق کے بعد رجوع نہ ہوسکے گا، تو اس قانون کے مقرر ہونے سے وہ دونوں سدھر جائیں گے، کیونکہ جب مرد کو یہ تصور ہوگا کہ تیسری طلاق اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان بالکل جدائی ڈالنے والی ہے تو وہ طلاق دینے سے باز رہے گا، کیونکہ جب شوہر کو اس بات کا علم ہوگا کہ اب تیسری طلاق کے بعد یہ عورت مجھ پر دوسرے شخص سے شرعی نکاح ،پھر طلاق اور عدت کے بغیر حلال نہ ہوسکے گی، اور پھر دوسرے شخص سے اس عورت کے نکاح کا ٹوٹنا بھی یقینی نہیں ،اور دوسرے نکاح کے بعد بھی جب تک دوسرا خاوند اس کے ساتھ دخول (صحبت) نہ کرچکے ،اور اس کے بعد یا تو دوسرا خاوند مرجائے ،یا وہ عورت کواپنی رضاسے طلاق دے دے اور وہ عورت عدت بھی گزارے تب تک پہلا شوہر اس کی طرف رجوع نہ کرسکے گا، تو اس وقت مرد کو اس رجوع کی نااُمیدی کے خیال سے اور ان کے محسوس کرنے سے ایک دور اندیشی (فہم وفراست) پیدا ہوجائے گی اور وہ خدا تعالیٰ کے ناپسند ترین مباحات یعنی طلاق کے واقع کرنے سے باز رہے گا۔

اسی طرح جب عورت کو بھی اس عدمِ رجوع (رجوع نہ ہوسکنے)کی واقفیت ہوگی تو عورت کے اَخلاق بھی درست رہیں گے اور اس سے ان کی آپس میں اصلاح ہوسکے گی۔

حلالہ کی غرض سے نکاح کرنے اور کرانے والے پر رسول اللہ کی لعنت

اس دوسرےنکاح کے متعلق نبی ﷺ نے اس طرح تاکید فرمائی کہ وہ نکاح ہمیشہ کے لیے ہو، پس اگر دوسرا شخص اس عورت سے اپنے پاس ہمیشہ رکھنے کے ارادہ سے نکاح نہ کرے، بلکہ خاص حلالہ ہی کے لیے نکاح کرے، تو آنحضرت ﷺ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے، اور جب پہلا شخص (شوہر)اسی قسم کے حلالہ کے لیے کسی کو رضا مند کرے تو اس پر بھی لعنت فرمائی ہے:

عن ابن عباس ؓ لعن رسول اللّٰہ ﷺ المحلل والمحلل لہ

یعنی رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے پر لعنت فرمائی ۔

شرعی حلالہ کیا ہے؟

سو شرعی حلالہ وہ ہے جس میں خودبخود ایسے اسباب پیدا ہوجائیں کہ جس طرح پہلے شوہر نے اتفاقاً عورت کو طلاق دی تھی، اسی طرح دوسرا شوہربھی اتفاقاطلاق دے (پہلے شوہر کی وجہ سے نہ دے)یا دوسرا شوہر مرجائے تواب عدت کے بعد پہلے شوہر کی طرف عورت کا رجوع بلا کراہت درست ہے۔

پس اتنی سخت رکاوٹوں کے بعد پہلے خاوند کی طرف رجوع جائز ہونے کی وجہمذکورہ بیان سے واضح اورظاہرہے کہ اس میں نکاح کی عزت وعظمت ،نعمت الہی کا شکر ، نکاح میں ہمیشگی اورقطع تعلقی نہ ہونا ملحوظ ہے، کیونکہ جب شوہر کو عورت کی جدائی سے اس کے وصل ثانی(دوسرے ملاپ) تک اتنی رکاوٹیں درمیان میں حائل ہونے والی متصور ہوں گی تو شوہر تیسری طلاق تک نوبت نہیں پہنچائے گا۔

إن الشارع حرمھا علیہ حتی تنکح زوجًا غیرہ؛ عقوبۃ لہ۔ ولعن المحلل والمحلل لہ؛ لِمناقضتھما ما قصدہ اللّٰہ سبحانہ من عقوبتہ۔ وکان من تمام ھذہ العقوبۃ أن طول مدۃ تحریمھا علیہ، فکان ذلک أبلغ فیما قصدہ الشارع من العقوبۃ؛ فإنہ إذا علم أنھا لا تحل لہ حتی تعتد بثلاثۃ قروء، ثم یتزوجھا آخر نکاح رغبۃٍ مقصودًا لا تحلیلٍ موجبٍ للعنۃ، ویفارقھا، وتعتد من فراقہ ثلاثۃَ قروء أخر: طال علیہ الانتظار، وعیل صبرہ، فأمسک عن الطلاق الثلاث۔ وھذا واقع علی وفق الحکمۃ والمصلحۃ والزجر۔ فکان التربص بثلاثۃ قروء في الرجعیۃ نظرا للزوج، ومراعاۃ لمصلحتہ، لما لم یوقع الثالثۃ المحرمۃ لھا علیہ، وھھنا کان تربصھا عقوبۃ لہ وزجرا لما أوقع الطلاق المحرم لما أحل اللّٰہ لہ، وأکدت ھذہ العقوبۃ بتحریمھا علیہ إلا بعد زوج وإصابۃ وتربص ثانٍ۔

ترجمہ: بیشک صاحب شریعت کا عورت کو مرد پر اس وقت تک کے لیے حرام کردینا کہ وہ دوسرے سے نکاح کرلے مرد کے لیے ایک سزا ہے ، اورحلالہ کرنے کرانے والے پر اس لیے لعنت فرمائی ہے کہ اللہ تعالی نے جس سزا کا قصد فرمایا تھا یہ اس کے خلاف کرتے ہیں ،اوراس سزا کی تکمیل میں یہ بھی داخل تھا کہ مرد پر عورت کے حرام ہونے کی مدت طویل ہو ، یہ صورت صاحب شریعت کے مقصود کو زیادہ پورا کرتی ہے ، کیونکہ جب مرد یہ جان لے گا کہ اب عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہوسکے گی جب تک تین حیض (ماہواری) عدت کے نہ گذارے ، پھر دوسرا شخص اس سے صرف شادی کی غرض سے نہ کہ لعنت والے حلالہ کی غرض سے نکاح نہ کرے ، پھر وہ اس سے علیحدہ نہ ہوجائے ،اورعورت اس علیحدگی کے بعد تین حیض عدت اورنہ گذارے ، تو مرد کا انتظار طویل اور صبر سخت ہوجائے گا ،تو یہ اس کو تین طلاق دینے سے روک دے گا ، اور یہ حکم بالکل حکمت اور مصلحت اورخیر کے موافق واقع ہوا ہے ، اور رجعت کے لیے تین حیض تک انتظار کا ہونا مرد پر شفقت اور اس کی مصلحت کی رعائت کے لیے ہے ،کیونکہ اس نے ابھی تک وہ تیسری طلاق واقع نہیں کی تھی جو عورت کو اس پر بالکل حرام کردیتی ہے ، اور یہاں اس مدت کا ہونااس کے لیے سزا اوراس بات پر ناگواری کا ظہار ہے کہ اس نے وہ طلاق واقع کردی جو اللہ کی حلال کی ہوئی نعمت کو حرام کردیتی ہے ،اوراس سزا کو اس طرح قوی کیا گیا ہے کہ عورت بجز صورت کے اس پر حرام ہی رہ جاتی ہے وہ یہ کہ دوسرے شخص سے نکاح کرے ،پھر وہ اس سے صحبت کرے ،پھر دوسری عدت ہو۔

ماخوذ از: المصالح العقلیۃ للاحکام النقلیۃ ، احکام اسلام عقل کی نظر میں ، از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

3,864 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!