گمراہ اور حقیقی صوفی کون ہے ؟ از شاعر مشرق علامہ اقبالؒ

ترتیب وپیشکش: عمر انور بدخشانی

تعارف: نیچے دیا گیا مضمون شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ کی ایک نامکمل کتاب ’’تاریخ تصوف‘‘کا اقتباس ہے ، تصوف پر علامہ اقبال کی یہ کتاب ۱۹۱۶ء میں لکھی گئی اور ایک طویل عرصہ تک گوشہ گمنامی میں رہی اورپہلی بار ۱۹۸۵ ء میں پروفیسر صابر کلوروی صاحب نے ترتیب وحواشی کے ساتھ شائع کی ،اس کتاب کا بنیادی مقصد تصوف کی حقیقت اور تاریخ کو اُجاگر کرنا ہے ، علامہ اقبال اس موضوع پر فقط ابتدائی دو باب تحریر کرپائے تھے، مزید ابواب مرتب کی طرف سے اضافہ ہیں،تصوف اور صوفیاء سے متعلق علامہ اقبال کی کتاب ’’تاریخ تصوف ‘‘سے نیچے دیا گیا یہ اقتباس بہت اہم ہے ، خاص طور پر تصوف، صوفیاء اور عرفان کے عنوان سے جو گمراہیت پھیلائی جارہی ہے علامہ اقبال نے یہاں واضح طور پر لکھ دیا کہ اصل صوفی کہلانے کے مستحق کون ہیں؟

tareekh e tasawwuf allama iqbal
تاریخ تصوف پر علامہ اقبالؒ کی نادر کتاب

شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی کتاب ’’تاریخ تصوف‘‘ سے انتخاب

تصوف کالٹریچراور مختلف الخیال مصنفین

تمہید کے بعد ہم اس بحث کی طرف توجہ کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں تحریک تصوف کی ابتدا کیونکرہوئی؟ مگر پیشتر اس کے کہ ایسا کریں ایک اور بات کا واضح کردینا ضروری ہے ، تاکہ ناظرین کو ہماری نسبت غلط فہمی نہ پیدا ہوجائے ، اور وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ مضمون کا مقصد صوفی تحریک کو دنیا سے مٹانے کا ہے ، تصوف کا لٹریچر نہایت وسیع ہے ، اور اس کے دائرے کے اندر مختلف الخیال مصنفین آباد ہیں:

1:ان میں بعض ’’مخلص مسلمان‘‘ ہیں۔

2:بعض محض اپنے ’’الحاد اور زندقہ کو تصوف کی آڑ میں چھپاتے ہیں‘‘۔

3:اور بعض نیک نیتی سے ’’غیر اسلامی فلسفے کو فلسفہ اسلامی تصور کرتے ہیں‘‘ ۔

صوفیاء کے دو گروہ اورحقیقی صوفی کون ؟

ہم مختصر طور پر یہ بتادینا چاہتے ہیں کہ نظری اور عملی پہلوسے وہ کونسا نصب العین ہے جس پر ہم معترض ہیں ، بغیر اس کے کہ تصوف کی کوئی جامع ومانع تعریف کی جائے جو ہمارے نزدیک ناممکن ہے ، یہ ظاہر ہے کہ عام طور پر متصوفین کے دو گروہ ہیں:

1- اول وہ گروہ جو شریعت حقہ محمدیہ پر قائم ہے ، اوراسی پر مخلصانہ استقامت کرنے کو انتہائے کمال انسانی تصور کرتا ہے ، یہ وہ گروہ ہے جس نے قرآن شریف کا مفہوم وہی سمجھا جو صحابہ کرام نے سمجھا تھا ، جس نے اس راہ پر کوئی اضافہ نہیں کیا جو رسول اللہ ﷺ نے سکھائی تھی ، جس کی زندگی صحابہ کرام کی زندگی کا نمونہ ہے ، جو سونے کے وقت سوتا ہے ، جاگنے کے وقت جاگتا ہے ، جنگ کے وقت میدان جنگ میں جاتا ہے ، کام کے وقت کام کرتا ہے ، آرام کے وقت آرام کرتا ہے ، غرض یہ کہ اپنے اعمال وافعال میں اس عظیم الشان انسان اور سادہ زندگی کا نمونہ پیش کرتا ہے جو نوع انسانی کی نجات کا باعث ہوئی ۔اس گروہ کے دم قدم کی بدولت اسلام زندہ رہا ، زندہ ہے اور زندہ رہے گا ، اوریہی مقدس گروہ اصل میں ’’صوفی ‘‘کہلانے کا مستحق ہے ۔

راقم الحروف (اقبال) اپنے آپ کو ان مخلص بندوں کی خاک پا تصور کرتا ہے ، اپنی جان ومال وعزت و آبرو ان کے قدموں پر نثار کرنے کے لیے ہر وقت حاضر ہے ،اور ان کی صحبت کے ایک لحظہ کو ہر قسم کے آرام وآسائش پرترجیح دیتا ہے ۔

2- دوسرا گروہ وہ ہے جو شریعت محمدیہ کو خواہ وہ اس پر قائم بھی ہو محض ایک ’’علم ظاہری‘‘ تصور کرتا ہے ، ایک طریق تحقیق کو جس کو وہ اپنی اصطلاح میں ’’عرفان‘‘ کہتا ہے ’’علم‘‘ پر ترجیح دیتا ہے، اوراس عرفان کی وساطت سے مسلمانوں میں وحدت الوجودی فلسفے اور ایک ایسے عملی نصب العین کی بنیاد ڈالتا ہے جس کا ہمارے نزدیک مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، اس گروہ میں بھی مختلف الخیال لوگ ہیں ،مگر ایک عام مماثلت پائی جاتی ہے جس کی تشریح اورتوضیح اس مضمون کا مقصد ہے ۔(۱)۔

لفظ ’’صوفی ‘‘کا استعمال

جبکہ آگے چل کر معلوم ہوگا(۲) کہ لفظ ’’صوفی‘‘ پہلے پہل ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا جو اپنے زمانے کے تعیش کے خلاف اسلام کی اصل سادگی پر قائم تھے ،اور ان معنوں میں کوئی صاحب ہوش لفظ ’’صوفی‘‘ یا ’’تصوف‘‘ پر اعتراض نہیں کرسکتا ، لیکن مسلمانوں کی مذہبی اور ذہنی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مرور ایام کے ساتھ اوائل صوفیہ میں نیا گروہ پیدا ہوا ، یا یوں کہیے کہ اس نئے گروہ نے اپنے آپ کو ’’صوفیہ‘‘ میں داخل کرلیا(۳)، اس گروہ نے اسلامی زہد وعبادات کی فلسفیانہ اور مذہبی حقائق معلوم کرنے کا ایک اور اصول قائم کرلیااوراس اعتبار سے ایک نئے فلسفے کی بنیاد رکھی ، یہی گروہ ہے جو سطلنت روما کے سیاسی اجزا کی پریشانی کا باعث ہوا۔

حواشی

(۱) یہاں پہلے علامہ ؒ نے ایک تیسرے گروہ کا بھی ذکر کیا تھا جسے بعد میں قلم زد کردیا، قلم زد عبارت درج ذیل ہے :

’’ایک تیسرا گروہ دوکاندار صوفیا کا بھی ہمیشہ رہا ہے ، جو عجیب وغریب چالاکیوں سے سادہ لوح مسلمانوں کو پھانستا ہے ،اور دعاؤں کو بذریعہ وی پی پارسلوں کے اپنے معتقدین کے پاس بھیجتا ہے ، اس گروہ کے کارنامے اور چالاکیاں حیرت انگیز ہیں ، اور بجائے خود انسانی تمدن وتاریخ کا ایک دل چسپ باب ہیں ، مگر چونکہ سب لوگ اس گروہ کے مردود ہونے پر متفق ہیں ، اگرچہ یہ تیسرا گروہ دوسرے گروہ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ،تاہم چونکہ سب مسلمان اس کے مردود ہونے پر متفق ہیں اس واسطے اس کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔

(۲) یہاں علامہؒ نے پہلے ایک عنوان :’’اسلامی تصوف کی اصلیت کے متعلق محققین مشرق ومغرب کے خیالات‘‘ قائم کیا ، پھر قلم زد کردیا،اور عبارت کو مسلسل بنادیا۔

(۳)اس فقرے کے بعد علامہؒ نے پہلے اس فقرے کا اضافہ کیا تھا:’’اس گروہ کو ’عارفین‘ کے نام سے موسوم کرنا چاہیے‘‘،پھر قلم زد کردیا۔

[تاریخ تصوف از علامہ محمد اقبال ، صفحہ 31 ، 32]

3,452 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!